Home تجزیہ عصری درسگاہوں میں بنیادی دینی تعلیم کی ضرورت-مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

عصری درسگاہوں میں بنیادی دینی تعلیم کی ضرورت-مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

by قندیل

نائب ناظم امارت شرعیہ بہا ر، اڈیشہ وجھارکھنڈ
راجندر سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کی جو رپورٹ دی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم سے جڑے طلبہ وطالبات میں صرف چار فی صدہی مدارس کا رخ کرتے ہیں، بقیہ چھیانوے فی صد طلبہ ان تعلیمی اداروںمیں ہیں؛جنہیں ہم اسکول ، کانوینٹ اور عصری درسگاہوںکے نام سے جانتے ہیں، عام طورپر ان اسکولوں کے نصاب میں بنیادی دینی تعلیم کا گذر نہیں ہوتا، اس طرح بچہ ابتداہی سے دین سے دور ہوتا جاتا ہے ، عیسائی مشنریاں اپنے فاسد خیالات سے اس کے دل ودماغ کو مسموم کردیتی ہیں ، ادارہ اگر آر ایس ایس کی تحریک سے جڑا ہوا ہے ، تو دیو مالائی خیالات بچوں کے ذہن میں دھیرے دھیرے ڈالا جاتا ہے ، اور اس کے اثرات سے ہمارے طلبہ میں د ین سے بیزاری کا ذہن بنتا ہے اور بات یہاں تک پہونچ جاتی ہے کہ انہیں اسلامی تہذیب وثقافت اور کلچر سے ایک قسم کا تنفر پیدا ہو جاتا ہے،اسے غیر مسلموں کی آبادی اچھی لگتی ہے اور وہاں رہ کر وہ اپنے کو سیکولر سمجھتا ہے، وہ مسلم آبادی میں کیڑے نکالنے لگتا ہے ، حالاں کہ وہ جس کمیونٹی سے آیا ہے اسے ٹھیک ٹھاک رکھنے ، صفائی ،ستھرائی اوردیگر امور جو اچھے شہری کے لیے ضروری ہوتے ہیںاس کو پورا کرانے ، برتنے اور مسلم سماج میں رواج دینے کی اس کی ذمہ داری دوسروں سے کسی طرح کم نہیں ہے پھر چونکہ وہ اسے پڑھالکھا ہے ، صحیح غلط کا شعورہے،وہ ماحول کو بنا بگاڑ سکتا ہے ، اس نقطۂ نظر سے دوسروں سے اس کی ذمہ داری کہیں بڑھی ہوئی ہے ، جو لڑکے حساس ہوتے ہیں اور دین کو اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ بھی دین ومذہب کے کام کے نہیں رہتے ، اس کا تجربہ مجھے ایک رشتہ کے موقع سے ہوا ؛ لڑکا ایم ٹیک تھا ، ریٹائرڈ اے ڈی ام کا لڑکا ، میرے ایک مخلص کی لڑکی سے اس کا رشتہ چل رہا تھا ، لڑکی والے نے یہ شرط لگائی کہ جب تک میں اس سے مل کر اس کے خیالات جان کر مطمئن نہ ہوجاؤں اس وقت تک یہ رشتہ مکمل نہیں ہوگا ، میں کہتا رہا کہ اے ڈی ام صاحب کے ام ٹیک لڑکے کو ہمارے جیسا مکتبی مولوی کیا جانچ پرکھ سکے گا؛ لیکن لڑکے والے کی ضد کے آگے میری ایک نہ چلی اور مجھے اس کے لیے وقت نکالنا پڑا ، لڑکا میرے سامنے آیا میں نے اس سے سوال کیا کہ نماز پڑھتے ہیں ، کہنے لگا ، پہلے پڑھتا تھا، اب نہیں پڑھتا ، پوچھا گیا کیوں؟ جواب تھا قرآن میں ہے ’’واعبدربک حتی یاتیک الیقین‘‘ ، عبادت اپنے رب کی یقین آنے تک کرو، اب مجھے یقین آگیا ہے کہ خدا ہے، تو عبادت کی کیا ضرورت ہے، کہنے لگا ، مقصد کے حصول کے بعد وسائل کی ضرورت نہیں رہتی ، عبادت تو یقین پیدا کرنے کے لیے ہے، جب وہ حاصل ہو گیا تو اب وسائل کے پیچھے کیوں پڑوں؟ میں نے دوسرا سوال کیا ، روزہ رکھتے ہیں ؟کہنے لگا ،پہلے رکھتا تھا ، اب نہیں رکھتا ، کیوں نہیں رکھتے ؟ کہنے لگا اس لیے کہ روزہ تو اللہ کا خوف پیدا کرنے کے لیے ہے ’’لعلکم تتقون‘‘ وہ حاصل ہو گیا ،میں نے روزہ رکھنا چھوڑ دیا ، روزہ بھی مقصود نہیں ہے ، مقصود تو تقویٰ ہے، روزہ اس کے حصول کا ذریعہ ہے ، میںنے کہا ، کیا آپ کی طبیعت نہیں چاہتی کہ جس خدانے اتنی بڑی کائنات بنائی، آپ کو زندگی کے سارے وسائل دیے نعمتوں کا انبار لگا دیا ، اس کی بندگی کی جائے اور اس کے حکم کو بجا لایا جائے ، کہا بالکل طبیعت چاہتی ہے، کبھی طبیعت چاہتی ہے تو آدھا گھنٹہ رکوع میں رہتاہوں ، کبھی کئی کئی گھنٹے کھڑا رہتا ہوں ، البتہ جس کو آپ لوگ نماز کہتے ہیں وہ میں نہیں پڑھتا ، میں نے آخر میں سوال کیا کہ آپ کا آئیڈیل پر سن کون ہے ؟ کہنے لگا عیسیٰ علیہ السلام ، میں نے سمجھا کہ یا تو یہ لڑکا پاگل ہے ، یا کافر ہے ، دونوں صورت میں رشتہ نہیں ہو سکتا تھا ، چنانچہ میں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرکے با ت ختم کرادی ، یہ ایک مثال ہے آپ اپنے ارد گرد ڈھونڈھیں تو آپ کے پاس پڑوس میں کئی ایسے لوگ مل جائیں گے ، جن کے خیالات اور معتقدات اسی انداز کے ہیں ، وہ نہیں جانتے کہ آیت میں یقین کا مطلب موت ہے ۔
اس نکتہ سے عدم واقفیت کی وجہ سے کئی لوگ یہ تجویز رکھتے ہیں کہ قربانی میں جتنے روپے کا جانور ذبح کر دیا جاتاہے ، اس سے تو کئی ادارے اور کار خانے چلائے جا سکتے ہیں ، پیسہ ہی خرچ کرنا ہے تو خیر کے دوسرے بہت سے کام ہیں ،انہیں کرنا چاہیے اوربقول ان کے نعوذ باللہ قربانی مال کا ضیاع ہے حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ یہاں جانور کی قربانی میں پیسہ خرچ کرنا صاحب نصاب پر لازم ہے نہ کہ دوسرا کار خیر، تراویح میں قرآن کریم کا سنانا مقصود ہے ، سننے سنانے کا عمل تو تراویح کے بغیر بھی ہوتا ہے تو کیا اسے ترک کر دیا جائے ، نہیں؛اس لیے کہ قرآن کریم تراویح میں سنانا مشروع ہے۔ ایک میڈیکل کالج کے ذمہ دار نے بتایا کہ ایک امتحان میں جو صرف مسلم طلبہ وطالبات کے لیے منعقد کیا گیا تھا ایک سوال کے جواب میں سارے طلبہ وطالبات کھڑے ہوگئے ،پوچھا گیا ، کیا پریشانی ہے ؟کہنے لگے پہلا سوال نہیں سمجھ میں آ رہا ہے، یہ پہلا سوال کیا تھا ؟ کلمہ طیبہ لکھیے ، یہ سوا ل ان مسلم بچوں کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا ،جنہوں نے زندگی کے بائیس پچیس سال مسلم گھرانے میں گزارے تھے اور پڑھے لکھے، قابل لوگ تھے، میں نہیں کہتا کہ وہ سب لا الہ سے واقف نہیں تھے ، ہو سکتا ہے کسی کو یاد بھی رہا ہو، لیکن وہ کلمہ طیبہ کی اصطلاح کے لیے اپنی یاد داشت سے کچھ نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، ایک موقع سے یہ بھی تجربہ ہوا کہ لا الہ الااللہ ہمارا جوان نہیں پڑھ رہا ہے ، نکاح کی تقریب تھی ،رواج وہاں کلمہ پڑھانے کا تھا ، مجھ پر بھی زور دیا جانے لگا ، میں نے یہ سوچ کر کہ بد مزگی نہ ہو، لڑکے کو کلمہ پڑھانا شروع کیا ، آپ کو جان کر تعجب ہوگا کہ کلمہ کے الفاظ پانچ بار میں لڑکا نے صحیح ادا نہیں کیا ، اس پر سے جب اس کے باپ نے سبکی محسوس کی تو کہنے لگا Habit نہیں ہے ، کس چیز کا Habit نہیں ہے کلمہ پڑھنے کا ، بقیہ ناچنے گانے کرکٹ کھیلنے اور دوسرے امور میں لڑکا طاق ہے ، نہیں آتا تو کلمہ پڑھنا، اس تحریر کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ سبھی ایسے ہوتے ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ دعوت وتبلیغ کی محنت سے بہتوں کو کلمہ پڑھنا آگیا ہے؛ لیکن مجموعی حالات اب بھی تشویشناک ہیں، ہمارا دانشور طبقہ بار بار اس بات کو دہرا تاہے کہ مدارس کے طلبہ کے لیے عصری علوم کو داخل نصاب کرنا چاہیے ، ضرور کرنا چاہئے۔اگر مدارس کے طلبہ نے ان علوم کو نہیں جانا تو ان کی معاش کمزور رہو سکتی ہے ، لیکن اسکول کالج میں پڑھنے والے ہمارے بچوں نے اگر بنیادی دینی تعلیم نہیں حاصل کی تو ان کی آخرت تباہ ہو جائے گی ، یہاں امکان نہیں، یقین ہے کہ انہیں آخرت میں سخت خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا ، ہمارا دانشور طبقہ صرف چار فی صد بچوں کے لیے انگریزی ، کمپیوٹر، سیاسیات ، سماجیات ، سائنسی علوم کو نصاب میں داخل کرنے کے لئے جتنی توانائی صرف کر تا ہے اور ٹیپ کے بند کی طرح ہر تعلیمی مجلس میں اسے دہرا تا رہتا ہے ، اگر وہ چھیانوے فی صد دوسرے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے دینی تعلیم کے حصول کے لزوم پر صرف کرتا تو دین بے زار ماحول سے سماج کو نجات ملتی اور بچے کی نشو ونما اور صلاحیت کا ارتقاصالحیت کے ساتھ ہوتا ، اس لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ جہاں مسلم بچے پڑھ رہے ہیں ، وہاں دباؤ بنایا جائے کہ دینی تعلیم کا نظم کیا جائے اور یہ بات تجارتی نقطۂ نظر سے چلائے جانے والے اسکولوں میں دشوار نہیں ہے ، انہیں جب تک یقین ہوگا کہ اگر ہم نے بنیادی دینی تعلیم کا نظم نہیں کیا تو بڑی تعداد میں ہمارا اسکول خالی کردیں گے تو اس پر وہ سوچیں گے اور راہیں آسان ہوگی، ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو لوگ مدارس کے طلبہ کے انگریزی نہ جاننے کا مذاق اڑاتے ہیں ، وہی اپنے ماحول میں کلمہ نماز ، قرآن پڑھنا نہ جاننے پر ذرا بھی آنکھ بھوں نہیں چڑھاتے ؛جیسے مسلم بچوں میں یہ کمی لائق اعتنا نہ ہو ، جب کہ یہ بات پہلے سے کہیں زیادہ تشویشناک ہے –

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment