(ایڈیٹرممبئی اردونیوز)
جان لے سکتے ہو اور مال بھی لیکن
حوصلے نہیں چھین سکتے ۔شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین ، اُس وقت بھی ڈٹی ہوئی تھیں جب شہر دہلی جل رہا تھا ۔ اور آج جب حالات کچھ کچھ قابو میں آرہے ہیں تب بھی ڈٹی ہوئی ہیں ۔ حالانکہ ایک ویڈیو، جووائرل ہورہا ہے ، چند ’شرپسندوں‘ کی شاہین باغ پر حملے کی ’ منصوبہ بندی‘ کو ظاہر کررہا ہے ۔ یرقانی شرپسندوں اور فسادیوں نے ساری دہلی پر خوف ودہشت کی فضا طاری کررکھی ہے لیکن سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف احتجاجی مظاہرے صرف دہلی ہی میں نہیں ملک بھر میں جاری ہیں ۔ اِن احتجاجی مظاہروں کا جاری رہناحوصلوں کی برقراری کا بھی ثبوت ہے اور اس کا بھی کہ جان لے سکتے ہو اور مال بھی لیکن آئین مخالف سیاہ قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بند نہیں کرواسکتے ہو ۔۔۔
دہلی میں تشدد کا مقصد سی اے اے مخالف احتجاجی مظاہروں بالخصوص شاہین باغ کے مظاہرے کو روکنا ہی تو تھا۔۔۔ دو مہینے سے زائد عرصے سے جاری ان مظاہروں کے دوران نہ کبھی کوئی تشدد ہوا اور نہ ہی مظاہرین کی جانب سے کبھی کوئی شرپسندی کی گئی ، یہ مظاہرے اپنے آغاز ہی سے ’پرامن ‘ تھے اور ہیں ۔۔۔ لیکن صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی آمد کے موقع پر بی جے پی کے ایک قائد کپل مشرا نے سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کی ٹھانی۔ پولس کے حفاظتی گھیرے میں’موج پور‘ میں کھڑے ہوکر دھمکی دی کہ اگر تین دن کے اندر سی اے اے کے خلاف مظاہرے کرنے والے نہ ہٹے تو دیکھ لیں گے ۔ دھمکی بے حد صاف تھی ۔ یہ وہی کپل مشرا ہیں جو کسی زمانے میں عام آدمی پارٹی میں ہوا کرتے تھے حالانکہ ان کا خاندانی پس منظر آر ایس ایس کا ہے ۔ پارٹی سے نکالے گئے اور جہاں کا ’خمیر‘ تھا اسی پارٹی یعنی بی جے پی میں شامل ہوئے ۔ چونکہ ’ ضمیر‘ کے نام پر ان کے پاس ’بے ضمیری‘ کے سوا کچھ نہیں ہے اس لئے یہ ’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘ جیسا زہریلا نعرہ لگاتے اور یرقانی ٹولے کو اشتعال انگیزی کے لئے اکساتے رہے ۔ جب جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ میں دو بھگوا دھاریوں کے ذریعے گولی باری کی وارداتیں ہوئی تھیں تب ہی اگر بی جے پی کی مرکزی سرکار چاہتی تو کچھ دنوں بعد جلنے والی دہلی کو جلنے سے روک سکتی تھی۔ لیکن یہ اسےمنظور نہیں تھا۔ جس روز چھٹ پٹ تشدد کی وارداتیں شروع ہوئی تھیں اس روز بھی اگر وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی پولس چاہتی تو ’شرپسندوں‘ کو جن میں کپل مشرا پیش پیش ہیں حراست میں لے کر دہلی کو جلنے سے بچاسکتی تھی ، لیکن انہیں تو شاید دہلی کو جلتا دیکھنے کا شوق تھا۔۔۔ شاید یہ چاہتے تھے کہ نیرو نے جس طرح روم کو جلتے ہوئے دیکھا اور بانسری بجائی تھی، یہ دہلی کو جلتے دیکھیں ۔ یہ بانسری تو خیر نہیں بجارہے تھے لیکن صدر ٹرمپ کی ’ مہمان نوازی‘ میں لگے تھے ، اور یہ ’ مہمان نوازی‘ بھی ایک اعلیٰ ترین قسم کی تفریح ہی تھی۔ لہٰذا ’ شر پسند‘ جو یقیناً دہلی کے ساتھ بیرون دہلی سے آئے تھے جی بھر کر دہلی کو لوٹتے رہے ۔ وہ دہلی جو ماضی میں بار بار لٹی ہے اور اب لگ رہا تھا کہ اس کے لٹنے کے دن ختم ہوئے ، پھر سے لٹ گئی۔ ویسے تو دہلی ۱۹۸۴ء میں بھی لٹی تھی، اس وقت کانگریس کا راج تھا ۔ اس وقت سکھ فرقہ نشانے پر تھا۔ اس معاملے میں کانگریس کے کئی سیاست دانوں کو سزا بھی ملی ہے ۔ منموہن سنگھ جب وزیراعظم تھے تب انہوں نے سکھوں کے قتل عام کا ’ کفارہ‘ ادا کرنے کی ہمت بھی کی تھی۔ لیکن اس بار بی جے پی کے دور میں دہلی لٹی ہے ، جلی ہے اور نشانے پر مسلمانوں کے ساتھ عام دہلی والے بھی رہے ہیں ، ہندو بھی۔ اور یقین مانیئے کسی بھی شرپسند کو سزا نہیں ملے گی ۔ کم از کم وہ جو شرپسندی کے لئے لوگوں کو اکسارہے تھے ، کپل مشرا ، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما سب محفوظ رہیں گے ۔ امیت شاہ جی نے بھی لوگوں کو مشتعل کرنے میں کوئی کم اہم کردار ادا نہیں کیا ۔ شاہین باغ تک کرنٹ پہنچانے والے بیان کو ’شریفانہ‘ بیان تو نہیں کہا جاسکتا ۔ اور نہ ہی وزیراعظم نریندر مودی کے ’ سینوگ‘ اور ’ پریوگ‘ والا بیان ایک جمہوری سیکولر ملک کے وزیراعظم کے شایانِ شان کہلاسکتا ہے ۔ پر ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا ۔ گجرات فسادات میں بھی ملوث ہونے کا ان پر الزام ہے پر کیا ان کا کچھ بگڑا ؟ دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس مرلی دھر نے ان شرپسند بھاجپائی لیڈروں کو لگام لگانے کی کوشش کی تھی، ان کا راتوں رات تبادلہ کردیاگیا ۔ باقی عدلیہ بغیر ریڑھ کی ہڈی والی ہے ۔ یہ دہلی کو جلتا تو دیکھ سکتی ہے پراسے جلانے والوں کو لگام نہیں لگاسکتی۔
دہلی اسمبلی کے الیکشن سے ہی سی اے اے مخالف احتجاجی مظاہرے بالخصوص شاہین باغ اور وہاں کی خواتین بی جے پی کے نشانے پر تھیں ، آج بھی ہیں ۔ انہیں دیش کے غدار قرار دیا گیا ، انہیں گولی مارنے کی بات کی گئی۔ اور پھر ساری دہلی پر سی اے اے کی حمایت کرنے والوں نے آگ اور خون کی برسات کردی ۔ یہ فسادات گجرات 2002ء کی یاد دلاتے ہیں ، کیونکہ گجرات فسادات ہی کی طرح یہاں بھی لوگ زندہ جلائے گئے ۔ اکبری بیگم کی عمر ۸۵ سال کی تھی، وہ اپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ دہلی کے کھجوری خاص سے کوئی ڈیڑھ کلو میٹر دور گمری ایکس ٹنیشن میں رہتی تھیں ۔ ایک مسلح ہجوم وہاں پہنچا ، یہ دوکانوں مکانوں کو جلارہا تھا ، اس نے اکبری بیگم کے چار منزلہ مکان کو بھی آگ کے حوالے کردیا ۔ اکبری مکان کے تیسرے منزلے پر تھیں، وہ آگ سے بچ نہیں سکیں ۔ اکبری کے بیٹے ۴۸ سالہ سلمانی کا کہنا ہے کہ ماں گئی ، مکان اور دوکان کچھ نہیں بچ سکا ۔ شاہد کی داستان لے لیں ، ابھی چار مہینے قبل اس ۲۸ سالہ نوجوان کی شادی ۲۰ سالہ شازیہ سے ہوئی تھی ۔ شاہد کو مشتعل ہجوم نے ماردیا ۔ اور شازیہ دوماہ کی حاملہ ہے ! راہل سولنکی نوجوان تھا ، اسے پولس کی گولی چاٹ گئی۔ اس کے والد کا کہنا ہے کہ اس کے بیٹے کی موت کا ذمے دار کپل مشرا ہے ۔ درد اور الم بھری بے شمار کہانیاں ہیں ، مہتاب کی ، فاروقیہ مسجد کو جلانے کی ، اشوک نگر کی مسجد پر ہنومان کا جھنڈا لہرانے کی ، مصطفےٰ آباد کے ایک نوجوان محمد عمران کے پولس کی گولی سے اعضاء مخصوص کے چیتھڑے بن کر اڑنے ، لوگوں کے اپنے گھروں سے ہجرت کرنے کی ۔ لیکن کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ نفرت پر محبت حاوی رہی ہے ۔ دونوں فرقوں کے ذریعے ایک دوسرے کو پناہ دینے ، مندر کی حفاظت کرنے اور اپنی جانوں کو دوسروں کے لئے خطرے میں ڈالنے کی ۔۔۔ یہ ہے وہ حقیقی ہندوستان جس کو ختم کرنے کے لئے یہ سب ہورہا ہے ۔ یہ سب یعنی نفرت کا پرچار ، زہریلی تقریریں ، غداروں اور گولی ماروں کے نعرے، کرنٹ پہنچانے کی باتیں اور سی اے اے جیسے غلیظ قانون کے ذریعے فرقہ وارانہ سطح پر فرقوں کے درمیان ناقابلِ عبور خلیج قائم کرنے کی کوششیں۔
