نئی دہلی:آنے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر صوبہ کی مختلف سیاسی جماعتیں سرگرم عمل ہیں، لیکن انہی سرگرمیوں کے بیچ اسمبلی حلقہ انتخاب اور پارلیمانی حلقہ انتخاب کی تعیین نو کو لے کر صوبہ کے مختلف حصوں میں کافی ردعمل دکھائی دے رہا ہے۔ انہی سیاسی سرگرمیوں کے بیچ گذشتہ روز سپریم کورٹ نے حلقۂ انتخاب کی تعیین نو کے حوالے سے ایک اہم حکم جاری کیاہے۔ در اصل جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشد مدنی کے حکم سے آسام صوبائی جمعیۃ علماء کے صدر مولانا مشتاق عنفر نے جمعیۃ علماء کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ درج کرایا تھا، اسی مقدمہ کی بنیاد پر گذشتہ روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس اے ایس بوپانہ، جسٹس وی راما سبریمنی یم نے سماعت کے دوران مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کو حلقہ انتخاب کی تعیین نو کے حوالے سے 2 اکتوبر کو الگ الگ حلف نامہ داخل کرکے ان کو اپنا موقف واضح کرنے کا حکم دیاہے۔واضح رہے کہ اسمبلی حلقۂ انتخاب اور پارلیمانی حلقۂ انتخاب کی تعیین نو کے سلسلےمیں 2002 کے ایک حکم نامہ کی بنیاد پر مولانا مشتاق عنفر نے سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ درج کیا تھا، جس کا نمبر ہے: 876/2020اسی مقدمہ کی سماعت میں گذشتہ روز سپریم کورٹ نے حکومت کو 2/ اکتوبر کو حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیاہے۔ سماعت میں جمعیت علماء کی طرف سے ایڈوکیٹ مینکا گروسامی، فضیل احمد ایوبی، دپالی دھیویدی، عباد مشتاق اور آکانشا راے موجود تھے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2002 کے حکم نامہ کی بنیاد پر حلقہ انتخابات کی تعیین نو ممکن نہیں ہے، کیوں کہ 2002 سے 2020 آتے آتے آبادی میں کافی تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ اور اس کے بعد کوئی مردم شُماری بھی نہیں ہوئی۔ اس لئے نئی مردم شُماری کے ذریعہ یہ کام کرنا ضروری ہے۔
آسام میں اسمبلی حلقہ انتخاب کی تشکیل نو کا معاملہ :جمعیۃ علما کی عرضی پر سپریم کورٹ نے مرکز و ریاستی حکومت سے مانگا جواب
previous post