انتخابات خواہ مرکزی یعنی لوک سبھا کے یا ریاستی یعنی ودھان سبھا کے ہوں ہر موقع پر خواہ مخواہ خامہ فرسائی کرتا رہا اور اتحاد اور صحیح لائحہ عمل بنانے کی ضرورت پر زور دیتا رہا اور اپنے خدشات کا اظہار کرتا رہا کہ بی جے پی ٩٠- ٩٢ سے اس کوشش میں مصروف ہے کہ کس طرح اسے پارلیمنٹ میں absolute majority مطلق اکثریت حاصل ہو اور وہ انتخابی منشور میں کئے گئے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہناۓ۔ لیکن افسوس نہ کشمیر کے نام نہاد قیادت نے دہلی میں مرکزی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر مسئلے کے حل کی سنجیدہ کوشش کی اور نہ ملک کے طول و عرض میں غیر بی جے پی پارٹیوں نے بی جے پی کے مینی فیسٹو پر خاطر خواہ توجہ دی اور نہ ہی مسلمانوں نے کسی ایک سیکولر پارٹی کی جیت یقینی بنانے کے لئے اسٹریٹیجی بنائی۔ مسلمان ملک اور ملت کے عظیم ترین مفاد کے مقابلے اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے وقتی، غیر اہم سیاسی، مالی اور مقامی فائدے کو ترجیح دی۔ ہم میں اور غیروں میں فرق محسوس کرنا چاہتے ہیں تو بی جے پی کے کیڈر اور کور ووٹرز کے بیانات سنیں۔ بڑے مفاد کی خاطر چھوٹے مفاد کی قربانی کا جذبہ ان میں ہے اس لئے وہ کہ رہے ہیں کہ مفت یا سبسیڈی والی بجلی پانی دوا علاج ہمارے لئے اس لئے اہمیت نہیں رکھتے ووٹ دینے کی وجہ نہیں بنتے اس لئے کہ ان سب سہولیات سے اوپر دیش ہے اور دیش کی ترقی اور سلامتی کے لئے بی جے پی ہی اہل ہے۔
۔ بی جے پی جیسی آئیڈیالوجی پر مبنی آر ایس ایس کی پشت پناہی والی ایک منظم پارٹی کا غیر بی جے پی پارٹیوں نے منتشر رہ کر مقابلہ کرنا کیوں پسند کیا اس پر سوالیہ نشان ہے؟ لیکن مسلمانوں نے اپنی سیاسی بصیرت کا استعمال کیوں نہیں کیا یہ اس سے بڑا سوال اس لئے ہے کہ بی جے پی پچھلے کئی سالوں سے معلنہ اور غیر معلنہ طور پر اپنے ارادوں کا انکشاف کرتی رہی ہے۔ اور اب جب اسے پارلیمنٹ میں نصف سے زیادہ اور اس کے حلیف پارٹیوں کے ساتھ دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی تو اپنے ایجنڈے پر عمل شروع کر دیا۔ بی جے پی کی باتوں وقت رہتے سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا گیا۔ سیاسی شعور کی کمی یا ذاتی مفاد اور مصلحت ؟
آج شہریت ترمیمی بل دو تہائی اکثریت کی حمایت سے ایکٹ بن گیا ہے۔ دو تہائی اکثریت سے دستور میں ترمیم کی اجازت ہے۔ (چند بنود جو اس دستور کے بنیادی ڈھانچے اور روح کو متاثر نہ کرے کے استثناء کے ساتھ) اب مسئلہ عدالت عظمیٰ کے زیر غور ہے کہ ترمیم شدہ ایکٹ دستور کی روح کے منافی ہے یا نہیں یہ مذہب کی بنیاد پر تفریق بھید بھاؤ کرنے والا ہے یا نہیں ؟ اس سے قطع نظر یہ ترمیم شدہ ایکٹ مسلمانوں کے لیے بلا شبہ توہین آمیز ہے اس لیے کہ اس میں ہندو،بودھ، سکھ، جین،پارسی اور عیسائی کا ذکر ہے مگر مسلمان کا نہیں۔ وجہ اعتراض یہی ہے۔ اگر یہ لکھا جاتا کہ ان تین ممالک کی مذہبی اقلیتوں کو شہریت دی جائے گی تو شاید اتنا واویلا نہیں ہوتا۔
پارلیمنٹ میں اس طرح کے بل پیش کرنے اور ایکٹ بنانے کی قوت کس نے فراہم کی ؟ ظاہر سیکولر پارٹیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے انتشار نے۔
آج مسلمان اپنی سماجی اور معاشی صورتحال کو سنوارنے اور اپنے علاقے کے لئے تعلیم ، صحت، سڑک بجلی پانی اور سیوریج کا مطالبہ کرنے کے بجائے اس ملک میں بحیثیت شہری اپنے وجود کی بقاء کی لڑائی میں الجھے ہوئے ہیں۔۔ سی اے اے سے ہندوستانی مسلمان متاثر ہوں گے یا نہیں ؟ ہندوستانی مسلمان ہونے کا ثبوت کیا ہے ؟ این آر سی میں کن معلومات کو فراہم کرنا لازمی ہے ؟ این پی آر اگر مردم شُماری ہے تو یہ تو ہر دس سال میں ایک بار ہوتی ہے تو حسب معمول مردم شُماری کی جگہ اس کے لئے نئے معلومات کی ضرورت کیوں ہے ؟
کوئی سرکاری عملہ تحریری طور پر اس کی وضاحت نہیں کرتا اور لوگوں میں قیاس آرائیوں کی بنیاد پر بجا یا بے جا ابال ہے ۔۔ آسام این آر سی کی مثال لوگوں کے سامنے ہے اس کی روداد پڑھ کر اور سن کر لوگ سہمے ہوئے ہیں۔
ابھی یونیفارم سول کوڈ اور نہ جانے کیسے کیسے تیر ترکش میں اور بھی ہیں یہ دیکھنا باقی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ جمہوری نظام میں سر گنے جاتے ہیں اور اکثریت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ تو پارلیمنٹ میں یہ ہوتی ہے ووٹ کی طاقت۔ اسی لئے بہت سے پولیٹیکل سائنس کے ماہرین کا ماننا ہے کہ مطلق اکثریت حکمران کو مطلق العنان ڈکٹیٹر بنا دیتی ہے۔ اس مطلق العنانیت سے باز رکھنے کے کنجی آپ کے ہاتھ میں تھی جسے آپ نے وقتی اور ذاتی مفاد کی خاطر گنوا دیا۔
اپنی تدبیر سے دیکھے ہیں دن بربادی کے
اور کہتے ہیں کہ تقدیر کا لکھا دیکھا
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)