( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
مافیا ڈان اور سیاست داں عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کے قتل کی واردات پر ، پولیس کے چند سابق اعلیٰ افسران اور بھاجپا و آر ایس ایس کے ذمہ داران کو چھوڑ کر ، جو ردعمل آئے ہیں ، ان میں سے زیادہ تر میں ایک مشترک بات اتر پردیش میں قانون اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال ہے ۔ امن و امان کی صورتحال کے بگڑنے کے عموماً دو سبب ہوتے ہیں ، یا تو یہ کہ حکومت کا انتظامیہ اور پولیس پر کنٹرول نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے پولیس اور جرائم پیشہ عناصر بے قابو ہو جاتے ہیں ، یا پھر اس کا ایک مطلب یہ نکلتا ہے کہ سرکار نے ڈھیل دے رکھی ہے تاکہ خوف اور دہشت کا ایک ماحول پیدا کیا جائے اور اپنے سیاسی مفادات کو محفوظ کیا یا پختہ کیا جائے ۔ اور اس مقصد کے لیے وہ ریاست کو غنڈوں کے یا اُن باہو بلیوں کے حوالے کر دیتے ہیں ، جن سے اس کے سیاسی مفادات کو تقویت پہچ سکتی ہے ۔ دیکھا جائے تو یو پی میں انتظامیہ پراور پولیس پر یوگی کی مضبوط پکڑ ہے ، لہذا اگر امن و امان کی خراب صورتحال یا پولیس کی من مانی کو یوگی سرکار کی طرف سے دی جائے والی چھوٹ سمجھا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔ تو کیا یہ مانا جائے کہ عتیق احمد اور اس کے بھائی کا قتل سیاسی مفادات کو تقویت پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے ؟ اس سوال کا ایک جواب ، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ادھر کچھ عرصہ کے ، ایک مخصوص فرقہ یعنی مسلم فرقے سے تعلق رکھنے والے مافیا ڈانوں اور سیاست دانوں کے خلاف مہم ، اور مٹی میں ملا دیں گے جیسی دھمکیوں میں ، تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ دھمکیوں اور حکومتی مہم سے بہرحال عتیق احمد اور اشرف کا قتل ایک طرح کے شک و شبہے میں آ گیا ہے ، اور اس پر طرح طرح کے سوالات کھڑے ہونے لگے ہیں ۔ دلت لیڈر وامن میشرام نے اپنے ایک بیان میں اسے حکومتی حفاظت میں کیا گیا قتل کہا ہے اور بی جے پی و آر ایس ایس کی طرف انگلیاں اٹھائی ہیں ۔ غور کیا جائے تو وامن میشرام کے الزام کا ایک حصہ ، حکومتی حفاظت میں کیا گیا قتلط، کچھ غلط بھی نہیں لگتا ۔
جس طرح سے تینوں قاتل لولیس تیواری ، ارون موریہ اور سنی سنگھ نے سخت پولیس بندوبست کے باوجود عتیق اور اشرف کے قریب پہنچ کر انہیں گولیاں برسا کر قتل کیا ، وہ اپنے آپ میں یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے ، کہ یہ واردات پولیس کی لاپروائی سے زیادہ منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے اور اس منصوبہ بندی میں پولیس کا کوئی نہ کوئی کردار ضرور ہے ۔ تینوں قاتل الہ آباد میں ایک کوچنگ کلاس میں داخلہ لیتے ہیں ، لاج میں ٹھہرتے ہیں اور ٹی وی رپورٹر بن کر موقع واردات پر پہنچتے اور گولی باری کرتے ہیں ، اور پولیس جوابی گولی باری کرنے کی بجائے بھاگ کھڑی ہوتی ہے ، اسے منصوبہ بند سازش کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا ہے ۔ قاتلوں کے پاس ترکی میڈ آتشیں ہتھیار تھے جن سے بیس راؤنڈ گولیاں چلائی گئیں جن میں سے نو گولیاں عتیق کو اور پانچ اشرف کو لگیں باقی کی چھ گولیاں مِس ہوئیں مگر کوئی ان سے زخمی نہیں ہوا ، اس کا مطلب ہے کہ قاتل مکمل ٹرینڈ تھے ۔ دو سوال اہم ہیں ، ایک یہ کہ کون ہے انہیں ہتھیار فراہم کرنے والا یا والے؟ ایک ریوالور کی قیمت چھ لاکھ روپے بتائی جاتی ہے ، تین کی قیمت اٹھارہ لاکھ روپے ہوئی ، تینوں غریب خاندان کے ہیں ، یہ مہنگے اور ہندوستان میں ممنوع ہتھیار انہیں کس نے دیے؟ یہ جئے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے ، مطلب دھارمک کارڈ کھیل رہے تھے ، سوال یہ ہے کہ کیا ان نعروں کا مطلب یہ پیغام دینا تھا کہ یہ قتل ہندوتوا کے نام پر کیے گئے ہیں یا ان نعروں کا مقصد لوگوں کے ذہنوں کو بھٹکانا ہے تاکہ فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلا کر لوگوں کو صحیح نتیجہ تک پہنچنے نہ دیا جا سکے؟ اگر یہ ہندوتوا کے نام پر قتل ہے تو اس کا سارا دوش ہندوتوا کو سیاسی ہتھیار بنانے والوں پر ہے ۔ اس لیے یہ سیاسی قتل ہے ۔ بے روزگار ہندو نوجوانوں کی ذہن سازی اور ملیشیا جیسی حرکتیں اور ایک مخصوص فرقہ پر نشانہ اس ملک کو تشدد کے گرداب میں ڈھکیل سکتا ہے ۔ اگر قتل کی یہ وارداتیں اس لیے کرائی گئی ہیں کہ عتیق اور اس کے بھائی اشرف اور بیٹے اسد کی لاشیں دکھا کر اس ملک کے مسلم سیاست دانوں کو یا سیاست میں آنے کی خواہش رکھنے والے مسلم نوجوانوں کو ڈرا کر ساری سیاسی بساط ہندوتوا کی کامیابی کے لیے بچھا دی جائے ، تو شاید ایسا منصوبہ بنانے والوں کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ وہ ہندوستان کو ایک ایسی مصیبت میں ڈال رہے ہیں جس میں وہ بھی مبتلا ہو سکتے ہیں ۔ ایک سینئر صحافی کے اے سنگھ نے قتل کے اس واقعے پر تشویش ظاہر کی ہے کہ ملک کی حالت شام جیسی ہو سکتی ہے ، کیونکہ تشدد چاہے جو شروع کرے اس کا انجام شروع کرنے والے کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔ یو پی کے لیے بھی اور اس ملک کے لیے بھی اچھا یہی ہے کہ قانون کو اپنا کام کرنے دیا جائے نہ کہ کسی ازم یا نظریہ کو تھوپنے کے لیے تشدد اور انتقام کی پالیسی اپنائی جائے ۔