ابھی آدھی سے زیادہ رات گزری تھی کہ نہ جانے کیوں اور کیسے میری آنکھ کھل گئی۔
میں نے بہت کوشش کی کہ سو جائوں، مگر نیند تھی کہ کسی طرح آنے کو راضی نہ تھی۔
میں نے لائٹ آن کی اور گھڑی دیکھی تو وہ صبح کے چار بجا رہی تھی۔ اچانک لیٹے لیٹے میں اُٹھ بیٹھا اور نئی نئی شرارتیں ذہن میں جنم لینے لگیں۔ بہت غور و فکر کے بعد میں نے یہ طے کیا کہ آج کچھ شرارتیں کرنی چاہیے کیوں کہ آ ج تو اسی کا دن ہے۔ بس پھر کیا تھا۔
’’چور چور … چور‘‘ چلّاتے ہوئے میں اپنی امی کے پلنگ پر منہ کے بل دھڑام سے گِر پڑا۔ آواز اتنی تیز تھی کہ ان کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ سبھی بہن بھائی بھی جاگ اٹھے اور ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ چونکہ گھر پر والد صاحب نہیں تھے اس لئے ذرا امی بھی ڈریں اور فوراً سبھی کمروں کی لائٹ روشن کی اور پھر میرے کمرہ کا جائزہ لیا۔ میرے کمرہ میں چور تو چور ایک چوہا بھی نظر نہ آیا۔
کہا ں ہے چور ؟۔ جو چور چور چلّا رہے ہو!۔ امی بڑ بڑائیں۔
وہ سوالات پہ سوالات کئے جارہی تھیں اور میں بالکل خاموش اور گُم سُم بیٹھا ہوا تھا۔
اس طرح چند لمحے گزر گئے۔ اچانک میں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ اب تو سب لوگ اور ڈر گئے۔
کیا بات ہے رئیس ؟۔ ا می نے مجھے جھنجھوڑا۔
ارے واہ بھئی واہ ۔۔۔ آپ لوگ اس قدر ڈرپوک ہیں! میں نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
بھیا ڈرنے کی تو بات ہے۔ میری چھوٹی بہن ناہید بولی۔
ارے پگلی آج فرسٹ اپریل ہے۔ میں نے اپنی معلومات کا اظہار کیا۔
اچھا تو آج آپ نے فرسٹ اپریل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سب کو فول (بیوقوف) بنایا ہے۔میری بہن فردوس بولی۔
جی ہاں ، بہت دیر کے بعد آپ سمجھیں۔
یہ کہتے ہوئے میں اپنے کمرے کی طرف لپکا تاکہ میںامی کی خاطر تواضع سے محفوظ رہ سکوں۔
ابھی صبح دس بجے تھے کہ میں نے اپنی شرارتوں کا نشانہ بنانے کے لئے چند دوستوں کو منتخب کیا۔ میں نے اپنے دوست عاصم کے
ذریعہ اپنے محلے کے ہوٹل کے مالک قمر بھائی کو یہ اطلاع دی کہ ممبئی سے ٹرنک کال آیا ہے ۔جلدی آجائو۔
قمربھائی اپنی سبزی پوری وغیرہ چھوڑ کر میرے پاس بھاگے ہوئے آئے۔
قمر بھائی وقت ختم ہورہا تھا اس لئے آپ کے بھائی صاحب نے آپ کے نام ایک پیغام لکھوانے کے بعد فون رکھدیا۔
میں نے ایک کاغذ قمربھائی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
انھوں نے جلدی سے پرچہ کھولا۔ ایں فرسٹ ۔۔ اپریل ۔۔۔ فول! انھوں نے پڑھتے ہوئے میری طرف دیکھا۔
قمر بھائی ، گستاخی معاف۔ آج پہلی ا پریل ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پھر میں نے سوچا کہ بھئی کیوں نہ آج کسی رشتہ دار کو فول بنایا جائے۔ چنانچہ میں دوڑا دوڑا اپنی ممانی کے یہاں پہنچا۔ممانی! ممانی! میری امی کی طبیعت بہت خراب ہے ۔جلدی چلئے۔ آپ کو بلایا ہے۔
