Home ستاروں کےدرمیاں ڈاکٹر اسلم آزاد: شخص اور عکس -شہباز دانش

ڈاکٹر اسلم آزاد: شخص اور عکس -شہباز دانش

by قندیل

سرزمین مولانگر ہمیشہ سے علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے۔ یہاں سے علم و دانش کی ایسی روشن کرنیں پھوٹی ہیں جنکی ضیاء پاشیوں نے ایک جہاں کو منور کیا ہے ۔ اس مٹی سے تعلق رکھنے والی کئی نمایاں شخصیات نے اپنے علم و ادب کے جوہر دکھائے اور اپنے فکر و فن کا لوہا منوایا ہے ۔ انہی میں ایک درخشاں نام ڈاکٹر اسلم آزاد کا بھی ہے۔

اس دور میں جب زیادہ تر لوگوں کے لیے بنیادی تعلیم کا حصول ایک خواب تھا، مولانگر کے کچھ باکمال افراد اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بڑے بڑے منصب پر فائز ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر اسلم آزاد بھی اُن معدودے چند شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ اپنی علمی و ادبی خدمات کو ایک ایسی میراث کی صورت میں چھوڑا جو آئندہ نسلوں کے لیے چراغِ راہ بن گئی۔ انہوں نے ورثہ میں محض مال و جائیداد نہیں چھوڑی، بلکہ قیمتی ادبی شہ پارے اور علمی مخطوطے بھی چھوڑے۔

ڈاکٹر اسلم آزاد، معروف شاعر مرحوم اشرف مولانگری کے بڑے بھائی تھے، اسی نسبت سے ان کا تذکرہ عہد طفولیت سے ہی سنتا چلا آیا۔ لیکن تب صرف اتنا ہی معلوم تھا کہ وہ ایک پروفیسر ہیں، بہار قانون ساز کونسل کے معزز رکن ہیں اور ایک بڑے آدمی ہیں۔لیکن ان کی ادبی حیثیت سے تعارف ان کی کتاب ” عزیز احمد: بحیثیت ناول نگار” کے ذریعے ہوا۔

 

وہ اکثر گاؤں میں منعقدہ ادبی و علمی نشستوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ کسی بھی علمی و ادبی محفلوں یا مشاعروں میں انکی موجودگی رونق بزم ہوا کرتی تھی۔ تاہم، بچپن اور کم سنی کے باعث ان سے کبھی براہِ راست ملاقات نہ ہو سکی، بس دور دور سے ہی دیکھنے کا موقع ملا۔

سال 2018 میں، ان کے علاتی بھائی اکرم آزاد کے ساتھ پٹنہ کے ایک سفر کے دوران، ان کی رہائش گاہ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ اکرم آزاد نے میرا ان سے تعارف کرایا، تو انہوں نے فوراً پہچان لیا۔ اس ملاقات میں انہوں نے مجھ سے میری تعلیم و لیاقت کے بارے میں دریافت کیا، چند قیمتی نصیحتیں نظر نوازکیں، اور پھر دفعتا ایک نہایت دلچسپ سوال کیا:

"کیا تم نے میری کوئی کتاب پڑھی ہے؟”

میرے اثبات میں جواب دینے پر وہ بہت خوش ہوئے۔

ڈاکٹر اسلم آزاد نے کامیابی کے افق کو چھوا ضرور لیکن انکے پاؤں زمین پر ہی رہے اور ان کا دل ہمیشہ اپنے آبائی وطن کی مٹی سے جڑا رہا۔ وہ اپنی علمی میراث، اخلاقی اقدار اور روایات سے کبھی جدا نہ ہوئے، جس کا خوبصورت اظہار ان کے اس شعر میں ملتا ہے:

 

میں نے ہر لمحہ نئی جست لگائی اسلمؔ

مجھ سے وابستہ رہی پھر بھی روایت میری

 

یہ شعر ان کی زندگی کا حقیقی آئینہ ہے، ترقی اور کامیابی کے منازل کو چومتے انکے قدم لمحہ بھر کے لئے بھی اپنی روایات اور پہچان سے منحرف نہ ہوے ۔ یہی وہ خصوصیت ہے جو انہیں مولانگر کی دیگر ممتاز شخصیات میں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔

 

ڈاکٹر اسلم آزاد کی پیدائش 12 دسمبر 1948 کو مولانگر، ضلع سیتامڑھی میں ہوئی۔ ان کا اصل نام عطااللہ اسلم تھا، مگر وہ قلمی نام اسلم آزاد سے معروف ہوئے۔ ان کے والد محمد عباس ایک بااثر شخصیت تھے اور طویل عرصے تک گاؤں کے مکھیا رہے۔

ابتدائی تعلیم مولانگر اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم پوپری میں مکمل کی۔

 

1966 میں ملت کالج دربھنگہ سے بی اے (اردو) مکمل کیا، 1968 میں پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا، اور 1974 میں "اردو ناول آزادی کے بعد” کے موضوع پر پی ایچ ڈی مکمل کی۔ یہ تحقیقی کام ڈاکٹر اختر اورینوی کی نگرانی میں انجام پایا۔ 1975 میں پٹنہ یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرر مقرر ہوئے، اور بتدریج ترقی پا کر اردو شعبہ کے صدر کے عہدے تک پہنچے۔ یہاں تک کہ 2014 میں وہ سبکدوش ہوگئے۔

 

