9451970477
اشرف استھانوی بہار کے اردو صحافیوں میں منفرد مقام و مرتبہ رکھتے تھے۔وہ اظہار رائے میں جرأت،جسارت ا وربے باکی کے لیے مشہور تھے۔وہ حق بولتے اور سچ لکھتے تھے۔ہمارے پٹنہ کے زمانۂ قیام[اگست1980ء تامئی1986ء]میں اُن سے ملاقات نہیں تھی، جب کہ وہ سبزی باغ کے قطب الدین لین میں رہتے تھے اور ہم کاکوچیز کاٹج میں اوربعد کو پچھم دروازہ کے پاس گھسیاری گلی میں۔صحافت اور صحافیوں سے اُس وقت بھی ہمارے عقیدت مندانہ روابط تھے اور آج بھی ہیں، کہ ہم صحافت کو آج بھی جمہوریت کا چوتھا ستون تصور کرتے ہیں، یہ بات دیگر ہے کہ گزرتے وقت اور حالات کے ساتھ اَب اِس تصور میں ضمحلال کے عناصربھی راہ پاگئے ہیں۔ہمارے پٹنہ سے دہلی آنے کے بعد اشرف استھانوی مرحوم سے روابط ہوئے اور ماہ و سال کی قیود سے آزاد اُن سے گفتگو بھی ہوتی رہتی تھی، وہ ہماری مصروفیتوں نظر رکھتے سے اور ہم اُن کی سرگرمیوں سے واقفیت رکھتے،لیکن اِدھر ایک طویل عرصہ دونوں طرف سے بے خبری کا رہا، اور پھر16؍ نومبر2022ء کو اطلاع ملی کہ 15؍ نومبر کو پٹنہ میں اُن کا انتقال ہوگیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔اس طرح اردو صحافت کا سفیر ، مظلوموں کی آوازبشدت بلند کرنے والا،سب کی خبر دینے اور سب کی خبر لینے والا خود خبر بن گیا۔معلوم ہوا کہ وہ ایک موذی مرض میں مبتلا تھے۔ان کی آواز کھو سی گئی تھی،گزشتہ کئی مہینوں سے اس قریباً بالکل گم گئی تھی،ان کاسارا کام لکھ کر ہوتا تھا۔
اشرف استھانوی کا اصل نام ’ضیاء الاشرف‘ تھا، مگر اپنے قلمی نام ’اشرف استھا نوی‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ان کی ولادت 2؍ فروری1967ء کو استھانواں،ضلع نالندہ ،بہار میں نعیم احمد مرحوم کے یہاں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم استھانواں میں حاصل کی،1984ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے بی اے آنرس کیا ۔جامعہ اردو علی گڑھ کے بھی چند امتحانات پاس کیے۔انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغازروز نامہ’ قومی تنظیم‘ پٹنہ اور بعض دوسرے روز ناموں میں استھانواں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کیا تھا ۔صحافی انوار الہدیٰ مدیر روز نامہ پٹنہ کی تحریر کے مطابق اشرف استھانوی پٹنہ میں تعلیم کے دوران وہ روز نامہ ’ ہمارا نعرہ‘ پٹنہ سے وابستہ ہوئے،بعد میں روز نامہ قومی آواز‘ پٹنہ میں خدمات انجام دیں،بالآخر روز نامہ ’ قومی تنظیم] پٹنہ ہوئے۔قومی آواز کے بند ہوجانے کے بعد وہ روز نامہ قومی تنظیم پٹنہ سے وابستہ ہوگئے ۔یہ وابستگی روز نامہ قومی تنظیم اور اشرف استھانوی، دونوں کے لیے سود مند رہی، اشرف استھانوی اپنی کم عمری کے باوجود عظیم آباد[پٹنہ] کے سیاسی اور صحافتی اُفق پر گویا چھا گئے۔وہ تیز گام تھے اور قوم ا و ررہنمایان قوم کے نباض تھے ،چنانچہ بہتوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اُس وقت کے گورنر بہار ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے پریس صلاح کار مقرر ہوئے اور شہرت، مرتبت اور اس کے متعلقات سے بہرہ ور ہوئے،جومنصبی پروٹوکال کے تحت انہیں فراہم ہوئیں۔ ان کی تحریریں ہندوستان کے بیشتراردو روز ناموں اور ہفت روزہ اخباات میں چھپنے لگیں،پھراللہ جانے کیا ہوا کہ روز نامہ قومی تنظیم اور اُن میں دوریاں پیدا ہوگئیں، روز نامہ قومی تنظیم تو فروغ پاتا رہا، مگر اشرف تھانوی کو ’ فری لانس صحافت ‘ کرنی پڑی۔بایں ہمہ انہوں نے خوب صحافت کی اور مستحکم بنیادوں پر صحافت کی۔اس تناظر میں خورشید پرویز صاحب ’شذرات ‘ میں ’ اشرف استھانوی کی یاد میں‘ کے زیر عنوان تحریرکرتے ہیں:
’’اشرف استھانوی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز روز نامہ ’ قومی تنظیم‘ پٹنہ سے کیا ۔ مرحوم صحافت کے ساتھ ساتھ سیاسی لابی گری کے ہنر سے بھی واقف تھے۔ انہوں نے اس کا فائدہ اُٹھا یا اور قومی تنظیم کو بھی خوب فائدہ پہنچایا۔ جلد ہی ایسا وقت آگیا کہ پٹنہ کے سیاسی حلقوں میں اشرف استھانوی اردو صحافت کا سب سے جانا پہچانا نام بن گیا۔انہیں سیاسی حلقے میں ایک اہمیت دی جانے لگی۔مرحوم’ قومی تنظیم‘ سے کچھ ایسے جڑے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہو گئے۔اشرف استھانوی اُس وقت کے گورنر ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے پریس صلاح کار بنائے گئے ِ۔……اس کے بعد معلوم نہیں کیا ہوا کہ اشرف استھانوی اور قومی تنظیم دونوں الگ ہوگئے۔ یہ صورت ِ حال آخر دم تک قائم رہی۔ مرحوم فری لانس صحافت کرنے لگے ، جو اردو میں بہت مشکل ہے، لیکن وہ ہندی کے بھی آدمی تھے، اس لیے گاڑی چلتی رہی ، شاید آن لائن کوئی ہندی ہفتہ وار اخبار بھی نکالتے رہے‘‘۔ [-2شذرات،خورشید پرویز،روز نامہ فاروقی تنظیم پٹنہ؍ رانچی، 19؍ نومبر2022ء، ص6]
اشرف استھانوی نے روز نامہ قومی تنظیم کے علاوہ،قومی آواز، چوتھی دنیا، سیکولر بہار، ہندوستان،انقلاب جدید ،بلٹز اور انقلاب وغیرہ میں پابندی سے لکھا اور وہ بیماری کی وجہ سے گویائی سے معذوری کے باوجود حق اور سچ لکھتے رہے۔ڈاکٹر سید احمد قادری صاحب تحریر کرتے ہیں:
اشرف استھانوی جس موضوع پر بھی قلم اُٹھاتے ہیں ،اس موضوع کے ساتھ پورا انصاف کرتے ہیں۔ فرقہ پرستی، بد عنوانی، نا انصافی اور سیاسی، سماجی و معاشی استحصال اشرف استھانوی کے خاص موضوعات ہوتے ہیں، جن پر وہ کھل کر لکھتے ہیں۔…..اشرف استھانوی کی تحریر کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے موضوع کے محور کے گرد ہی تانے بانے بنتے ہیں اور ظالموں، بد عنوانوں اور فرقہ پرستوں کو اس طرح آئینہ دکھاتے ہیں کہ ایسے لوگ اپنا کریہہ چہرہ دیکھ کر کسی حد تک پشیماں ضرور ہوتے ہیں‘‘۔ [اردو صحافی بہار کے[بشمول جھار کھنڈ]،ص64]