گھبراہٹ اور پریشانی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے میں نے کہا۔
ممانی ہائے اللہ کرتے ہوئے پان و ڈلی وغیرہ کا بٹوہ سنبھالنے لگیں۔ میں موقع پاکر اسی بیچ امی کے پاس آیا اور ہانپتے ہوئے بولا۔
امی ۔ امی ۔ممانی کو دورہ پڑگیاہے ۔ جلدی چلئے۔ ماموں ڈاکٹر کو بلانے گئے ہیں۔
ارے! ۔۔ اچھا جلدی سے رکشہ بلائو۔ امی نے حکم دیا۔
میں جلدی سے رکشہ لے کر آیا۔ ابھی ہم رکشہ پر بیٹھ ہی رہے تھے کہ ممانی کا رکشہ آگیا۔ دونوں ایک دوسرے کا حیرت سے منہ تک رہے تھے اور میں ’’اپریل فول‘‘ بنایا کہہ کر بھاگ نکلا۔
پھر میں سامنے ٹیلر ماسٹر صاحب کے پاس گیا اور بولا۔
رشیدبھائی نے آپ کو یاد فرمایا ہے۔ شیروانی کی ناپ لینی ہے۔
ماسٹر صاحب نے اپناسامان سنبھالا اور رشید بھائی کے پاس آگئے۔ رشید بھائی کسی حساب کتاب میں مصروف تھے۔
بھئی جلدی کرو، ہمیں ایک اہم کام سے جانا ہے۔چونکہ دونوں گہرے دوست ہیں، اس لئے وہ بلا تکلف بولے۔
کیا مطلب ماسٹر صاحب؟ رشید بھائی ذرا فکر مند ہوئے۔
بھئی شیروانی کی ناپ دوگے یا نہیں؟۔ تم نے مجھے رئیس کے ذریعہ ا رجینٹ بلوایا ہے۔ ماسٹر صاحب بیزار ہوتے ہوئے بولے۔
رشید بھائی نے میری طرف دیکھا۔ میں ہنسی نہ روک سکا۔ رشید بھائی سمجھ گئے۔
بھائی جائیے… آج فرسٹ اپریل ہے۔ رئیس نے آپ کو فول بنایا ہے۔
ماسٹر صاحب کھسیاگئے مگر بے چارے اپنی جھینپ مٹانے کے لئے قہقہہ لگانے لگے۔
قریب چاربج رہے ہوں گے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اب کسی کو فول نہ بنایا جائے… آج لوگ بہت فول بن چکے۔ چنانچہ میں پڑھنے بیٹھ گیا۔
کچھ دیر کے بعد دروازے کی گھنٹی بجی ۔میں باہر آیا تو شکیل کو کھڑا پایا۔
ارے بھئی خیرت تو ہے؟ کہو ،کیسے آنا ہوا؟ میں نے پوچھا۔
رشید بھائی نے پرویز بھائی کانپور والوں کا فون نمبر پوچھا ہے ۔ اس پرچہ پر لکھ دو ۔
شکیل نے کاغذ بڑھاتے ہوئے کہا۔
میں نے پرچہ لیا اور اس کو کھولتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
’’تمہارا چچا …!‘‘
اچھا تو میاں شکیل نے مجھے اپریل فول بنایا ہے۔ صبح سے میں لوگوں کو فول بنا رہا تھا اور یہ میاں مجھ کو بنا گئے۔ خیر کوئی بات نہیں ۔۔۔ میرا نام بھی رئیس ہے۔
یہ سوچتے ہوئے میں باہر آیا تاکہ کسی طرح سے شکیل کو بھی اپریل فو ل بنا سکوں ۔مگر شکیل وہاں سے جاچکا تھا۔
تمام ہوشیاری کے با وجود، اس طرح بیوقوف بننا مجھے بہت کھلا لیکن اسی وقت میرے اندر یہ احساس جاگا کہ میں بھی تو آج صبح سے لوگوں کو اپریل فول بنا رہا تھا ۔ انکا بھی دل اسی طرح د ُکھا ہوگا۔ وہ بھی اسی طرح شرمندہ ہوئے ہونگے۔
پس اسی وقت میں نے یہ عہد کیا کہ اب کبھی بھی، کسی کو بھی اپریل فول نہیں بنائونگا ٰ !
( کہانی کار ڈی ڈی ارد و و آل انڈیا ریڈیوکے سابق آئی بی ایس افسر ، ساہتیہ اکادمی قومی ایوارڈ و دلی اردو اکا دمی ایوارڈ سے سرفراز پندرہ کتابوں کے مصنف، مولف، مترجم،افسانہ نگار ، شاعرو ادیبِ اطفال ہیں)
Email:[email protected]
Mob: 9810141528