اپنے آقا کے مدینے کی طرف دیکھتے ہیں
دل اُلجھتا ہے تو سینے کی طرف دیکھتے ہیں
اب یہ دُنیا جسے چاہے اُسے دیکھے سرِسیل
ہم تو بس ایک سفینے کی طرف دیکھتے ہیں
عہدِ آسودگئ جاں ہو کہ دورِ ادبار
اُسی رحمت کے خزینے کی طرف دیکھتے ہیں
وہ جو پل بھر میں سرِ عرشِ بریں کھُلتا ہے
بس اُسی نور کے زینے کی طرف دیکھتے ہیں
بہرِ تصدیق سندنامہ نسبتِ عشاق
مُہرِ خاتم کے نگینے کی طرف دیکھتے ہیں
دیکھنے والوں نے دیکھے ہیں وہ آشفتہ مزاج
جو حرم سے بھی مدینے کی طرف دیکھتے ہیں