Home تجزیہ آسام کے ’حیوان‘ ـ شکیل رشید

آسام کے ’حیوان‘ ـ شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)

بجے شنکر بنیانام سے کوئی اسے’ انسان‘ نہ سمجھ لے ، یہ حقیقتاً ’ حیوان‘ ہے ۔ کسی دَم توڑتے ’ انسان‘ کے جسم پر کود کود کر جشن منانے والا ’ حیوان‘ ہی کہلائے گا ۔ یہ بنیا اپنے کیمرے کے ساتھ ، جی ہاں اس ’ حیوان‘ کے ہاتھوں میں ایک کیمرا بھی تھا کہ یہ سرکاری فوٹو گرافر کے عہدے پر فائز ہے ، جس طرح سے خوش ہورہا اور انسانی جسم کو روندرہا تھا اُسے اس ملک کے اُس حیوانی نظام کی ایک’ علامت‘ کہا جاسکتا ہے ، جو انسانوں کے جسم کو روندکر بے پناہ انبساط محسوس کرتا ہے ۔ وہ ساری انتظامیہ ، وہ سارے آہن پوش پولیس اہلکار اور وہ ’ ہینڈلر‘ جو آسام کی راج گدی پر متمکن ہیں ، اور جو آسام کی درندگی کے ذمے دار ہیں ، بِجے شنکر بنیا ہی کی طرح ’انسان‘ نہیں کہیں جائیں گے، اِن میں آسام کے وزیراعلیٰ ہینمتا بِسواسرما سرِ فہرست ہیں ، وہی ہیمنتا جنہیں کانگریس نے دودھ پِلا پِلا کر پالا اور پوسا تھا۔ اب کیا کہا جائے کہ جس طرف نظر ڈالیں کانگریس کے پرانے کھلاڑی ، سنگھی ٹولے میں کھڑے بھی نظر آتے ہیں اور جو پہلے سے سنگھ میں ہیں ان کے مقابلے کہیں زیادہ مسلمانوں ، دلتوں اور پچھڑوں ونچلی ذات والوں کے خون سے اپنی پیاس بجھاتے بھی۔ آسام کے یہ جو درندے ہیں ، اِن میں بی جے پی والے تو شامل ہیں ہی لیکن دوسری سیاسی پارٹیوں کے ’ حیوان‘ بھی ساتھ ساتھ ہیں،’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ اِن پر صادق آرہا ہے ۔ یہاں ’ سب کا ‘ سے مراد’ تمام ہی سیاست داں ہیں ، کیا سیکولر اور کیا غیر سیکولر‘ اور ’ سب کا ساتھ ‘ کا مطلب ’ اس ٹولی کے ہر فرد کا اِس ٹولی میں شامل ہر فرد ساتھ دے رہا ہے‘ یا ’ ساتھی بنا ہواہے ‘ ۔
آسام میں ۲۳؍ستمبر کو جوہوا ، وہ کوئی نیا نہیں ہے ، وہاں تو ایک عرصہ سے خون کی ہولی ، بلکہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ نیلی کاقتل عام کیا کوئی بھول سکتا ہے ؟ ۱۸؍ فروری ۱۹۸۳ء کے قتل عام میں ، بلکہ نسل کشی میں ناگاؤں ضلع کے ۱۴ ؍ دیہاتوں کے ۲؍ہزار ۱۹۱ مسلمان مارے گئے تھے ۔ یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں اور شاید اس لیے یہ اعداد وشمار منظر عام پر آگئے تھے کہ وہاں تین بڑے اخباروں کے جرنلسٹ موجود تھے ، وہ قتل عام کے چشم دیدگواہ تھے۔ بنگالی بولنے والے افراد کے خلاف ، مسلمانوں کے ساتھ اس میں بنگالی ہندو بھی شامل تھے ، تشدد کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ، بس ہوا یہ ہے کہ اب شہریت کے نئے قانون نے ’ بنگالی ہندوؤں‘ کو قدرے ’ تحفظ‘ فراہم کردیا ہے ، لیکن مسلمان، برسہا برس بلکہ آسام کے ان باشندوں سے بھی پہلے سے ہی کیوں نہ آسام میں آکر بسا ہو ، جنہیں آسام کے اصلی باشندے کہا جاتا ہے ، یعنی ’ آھوم‘ ،آج بھی ’ بنگلہ دیشی‘ یا ’ بنگالی‘ کہلاتا ہے ، جس کا سیدھا سا مطلب ہے ’ غیر ملکی‘۔ اب جو ’غیر ملکی‘ ہے بھلا وہ کیسے آسام میں رہ سکتا ہے ! اس پر آسام کےدروازے بند ہیں ، یا تو وہ باہر نکل جائے یا پھر موت کو گلے لگالے ، آسام کے مسلمان نہ باہر نکلنے کے لیے تیار ہیں اور نہ خود کو ’ غیر ملکی‘ کہلوانے کے لیے ۔ ہاں مرنے کے لیے ، موت کو گلے لگانے کے لیے تیار ہیں۔
