نایاب حسن
طنزومزاح کے معروف شاعر اسرار جامعی طویل علالت کے بعد آج وفات پاگئےـ ان کی عمر نوے سال سے زائد تھی اورکئی ماہ تک جامعہ نگرکے ایک ہسپتال میں زیرعلاج رہےـ اسرارجامعی کی پیدایش گیا، بہارمیں1938میں ہوئی،ابتدائی تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ میں حاصل کی،رانچی کالج سے بی ایس سی اوربرلاکالج آف ٹکنالوجی سے انجینئرنگ کیاتھاـ شروع سے ہی قلندرانہ وصف پایاتھا، سوکہیں ٹک کر کوئی ملازمت وغیرہ نہیں کی، تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے وطن میں ہی "اقبال اکیڈمی "قائم کی اوراس کے تحت کچھ علمی وادبی کام کیے، پھرکل وقتی شاعر ہوگئےـ اسرارجامعی نے اردوکی مزاحیہ شاعری میں بڑی اہم اورنمایاں خدمات انجام دیں، ان کاایک شعری مجموعہ بھی شاعرِ اعظم کے نام سے شائع ہوا، اس کے علاوہ غیرمطبوعہ کلام کاایک بڑاذخیرہ اپنے پیچھے چھوڑگئے ہیں ـ
جب میں 2014میں دہلی آیا تواتفاقاایک دن ان سے غالبا بٹلہ ہاؤس بس سٹینڈپرملاقات ہوگئی، علیک سلیک کے بعد انھوں نے اپنے تازہ قطعے کی پرچی تھمائی اورچلنے لگے، میں نے نام دیکھا توچونک گیا، چوں کہ پہلے سے ان کانام سناہواتھا اوریہ بھی جانتاتھاکہ وہ بڑے شاعرہیں، سوان کے پیچھے پیچھے ہولیا، مزیدخبرخیریت معلوم کی، اپنے بارے میں بتایا، ان سے معلوم کیاکہ کہاں رہتے ہیں؟ اپنے "کرایہ خانے "کے بارے میں بھی بتایاـ اس کے بعد ان سے باقاعدہ شناسائی ہوگئی، پھروہ میرے کمرے پربھی آنے لگے، 2015میں انھوں نے اپنے پرچے "پوسٹ پارٹم "کاآخری شمارہ نکالا، جس کے لیے موادکی فراہمی میں مَیں نے ان کاتعاون کیا، وہ کافی خوش ہوئے اورجب بھی، جہاں بھی ملتے، اس تعاون کے لیے میراشکریہ اداکرتےـ جب تک صحت مند اورچلنے پھرنے کے قابل رہے، میرے کمرے پرآتے رہے، میں بھی ان سے ملنے جاتارہاـ پھران کی طبیعت بگڑی اوربگڑتی چلی گئی، پہلے جہاں رہتے تھے، وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوئے یامنتقل کیے گئے،بہت دنوں تک ملاقات نہ ہونے کے بعدمیں نے اپنے طورپرکئی لوگوں سے ان کے بارے میں معلوم کیا، مگرکچھ پتانہیں چلتا، پھرایک دن ڈاکٹرعبدالقادرشمس صاحب نے بتایاکہ وہ توبہت خستہ حالت میں ہیں اورفلاں ہسپتال میں زیرعلاج ہیں ـ ویسے توان کی پوری زندگی ہی کچھ ایسی آسودہ نہیں رہی، مگرآخرمیں بالکل ہی اکیلا اوربے یارومددگارہوگئے تھے، ڈاکٹر عبدالقادرشمس صاحب کواللہ پاک جزائے خیردے کہ انھوں نے اس مرحلے میں ان کی خبرگیری کی اوراپنے صاحبزادے عمارجامی کومستقل اس کی ذمے داری دے رکھی تھی ـ ان کی تجہیزوتکفین کاانتظام بھی انھوں نے ہی کیاـ
اسرارجامعی کے شاعرانہ قدوقامت پربڑے بڑے ناقدین نے گفتگوکی اوران کی شاعرانہ برتری کوتسلیم کیاہےـ ابتدامیں شفیع الدین نیر کواستادبنایا پھررضانقوی واہی کی شاگردی اختیارکی اوربتدریج اپنی ایک منفردراہ نکالی اورآسمانِ شعروادب پرچھاگئےـ ان کے کلام کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ لفظوں اورترکیبوں کے معمولی ہیرپھیر سے بات کوکہیں سے کہیں پہنچادیتے اورگہرے معانی پیداکرلیتے تھے ـ ان کے طنزمیں پھکڑپن نہیں ہوتاتھا،ایک خلوص اورہمدردی ہوتی تھی،ان کاطنزایساہوتاتھاکہ وہ شخص بھی سن کر مزے لیتاجوان کاہدف ہوتاـ انھوں نے زیادہ ترملک کے سیاسی احوال پر طنزیہ شاعری کی اوربڑے بڑے سیاست دانوں کی موجودگی میں ان کے خلاف اشعارپڑھےـ اس کے علاوہ سماجی احوال اورادبی حلقوں کی کج رویوں پربھی انھوں نے طنزکے تیربرسائےـ
اسرارجامعی کی خدمات کے اعتراف میں متعدداداروں کی طرف سے انھیں اعزازات سے سرفرازکیاگیا، مگر وہ جس قدوقامت کے شاعرتھے اس اعتبارسے انھیں ادبی حلقوں میں مقبولیت یامادی سرخروئی حاصل نہیں ہوسکی، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فطری طورپرنہایت سادہ اورہرقسم کی ہوشیاری وچالاکی سے کوسوں دورتھے، جوآج کل کے سکہ بندادیبوں اورشاعروں کاطرۂ امتیازسمجھاجاتاہے اورلوگ اپنی صلاحیت وخدمات کے زورپرنہیں بلکہ سرکاردربار کی چاپلوسی کرکے یاادبی گروہ بندیوں کاحصہ بن کر ناموری وشہرت اورمال ودولت حاصل کرتے ہیں ـ اسرارجامعی نے کبھی اپنی انااوراصول واقدارسے سمجھوتانہیں کیا،جس کی وجہ سے وہ اپنے عہد میں طنزومزاح کے "شاعرِاعظم ” ہونے کے باوجودہمیشہ خستہ حال رہے اورعبرت ناک زندگی گزاری ـ ان کاخاندان بہارکاایک موقرخاندان تھا، ان کے بھائی اوربھانجیاں بھی ہیں، مگرسب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف، قدآور دانشورولیڈرسیدشہاب الدین ان کے پھوپھاتھےـ جامعی صاحب دنیامیں زندگی بسرکرنے کے داؤپیچ سے قطعانابلدتھے،سو انھیں قدم قدم پر خساروں سے دوچارہوناپڑا، کسی زمانے میں دہلی کے جامعہ نگرمیں ان کی سیکڑوں گزکی زمینیں تھیں، جن پران کے مبینہ ہمدردوں نے ہی قبضہ کرلیا اوراخیر عمر میں ان کےپاس رہنے کے لیے ایک کمرہ بھی نہیں تھاـ کبھی کوئی شناسااپنی بلڈنگ کاکوئی کمرہ دے دیتااورکبھی کسی جاننے والے کے یہاں چند ماہ رہ لیتےـ اسرارجامعی کی وفات پرادباوشعراافسوس کااظہارکررہے ہیں، مگران کی زندگی میں بہت کم لوگوں نے ان کی احوال پرسی کی ـ میں انھیں اکثرکہاکرتاتھاکہ آپ بلاشبہ ایک عظیم شاعرہیں، لوگوں کوبھی اس کااندازہ ہے، مگراس کااظہاروہ آپ کی وفات کے بعد کریں گے اورآپ کے نام پرروٹیاں توڑی جائیں گی، جیسے غالب کے نام پرتوڑی جارہی ہیں، غالب بے چارے خودتوکس مپرسی کی زندگی گزارتے رہے، مگراپنے بعداپنی ذات سے منسوب ایک مستقل روزگارچھوڑگئےـ یہ سن کروہ ہنس دیتے اورادھر ادھرکی باتیں کرنے لگتےـ
دوہزاراٹھارہ میں بعض نیوزچینلوں نے باقاعدہ ان کے تعاون کے لیے خبریں چلائیں، مگردہلی سے لے کر بہارتک کے دسیوں اردواداروں اوراردوکی وردی پوش شخصیات میں سے کسی کوتوفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان کی طرف مددکاہاتھ بڑھائے، دہلی حکومت سے ملنے والاوظیفہ بھی انھیں مردہ قراردے کر بند کردیا گیا،جامعی صاحب جگہ جگہ اپنی زندگی کاثبوت دکھاتے رہے،بعض اخباروں نے لکھابھی، متعلقہ وزیراور اوکھلاکے ایم ایل اے امانت اللہ خان سے ملاقاتیں بھی ہوئیں، مگرنتیجہ صفررہاـ
بہرکیف اب تووہ واقعی وفات پاچکے ہیں اوراپنے پیچھے اپناقیمتی کلام اورشعری سرمایہ ہی نہیں، عبرت وموعظت کی ایک پوری داستان بھی چھوڑگئے ہیں ـ خدااپنے جواررحمت میں جگہ دےـ