اشرف استھانوی کے بارے میں ڈاکٹر عابد اصغر قاسمی نے بتایا کہ وہ منکسر مزاج، سادگی پسند اورصحافتی کر وفر سر بے نیاز ’بنداس‘ قسم کے صحافی تھے ۔بڑے خلیق اور ملنسار تھے ۔خورشید پرویز صاحب نے ان کی صحافت اور سیاسی آگہی پر جو اظہار خیال کیا ہے، وہ عام مشاہدہ کی ایک مثالی اور رطب و یابس سے پاک، حقیقت بیانی پر تحریر مبنی ہے، ورنہ وفیاتی تحریروں میںصرف تحسینی کلمات ہوتے ہیں، جو بعد کی تحریروں کی اساس بن جاتے ہیں۔بہر حال اشرف استھانوی میں ایسی اخلاقی قدریں تھیں کہ ہر شخص اُن کا قدر داں تھا، اور ان کے قاری ان کی تحریروں کے شیدائی تھے۔اشرف استھانوی نے ممکن ہے کبھی شان و شوکت کی، لگژری لائف گزاری ہو، لیکن ان کی زندگی کا بیشتر حصّہ فکر معاش اور اس کی تگ و دو میں گزرا۔وہ اردو صحافت میں جی رہے تھے اور ہندی صحافت سے بھی سروکار رکھتے تھے، اوران دونوں پتواروں سے اپنی زندگی کی کشتی کھے رہے تھے۔وہ سچے اردو دوست تھے اور اردو زبان کے عملی نفاذ کے لیے تحریکیں چلاتے اور اردو کے لیے جیتے تھے۔انہوں نے7؍ ستمبر2022ء کو اپنے’ فیس بک‘پر ’ بہار میں دم توڑتی اردو صحافت‘ کے زیر عنوان لکھا ہے:
’’ اردو صحافت بہار کی دم توڑ رہی ہے۔تمام اخبارات حکومت وقت کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہیں۔اہم لیڈ خبروزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کی لگتی ہے۔جب کہ ہندی اخبارات عوامی مسائل کو فوکس کرتے ہیں۔یہ مسلم اداروں کی کار کردگی کا منصفانہ جائزہ کبھی پیش نہیں کرتے ،بلکہ عہدہ کے سربراہ کو خوش کرنے کی پالیسی پر گامزن رہتے ہیں۔کوئی کسی تحریک سے جڑے ذمہ دار خبر، اخبار کو ارسال کرتے ہیں تو تو اسے سرد خانہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔یک طرفہ خبریں شائع ہوتی ہیں۔حکومت کی طرف سے ملنے والے اشتہارات کا اردو ترجمہ کرنا مناسب نہیں سمجھتے ،صفحۂ اول پر بھی جیکٹ مین ہندی کا بڑا اشتہار ہوتا ہے۔……تمام بڑے اشتہارات اور ٹینڈر صرف ہنی زبان میں شائع ہوتے ہیں۔اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے، اس طرف حکومت کی مطلق توجہ نہیں ہے‘‘۔ [7؍ ستمبر2022ء ،فیس بک]
اشرف استھانوی کی 24؍ ستمبر2022ء کی فیس بک کی ایک تحریر علم کی اہمیت اور فضیلت پر ہے،ممکن ہے یہ ان کی آخری تحریر رہی ہو:
’’ علم ترقی کا زینہ۔ کامیابی کی کنجی اور دنیا کی حکومت و قیادت کا پہلا زینہ ہے۔اگر علم ہمار پاس ہے تو سب کچھ ہے، اگر علم نہیں تو سمجھئے کچھ بھی نہیں،کچھ بھی نہیں‘‘۔ [24؍ ستمبر2022ء، فیس بک]
اشرف استھانوی صاحب تالیف و ترتیب تھے۔ان کی درج ذیل کتابوں تک ہماری بالواسطہ؍ بلا واسطہ رسائی رہی ہے۔
-1 ’مجھے بولنے دو‘سے ’ مجھے چُپ رہنے دو‘ تک،مرتبہ اشرف استھانوی
یہ بے باک لب و لہجہ کے اردو صحافی رضوان احمد کے مجموعے کی باز ترتیب ا ور تقدیم ہے اور اشرف استھانوی کی سماجی ، سیاسی ،صحافتی اورفکری ترجیحات کا مظہر ہے۔اس کتاب کے بارے میں کامران غنی لکھتے ہیںـ:
’’ یہ کتاب اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس مختصر سی کتاب میں رضوان احمد مرحوم کی مکمل زندگی کا تقریباً احاطہ کرلیا گیا ہے۔مرتب نے رضوان احمد کے جو منتخب مضامین اس کتاب میں شامل کیے ہیںوہ مرتب کے حسن ترتیب کے غماز ہیں۔یہ مضامین سیاسی نوعیت کے بھی ہیں ،سماجی، قومی و ملّی نوعیت کے بھی۔ان مضامین کو پڑھ کر رضوان احمد کی سیاسی بصیرت اور قومی و ملّی دردکا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔……اشرف استھانوی نے اس کتاب کے توسط سے فوت شدہ صحافیوں کو یاد کرنے اور ان کی تحریروں کو زندہ رکھنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے‘‘۔ [ ’مجھے بولنے دو‘سے ’ مجھے چُپ رہنے دو‘ تک،مرتب اشرف استھانوی، مبصر کامران غنی ،تعمیر نیوز،14؍ جون2015ء]
-2 عظیم مجاہد آزادی اور بہار کے معمار پروفیسر عبد الباری[2012ء]
یہ عظیم مجاہد آزادی ،ٹریڈ یونین رہنما اورجدید بہار کے معمار پروفیسر عبد الباری کے سوانحی احوال اور سیاسی و سماجی خدمات پر اوّلین کتاب ہے۔قارئین کے لیے ہم اس کتاب کے مشتملات کی فہرست نقل کررہے ہیں:
پیش لفظ، پروفیسر عبد الباری جنہیں فراموش کردیا گیا،پروفیسرعبد الباری ولادت سے شہادت تک، پروفیسرکی شہادت سازش کا حصّہ، بہار کی حکومتوں نے بھی نظر انداز کیا، پروفیسربطور مزدور لیڈر،ڈاکٹر راجندر پرساد اور باری فیملی، ڈاکٹر راجندرکے خطوط،ایک تاریخی واقعہ اور سعیدہ باری کی درخواست، پروفیسر عبد الباری کی اہم تصاویر، نتیش حکومت سے اُمید،پروفیسرعبد الباری اور ہماری ذمہ داریاں،ایک بار اپنے مہرباں کو یاد کرلو،دانشوروں کے تاثرات۔
-3 مہان سوتنترا سینانی اِیوم بہار کے نرماتا پروفیسر عبد الباری[2012ء، ہندی]
یہ در اصل ان کی تالیف ’عظیم مجاہد آزادی اور بہار کے معمار پروفیسر عبد الباری‘ کا ہندی ترجمہ ہے ۔اس کا مقصد غیر اردو داں حلقے کو پروفیسر عبد الباری کے سوانحی احوال، تعلیمی،سیاسی اور سماجی خدبات سے روشناس کرانا ہے۔
-4 شیخ شرف الدین احمدیحیٰ منیری[2013ء، ہندی]
