Home ستاروں کےدرمیاں اشرف استھانوی:یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے-ڈاکٹر نورالسلام ندوی

اشرف استھانوی:یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے-ڈاکٹر نورالسلام ندوی

by قندیل

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

آہ !اشرف استھانوی بھی گذرگئے،15؍نومبر2022بروزمنگل کودفترسے پٹنہ واپس آرہاتھاکہ راستے میں ان کے انتقال کی خبرملی اورخرمن سکون وچین کوخاکسترکرگئی۔وہ عمررسیدہ نہیں تھے ،لیکن جس بیماری سے دوچارتھے ایسی خبرغیرمتوقع نہیں تھی۔وہ گذشتہ کئی سالوں سے قوت گویائی کے مرض میں مبتلا تھے،اور جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا،زندگی کے آخری ایام میں نہایت کمزور، نحیف اور لاغرہو گئے تھے،چونکہ وہ سوشل میڈیا پر نہایت فعال رہا کرتے تھے، اس لیے ہر ایک کو اس کا علم نہیں تھا کہ وہ قوت گویائی سے محروم ہیں اور نہایت کشمکش کی زندگی گذار رہے ہیں،اس وقت ان کی حیثیت بہارکے اردوصحافتی منظرنامہ پرایک آفتاب کے مانند تھی۔ آفتاب صحافت کے غروب ہونے پر آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا،دل کوچوٹ لگی اورکافی صدمہ پہنچا۔ نگاہوں میں ان کاسراپادیرتک گھومتارہا۔سنیئر اور مشہور صحافی جناب اشرف استھانوی صاحب ایک زندہ دل انسان تھے اورانسانی زندگی کے مسائل اوراتارچڑھائوسے جینے کاہنرسیکھاتے رہے۔انہوں نے پوری زندگی قلم وقرطاس کی آبلہ پائی میں گذاردی۔ایک صحافی ،مضمون نگار،کالم نگاراورمصنف کی حیثیت سے اپنی جداگانہ شناخت وامتیازرکھتے تھے۔

سراپا
اوسط سے کچھ نکلتاقد،چوری پیشانی،چہرے پرہلکی داڑھی،بڑی بڑی آنکھیں اوراس پربڑے سائزکالال رنگ کاچشمہ چہرے کوپرنوراوربارعب بنادیتاتھا، کبھی شرٹ پینٹ اورکبھی کرتاپائے جامہ زیب تن کرتے۔وضع داری اورحلم وبردباری ان کے چال ڈھال سے عیاں تھی ،تواضع،خوداری،نفاست پسندی،خاکساری اورعلماء کی قدردانی جیسے اوصاف سے متصف تھے، جس کے سبب ملاقاتی ان کی طرف کھینچتے تھے۔اورجدھرنکلتے لوگوں کی نگاہ ان کی طرف اٹھ جاتی۔