تدریس کے علاوہ انھوں نے فن ادب کی بہت سی قسموں جیسے، تحقیق، تنقید، شاعری وغیرہ میں طبع آزمائی کی اور اپنی قابلیت کےجوہر دکھائے، انھوں نے میدان سیاست میں طالع آزمائی کی تو وہاں بھی قسمت نے یاوری کی اور بہار قانون ساز کونسل تک رسائی حاصل کی ۔ انہوں نے 1983 میں لوک دل کے ریاستی نائب صدر کی حیثیت سے سیاسی سفر کا آغاز کیا، 1991 میں سماجوادی جناتا پارٹی کے جنرل سیکریٹری رہے، اور کئی بار ودھان سبھا کا انتخاب بھی لڑا۔ 2006 میں جناتا دل (یونائٹیڈ) میں شامل ہوئے اور اسی سال سے 2012 تک بہار قانون ساز کونسل کے رکن رہے۔

 

ڈاکٹر اسلم آزاد کے گہر بار قلم نے کئی قیمتی کتابیں اردو ادب کو عطا کیں:

 

اردو ناول آزادی کے بعد

 

قرۃ العین حیدر: بحیثیت ناول نگار

 

عزیز احمد :بحیثیت ناول نگار

 

اردو کے غیر مسلم شعراء: تاریخ و تنقید

 

"آنگن ایک تنقیدی جائزہ”، (آنگن خدیجہ مستور کا ناول ہے، جو ایک متوسط مسلم گھرانے کی نمائندگی کرتا ہے)۔

 

شاعری میں بھی ان کا مقام مسلم تھا۔ ان کے مجموعے:

 

نشاطِ کرب

 

مختلف

 

ریت پر ایک نام (اس میں دونوں سابقہ مجموعوں کے کلام بھی شامل ہیں)۔

 

ان کی شاعری کے بارے میں خود ان کا کہنا تھا:

 

"میری شاعری ذاتی و حسی تجربات و مشاہدات سے عبارت ہے۔ اس میں آپ کو با معنی اضطراب، داخلی شعلہ، اندرونی تصادم اور جذباتی محرومیوں کے احساسات ملیں گے۔”

 

ان کی شاعری ایک ایسے کردار کی جھلک ہے جو ناکامیوں، درد، تمناؤں اور خوابوں کی شکست کا آئینہ دار ہے، ایک ایسا وجود جو اندر سے جل رہا ہے، لیکن پھر بھی روشنی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

 

ان کی مرتب کردہ کتاب "سرمایۂ ادب” (1995) دو حصوں پر مشتمل ہے،ایک حصہ نظم اور دوسرا نثر۔ یہ کتاب اردو کے طلبہ و طالبات کو معیاری ادب سے روشناس کرانے کے لیے مرتب کی گئی تھی۔

 

قانون ساز کونسل میں ان کے دورِ رکنیت کے دوران جاری ہونے والے رسائل "کونسل دستاویز” اور "کونسل خبرنامہ” کے وہ ایڈیٹر بھی رہے۔ ان میں علمی، ادبی مضامین کے علاوہ ایوان کی کاروائی کے منتخب حصے، خصوصی بحث اور کمیٹیوں کی رپورٹیں شامل کی جاتی تھیں۔

 

ڈاکٹر اسلم آزاد کی ذاتی زندگی میں بھی کئی نشیب و فراز آئے۔ ان کی پہلی شادی قیوم ہاشمی صاحب کی ہمشیرہ سے ہوئی، مگر یہ تعلق جلد ہی فارخطی پر منتج ہوا ۔ دوسری شادی تاجور نوشاد سے ہوئی، جن سے ان کی اولادیں بھی ہوئیں۔ (تاجور نوشاد کے انتقال کے بعد ان کی اولاد نے پھلواری شریف میں ان کی طرف منسوب کرکے "مسجدتاجور” تعمیر کرائی ہے)۔ آپ کی تیسری اہلیہ فرزانہ اسلم خود بھی اردو کی ادیبہ ہیں۔ آپ نے اپنا شعری مجموعہ "مختلف” انہیں کی طرف منسوب کیا ہے۔

 

ڈاکٹر اسلم آزاد کی زندگی علم، ادب، تحقیق، تنقید، سیاست، وفا اور درد کا ایک حسین امتزاج تھی۔ وہ ایک ایسے چراغ تھے جس نے نہ صرف اپنی سرزمین مولانگر بلکہ بہار کی علمی و ادبی فضا کو بھی منور کیا۔

 

مگر جسطرح ہر چراغ کا مقدر بجھ جانا ہے، ہر ستارے کو غروب ہونا ہے، یہ علم و ادب اور سیاسی دنیا کو منور کرنے والا ستارہ بالآخر 6 جون 2022 کو ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا،

اور اپنے آبائی گاؤں مولانگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوا۔

 

ذیل میں آپ کی ایک نظم ہے ، جس کا عنوان "کتبہ” ہے۔

 

مجھ کو یہ احساس ہے

میں مر گیا ہوں

 

ٹوٹ کر میں ریزہ ریزہ

ہر طرف بکھرا ہوا ہوں

 

پھر بھی اک آواز

سائے کی طرح

 

احساس سے چمٹی ہوئی ہے

تم ابھی زندہ ہو اور زندہ رہوگے

 

پھر بھی میں یہ چاہتا ہوں

مجھ کو میری قبر کی صورت بنا دو

اورمیرے نام کاکتبہ لگا دو

آپ کی کتابیں، نظمیں اور غزلیں ریختہ کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، شائقین ادب وہاں جاکر آپ کے ادبی سرمائے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

You may also like