یہ کتاب عظیم روحانی پیشوا صوفی شیخ شرف الدین یحییٰ منیریؒ کے خاندانی و سوانحی احوال اور علمی آثار پر مشتمل ہے۔اس میں’پرستاؤنا ‘کے بعد بہار میں مسلمانوں کا آگمن،سلطان المخدوم شیخ کمال الدین یحییٰ منیریؒ،مخدوم جہاں کا ویکتِتواور کرتِتو،مخدوم جہاں کا ادبھُت ویکتِتو،حضرت مخدوم شرف الدین کے جیون کا اَنتِم دن اور سُورگ باس، حضرت مخدوم شرف الدین : جیون درشن،حضرت مخدوم شرف الدین کے پرمکھ خلیفہ اور مرید،حضرت شیخ مخدوم شرف الدین کے اُترادھیکاری،مخدوم الملک اپنی رچناؤں کے درپن میں،مخدوم شیخ شرف الدین ؒ کے مکتوبات، مکتوبات کا شیکچھک اور ساہتیک مہتّو، مکتوبات صدی، مکتوبات دو صدی،مکتوبات بست و ہشت، ملفوظات[پروچن سنگرہ]،تصنیفات[رچنائیں]،شیخ شرف الدین کا وارسِک عرس سماروہ [چراغاں]،آستانۂ مخدوم جہاں کی پرمُکھ تصویریں، حضرت مخدوم جہاں کے سچے اَنویائی سید شاہ کمال الدین فردوسیؒ،مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری میری نظر میں: ڈاکٹر فادر پال جیکسن،حضرت مخدوم کے سچے بھگت مدراسی بابا،جس کو چاہا بنا دیا کامل،مخدوم جہاں کے ایک اور بھگت صوفی منصور احمد خاں نقشبندی مجددی،خدمت گزار بن کے وہ مخدوم ہوگئے،چِنتکوں کے وِچار۔
-5 صدائے جرس [ بہار کے لعل و گہر]
یہ در اصل سیاسی، سماجی، مذہبی، ادبی، لسانی اور شخصی موضوعات پر لکھے گئے ان کے کالموں کا مجموعہ ہے، جو اکیسویں صدی کی پہلی ڈیڑھ دہائی کے دوران بہار اور ملک کے موقر اخبارات، رسائل اور جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔قارئین کی سہولت کے لیے ان کالموں کو تین موضوعاتی حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصّے میں سیاسی، سماجی، تعلیمی اورلسانی مسائل کے ساتھ ہی فسادات کے مظلومین کی کسمپرسی اور انصاف سے محرومی اور ذرائع ترسیل و ابلاغ کے ناروا کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔کتاب کے دوسرے حصّے کو دو ذیلی حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے ،اس کے حصّۂ اوّل میں بہار کے [اُس وقت کے باحیات ] لعل و گہرمولانا سید محمدو لی رحمانی،ماہر تعلیم اشفاق کریم،ڈاکٹر اعجاز علی، پروفیسر ایم باری،اشفاق الرحمن،خورشید اکبر،خورشید احمد اورسیاسی رہنما تسلیم الدین کی خدمات کا تذکرہ ہے اور اس کے دوسرے حصّے میں بہار کے مرحوم اکابربانی خدا بخش لائبریری خان بہادر خدا بخش خاں،بانی مدرسہ شمس الہدیٰ جسٹس شمس الہدیٰ،مولانا مظہر الحق،مولانا ابو الو الکلام آزاد کا بہار سے تعلق،بہار کے معمار پروفیسر عبد الباری، نامور صحافی،سیاسی رہنما اورسالار اردو غلام سرور،میر ثانی ڈاکٹر کلیم عاجز،معتبر شاعر رمز عظیم آبادی،کیف عظیم آبادی، معروف صحافی رضوان احمد،شاارق اجے پوری اور ماہر نوادرات ٹی آر خاں کی خدمات کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اشرف استھانوی کی ترجیحات اور فکریات کی توقیت میں معاون ہے۔
-6فاربس گنج کا سچ