میرے تعلقات
ان سے میرے تعلقات ڈیڑھ دہائی پرمحیط تھے۔ان کا مجھ سے برادرانہ ،عزیزانہ اور مشفقانہ تعلق تھا۔میری ان سے پہلی ملاقات 2008 میں بہاراردواکادمی کے ایک پروگرام میں ہوئی،انہوں نے مجھ سے کہاکہ میں آپ کواردوکے پروگراموں میں پابندی سے شرکت کرتے ہوئے دیکھتاہوں، اس لئے آپ سے ملنے کی خواہش ہوئی،آپ نہایت مہذب اور شریف نوجوان معلوم ہوتے ہیں، مجھے آپ سے بہت الفت ہے، اس کے بعد ملاقات بات کاسلسلہ شروع ہوگیااورتقریباًروزہی ملاقات ہوتی۔اگرکبھی ملاقات نہیں ہوتی توفون کرکے خیریت دریافت کرتے یاپھرچائے پرمدعوکرلیتے۔وہ مجھ سے بہت مانوس تھے، میری ترقی اور کامیابی پر دل کھول کر خوشی کا اظہار کرتے،دوسروں کے سامنے بڑے اونچے الفاظ میں میرا تعارف کراتے،میرے عزم وحوصلہ کو پروان چڑھاتے، سال 2011میں جب میں پٹنہ یونیورسٹی میں ایم اے اردوکاٹاپرہواتوانہوں نے بڑی حوصلہ افرائی کی ،دعاوں سے نوازااورمیرے اعزازمیں بہاراردواکادمی پٹنہ میں ایک اعزازیہ تقریب منعقدکی۔جس کی صدارت جسٹس نیرحسین نے کی تھی۔اس موقع پرانہوں نے میرے والد گرامی جناب عبد السلام صاحب کو بطورخاص مدعوکیااوران کی بھی عزت افزائی کی۔
5نومبر 2015 کو میرے نکاح کی تقریب میں میری دلداری میں میرے وطن جمالپور ضلع دربھنگہ تشریف لائے،اور اس موقع پر مترنم آواز میں اپنا لکھا ہواسہرا پڑھ کر سامعین کو محظوظ کیا، نیز سہرا فریم کروا کر بطور تحفہ مجھے پیش کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کومجھ سے والہانہ محبت تھی،ہرخوشی اورغم میں میرے ساتھ شریک رہتے ،اکثرمسائل ومعاملات میں وہ مجھ سے مشورہ کرتے۔ملی و سیاسی موضوعات پر خاصی گفتگو ہوتی ،میرے محسن تھےوہ، جہاں محسوس کرتے بلاجھجک مجھے مشورہ دیتے۔ بہاراسٹاف سلیکشن کمیشن کے ذریعہ جب اردومترجم کیلئے میرا سلیکشن ہوا توانہوں نے مجھے مبارکبادی کا پیغام بھیجا، جس میں انہوں نے تحریر کیا کہ’’ آپ کو میں کالج کا لکچرر دیکھنا چاہتا ہوں، پھر بھی اردو مترجم کا جو رزلٹ آیا ہے وہ بہتر ہے، کوشش کیجئے کہ پٹنہ ہی میں پوسٹنگ ہو ۔پٹنہ کو خیر آباد نہیں کرنا ہے بلکہ فیملی کے ساتھ راجدھانی پٹنہ میں ہی رہنا ہے، اس سے آپ کی شناخت بنی رہے گی انشااللہ‘‘۔

ابتدائی حالات
اشرف استھانوی کی پیدائش 2فروری 1967 کو بہار کے مردم خیز قصبہ استھانواں ضلع نالندہ میں ہوئی، آپ کا اصل نام ضیاء الاشرف ہے، لیکن قلمی اور علمی دنیا میں اشرف علی تھانوی کے نام سے شہرت پائی۔ والد محترم کا نام نعیم احمد اور دادا کا نام سعید احمد ہے،والد کا سایہ کم عمری میں سر سے اٹھ گیا، آپ کی پرورش و پرداخت میں مولانا سید رضا کریم نے اہم رول ادا کیا، وہ رشتہ میں آپ کے خالو تھے،ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی، پھر جامعہ محمدیہ میں شعبہ حفظ میں داخلہ لیا، اور حفظ کی تعلیم مکمل کی،نالندہ کالج سے انٹر کا امتحان پاس کیا، اس کے بعد پٹنہ آگئے اور 1984 میں پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن پاس کیا۔

صحافتی خدمات
آپ نے زمانہ طالب علمی میں ہی وادی صحافت میں قدم رکھ دیا تھااور صحافت کا آغازپٹنہ سے شائع ہونے والے ایک انگریزی روزنامہ سرچ لائٹ سے مراسلہ کے ذریعہ کیا۔ پھر نالندہ میں روزنامہ قومی آواز سمیت دیگر اردو روز ناموں کی نمائندگی کی، پٹنہ میں جب گریجویشن کر رہے تھے تو اسی وقت اردو روزنامہ قومی آواز میں جرائم کی رپورٹنگ کی خدمت انجام دی، اس کے بعد سے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 35 سالہ صحافتی زندگی میں انہوں نے ہفتہ وار بلٹز ممبئی سے لے کر قومی آواز، انقلاب جدید، سیکولر بہار، قومی تنظیم اور چوتھی دنیا تک میں اپنی خدمات انجام دیں۔سات سالوں تک پٹنہ سے شائع ہونے والے مقبول عام اردو روزنامہ قومی تنظیم کے چیف رپورٹر رہے، روز نامہ انقلاب جدید پٹنہ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کی، حالانکہ روزنامہ ہمارا نعرہ،پٹنہ سے ان کا اکریڈیشن کارڈ جاری ہوا تھا۔کچھ سالوں تک بہار کے گورنر کے پریس صلاح کارکی حیثیت سے عہدے کو وقار بخشا،پندرہ نکاتی پروگرام کے وائس چیئرمین رہے، حکومت کے گلیاروں سے کافی قربت تھی،باوجود اس کے حق بات کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے،
اشرف استھانوی سیاست حاضرہ پر بہت عمدہ تجزیہ کیا کرتے تھے، ان کی تحریروں میں سنجیدگی، معروضیت، ایمانداری جیسے اوصاف پائے جاتے ہیں، جو کسی بھی تحریر میں اثر انگیزی اور زندگی پیدا کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی نئے صحافیوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، کیونکہ صحافت محض پیشہ نہیں بلکہ معاشرت اور سیاست کی سچی اور حقیقی ترجمانی کا نام ہے۔
انہوں نے عام اخبارات اور صحافیوں سے الگ ہٹ کر اردو صحافت میں تازگی پیدا کی، تنقیدی صحافت کا نمونہ پیش کیا، حکومت اور اس کے اعلی افسران کے خلاف سچ بولنے اور لکھنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کیا، بے باکی اور حق گوئی کی پاداش میں کئی بار غیروں اور اپنوں کے عتاب کا شکار بھی ہوئے، مگر اس مرد مجاہد نے کبھی بھی اپنے اصول سے انحراف نہیں کیا، معاملہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے کا ہو یا مشترکہ تہذیب وثقافت کی حفاظت کا، اردو زبان کی بقاء کا مسئلہ ہو یا مظلوموں و کمزوروں کو انصاف دلانے کا، بات اہل اقتدارکی ہو یا کسی ساہوکار کی انہوں نے وہی لکھا اور وہی کہا جوحقیقت تھی، کسی سے دب کر یا سچائی سے منہ موڑ کر کبھی کچھ نہیں لکھا اور ہمیشہ یہی پیغام دیا:
زمانہ لاکھ ڈراتا رہا مگر ہم نے
جو بات کی ہے زمانہ کی روبرو کی ہے
بے باک صحافی اشرف استھانوی نے ہمیشہ اپنی فکر انگیز تحریروں کے ذریعے ملک و قوم کی رہنمائی کی، ان کے بے لاگ تبصرے وتجزیے، سلگتے مسائل پر کالم و مضامین ملک وسماج کو آئینہ دکھانے کا کام کیا، ملک کے مختلف اخبارات، رسائل اور جرائد میں ان کی علمی، تحقیقی اور تفتیشی رپورٹیں اور مضامین بڑے اہتمام کے ساتھ شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نیوز چینلوں پرحساس موضوعات پر بے باک تبصرے اور مباحثے عوام میں کافی پسند کیے جاتے رہے ہیں۔

