حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی وفات کے بعد سے ہی ایک جنگ برپا تھی، بالآخر آج مورخہ ۹/ اکتوبر ۲۰۲۱ کو انتخاب امیر عمل میں آیا. متوقع تین امیر شریعت اور میں سے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنا نام واپس لے لیا، یقینا یہ ان کا بڑکپن اور امارت شرعیہ کے تئیں ان کا خلوص ہے کہ کسی قسم کی ناگہانی اور صورت حال کو بگڑنے سے بچانے کے لیے انھوں نے بڑی ہوشمندی کا ثبوت دیا. اس موقع پر حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یاد آتی ہے کہ پانچویں امیر شریعت مولانا عبدالرحمن صاحب کی وفات کے بعد چھٹے امیر شریعت کے مستحق ترین شخصیت حضرت قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے؛ لیکن وہیں حضرت مولانا محمد ولی صاحب رحمانی کے معتقدین ومریدین قاضی صاحب کے بجائے مولانا ولی کو امیر شریعت دیکھنا چاہتے تھے سخت قسم کا ہنگامہ ہوا چاہتا تھا اور قریب تھا کہ ایک آگ بھڑک اٹھے جس میں امارت شرعیہ اور اس کی ساکھ کو سخت نقصان ہو؛ چناں چہ سب سے زیادہ مستحق امیر ہونے کے باوصف انھوں نے ایثار سے کام لیتے ہوے بظاہر اپنے حریف ومقابل مولانا ولی کو ہی فیصل مقرر فرمایا اور اس طرح حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کا انتخاب عمل میں آیا. یقینا مولانا خالد سیف اللہ صاحب نے حضرت قاضی صاحب کی جانیشینی کا حق ادا کیا ہے.
بقیہ دو امیدواروں کے درمیان ارباب حل وعقد کا اختلاف ہوا؛ چناں چہ دستور امارت (کہ جب اراب حل وعقد کسی ایک رائے پر متفق نہ ہوسکے تو کثرت رائے سے امیر منتخب کرلیا جائے) پر عمل کرتے ہوے فیصل ولی رحمانی صاحب کا انتخاب عمل میں آیا. اب امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کے امیر حضرت مولانا محمد فیصل ولی رحمانی صاحب ہیں، ہم انھیں مبارک باد پیش کرتے ہیں اور اطاعت کی یقین دہانی کراتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ امارت اور مسلمانان بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ کے حق میں وہ ایک بہترین امیر ثابت ہوں گے.
ان کے لیے مبارک بادی اور خیر کی توقعات سے ہمارے طہت سے دوستوں کے لیے شاق ہوگا جو حضرات کسی اور کو بطور امیر دیکھنا چاہتے تھے. میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ ان کے علاوہ لوگ امارت کے زیادہ مستحق ہیں؛ لیکن یہ اختلاف امیر بنائے جانے سے پہلے کے تھے، جب وہ بنائے جاچکے تو اب ان کی اطاعت ہم سب پر لازم ہے.
اس موقع پر عطاء اللہ شاہ بخاری کا واقعہ یاد آتا ہے کہ وہ لیگ مخالف تھے، پاکستان کے قیام کے خلاف ان کے تقریریں ہوا کرتی تھیں، وہ متحدہ ہندوستان چاہتے تھے؛ لیکن جب پاکستان کا قیام عمل میں آگیا تو وہ خود پاکستان ہجرت کرگئے، کسی پوچھنے والے کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ "مسجد بنائے جانے سے پہلے یہ اختلاف ضرور کیا جاسکتا ہے کہ مسجد بننی چاہیے یا نہیں، یہاں بننی چاہیے یا کہیں اور؛ لیکن جب مسجد بن جائے تو پھر اس کی حفاظت وحرمت ہر مسلمان پر فرض ہے”. اس لیے پاکستان کے تحفظ کے لیے پاکستان آگیا ہوں.
اس موقع پر میں بھی یہی کہوں گا انتخاب سے پہلے یہ اختلاف کرنا بالکل درست تھا کہ امیر شریعت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ہوں یا فیصل ولی رحمانی یا پھر مولانا انیس الرحمن قاسمی؛ لیکن اب جب ان کا انتخاب عمل میں آچکا تو اب اس اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہتی. اب ہم سبھوں کو ان کی بھرپور تائید کرنا چاہیے اور مکمل تعاون کرنا چاہیےـ اسے ایک مثال سے سمجھیں! ۲۰۱۴ الیکشن سے قبل بی جے پی میں سخت گھماسان مچا کہ پی ایم کا امیدوار کون ہو، کئی چہرے مضبوط دعویدار تھے، جن میں سرفہرست لال کرشن ایڈوانی، آنجہانی سشما سوراج، نتیش کمار اور نریندر مودی تھے. آخر کار وزیر اعظم کی امیدواری کے لیے نریندر مودی منتخب کرلیے گئے، بی جے پی میں ہر ایک کے سپورٹر اوع کاریکرتا تھے؛ لیکن نریندر مودی کے انتخاب کے بعد کسی نے بغاوت نہیں کی کاریکرتاؤں نے مار کاٹ نہیں مچائی؛ بلکہ بخوشی نہ سہی دل پر پتھر رکھ کر سبھوں نے نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے کامیاب بنایا اور تاہنوز وہ سپورٹ کر رہے ہیں. یہ کسی بھی مشن کے تئیں خلوص کی دلیل ہے گوکہ وہ مشن غلط ہو.
نتیش کمار نے تھوڑے دنوں کے لیے اپنی ناراضگی جتائے رکھی اور آخرکار پھر بی جے پی اتحاد میں واپس آگئےـ
عہد ماضی میں جائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انصاری صحابہ انصاری صحابی کو خلیفۃ المسلمین بنانا چاہتے تھے؛ لیکن جب حضرت ابوبکر کا انتخاب عمل میں آگیا تو سبھوں نے ان کی خلافت کو تسلیم کیا. ایک تعداد وہ بھی تھی جو حضرت عمر کو ان کی سخت گیری کی وجہ سے خلیفہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے؛ لیکن حضرت ابوبکر کے انھیں خلیفہ منتخب کردینے کے بعد سارے صحابہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر انھوں نے خود کو عظیم خلیفۃ المسلمین اور امیر المؤمنین ثابت کیاـ اس جیسی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں ـ
اس لیے میں اپنے دوستوں اور قلماروں سے یہی گزارش کروں گا کہ انتخاب کے بعد اختلاف اب درست نہیں. مزید اختلاف میں اپنی انرجی ضائع کرنے کے بجائے تعمیری امور میں اپنی انرجی لگائیں. اپنے لیے اور اپنی قوم کے لیے ہم جو کچھ کرسکتے ہوں ضرور کریں.
اللہ تعالی ہم سب کا محافظ ونگران ہو!