یہ کتاب فاربس گنج کے سانحہ پر اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کی اشاعت سے نہ صرف بہار، بلکہ ہندوستان میں تہلکہ مچ گیا گیا تھا اور اشرف استھانوی کی حق گوئی، بے باکی، جرأت اور جسارت کا خوب عتراف ہواتھا، مگر اس سانحے کے مجرموں کو کیا قرار واقعی سزا ملی؟ اس سچ اور حق لکھنے کا حاصل کیا رہا؟بلا شبہہ اشرف استھانوی نے تو اپنے حصّے کا کام کردیا تھا،مگر کیا ہم نے؟ہمارے قومی، ملّی اور سیاسی رہنماؤں نے بھی ا پنے اپنے حصّے کا کام کیا؟یہ سوال اشرف استھانوی کے ذہن ہنوز قائم تھا۔
-7 ٹوٹی سلیٹ آدھی پنسل
بہار کے سیاسی گلیاریوں میں اشرف استھانوی کی آمد و رفت رہی ہے ۔اپنے لیے بہت ہی کم ،بلکہ شاید نہیں،افراد قوم کے لیے ہی زیادہ،کہ ارباب اقتدار کچھ اپنی قوم کے کچھ حاصل کراسکیں۔ یہ کتاب سابق وزیر اعلیٰ بہار جتن رام مانجھی کے سوانحی احوال پر مشتمل اور ان کی زندگی کے نشیب و فراز کی کہانی ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ اپنے وزارت علیا کے دور میں جتن رام مانجھی انہیں کسی بڑے منصب پر بٹھانا چاہتے تھے اور ضابطے کی کاروائی بھی تکمیل کے آخری مرحلے میں تھی کہ وہ سابق وزیر اعلیٰ ہوگئے اور اس فائل گرد کی دبیز تہوں سے اَٹ گئی اور سب کچھ قصّۂ ماضی ہوگیا۔
جتن رام مانجھی اب بھی اقتدار میں شریک ہیں،لیکن استھانوی اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور میں ذاتی طور پر جانتاہوں کہ اشرف استھانوی کے مالی اور معاشی حالات غیر مستحکم ، بلکہ ناقابل بیان حد تک سقیم رہے۔اُنہیں استھانوی مرحوم کے پس ماندگان کی خبر گیری کرنی چاہئے۔پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ وزیر اعلیٰ بہار، نائب وزیر اعلیٰ بہار ، متعدد مقتدرسیاسی رہنماؤں اور اردو دوستوں نے اشرف استھانوی مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا ہے، جو مرحوم کا حق تھا، اب سب سے بڑا اور سچاخراج عقیدت یہ ہوگا کہ مرحوم کے ورثاء کی خبر گیری کی جائے اور انہیں مالی دشواریوں اور معاشی آزار سے بے نیاز کردیا جائے۔
اشرف استھانوی پر ہماری یہ وفیاتی تحریر ہے،ان کی شخصیت ،صحافت،اردو دوستی اور ان کی فکریات پر کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد ہی بہتر طور پر لکھا جا سکے گا۔
مصادر
-1 اردو صحافی بہار کے[بشمول جھار کھنڈ]، ڈاکٹر سید احمد قادری،روشان پرنٹرس، دہلی،2015ء، ص63-64
-2شذرات،خورشید پرویز،روز نامہ فاروقی تنظیم پٹنہ؍ رانچی، 19؍ نومبر2022ء، ص6
-3 ’مجھے بولنے دو‘سے ’ مجھے چُپ رہنے دو‘ تک،مرتبہ اشرف استھانوی، مبصر کامران غنی ،تعمیر نیوز،14؍ جون2015ء
-4فیس بک 7؍؍ ستمبر2022ء ،اشرف استھانوی
-5فیس بک 7؍؍ ستمبر2022ء ،اشرف استھانوی
-6شذرات،خورشید پرویز،روز نامہ فاروقی تنظیم پٹنہ؍ رانچی، 24؍ نومبر2022ء، ص6