ہندی صحافت
صحافت کے میدان میں انہوں نے اپنے آپ کو صرف اردو صحافت تک محدود نہیں رکھا، بلکہ ہندی اخبارات و رسائل میں بھی برابر لکھتے رہے، اردو ہی کی طرح ہندی زبان پر بھی ان کو مکمل عبور حاصل تھا، پٹنہ سے شائع ہونے والے ہندی ماہنامہ ’’سیکولر بہار‘‘ کے برسوں ایڈیٹر رہے، اور اپنے بے لاگ اداریے اور تبصرے سے ریاست اور ملک وقوم کو جھنجھوڑتے رہے۔دہلی سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت اردو اور ہندی ہفت روزہ ’’چوتھی دنیا‘‘ اور ماہنامہ’’ مسلم ٹوڈے ‘‘کے ہندی ایڈیشن کے بہار اور جھارکھنڈ کے بیورو چیف بھی رہے۔

اردو کے عملی نفاذ کے لیے جدوجہد
اشرف استھانوی کی خدمات کا دائرہ صرف صحافت تک ہی سمٹ کر نہیں رہ جاتا ہے بلکہ ملک کی مشترکہ تہذیب اور بہار کی دوسری سرکاری زبان اردو کے فروغ نیزسرکاری سطح پر اس کے عملی نفاذ کے لئے آپ مسلسل کوشاں رہے، اس کے لیے تحریک بھی چلائی،اردو آبادی کو اردو اخبارات اور رسائل و جرائد خریدنے، پڑھنے اور اردو زبان میں گفتگو کرنے کے لئے آمادہ کرنا، حکومت کو اردو کے مسائل سے واقف کرانا، اردو داں طبقے کے لیے روزگار کے وسائل مہیا کرانا، اس کے عملی نفاذ کے لیے ٹھوس حکمت عملی طے کرنا، سرکاری دفاتر میں ہندی کے ساتھ ساتھ اردو کا بورڈ آویزاں کرانا جیسے مسئلہ پرآپ ہمیشہ اردو کی بقا کی جنگ لڑتے رہے۔ان کا کہنا تھا کہ اردو زبان کی حفاظت ہماری تہذیبی او ر ثقافتی قدروں کی حفاظت ہے۔

گمنام ادیبوں اور صحافیوں کی پذیرائی
ان کی ہمہ جہت شخصیت کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ لسانی تنظیم عوامی اردو نفاذ کمیٹی بہار کے چیف کنوینر کی حیثیت سے اردو کےبےلوث اور خاموش طریقے پر خدمت انجام دینے والے ادیبوں، شاعروں، قلم کاروں اور صحافیوں کو اعزازات سے نوازا کر ان کی پزیرائی کی، مشہور و معروف شخصیات کو نوازنا کوئی بڑی بات نہیں،بڑی بات تو یہ ہے کہ گمنام اور بے لوث خدام کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نوازا جائے۔ راقم الحروف کو بہت قریب سے ان کی زندگی کو جھانکنے اور دیکھنے کا موقع ملا ہے بغیر کسی تردد کے کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کوقوم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔

تصنیف وتالیف
اشرف استھانوی کو تصنیف و تالیف کا عمدہ ذوق ملا تھا۔گرچہ وہ بنیادی طور پر صحافی تھے اور صحافت ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا، لیکن ساتھ ہی تصنیف و تالیف کا کام جاری رکھا۔ ان کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہو چکی ہیں:فاربس گنج کا سچ (2011)عظیم مجاہد آزادی اور بہارکے معمار پروفیسر عبدالباری(2012) مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ:ایک تعارف(2012) ولایت کے تاجدار اور انسانیت کے علمبردار حضرت شیخ شرف الدین یحیی منیری(2013) ٹوٹی سلیٹ آدھی پنسل سے وزیر اعلی کی کرسی تک جیتن رام مانجھی (2014) مجھے بولنے دو سے مجھے چپ رہنے دو تک رضوان احمد(2015)صدائے جرس بہار کے لعل و گہر(2016)حق پسند صحافی عبدالرافع(2017) ۔ ان کی ایک کتاب ’’آئینہ قانون سازیہ ‘‘زیر طباعت ہے، بیماری ہی کی حالت میں کافی دنوں سے اس پر کام کر رہے تھے۔انہوں نے مسودہ مجھے دکھلایا تھا اور کہا تھا کہ عنقریب کتاب منظر عام پر آنے والی ہے،اس کا اجرا وہ گورنر بہار سے کرانے کا ارادہ رکھتے تھے،لیکن زندگی نے مہلت نہ دی اور وہ راہی عدم ہو گئے۔اشرف استھانوی متنوع موضوعات پر لکھنے کی قدرت و صلاحیت رکھتے تھے، زبان و بیان کو برتنے کا بہترین سلیقہ تھا۔ ان کی بعض کتابوں کی کافی پذیرائی ہوئی، کتابوں کی زبان سادہ، سہل اور سلیس ہے، جس کے سبب فائدہ اٹھانا نسبتاً آسان ہے۔