یہ جو ’ دَم توڑتے انسان کے جسم پر کودتے ہوئے ’ حیوان‘ بنیا کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جمعرات ۲۳؍ ستمبر کی ہے ۔ آسام کے درانگ ضلع سے وزیراعلیٰ ہیمنتا بِسوا سرما نے مسلمانوں کو ’ اجاڑنے‘ کی مہم شروع کی ہے ، اس مہم کے تحت ضلع انتظامیہ کے افسران، آہن پوش پولس اہلکاروں کے ساتھ سِپا جھرگاؤں پہنچی تھی جہاں وہ مسلمان جن کی زبان بنگالی ہے اس مہم کے خلاف مظاہرے کررہے تھے ۔ ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک نوجوان اپنے ہاتھ میں ایک ڈنڈا لے کر بندوقوں سے لیس پولس والوں کی طرف بڑھ رہا ہے ، پولس والوں کے ساتھ ’ حیوان‘ سرکاری فوٹو گرافر بِجے شنکر بنیا بھی کھڑا ہوا ہے ، پولں بغیر وارننگ دیئے اپنی طرف ڈنڈالے کر بڑھتے نوجوان پر گولی باری کرتی نظر آرہی ہے ، نوجوان زخمی ہوکر زمین پر گرپڑتا ہے اور درجنوں پولس والے اس پر لاٹھی ڈنڈوں سے پِل پڑتے ہیں ۔ نوجوان کا نام ، بعد میں پتہ چلتا ہے کہ معین الحق ہے ، وہ زمین پر بے سدھ پڑا ہوا ہے ، ’حیوان‘ بنیا اس کی طرف بڑھتا ہے اور اس کے پاس پہنچ کر اس کے جِسم پر کودنے لگتا ہے ! ’حیوان‘ نے اپنے چہرے کو ڈھانپ رکھا ہے ، گردن میں کیمرا لٹک رہا ہے ، وہ اس وقت تک دم توڑتے ’انسان‘ معین الحق کے جسم پر کودتا رہتا ہے ، جب تک کہ پولس۔ جو خود ’ حیوان‘ بن چکی ہے۔ آکر اسے پکڑ کر لے نہیں جاتی۔ لیکن وہ ’حیوان‘ پولس سے اپنا ہاتھ چھڑا کر واپس پلٹتا ہے اور معین الحق کے جسم کو روندنے لگتا ہے ۔ اس دفعہ معین الحق کے جسم میں کوئی حرکت نہیں ہوتی ، یوں لگتا ہے جیسے کہ اس کی موت ہوچکی ہو۔ اس ۷۲ سیکنڈ کے ویڈیو کے آخر میں ’ حیوان‘ فوٹوگرافر کو ایک ’ سادہ لباس‘ شخص سے خوشی خوشی گلے ملتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔یہاں پریہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ درانگ ضلع کے پولس سپرنٹنڈنٹ کا نام سوسانتا بِسواسرما ہے ، شاید یہ نام کچھ جانا سا لگے۔ جی ، یہ وزیراعلیٰ ہینمتا بسوا سرما کے بھائی ہیں ، اور انہوں نے بڑے فخر سے بیان دیا ہے ’’پولس نے اپنے دفاع میں جو کرنا چاہیئے تھا وہی کیا ۔‘‘ جی ، ڈنڈا لے کر آگے بڑھتے ایک نوجوان پر ، گولی باری کرنا اور پھر اسے لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر بے دَم کردینا اور اس کے جسم کو روندنا یہ سب ’دفاع‘ میں تھا! حالانکہ آسام کی پولس نے ’حیوان‘ سرکاری فوٹوگرافر بِجے شنکر بنیا کو گرفتار کرلیا ہے ، تحقیقات بھی شروع کرادی گئی ہے ، لیکن ان پولس والوں کے خلاف ، جو نہتوں کے اوپر گولی باری کے مرتکب ہوئے ، کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔ شاید ایک آدھ انکوائری ہوجائے ، اور سب معاملہ ٹائیں ٹائیں فش کردیا جائے ! بلکہ یہی ہوگا۔ ابھی خبر ملی ہے کہ تشدد کی جوڈیشل تحقیقات کا حکم دے دیا گیاہے ۔
