( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
کرناٹک کے وزیراعلی سدا رمیّا حجاب پر پابندی ہٹانے کا اعلان کر کے پلٹ گیے ! وہ کہہ رہے ہیں کہ ابھی حجاب پر سے پابندی ہٹی نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ زیرغور ہے ۔ اسے پلٹنا نہیں تو اور کیا کہیں گے ! یہ سچ ہے کہ حجاب پر سے پابندی کا ہٹایا جانا آسان نہیں ہے ، اس معنیٰ میں کہ بی جے پی اور سنگھی تنظیمیں اس کے خلاف واویلا مچانے لگی ہیں ، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وزیراعلیٰ سدا رمیّا چاہیں تو آسانی کے ساتھ حجاب پر سے پابندی ہٹا سکتے ہیں ، وہ ایک ریاست کے سربراہِ اعلیٰ ہیں اور انہیں اس طرح کے فیصلے کرنے یا فیصلے لینے کا آئینی حق حاصل ہے ۔ مثال اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی لے لیں ، وزیراعلیٰ بنتے ہی انہوں اپنے اوپر لگے فرقہ وارانہ فسادات کے تمام مقدمے ختم کروا لیے ہیں ۔ سدا رمیّا کیوں ہچکچا رہے ہیں ؟ کرناٹک کے اسمبلی الیکشن کے دوران حجاب ایک مسٔلہ تھا ، اور کانگریس نے باقاعدہ یہ اعلان کیا تھا کہ اگر وہ منتخب ہوئی تو حجاب پر بی جے پی حکومت کے ذریعہ لگائی گئی پابندی کو ختم کر دے گی ۔ لیکن کانگریس آج تک حجاب پر لگی پابندی کو ہٹا نہیں پائی ہے ۔ ٹھیک ہے کہ ان دنوں حجاب کو لے کر کرناٹک میں کوئی فرقہ وارانہ ہنگامہ نہیں ہے ، اور باحجاب بچیاں کالج اور اسکول جا رہی ہیں ، لیکن جب تک پابندی ہے ایک تلوار لٹک رہی ہے ، کل کو کسی بھی اسکول یا کالج کا ذمہ دار اگر کسی باحجاب بچی کو کلاس میں بیٹھنے سے روک دے تو کیا کیا جا سکتا ہے ، ظاہر ہے کہ اس کے پاس باحجاب بچی کو روکنے کا قانونی جواز ہے ، اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ اور اب جبکہ یہ مسٔلہ ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا ہے تو کل کو باحجاب بچیوں کو کلاسوں میں جانے سے روکا جا سکتا ہے ، اور شرپسند احتجاج اور مظاہرے بھی کر سکتے ہیں ۔ اس لیے اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ حجاب پر سے جس قدر جلد ممکن ہو پابندی ہٹا لی جائے ۔ حجاب پر سے پابندی ہٹانے کے اعلان کے بعد کرناٹک میں فرقہ پرستوں کا ٹولہ شر پھیلانے لگا تھا ، بلکہ ہنوز شر پھیلا رہا ہے ۔ بی جے پی نے وزیراعلیٰ کے اعلان پر تشویش کا اظہار کیا ۔ سابق وزیراعلیٰ بی ایس یدی یورپا نے کرناٹک حکومت کے حجاب پر سے پابندی ہٹانے کے فیصلے کی مذمت کی اور کہا کہ وہ اقلیتوں کو خوش کرنے کے لیے کیے گیے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں ۔ بی جے پی کا ایک ردعمل یہ تھا کہ کرناٹک کی حکومت حجاب پر سے پابندی ہٹا کر انگریزوں کی طرح ملک کو بانٹ رہی ہے ، گویا کہ شر پھیلانے کا عمل شروع کر دیا گیا ۔ یقیناً سدا رمیّا نے اسی لیے احتیاط برتتے ہوئے یوٹرن لیا ہوگا کہ ابھی معاملہ زیرغور ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں سدا رمیّا وضاحت دے رہے ہیں ، وہ کیوں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں کہتے کہ کانگریس کا وعدہ تھا کہ حجاب پر سے پابندی ہٹائی جائے گی ، لہذا پابندی ہٹائی جا رہی ہے ، بی جے پی اس معاملے میں سیاست کرنے کی کوشش نہ کرے ؟ اب کانگریس کو اگر مگر کی حالت سے باہر نکلنا ہوگا ، ورنہ سمجھا یہی جائے گا کہ حجاب معاملہ پر یو ٹرن لے کر کانگریس بے حجاب ہوگئی ہے ، یعنی اُس صورت کو ظاہر کر دیا ہے جو سیکولر نہیں کہی جا سکتی ۔ سیکولرزم ہی کانگریس کا اصل ہتھیار ہے ، نرم ہندوتوا نہیں ۔ مثال مدھیہ پردیش کی لے لیں جہاں کمل ناتھ نرم ہندوتوا پر گامزن رہے اور ہندوؤں کے ووٹ بھی کھوئے اور مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے ووٹ بھی کھوئے ۔ اس معاملے میں حجاب پر پابندی کے خلاف شرپسندوں کے سامنے ’ اللہ اکبر ‘ کا نعرہ بلند کرنے والی طالبہ مسکان خان کا بیان بالکل درست ہے کہ اس معاملے پر سیاست نہ کی جائے ، بہت سی مسلم بچیوں نے حجاب پر پابندی کے سبب تعلیم منقطع کر دی ہے ، انہیں پڑھنے کے مواقع دیے جائیں ، حجاب پر سے پابندی ہٹائی جائے ۔ مسکان خان کا ردِ عمل ’ مذہبی ‘ نہیں ہے ، کیونکہ برقعے ، پردے اور حجاب کا معاملہ صرف ایک مذہبی معاملہ نہیں ہے ، یہ معاملہ ’ مذہبی آزادی ‘ کا بھی ہے ، اسی لیے یہ ’ آ ئینی حقوق ‘ کا معاملہ بھی بن جاتا ہے ۔ اور سماجی ، تہذیبی اور ناانصافی کا معاملہ بھی ۔ لہذا سدا رمیّا کی حکومت فوری طور پر حرکت میں آئے اور فرقہ پرستوں کے ردعمل کو نظرانداز کرتے ہوئے حجاب پر لگی پابندی کو ہٹا لے ۔ اگر یہ کیا تو ریاست کی عوام اور اقلیتوں کا اس حکومت پر اعتماد پختہ ہو جائے گا ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)