اردو کے ایک بہترین افسانہ نگار انور قمر ہمارے بیچ اب نہیں رہے ، جمعرات ۹ ، نومبر کی صبح وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے اور اسی دن بعد نمازِ ظہر باندرہ کے قبرستان میں ان کی تدفین ہوگئی ۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ جس افسانہ نگار نے اپنی تقریباً ساری زندگی اردو زبان کو دے دی اس کی تدفین میں اردو والے ( مُراد اردو زبان کے شعراء ، ادبا اور صحافی حضرات ہیں ) شریک نہیں ہو سکے ! اِسی سال ہمارے ایک افسانہ نگار عبدالعزیز خان کا انتقال ہوا تھا ، ان کی تدفین میں اردو زبان کے تین صحافی اور ایک نوجوان افسانہ نگار شامل تھے ، بس ! لیکن اگر کسی اردو والے سے پوچھا جائے کہ ایسا کیوں ہوا ہے ، تو شاید وہ یہی کہے گا کہ قصور اردو والوں کا نہیں ہے ، وہ جواز دے گا کہ عبدالعزیز خان نے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا ، وہ کہے گا کہ انور قمر مرحوم برسوں سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے ، ان کے ٹھکانے کا اکثر لوگوں کو پتہ نہیں تھا ، پھر وہ کہے گا کہ جب کوئی خبر ہی نہ ملے گی تو کیسے تدفین میں جاتے ! یہ خبر کا نہ ہونا اور ایک دوسرے سے کٹ جانا ، آج کی تیز رفتار زندگی کا ایک ایسا بہانہ ہے جو بڑی سے بڑی خطا کو معاف کرنے کا سبب بن جاتا ہے ۔ ہم اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ ہم نے خود رابطے کی کوشش کی یا نہیں کی ۔ مرحوم انور قمر عمر کے ٨٣ ویں سال میں تھے ، اور عبدالعزیز خان کا جب انتقال ہوا تو وہ ٨٤ سال کے ہو چکے تھے ، یہ عمریں بہتوں کے لیے تکلیف دہ بن جاتی ہیں اور اکثر لوگ تنہائی پسند بن جاتے ہیں ، لہذا یہ اُن کا جو عمر میں کم ہیں ایک فرض بن جاتا ہے کہ وہ اپنے بزرگ ساتھیوں کی خبر لیں ، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہم سکون کی سانس لیتے ہیں کہ جان چھوٹی ! کچھ پہلے تک یہ نہیں تھا ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جب افسانہ نگار انور خان صاحبِ فراش تھے تب ان کی عیادت کے لیے ادیبوں کا اناجانا لگا رہتا تھا ، اور جو کسی سبب جا نہیں پاتے تھے وہ خیر خیریت پوچھتے تھے ۔ مرحومین انور خان ، مقدر حمید ، علی امام نقوی ، ساجد رشید ، افتخار امام صدیقی ، مظہر سلیم ، م ناگ اور مشتاق مومن خوش قسمت رہے کہ ان کی تدفین میں اردو زبان وہ ادب سے تعلق رکھنے والوں کی ، بہت بھاری نہ سہی ، لیکن خاصی تعداد موجود تھی ۔ اب زمانہ بدل گیا ہے ، اب لوگ بھول کر بھی کسی کی خیر خیریت نہیں پوچھتے ہیں ۔ کبھی کبھی زندگی ایسے تجربات سے دوچار کرتی ہے کہ یقین نہیں آتا ! مرحوم انور قمر کو جب میں نے جانا تب وہ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی ساکھ بنا چکے تھے اور کسی محفل میں اُنہیں افسانہ پڑھتے ہوئے سُننا ایک خوشگوار تجربہ ہوتا تھا ۔ خوش پوش ، وجیہ اور دراز قد انور قمر کم بولتے تھے ، لیکن کم گو نہیں تھے ، انہیں بولنا بھی خوب آتا تھا ۔ وہ دوستوں کے دوست تھے ، کھلانے پلانے کے شوقین ۔ پڑھنے کا بھی خوب شوق تھا ۔ عالمی ادب پر گہری نگاہ تھی ۔ لیکن ایک دور وہ بھی آیا کہ انہوں نے اپنی جمع کی ہوئی تمام کتابیں ایک کباڑی کو تول دیں ، اور لوگوں سے مُنھ موڑ لیا ۔ کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہوا تھا ! کچھ کہتے ہیں کہ کچھ خانگی اور کاروباری الجھنوں سے ایسا ہوا ، واللہ اعلم ! لیکن کیسا المیہ ہے کہ ان کا کوئی ایسا دوست نہیں تھا جو انہیں الجھنوں سے باہر نکالنے کی کوشش کرتا ۔ وہ دنیا سے کٹ گیے اور ہم سب نے انہیں کٹ جانے دیا ، شاید کسی نے اُنہیں جوڑنے کی کوشش نہیں کی ۔ کیا اب ہم اُنہیں ان کی موت کے بعد یاد ، اور وہ جس پائے کے افسانہ نگار تھے اس کا اعتراف کریں گے ؟ یہ سوال اس لیے ہے کہ عبدالعزیز خان کے انتقال کو سال بیت رہا ہے ، کہیں کسی طرف سے ان کے لیے کوئی تعزیتی نشست نہیں کی گئی ہے ۔ ایسا کئی مرحومین کے ساتھ ہو چکا ہے ، تو کیا ایسا ہی ہوتا رہے گا ؟