[email protected]
7987972043
یہ سوچنا بھی کتنا حیران کن ہے کہ تیس کروڑ لوگوں کی حفاظت کسی سرکار کے بھروسے ہو، جو خود فاشزم، تعصب اور ہندوازم کی کٹھپتلی بنی ہوئی ہو، جس کی تاریخ مسلمانوں کے خون سے لبریز ہے، جس کا ہر فیصلہ اور ہر قدم مسلمان کش ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اتنی بڑی تعداد خود کفیل ہوتی، اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرتی، وہ کسی دوسرے پر تکیہ نہ کرتے ہوئے جسمانی، قانونی اور ملی ہر محاذ ہر ایک ایسا اتحاد پیدا کرتی کہ ان کی طرف کوئی شریر نگاہ نہ اٹھا پاتا، یہ کوئی ناممکن بات نہیں، ملک میں موجود دیگر کئی اقلیتوں نے اسے برتا ہے، وہ سرکار اور ملک میں اپنی پہچان آپ رکھتی ہیں، سکھ قوم ایک مظلوم اقلیت سمجھی جاتی تھی؛ ١٩٨٤ میں دہلی کے اندر انہیں بری طرح قتل کیا گیا تھا، فرد فرد کو پکڑ کر گلے میں ٹایر ڈال کر خاک کردیا گیا؛ لیکن آج ان کی پگڑی کی بھی عزت ہے، رفاہی کاموں میں وہ نمایاں ہیں، سرکاری ملازمتوں میں انہیں اہمیت دی جاتی ہے، فوج میں انہیں خاص مقام حاصل ہے، خود منموہن سنگھ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ انہوں نے وہ پوزیشن پائی کہ ملکی سطح پر سکھ قوم سے معافی مانگی گئی۔
ان کے علاوہ جین، پارسی ملک میں تعداد کے حساب سے کوئی اہم مقام نہیں رکھتے؛ تاہم تجارتی مہارت، قومی اتحاد اور آپسی رواداری کے سامنے پوری حکومت ہیچ ہے، اس موقع پر خود مسلمانوں میں سے بوھرہ سماج بھی ایک نمونہ ہے، ان کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ خود وزیراعظم اپنی منفرد پہچان کے باوجود ممبئی گئے تھے اور ان کے اعلی مذہبی رہنما سے نیاز حاصل کیا تھا، مگر ہائے افسوس مسلمان اپنی قیادت کے فقدان، نکمے پن اور سرکار کی بے التفاتی کا رونا روتے ہیں، آئے دن دنگے فساد اور معاشرے کی بدنمائی اور بدنامی کا ذریعہ بنتے ہیں، آبائی قربانی، حب الوطنی اور ملک کے تئیں وفاداری کا بوجھ ڈھوتے پھرتے ہیں؛ لیکن اس بات کی توفیق نہیں ہوتی کہ ایک انقلابی فکر اور لائحۂ عمل کے ساتھ اقدام کریں، خود اپنے تحفظات کا بندو بست کریں، اپنی ہنرمندی، قابلیت اور صلاحیت کے آگے انہیں مجبور کریں کہ مسلمانوں کو ملک کیلئے لازم سمجھیں، رحمت اور ضرورت مانیں، اس سلسلے میں استاد گرامی فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ کی اہم تحریر پیش خدمت ہے، ضرور پڑھیں اور خود کو تیار کریں۔ یہ تحریر شمع فروزاں کے تحت ٢١/٠٨/٢٠٢٠ کو منصف حیدر آباد نے شائع کی ہے، آپ نے "مسلمان کیسے آتم نربھر (خودمکتفی) ہوں” کا مرکزی موضوع اختیار کر کے ایک "اپنی حفاظت آپ” کا ذیلی عنوان لگا کر رقمطراز ہیں:
"اس منصوبے کا……اہم ایجنڈا ملت اسلامیہ کا تحفظ ہونا چاہیے، تحفظ میں جسمانی تحفظ بھی شامل ہے، اور ملی وقار کا تحفظ بھی شامل ہے، اس سلسلے میں چند باتیں اہم ہیں:
۱۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے جسمانی تحفظ کے لئے تیار کرنا، اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس کی تربیت دینا، جیسے: مارشل آرٹ اور لاٹھی چلانے کا طریقہ وغیرہ،یہ حفظان صحت کے نقظہ نظر سے بھی ضروری ہے، اور ماب لنچنگ کے واقعات جس طرح بڑھتے جا رہے ہیں، اس نے اس کی ضرورت کو اور بڑھا دیا ہے۔
۲۔ مسلمان نوجوانوں کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے پر متوجہ کرنا، اس میں اعلی مہارت کے حصول کے لئے ان کا تعاون کرنا اور عدالتوں میں ماہر مسلمان وکلا ء کو پہنچانا،یہ قانونی تحفظ کے لئے بے حد ضروری ہے، اب تو صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ بعض دفعہ وکلاء مسلمانوں کا کیس لینے کو آمادہ نہیں ہوتے، ان حالات میں بے حد ضروری ہے کہ ہمارے پاس اچھے وکیل ہوں،اور اچھے وکیل ہی جج کی کرسی پر پہنچتے ہیں، افسوس کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں مسلمان ججز کی تعداد کم سے کم ہوتی جا رہی ہے، ادھر مسلمانوں میں جدید تعلیم کا رجحان بڑھا ہے، مگر ان کی ساری توجہ میڈیکل اور انجینیرنگ پر ہے، یہ کافی نہیں ہے۔
