Home تجزیہ اور انّا ہزارے بولے! – شکیل رشید

اور انّا ہزارے بولے! – شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) 

کہتے ہیں کہ وقت لوٹ کر آتا ہے ۔ اس کی ایک مثال دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری کے بعد سامنے آئی ہے ۔ اُدھر کیجریوال کو ای ۔ ڈی نے گرفتار کیا اور ادھر پرانے ’گاندھی وادی‘ انّا ہزارے کا مون برت ٹوٹ گیا ، اور انہوں نے گرفتاری پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ’ کیجریوال کی گرفتاری ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ ‘ یاد رہے کہ کیجریوال اور انّا ہزارے کا کوئی آج کا نہیں بڑا پرانا ساتھ ہے ۔ یہی دونوں تھے جو منموہن سنگھ کی حکومت پر ’ کرپشن‘ کا الزام عائد کرکے دھرنے پر بیٹھ گئے تھے ۔ تاریخ نے سب کچھ اپنے صفحات پر درج کرلیا ہے ۔ منموہن سنگھ کی حکومت چلی گئی، کانگریس کو بری طرح سے ہار ملی ، اور مرکز پر بی جے پی کی حکومت قائم ہوگئی ، لیکن اگر کوئی یہ سوال پوچھے کہ کیا کرپشن کا مسئلہ حل ہوگیا ، تو سیدھا جواب یہی ہوگا : نہیں ۔ دلچسپ امریہ ہے کہ منموہن سنگھ اور ان کے وزراء پر بدعنوانی کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا ۔ سیدھا مطلب یہ ہے کہ کیجریوال اور انّا ہزارے نے جو الزامات عائد کیے تھے ، ان الزامات کے ثبوت آج تک نہیں مل سکے ۔ لیکن انّا ہزارے کی ’صاف ستھری ساکھ‘ کے سہارے کیجریوال ضرور ایک سیاست داں بن گیے۔ اور تین ٹرم سے دہلی کی گدی پر وہ راج بھی کررہے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ انّا ہزارے کیجریوال کے کن کرتوتوں کا ذکر کررہے ہیں ؟ یہ کرتوت کرپشن سے متعلق نہیں ہیں ، یہ کرتوت دہلی کی ’ عام آدمی پارٹی‘ کی سرکار کی’ شراب پالیسی‘ سے متعلق ہیں ۔ انّا ہزارے کو کیجریوال پر اس لیے غصہ آرہا ہے کہ ان کی حکومت نے ’ شراب پالیسی‘ بنائی ہے ۔ انّا ہزارےچاہتے تھے کہ کیجریوال کی حکومت شراب نہ بیچے۔ سوال یہ ہے کہ اگر انّا ہزارے کو کیجریوال پر اس لیے غصہ آرہا ہے کہ وہ ’ کرپشن ‘ کا خاتمہ کرنے کی بجائے ’شراب پالیسی‘ بنارہے ہیں ، تو کیا کیجریوال کو انّا ہزارے پر اس لیے غصہ نہیں آسکتا کہ وہ کرپشن کے معاملات کو نظر انداز کرکے ’شراب پالیسی‘ پر بات کررہے ہیں ۔ دونوں ایک ساتھ تھے اب ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوئے ہیں ، کیونکہ نہ دونوں کی منموہن سنگھ کی حکومت کے کرپشن کے خلاف تحریک اصولوں کی بنیاد پر تھی اور نہ ہی اب دونوں ہی کسی بھی طو رپر کرپشن کے خلاف کسی تحریک کی قیادت کے لیے قابل قبول ہوں گے ۔ بی جے پی کی مرکزی حکومت نےآنکھیں بند کرکے گھپلوں اور گھوٹالوں میں ملوث سیاست دانوں کو بی جے پی میں شامل کیا ہے ، یا ان سے ہاتھ ملایا ہے ، لیکن انّا ہزارے کی زبان کبھی نہیں کھلی ہے ۔ الیکٹورل بانڈر گھپلے پر بھی وہ خاموش رہے ہیں ، لہٰذا اب وہ کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف تحریک چلانے کے لیے قابل بھروسہ نہیں رہے ہیں ۔ رہے کیجریوال تو بھلے ان پر کوئی بدعنوانی ابھی ثابت نہیں ہوئی ہے ، لیکن انہوں نے 2019 ء کے لوک سبھا الیکشن کے بعد جس طرح مودی سرکار کی آنکھیں بند کرکے حمایت کی تھی ، وہ اب انہیں بی جے پی کے کرپشن پر انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی ۔ ہاں کیجریوال کی گرفتاری ایک آمر حکومت کا جبر ہے ۔ اس جبر کی مذمت کی جانی چاہیے ۔ کیونکہ کسی جمہوریت میں یکطرفہ طور پر صرف اپوزیشن کے لیڈروں کو گرفتار نہیں کیا جاتا ۔ کیجریوال کی گرفتاری سیاسی ہے ۔ اور بہت ممکن ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں مودی سرکار اس کا خمیازہ بھگتے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like