محمدشارب ضیاء رحمانی
یکم اپریل سے این پی آر کا کام شروع ہوناہے،مرکزی حکومت بجٹ منظور کرچکی ہے،دو تین ریاستوں کو چھوڑ کر ریاستیں ٹریننگ اور دیگر تیاریوں میں مصروف ہیں،بنگال اور کیرل نے سرے سے ہی این پی آر پر روک لگادی ہے،مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ حکومت بھی انکار کرچکی ہے مزید آندھراپردیش اور تلنگانہ سرکار نے بھی اشارہ دے دیاہے کہ موجودہ این پی آر انھیں منظور نھیں ہے،بہارحکومت نئے این پی آر کا انکار کرکے 2010 کے این پی آرکی تجویزمنظورکرچکی ہے- تقریبا دس ریاستوں کا رخ واضح ہے کہ 2020 کا این پی آر قبول نھیں تو سوال یہ ہے کہ یکم اپریل سے شروع ہونے والی کارروائی میں یہ ریاستیں کیا کریں گی؟
اصولی بات یہی ہے کہ جب تک مرکز فارمیٹ میں تبدیلی نھیں کرتا یا پرانے ہی فارمیٹ کی منظوری نھیں دیتا،ریاستی اسمبلیوں میں تجاویز پاس کرنے کی کوئی آئینی حیثیت نھیں ہے بلکہ ان کی حیثیت صرف مشورے کی ہے،( کیرل سرکار نے سی اے اے کے خلاف تجویز منظور کی تھی تو گورنر سمیت پوری بی جے پی ریاست کی مذمت کررہی تھی لیکن اسی بی جے پی نے بہار میں این پی آر اور این آرسی کے خلاف تجاویز منظور کرانے میں اپنی اتحادی جماعت کی مدد کی تب سے اس پر خاموشی ہے)اور یہ سب جانتے ہیں کہ ڈھیٹ سرکار پر مشورے سے کوئی اثر نھیں پڑنے والاہے-
16فروری 2020 کو جے ڈی یو نے کہاتھا کہ نتیش کمار کی پہل پر مارچ کے پہلے ہفتے میں این پی آر پر این ڈی اے کی میٹنگ ہوگی،اس کے ایم ایل سی نے دعوی کیاتھا کہ ہم کام کرتے ہیں،اب ان سے ضرور پوچھاجاناچاہیے کہ بتائو وہ کام کہاں گیا؟کیا صرف یہ زبانی جمع خرچ اور جملے بازی تھی،دوسرا ہفتہ بھی مکمل ہے لیکن میٹنگ کا اتہ پتہ نھیں بلکہ اب ان لیڈروں نے چپی سادھ لی ہے جو کل تک این پی آر پر اسمبلی کی تجویز کے بعد نتیش کمار کو خلیفة المسلمین بتارہے تھے،پریس کانفرنس اور بیانات کے ذریعے سیکولرزم کے مسیحا بتانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے تھے،ان سے پوچھاجاناچاہیے کہ نتیش نے آپ کو گولی تو نھیں دے دی یا آپ لوگوں کے ساتھ اپریل فول منارہے ہیں-
بہار حکومت اگر واقعی میں سنجیدہ ہے تو اعلان کرے کہ جب تک پرانے فارمیٹ کی منظوری مرکز سے نھیں ہوتی،ہم کیرل اور بنگال کی طرح روک دیں گے اورعدم تعاون کریں گے،اپریل فول منانے اوراقلیتوں اورغریبوں کو بے وقوف بنانے کی بجائے عملی اقدامات کرے،پوری عوام جاگی ہوئی ہے،الو نھیں بنایاجاسکتا،اپوزیشن بھی پوری ذمے داری نبھائے،اسی سال الیکشن ہوناہے،اسی این پی آر اور سی اے اے پر گدی سے اتارنے کا فیصلہ ہوگا اور یہی معیار ہوگا کہ کون دشمنوں کے مقاصد واہداف کو مکمل کرنے میں تعاون کررہاہے-کانگریس اپنے ممبران پارلیمنٹ کی معطلی واپس کراسکتی ہے،منموہن سنگھ پر حکومت کو بیک فٹ پر لاسکتی ہے لیکن این پی آر نھیں رکواسکتی؟بات صرف سنجیدہ لڑائی کی ہے-
وقت بہت کم ہے،ملی اداروں،تنظیموں کو موقف صاف کرناچاہیے کہ اپریل میں شروع ہونے والے این پی آر پر پوری ملت اسلامیہ کا کیا موقف ہو؟عدم تعاون اوربائیکاٹ کرناہو تو دشواری کے وقت عوام کا کس طرح ساتھ دیاجائے گا؟افسران نے پریشان کیا تو یہ تنظیمیں کہاں ہوں گی؟اس کا لائحہ عمل کیاہوگا؟جمیعة علمائے ہند،(جمیعة میم نے بائیکاٹ کا اعلان کیاہے)جماعت اسلامی،جمیعة اہل حدیث،ملی کونسل،امارت شرعیہ،ادارہ شرعیہ،مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت تمام مسالک کے پلیٹ فارم مشترکہ اعلامیہ ہفتہ،دس روز کے اندرجاری کریں کہ این پی آر پر مسلمانوں کو کیا کرناہے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں کو بھی واضح پیغام دیاجائے،مشکل اور کم وقت میں مناسب فیصلہ زندہ قوم کی پہچان ہے،یہ ملت کے وجود کا معاملہ ہے،جب قوم ہی نھیں ہوگی تو امامت کس کی ہوگی؟مسلمان ہی نھیں ہوں گے تحریک اصلاح کس کے لیے ہوگی؟جن کے مسائل کے حل کے لیے تنظیمیں ہیں جب وہ ہی نھیں ہوں گے تو ان تنظیموں اور اداروں کی ضرورت کیوں ہوگی؟تحریکیں اپنی جگہ چلتی رہیں لیکن واضح رہنمائی بھی ضروری ہے-
عدالت سے بھی اب تک مثبت اشارہ نھیں ملاہے،این پی آر پر روک لگانے کے لیے عدالت میں بھی جلد کوشش کی جانی چاہیے- سیاسی پارٹیاں اپریل فول منارہی ہیں،ان پر پریشر بناکر سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ سنجیدہ کوشش کریں،پورا ملک حکومت کے ساتھ اپوزیشن کو بھی دیکھ رہاہے-
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)