۳۔ ملی تحفظ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انتظامیہ میں اعلی عہدوں پر مسلمان موجود ہوں، گزشتہ کچھ عرصے سے بعض مسلمان اداروں نے اس کے لئے تیاری کرانے کا کام شروع کر رکھا ہے، اور اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس سال بھی 44 /مسلم طلبہ نے اس امتحان میں کامیابی حاصل کی؛ لیکن اس پر ابھی مزید اور کافی کوششوں کی ضرورت ہے؛ اگر مختلف مسلم تنظیمیں اور جماعتیں سالانہ دو تین طلباء پر محنت کرائیں اور انہیں کامیابی کی منزل تک پہنچائیں؛ یہاں تک کہ سالانہ تقریبا سو مسلمان اس میں کامیابی حاصل کرسکیں، تو حکومت کی مشینری میں مسلمانوں کی قابل لحاظ نمائندگی ہو سکے گی، اور حکومت کے فیصلوں میں بھی اور ان فیصلوں کے نفاذ میں بھی مسلمانوں کو انصاف حاصل ہو سکے گا، سیاسی نمائندگی بڑھانے کے لئے جتنی محنت کی جاتی ہے، اِس میدان میں اس سے زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔
۴۔ آزادی کے بعد جتنے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں، ان میں پولیس کا جانبدارانہ بلکہ ظالمانہ رول بالکل واضح ہے، خود حکومت کے متعین کیے ہوئے بہت سے تحقیقاتی کمیشنوں نے اس کو واضح کیا ہے، اس پس منظر میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ پولیس کے محکمہ میں مسلمان زیادہ سے زیادہ داخل ہونے کی کوشش کریں، یہ حقیقت ہے کہ محکمہ پولیس میں مسلمانوں کا تناسب نہایت کم ہے، ہو سکتا ہے اس میں کچھ دخل تعصب کا بھی ہو؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پولیس کی ملازمت کی طرف رخ ہی نہیں کرتی، یا اسے حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے؛ حالانکہ اس شعبے میں چونکہ بنیادی طور پر صرف جسمانی موزونیت مطلوب ہوتی ہے، اس لئے ملازمت کے مواقع زیادہ ہیں، اس کے لئے ضرورت ہے ایک تو شعور بیداری کی، دوسرے: پولیس ٹیسٹ میں شرکت کے لیے ٹریننگ کی، اور یہ کام سول سروس امتحان کی تیاری کی طرح زیادہ خرچ طلب بھی نہیں ہے؛ اس لیے اگر مسلم ادارے اس جانب توجہ دیں تو مسلمانوں کی ایک مناسب تعداد اس شعبے میں داخل ہو سکتی ہے اور یہ چیز ان شائاللہ پولیس ظلم کو روکنے میں ممدومعاون ہوگی۔
۵۔ حفاظت کا ایک پہلو قومی اور ملی وقار کا تحفظ ہے، اس وقت قوموں کو بے وقار کرنے اور کسی گروہ کے وقار کو بے جا طریقہ پر بڑھانے اور اس کے حق میں مبالغہ آمیز جھوٹ اور پروپیگنڈے کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ میڈیا ہے خواہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، نیشنل چینلز ہو یا یوٹیوب چینلز، ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا! اس لئے مسلمانوں کو اس شعبہ کی طرف توجہ کرنے کی اشد ترین ضرورت ہے؛ اگر چہ وہ اس سلسلے میں بہت پیچھے ہو چکے ہیں؛ لیکن اگر صبح کا بھولا شام میں واپس آ جائے تب بھی یہ ایک کامیابی ہے، اس کے لیے دو رخی کوشش ہونی چاہیے: ایک: افراد سازی کی، کہ انگریزی اور مقامی زبانوں میں لکھنے والے جرنلسٹ اور بولنے والے ماہرین تیار کیے جائیں، دوسرے: اگر اخبارات کا نکالنا اور نیشنل سطح کا چینل شروع کرنا مشکل ہو، جیسا کہ تجربہ ہے، تو کم سے کم سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے چینل بنائے جائیں جو مسلمانوں کی آواز بنیں، مسلمانوں کی اچھی تصویر پیش کریں اور ان کے بہتر کاموں کو نمایاں کریں، یہ بھی اپنے تحفظ کا ایک حصہ ہے، اور اس سے بے توجہی نے مسلمانوں کو ناقابل بیان نقصان پہنچایا ہے۔