دہلی کو جلانا منصوبہ بند تھا۔ یہ سازش کس کی تھی ،اس سوال کا جواب کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے ۔ اور نہ ہی یہ بات کسی سے پوشیدہ ہے کہ جلتی دہلی کو ، عوام کو اور دہلی والوں کو جب مدد کی ضرورت تھی ، جب آگ بجھانے کے لئے انہیں پانی چاہیئے تھا تب مدد دینے اور پانی پہنچانے والے ان کی آواز سننے کو تیار نہیں تھے ۔ وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کا ذکر کرنا اب فضول ہے ۔ ان میں ’ سیاسی جرأت‘ کا فقدان ہے لہٰذا وہ چاہے جس قدر ترقی دہلی کو دلادیں جب بھی دہلی کو آگ اور خون سے بچانے کی ضرورت ہوگی وہ بہت دور کھڑے ہوئے نظر آئیں گے ۔۔۔ ان پر چھپا ہوا ’ سنگھی‘ ہونے کا الزام
لگ رہا ہے ، میں اس الزام کو نہیں مانتا لیکن میں یہ بھی نہیں مانتا کہ پولس محکمہ آپ کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے آپ بے بس تھے ۔ آپ مرکزی فورسز کی تعیناتی کا مطالبہ کرسکتے تھے ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ آپ کو جوابدہ ہیں ان کی لگامیں کس سکتے تھے ، اپنے ممبرانِ اسمبلی اور کونسلروں اور لیڈروں کی پوری فوج سڑکوں پر اتارسکتے تھے اور خود ان کے ساتھ اترکر امن وامان کے لئے مارچ کرسکتے یا دھرنا دے سکتے تھے ۔آپ خاموش رہے ، یہ خاموشی بہت کچھ بولتی ہے ۔ کانگریس کے پاس ہارنے کے لئے کچھ نہیں ہے کیونکہ دہلی اسمبلی میں اس کا ایک بھی رکن نہیں ہے ۔ لیکن رکن نہ ہونے کا مطلب ’ بے بسی‘ تو نہیں ہے ۔۔۔ پنڈت نہرو کانگریس ہی کے تو تھے۔۔۔ ایک واقعہ ابھی حال ہی میں پڑھا ہے ۔ ۱۹۴۷ء کے تقسیم فسادات کے دوران جب پنڈت جی اپنی کار سے کٹاٹ پلیس کے پاس سے گذر رہے تھے تو انہوں نے دو فرقوں میں تشدد ہوتے دیکھا، وہ کار سے اترے ، اپنے حفاظتی گھیرے کو توڑا اور نہتے دوڑتے ہوئے دنگائیوں تک پہنچے اور دنگا روک دیا ۔ کانگریسی پنڈت جی کی میراث کی بات تو کرتے ہیں پر ان میں میراث سنبھالنے کی استعداد نہیں ہے ۔ یہ بزدل ہیں ۔ پولس پوری طرح متعصب اور جانبدار رہی ۔۔ ۔مسلم قیاد ت کا ذکر کیا کریں ، کہ یہ قیادت تو ذکر کے قابلِ ہی نہیں ہے ۔۔۔ ۔سچ بے حد تلخ ہے ، بی جے پی اور مودی وشاہ کی سرکار نے تو دہلی تشدد کو نہیں روکا ، کپل مشرا ، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما جیسوں کو لگام نہیں دی ، پولس کو بے لگام کیا ، نفرت بھڑکائی پر اس کام میں ان کی مدد کیجریوال اینڈ کمپنی نے بھی کی ، کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی اور مسلم لیڈروں نے بھی ، وہ مسلم لیڈر جو ابتدا ہی سے شاہین باغ احتجاجی مظاہرے اور وہاں خواتین کے دھرنے کے مخالف رہے ہیں۔۔۔ گویا یہ کہ دہلی کا یہ قتل عام سب کی ’ محنتوں کا ثمرہ ہے ‘۔۔۔ مگر کچھ ہوجائے سی اے اے مخالف احتجاج جاری رہے گا ، جاری رہنا بھی چاہیئے ، امیت شاہ لاکھ یہ کہتےرہیں کہ یہ مسلم مخالف قانون نہیں ہے ، نہ ہو مسلم مخالف ، یہ آئین مخالف قانون توہے ۔اور اس کا ہونا سارے ملک کے لئے خطرناک ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)