Home ستاروں کےدرمیاں اطہرفاروقی کی’انجمن’ – معصوم مرادآبادی

اطہرفاروقی کی’انجمن’ – معصوم مرادآبادی

by قندیل

کوئی کچھ بھی کہے ہمارے دوست اطہرفاروقی کی قیادت میں اردو نہ سہی "انجمن” خوب ترقی کررہی ہے۔ انجمن ترقی اردو کا نیا آڈیٹوریم تیار ہوگیا ہے۔ لائبریری بھی ڈیجیٹلائز ہوگئی ہے اور خود انجمن کے جنرل سیکریٹری کا کمرہ بھی بہت آراستہ ہوگیا ہے۔ وہاں رکھی ہوئی قدیم اشیاء کو بھی سلیقے سے سجادیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ بابائے اردو جس کرسی پر بیٹھا کرتے تھے اسے ایک شیشے میں محفوظ کردیا گیا ہے تاکہ اس پر کوئی اورنہ بیٹھ سکے، خوداطہرفاروقی بھی نہیں۔ڈاکٹر خلیق انجم کے دورمیں بابائے اردو کی جو کرسی جنرل سیکریٹری کی پشت پررکھی ہوئی تھی وہ آگے آگئی ہے۔

بلاشبہ ہمارے پرانے دوست اطہرفاروقی بہت کام کے آدمی ہیں گرچہ انجمن میں ابھی تک ان کی صلاحیتوں کا پورا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ پچھلے دنوں ایک پروگرام میں اردو گھرجانا ہوا تو اطہرفاروقی سے انجمن کی چھوٹی سی لفٹ ہی میں ملاقات ہو گئی۔ ان کے دائیں ہاتھ میں پلاسٹر بندھا ہوا دیکھ کر تشویش ہوئی۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ وہ بائیں بازو کے آدمی ہیں اور ان کی ذہنی تربیت بائیں بازو کے دانشوروں کی سب سے بڑی پناہ گاہ جے این یو میں ہوئی ہے۔پرانی کہاوت ہے کہ ٹوٹا ہاتھ گلے کو آتا ہے۔ اطہرفاروقی کا ہاتھ بھی ان کے گلے کے نزدیک تھا۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو انھوں نے خاصی تفصیل سے اس فریکچر کا حال بیان کیا جس سے وہ پچھلے دنوں دوچارہوئے تھے۔ ان کی تفصیل جان کر مجھے طنز ومزاح کے مشہورشاعرعلامہ اسرار جامعی بہت یاد آئے۔ ایک دن وہ اوکھلا میں اپنے گھر کے آس پاس ٹہلتے ہوئے مجھے ملے تو ان کے بائیں ہاتھ میں پلاسٹر چڑھا ہوا تھا اور ان کا بھی ہاتھ گلے کو آیا ہواتھا۔ میں نے جب ان سے اس کا سبب پوچھا تو وہ شرماکرکہنے لگے ”کچھ نہیں ہاتھ بھاری ہوگیا۔“

اسرار جامعی توطنز ومزاح کے شاعر تھے اور ان کی شاعری ہی نہیں گفتگو میں بھی ان کا فن جھلکتا تھا۔ مگر اطہرفاروقی کا طنز ومزاح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ایک سنجیدہ دانشور ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہوئے کچھ احتیاط بھی برتنی پڑتی ہے۔اردو سے زیادہ وہ انگریزی سے متاثر ہیں اسی لیے ان کے مزاج میں نزاکت اور نرگسیت دونوں ہیں۔ شروع شروع میں جب وہ انجمن کے جنرل سیکریٹری بنے تھے تو وہاں انھوں نے اپنے کام کا آغاز انگریزی سیمیناروں سے کیا تھا۔ ایسے ہی ایک سیمینار میں ہماری ان سے جھڑپ بھی ہوگئی تھی۔ جو بعد میں رفع دفع ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے بہت پرانے اور بے تکلف دوست ہیں۔