شعری وادبی ذوق
اشرف علی تھانوی کا شعری ذوق بھی بہت عمدہ اور نفیس تھا، مختلف شعراء کے بہت سے اشعار ان کو یاد تھے اور موقع مناسبت سے پڑھا کرتے تھے۔کبھی کبھی تنہائی میں کوئی غزل یا شعر گنگنا تے،انہوں نے بہت سے اشعار اور نعت لکھے، کئی پروگراموں میں ان کو اپنی لکھی ہوئی نعت پڑھتے ہوئے میں نے سنا اور مترنم آواز میں عشق نبوی سے سرشار ہو کر نعت پڑھتے،بسا اوقات پڑھتے پڑھتے آبدیدہ ہو جاتے۔ ان کے اندر شعر گوئی کی اچھی صلاحیت تھی، یہ اور بات ہے کہ صحافت اور دوسری مصروفیات نے ان کو انہماک کے ساتھ شاعری کی طرف متوجہ ہونے یا اس فن کو اختیار کرنے کا موقع نہیں دیا۔نعت پاک کے یہ اشعار دیکھئے:
تمام نبیوں کا تو محمد جہاں میں بن کر امام آیا
ملائکہ نے درود بھیجا خدا کا تجھ پر سلام آیا
اے فخر عالم تری بدولت خدا کی وحدت کو ہم نے جانا
تری توسط سے یا محمد خدا کا ہم تک کلام آیا
ملے گی ہم عاصیوں کو اشرف شفاعت ان کی جو روز محشر
تو سب کہیں گے یا محمد تو ہی مصیبت میں کام آیا
نعت پاک کا ایک مصرعہ اور ملاحظہ کیجئے :
سویرے اٹھ کے زباں سے یہ کام لیتا ہوں
خدا کے بعد محمد کا نام لیتا ہوں
انہیں اردو سے عشق تھا،مادری زبان اردو کی ترویج و اشاعت کے لئے ہمیشہ جدو جہد کرتے رہے۔دھیرے دھیرے اردو کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے،اس تعلق سے انہوں نے اپنی فکر مندی کا اظہار ایک رباعی میں اس طرح کیا ہے۔ملاحظہ ہو:
اب کہاں ہے رواج اردو کا
بکھر گیا ہے سماج اردو کا
سر پہ بوجھ کا تصور ہے
کون رکھے گا تاج اردو کا
اسی طرح صحافیوں اور قلم کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے چار مصرعے میں اپنی بات کہی ہے:
قلم کارو قلم کا تاج رکھو
ضرورت ہے تمہاری آج رکھو
قلم تلوار پر بھاری پڑے گا
قلم کارو قلم کی لاج رکھو
انہوں نے حوصلہ اور امید سے بھر پور اشعار بھی کہے، دو شعر دیکھیے:
جاگتے رہنا مقدر ضرور بدلے گا
ہمیں یقین ہے منظر ضرور بدلے گا
اندھیری رات ہے تاریکیوں کے پردے سے
اندھیرا چیر کے سورج ضرور نکلے گا
ایک شعر میں اپنا روداد غم اس طرح بیان کیا ہے:
روداد غم سنوگے تو رو کر کہو گے تم
اشرف سیہ نصیب کا دل چور چور ہے
ان اشعار سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اندر شعر گوئی کی اچھی صلاحیت تھی اور وہ بہترین اشعار اور نعت کہا کرتے تھے، یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اس فن کو اختیار نہیں کیا، البتہ جب طبیعت آمادہ ہوتی تو اشعار موزوں کر لیتے۔

نئ نسل کی آبیاری اور حوصلہ افزائی
اشرف تھانوی کو نئی نسل کی آبیاری اور ترقی کی فکردامن گیر رہی۔ وہ نئی نسل کو مستقبل کا معمار سمجھتے تھے،ان کی اصلاح بھی کرتے اور حوصلہ افزائی بھی، نئے لکھنے پڑھنے والوں سے ان کو بڑی محبت تھی، ان کی رہنمائی کرنا، ان کے کام آنا، ان کا خیال رکھنا، ان کو خوش دیکھنا،ان کی ترقی کے لیے بے چین رہنا ان کے مزاج کا خاصہ تھا۔وہ ان کی ہمت افزائی میں کبھی بھی بخالت سے کام نہیں لیتے، ان کی عملی زندگی کے لیے مفید مشورے دیتے۔ ایسے نوجوانوں کو تلاش کرتے اور ان کی قلمی آبیاری کرتے،ان کے لیے اپنا دست تعاون ہمیشہ دراز رکھتے، وہ اپنے عزیزوں کے ساتھ ملنے جلنے میں کبھی کسی طرح کا تکلف نہیں برتتے تھے، حالانکہ وہ بارعب انسان تھے، باوجود اس کے وہ بہت سادگی اور محبت سے ملتے تاکہ اپنے عزیزوں کو کسی طرح کا حجاب نہ ہو، میں نے خود مشاہدہ کیا کہ وہ اپنے عزیزوں سے بہت محبت و شفقت سے ملتے تھے، خرد نوازی ان کی فطرت تھی، غالباً یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کے لکھنے پڑھنے والوں کا ایک بڑا طبقہ نہ صرف یہ کہ ان سے متاثر تھا بلکہ ان کا قدر دان تھا۔

علماء سے تعلق
موصوف یوں تو اہل علم کی بہت قدر کرتے تھے، تاہم علماء کرام کا بہت احترام کرتے تھے، علماء کی صحبت میں بیٹھتے اور مجلسی آداب کا پورا خیال رکھتے،اسی طرح مدرسہ کے طلباء پر بڑی شفقت کی نظر رکھتے، علماء اور اہل اللہ کی خدمت اپنی سعادت سمجھتے تھے،اسلاف اور بزرگان دین سے محبت ہی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے مخدوم جہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کی سیرت پر کتاب تحریر کی۔

چند مخصوص عادات و خصائل
ہر آدمی کے کچھ مخصوص عادات وخصائل ہوتے ہیں، اللہ تعالی نے ہر انسان کو متنوع خصائل و خصوصیات کا حامل بنایا ہے، اشرف استھانوی بھی اس کلیہ سے پاک نہیں تھے، ان کو اپنی یادگار تصاویر سجانے کا بڑا شوق تھا، وہ ہر یادگار مواقع اور اہم تقریبات کی تصاویر فریم کرواتے اور اس کو نمایاں جگہ پر لگا کر رکھے تھے، وہ اپنے روم میں چاروں طرف ایسی تصاویر اور مومنٹوسجا کر رکھے ہوئے تھے، انہوں نے میری بھی کئی تصاویر فریم کروا کر عنایت فرمایا۔اسی طرح سوشل میڈیا پر بہت سرگرم رہا کرتے تھے، ہر روز نئ نئ پوسٹ شیئر کیا کرتے تھے، وہ اپنے چاہنے والوں سے امید رکھتے تھے کہ وہ اس پر کمنٹ کریں، وہ کمنٹ کا پرنٹ نکلواکر رکھا کرتے تھے، میں نے ان سے متعدد بار کہا کہ میری نظر میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، میں کمنٹ پر زیادہ توجہ نہیں دیتا ہوں، تو انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے،میں تو کمنٹ کا پرنٹ نکلوا کر رکھتاہوں، یہ بھی کام کی چیز ہے۔
مرحوم مختصر چیزوں پر قناعت کرنے والے تھے، ان کی شخصیت ایسی تھی وہ بڑی دولت حاصل کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے نہ تو اپنے لیے کچھ کیا اور نہ ہی گھر والوں کے لئے۔ان کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل تھے، اگر وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں نہیں پرتے تو بڑے بڑے مقاصد حاصل کر سکتے تھے، بڑے مقاصد کو حقیر چیزوں پر انہوں نے قربان کر دیا۔ وہ خلوص و وفا کے پیکر تھے،ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی،پر کشش شخصیت کے مالک تھے وہ، ان کا مزاج و انداز متاثر کرنے والا تھا، بقول ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی:
’’اشرف استھانوی کی شخصیت میں سادگی اور بے دریغ پہلو نمایاں ہیں،خفیف مسکراہٹ میں ڈوبے ہوئے نرم لہجےاور ہیر پھیر سے پاک طرزِ گفتگواور ان کے پر خلوص انداز سے متاثر ہونا ہی پڑتا ہے۔ خوبیاں ان کی ذات میں اس طرح مدغم ہیں کہ ان کی شخصیت کا نمایاں حصہ بن گئی ہیں‘‘۔
اشرف استھانوی نہ فرشتہ تھے اور نہ ہی متقی ہونے کا دعویٰ تھا، وہ بھی ایک بشر تھے، لہٰذا ان کی زندگی بھی بشری کمزوریوں اور خامیوں سے پاک نہیں تھی۔

اعزاز وایوارڈ
ان کی علمی، ادبی، صحافتی اور تصنیفی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے درجنوں اکادمیوں اور تنظیموں نے انہیں اعزازات سے نوازا، سال 2011 میں غلام سرور ایوارڈ برائے صحافت، 2008 میں راج بھاشا سامان ایوارڈ، 2013 میں غالب اکیڈمی ایوارڈ، رفیق اردوایواڈ،آفتاب صحافت ایوارڈ، مین آف دی ایئر ایوارڈ، اکبر رضاجمشید صحافت ایوارڈ، 2015 میں ایوان اردو مجلس، پٹنہ نے ان کے گراں قدر صحافتی، تصنیفی اور اردو کےفروغ کے لیے بیش بہا خدمات کے اعتراف میں لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ سے نوازا۔ سہ ماہی مکمل انقلاب نے 2016 میں اردو صحافت کے دوسو سال مکمل ہونے پر خصوصی شمارہ حق گو صحافی اشرف استھانوی نمبر شائع کر کے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔32 صفحات پر مشتمل یہ خصوصی شمارہ اشرف استھانوی کی خدمات کا اعتراف ہے۔

خاتمہ
اشرف استھانوی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں ،لیکن وہ ہمیں یاد آتے رہیں گے،ان کے کارنامے تادیر زندہ رہیں گے۔ان کے جنازہ کی پہلی نماز 16 نومبر۲۰۲۲ کو صبح ساڑھے آٹھ بجے فقیر باڑہ مسجد ،پٹنہ سے متصل ادا کی گئی، نمازجنازہ فقیر باڑہ مسجد کے امام مولانا عتیق اللہ قاسمی نے پڑھائی، اس کے بعد میت کو ان کے آبائی وطن استھانواں لے جایا گیا، جہاں مدرسہ محمد یہ کے احاطہ میں بعد نماز ظہر دوسری مرتبہ جنازہ کی نماز ادا کی گئی،یہاں نماز جنازہ مدرسہ محمدیہ کے پرنسپل مولانا حشمت علی نے پڑھائی،اور مقامی قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے۔

مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

You may also like

Leave a Comment