پیر ۲۰؍ستمبر کو وزیراعلیٰ ہینمتا بسوا سرما بہت خوش تھے کیونکہ اس روز’ بنگالی مسلمانوں‘ کو جو اصلاً ’آسامی مسلمان‘ ہیں ، جبراً بے گھر کرنے کی ان کی مہم کے نتیجے میں ۸ سوخاندان اجاڑدیئے گئے تھے ۔ وہ زمین جس پر وہ دہائیوں سے بستے آرہے تھے ، جہاں ان کی کھیتی باڑی تھی، وہ ان سے چھین لی گئی تھی۔ دھولپور نمبر۱ ، اور دھولپور نمبر۳ ، ان دو گاؤں سے ۸ سو خاندانوں کی ۴ ہزار ۵ سو بیگھہ زمین ان سے چھین لی گئی تھی۔ ’نیوز کلک‘ نے اس بابت اپنی ایک رپورٹ میں سارے منظر کو ’’جنگ کا منظر‘‘ قرار دیا ہے ۔ ۱۸؍ ستمبر کی شب میں گھروں کو ’ خالی کرنے کا نوٹس‘ دیا گیا اور ۲۰؍ستمبر کو جبراً ان سے گھر خالی کروالیے گئے ۔ اِن زمینوں پر دہائیوں سے رہنے والے اچانک ’ قابض‘ قرار دے دیے گئے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ’’ لوگوں کی جگہوں اور زمینوں پر سرکار کا جبراً اور ناجائز قبضہ ہے ۔ ‘‘ وزیر اعلیٰ سرماجنہوں نے یہ سارا منظر نامہ تیار کیا ہے ، یہ کہہ کر خود کو شاباشی دیتے اور اپنی پولس اور سرکارکو کلین چٹ دیتے نظر آتے ہیں کہ ’’ایک ویڈیو کی بنیاد پر آپ ریاستی حکومت کو رسوا نہیں کرسکتے۔ ۱۹۸۳ء سے یہ علاقہ قتل وغارت گری کے لیے بدنام ہے۔ ورنہ عام طور پر لوگ مندر کی زمین پر قبضہ نہیں کرتے ۔ مجھے ہر جانب زمینوں پر قبضہ جات نظرآرہے ہیں ۔ پرامن طور پر زمینوں سے ہٹنے کی بات ہوئی تھی، لیکن کس نے مشتعل کیا ؟‘‘
تو کیا واقعی ۳۲ سالہ معین الحق مشتعل ہوگیا تھا؟ اور ۱۲ سالہ فرید شیخ؟ کیا اس کا قصور بھی مشتعل ہونا تھا؟ چلیے فرید شیخ کی کہانی بھی جان لیں ۔ یہ ۱۲ سالہ بچہ ، جو ساتویں جماعت کا طالب علم تھا ، پوسٹ آفس اپنا آدھارکارڈ لینے کے لیے گیا تھا اور وہاں سے واپس گھر لوٹ رہا تھا، اس کا گھر اس جگہ سے ،جہاں گھر خالی کرائے جارہے تھے کوئی دو کلو میٹر دورتھا اور اس کے گھر والوں کو ’ خالی کرنے کا نوٹس‘ بھی نہیں ملا تھا۔ مگر شام کو اس کی لاش اس کے گھر کے دروازے پر پہنچی ، اس کی جیب سے اس کا آدھار کارڈ جھانک رہا تھا۔ اس کے سینے پر دائیں جانب گولی لگنے کا نشان تھا۔ اسے کیسے اور کیوں گولی لگی ، پتہ نہیں ؟ ایسے ہی کئی لوگ ہیں ، جیسے پندرہ سال کی حسنہ بانو وہ بھی ساتویں درجہ کی طالبہ ہے ، اس کے گھر والوں کو بھی کوئی ’نوٹس‘ نہیں ملا تھا مگر وہ بھی زخمیوں میں شامل ہے ۔ پولس نے اندھا دھند گولیاں برسائی تھیں، آنکھوں پر شاید پٹّی بندھی تھی اس لیے اسے بوڑھے عورتیں اور بچے بھی نظر نہیں آرہے تھے ۔ یہ واقعہ ، زمینیں خالی کرانے کی یہ مہم شرمناک ہے ۔ وزیراعلیٰ سرما زمینیں خالی کرانے کی چاہے جو وجہ بتائیں ، انہوں نے اسے ’غیر ملکی‘ اور ’ ملکی‘ کا معاملہ بنادیا ہے ۔ اور ساری بی جے پی یہی ثابت کرنا چاہتی ہے کہ ’ بنگالی مسلمانوں‘ نے ’آسامیوں‘ کی زمینوں پر ’قبضہ جات‘ کررکھے ہیں ۔ یہ ہندو۔ مسلم کی دراڑ وزیر اعلیٰ سرما کے ، آسام میں حکومت کو کامیاب بنانے کے ’منصوبوں‘ میں سب سےاوپر ہے ۔ این آرسی اسی لیے  لایا گیا ۔ سارے مسلمان اس تشویش میں ہیں کہ انہیں ’ غیر ملکی‘ ثابت کردیا جائے گا ۔ ان کی ’ تشویش‘ رفع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے ۔کئی دہائیو ں سے یہ زمینوں سے بے دخل کیے ، قتل کیے، اور لوٹے جارہے ہیں ۔ وزیراعظم نریندر مودی امریکہ میں نائب صدر کملا ہیرس کے ساتھ مل کر ’’جمہوریت کے تحفظ ‘‘ کا عزم کررہے ہیں اور اِن کے ملک میں آسام کے ’ حیوان‘ بلکہ سارے ملک کے ’ حیوان‘ جمہوریت کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ مودی جی ! کچھ تو خبر لیں۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment