Home نقدوتبصرہ اوراق پارینہ (جاسوسی دنیا کے پیش لفظ، اداریے اور پیش رس) – طیب فرقانی

اوراق پارینہ (جاسوسی دنیا کے پیش لفظ، اداریے اور پیش رس) – طیب فرقانی

by قندیل

 

اوراق پارینہ ادریس شاہ جہاں پوری(ادریس احمد خاں) کی تازہ ترین کتاب ہے۔ موصوف حکومت ہند کے متعدد محکمہ جات میں مختلف عہدوں پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ تخلیق، ترجمہ اور تحقیق ان کے ادبی میدان ہیں۔ اس کی اجمال اور تفصیل زیر نظر کتاب میں درج ہے۔ انھیں ابن صفی سے بے پناہ لگاؤ ہے. اسی لگاؤ اور محبت کا نتیجہ ہے کہ فنگر پرنٹس، جگر لخت لخت (آٹھ مضامین) اور زیر نظر کتاب وجود میں آئی۔ ادریس شاہ جہاں پوری ایسے محقق ہیں جنھوں نے براہ راست ابن صفی کی تخلیقات سے استفادہ کیا ہے. یعنی وہ سکینڈ ہینڈ محقق نہیں۔ یعنی وہ اصل ماخذ کے قاری، متولی اور محقق ہیں. اسے یوں سمجھیں کہ ابن صفی نے جاسوسی ناول نگاری کا آغاز فروری 1952 میں کیا، ادریس شاہ جہاں پوری دسمبر 1956 ء میں پیدا ہوئے۔ کم عمری سے ہی جاسوسی دنیا اور ماہ نامہ نکہت ان کے مطالعے کا حصہ رہے۔ ان کے پاس ابن صفی کے اسی (80) فی صد ناولوں کے پہلے ایڈیشن محفوظ ہیں. (اور محفوظ ہونا تو ان کی محبتِ ابن صفی کی دلیل ہے ہی وہ ابن صفی کے انسائیکلوپیڈیا بھی ہیں. ایک کلک کرو اور ساری تفصیل حاضر) باقی بیس فی صد کے لیے انھوں نے کہاں کہاں کی خاک چھانی، کن کن سے رابطے کیے؛ اس کی روداد بھی کم و بیش اس کتاب میں آگئی ہے۔

 

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے "اوراق پارینہ” تحقیقی کتاب ہے. یہ کتاب ابن صفی کی ان تحریروں کی تحقیق و تالیف و ترتیب ہے جو وہ اپنے ناولوں کی اشاعت کے وقت لکھتے تھے. یعنی ابن صفی اپنے ناولوں کے پیش لفظ اور پیش رس بھی لکھتے تھے۔ ہندستان میں ان کے ناولوں کے پبلشر عباس حسینی اداریے بھی لکھتے تھے. یہ کتاب انھی پیش لفظ، پیش رس اور اداریوں پر مشتمل ہے۔ ابن صفی کے ناولوں کے پیش رس پر مشتمل ہندستان میں اس سے قبل مناظر عاشق ہرگانوی کی کتاب آئی تھی۔ لیکن وہ کتاب صرف کتاب تھی، ادھوری اور مبہم. ادھوری اس معنی میں کہ اس میں صرف ایک سو ایک اداریے شامل کیے گئے، باقی کا کیا ہوا؟ معلوم نہیں. مبہم اس معنی میں کہ انھوں نے ماخذ کا مکمل ذکر نہیں کیا. ابن صفی کے انتقال کو چالیس برس سے زاید عرصہ ہوا۔ ایسے میں ان کی کسی بھی تحریر و تخلیق کی اشاعت بنا اصل مکمل ماخذ کے ذکر کے ابہام اور غیر سنجیدگی کے در وا کرے گی۔
ادریس شاہ جہاں پوری اس حقیقت سے خوب واقف ہیں، انھوں نے کمال احتیاط سے تمام ماخذ مع تاریخ و سنین کا ذکر کیا ہے۔ اگر انھیں تاریخ دستیاب نہیں ہوسکی ہے تو اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگر کسی اداریے / پیش لفظ/ پیش رس کا پہلا اڈیشن دستیاب نہ ہوسکا ہے تو اس کا ذکر بھی کردیا گیا ہے. انھوں نے اپنے مقدمے میں پیش لفظ، پیش رس، اداریہ، دیباچہ ،مقدمہ، تقریظ کی ماہیت و نوعیت پر بھی روشنی ڈالی ہے. انھوں نے ابن صفی کے پیش رس کی اہمیت کے پیش نظر ان پر تنقیدی روشنی بھی ڈالی ہے تا کہ اندازہ ہو کہ ابن صفی کے ناولوں کی طرح ہی ان کے پیش لفظ بھی اپنے موضوع و اسلوب کے اعتبار سے منفرد ہیں. چنانچہ ناول موت کی چٹان کے پیش رس کا یہ اقتباس دیکھیں، ابن صفی لکھتے ہیں:
"ایک صاحب نے مشورہ دیا تھا کہ ریوالور لٹکا کر نکلا کیجیے! اس طرح کم از کم آپ جاسوسی ادیب تو معلوم ہو سکیں گے. میں نے عرض کیا تھا کہ مشورے کی روشنی میں ٰغیر جاسوسی ادیبوں کو کان پر قلم رکھ کر نکلنا چاہیے۔ بھائی! کیا یہ ضروری ہے کہ روزانہ کی زندگی میں بھی آدمی ادیب معلوم ہو. یقین کیجیے ایسے لوگ اب سب کچھ ہوجاتے ہیں لیکن آدمی بالکل نہیں رہتے”۔
اس سے ہمیں اس زمانے کے رجحان، زندگی اور مشغلہ زندگی پر ابن صفی کے خیالات کا اندازہ تو ہوتا ہی ہے ابن صفی کے اسلوب بیان اور تنقیدی خیالات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
معلوم ہو کہ ابن صفی نے اپنے ادبی سفر کا آغاز آلہ آباد سے کیا، وہ ماہنامہ نکہت کے معاون مدیر بھی رہے، جب جاسوسی دنیا کا آغاز ہوا تو ابن صفی اس کا اداریہ "پیش لفظ” کے نام سے لکھا کرتے تھے. جب وہ کراچی منتقل ہوگئے تو اپنے ناولوں کا اداریہ” پیش رس" کے عنوان سے لکھنے لگے، جب کہ ہندستانی ایڈیشن کے لیے اداریہ عباس حسینی خود لکھا کرتے تھے، جب کہ کئی ناولوں کا اداریہ "نقوش" کے عنوان سے بھی لکھا گیا۔ ادریس شاہ جہاں پوری کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ان سبھی تحریروں کو تلاش و تحقیق کرکے یک جا جمع کیا. اور ان کی نوعیت، اہمیت و افادیت پر "ورق جدید دوئم" کے زیر عنوان ایک پر مغز تحریر بھی لکھی، جب کہ "ورق جدید اول" کے زیر عنوان اس راہ کی مشکلات اور اپنے منصوبوں کا ذکر کیا ہے۔

 

اس کے علاوہ انھوں نے ان خطوط کو بھی بہ حوالہ جمع کیا جو قارئین نے ابن صفی کو لکھے، اور اسے "ابن صفی گوشۂ احباب کے آئینے میں" کا عنوان دیا۔ یہ تفصیلی مضمون رسایل و جراید میں شایع شدہ ہے لیکن اس کتاب میں کچھ اضافوں کے ساتھ شامل ہے۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کون کون لوگ ابن صفی کے قارئین میں شامل تھے اور ان کے جذبات و احساسات کیا تھے۔ اسی طرح ایک قیمتی مضمون” آکہ وابستہ ہیں… " کے عنوان سے شامل کتاب ہے جس میں اسرار کریمی پریس جہاں سے جاسوس دنیا چھپا کرتا تھا، کا تعارف تو ہے ہی آلہ آباد کے دوسرے چھاپہ خانوں، کاتبوں، عباس حسینی اور مجاور حسین (ابن سعید) جیسی شخصیات اور ان کے اہل خانہ کا تاریخی ذکر ہے. اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماہ نامہ شب خون کا دفتر بھی اسی گلی میں تھا جہاں سے جاسوسی دنیا شایع ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ابن صفی کے ناولوں کی مکمل فہرست درج کی ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ سلسلہ نمبر، ناول کا نام، ہندستان میں اشاعت کی تاریخ مع ماہ و سنین، فی پرچہ قیمت، سالانہ قیمت، پاکستان میں اشاعت کی تاریخ مع ماہ و سنین کا ذکر ہے. اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ابن صفی کے ناولوں کی قیمت کس طرح بڑھتی گئی اور کہاں تک پہنچی، اور ہند و پاک سے شایع شدہ ناولوں کی تعداد میں فرق کیوں ہے۔ اس کے لیے ادریس شاہ جہاں پوری نے الگ سے نقطہ وار مختصر نوٹ بھی لکھا ہے۔

 

416 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ابن صفی کے شائقین کے لیے بڑا سرمایہ ہے. اور ان لوگوں کے لیے اوریجنل مواد بھی ہے جو ابن صفی کے تخلیقی کارناموں پر تحقیقی کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہارڈ کور میں عمدہ کاغذ پر اچھی طباعت بصیرت و بصارت دونوں کے لیے خوش گوار ہے. کتاب رعایتی قیمت پر دستیاب ہے۔ رابطہ کے لیے درج ذیل موبائل نمبر نوٹ کرلیں : 9711700720

You may also like