اطہرفاروقی سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ روزگار کی تلاش میں نئے نئے سکندرآباد سے دہلی آئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم کتابت اور خطاطی کا فن سیکھ کر بعض اردو اداروں میں کتابت کررہے تھے۔غالباً 1982 کا سنہ تھا۔ پرانی دہلی کی گلی قاسم جان میں ماہنامہ ڈائجسٹ ”چہاررنگ“ کا دفتر مسلم ہوٹل کے دوکمروں میں واقع تھا۔ ایک میں ”چہاررنگ“ کے مالک طارق مصطفی صدیقی بیٹھا کرتے تھے جو مولانا عبدالوحید صدیقی کے بیٹے تھے۔ہرقسم کی لت پالنے کا انھیں شوق تھا۔ہمارا کمرہ ہوٹل کی بالکونی کی طرف تھا جہاں سے ہم گلی قاسم جان کی رونقوں کا نظارہ کرتے تھے، جبکہ طارق صدیقی اپنی اسسٹنٹ کے ساتھ کمرہ بند کرکے تنہا بیٹھتے تھے۔ ایک دن وہ ہمارے کمرے میں آکر ادارے کے منیجر ضیاء الرحمن سے کہنے لگے ”ضیاء صاحب، سکندرآباد سے ایک لڑکاآیا ہے کام کی تلاش میں۔ ہے بہت خوبصورت۔ اردو بھی جانتا ہے۔رکھ لیں اسے۔” طارق صدیقی نے نئے مہمان کی خوبصورتی کاذکر اس انداز میں کیا کہ ہمارا بھی اسے دیکھنے کو جی چاہا۔ تھوڑی دیر میں طارق صدیقی اس لڑکے کولے کر ہمارے کمرے میں آئے تو ان کی بات درست نکلی۔ ضیاء صاحب نے نام پوچھا تو بتایا۔”اطہرفاروقی۔“

یہ اطہرفاروقی سے ہماری پہلی ملاقات تھی، جو ان کی خوبصورتی کے حوالے سے ہوئی تھی۔خوبصورت تو ماشاء اللہ وہ آج بھی ہیں لیکن بڑھتی ہوئی عمر نے اس خوبصورتی پر بھی ڈورے ڈالے ہیں اور وہ ہماری طرح بڑھاپے کی طرف گامزن ہیں۔پھرجب اطہرفاروقی کو اردو صحافت سے شغف ہوا تو ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوا کہ ہماری جیب میں پیسے نہیں ہوئے تو اطہرفاروقی نے اپنی جیب سے چائی پلائی اور کبھی اطہرفاروقی کی جیب خالی ہوئی تو ہم نے انھیں چائے پر مدعو کیا۔ وہ بھی پرانی دلی کے چنڈوخانوں میں۔ ان سے بیشتر ملاقاتیں وہیں سڑک پر چلتے ہوئے یا پھر کسی اخبار یا میگزین کے دفتر میں ہوتی تھیں۔ اطہرفاروقی کی تعلیم تو جے این یو میں ہوئی ہے، لیکن ان کی ذہنی تربیت میں دولوگوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ان میں ایک نام ہے مشہورشاعر مخمور سعیدی کا اور دوسرانام ہے افسر جمشید کا۔ افسر جمشید ہر فن مولا قسم کے آدمی تھے۔ ”روبی“ میگزین کے ایڈیٹر تھے اور بجنور سے ان کا تعلق تھا۔ خوبی ان کی یہ تھی کہ وہ لوگوں کو نیند کے بغیر خواب دکھاتے تھے۔

اطہرفاروقی جے این یو کیسے پہنچے، یہ ہمیں نہیں معلوم، لیکن وہاں پہنچ کر ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوا اور وہ خودکو ترقی پسندوں کی صف میں شمار کرنے لگے۔ہمیں کبھی کسی دانش گاہ میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا، اس لیے ہم دانشوری سے کماحقہ واقف نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے دوست اطہرفاروقی کی انگریزی پر بھی رشک آتا ہے کہ وہ ہم سے زیادہ اچھی انگریزی جانتے ہیں اور ڈکشنری کے بغیر انگریزی لکھنے اور بولنے پر قادر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دوستوں کا دائرہ اردو سے زیادہ انگریزی دانشوروں تک ہے۔

ہم جب بھی کسی ترقی پسند دانشور سے ملتے ہیں تو ہمیں اپنے ایک پرانے دوست خورشید الحسن کی یادآتی ہے، جنھیں لذیذ کھانے بنانے کا شوق تھا اورکچھ عرصہ انھوں نے لندن میں گزارا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب مشہور ومقبول پاکستانی شاعر احمدفراز لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہے تھے اور اسی کمپلیکس میں مقیم تھے جہاں خورشید صاحب رہتے تھے۔ دونوں میں دوستی ہوگئی اور احمدفراز خورشید صاحب کے دسترخوان تک پہنچ گئے۔ لذیذ کھانے کھاکر بہت متاثر ہوئے اور نئی نئی فرمائشیں کرنے لگے۔ ایک دن کھانے کے دوران انھوں نے خورشید صاحب سے کہا کہ ”اگلے اتوار کو آپ پسندے بنائیے گا۔“ اس پر خورشید صاحب نے معذرت کی کہ ہمیں ’پسندے‘ بنانے نہیں آتے۔ احمدفراز نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ ”کیسے علی گیرین ہیں کہ آپ کو ’پسندے‘بنانے نہیں آتے۔“ اس پر خورشید صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ ”علی گڑھ میں دراصل ہم ’ترقی پسندے‘ بنایا کرتے تھے۔“

بات ہورہی تھی اطہرفاروقی کی اور پہنچ گئی ان کی دانشوری کے حوالے سے لندن۔ ہم پھر انجمن ترقی اردو کے دفتر واپس آتے ہیں، جو’اردو گھر‘ کی تیسری منزل پر واقع ہے۔ جب یہ عمارت تعمیر ہوئی تھی اور ڈاکٹر خلیق انجم اس ادارے کے جنرل سیکریٹری بنائے گئے تھے تو یعقوب عامر نے ایک نظم کہی تھی۔اس کا ایک شعر کچھ یوں تھا

بنا ہے ساتویں آسماں پہ اردو کا گھر

قدم زمین پر رکھتے نہیں دلی والے

اس نظم کا عنوان تھا ”نہ تم دلی والے نہ ہم دلی والے“۔اس نظم کا روئے سخن ڈاکٹر خلیق انجم کی طرف تھا جو چھٹے ہوئے دلی والے تھے اور تاحیات انجمن کے جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ ایک دن مشہورنقاد، صحافی اور شاعر فضیل جعفری جب بمبئی سے دہلی آئے تو انھوں نے مجھے فون کرکے کہا جلدی آؤ، آج خلیق انجم کے پاس چلناہے۔میں دوڑا ہوا گیا۔ ہم دونوں اردو گھر پہنچے اور فضیل صاحب نے خلیق انجم کے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا کہ ”یہاں کوئی اردو داں ہے؟“اس پر خلیق انجم نے مسکراکر ان کا استقبال کیا۔ فضیل صاحب ان کے سامنے خاموش بیٹھ گئے اور کچھ بھی بولنے سے معذرت کردی۔ خلیق انجم نے پریشان ہوکر ان سے پوچھا کہ آپ خاموش کیوں ہیں ، تو انھوں نے خلیق انجم کی میزپر رکھی ہوئی ایک نیم پلیٹ نما عبارت کی طرف اشارہ کیا جس پر لکھا تھا کہ ”یہاں بیٹھ کر میری سمجھ میں علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی گفتگو بالکل نہیں آتی ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کریں۔“ خلیق انجم نے فوراًوہ عبارت وہاں سے ہٹائی اور کہا کہ یہ آپ کے لیے نہیں ہے۔اس طرح فضیل صاحب کی باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اطہرفاروقی کی میز پر ایسی کوئی عبارت نہیں ہے لہٰذا آپ ان سے ہرقسم کی علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی گفتگو کرسکتے ہیں۔ اردو اور انگریزی دونوں میں۔

You may also like