Home تجزیہ اندھیرا بہت ہے،چراغ جلنے دو!

اندھیرا بہت ہے،چراغ جلنے دو!

by قندیل

 

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد، فون:9395381226

 

سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے شہریت ترمیمی قانون پر پابندی عائد کرنے سے متعلق دائر کی گئی عرضیوں پر 22/جنوری کو فیصلہ سنایا کہ یکطرفہ پابندی عائد نہیں کی جاسکتی اور اس نے مرکزی حکومت سے 4ہفتو ں کے اندر جواب طلب کیا۔ اب یہ معاملہ پانچ رکنی بنچ کے حوالہ کردیا گیا ہے۔ ہندوستانی عوام بالخصوص مسلمان ذہنی طور پر اس قسم کے فیصلوں کے لئے تیار ہیں‘ اس لئے کوئی رنج و غم اور صدمے سے دوچار نہیں ہوتے بلکہ ایسے ہر ایک فیصلے کے بعد ان کے صبر وضبط، برداشت کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ جس کا ثبوت شاہین باغ کی باہمت خواتین کا یہ اعلان ہے کہ وہ اپنے احتجاج کے سلسلے کو جاری رکھیں گی۔ کپل سبل اور سلمان خورشید نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے دو دن پہلے ہی یہ اظہار خیال کیا تھا کہ کوئی ریاست مرکز کے نافذ کردہ قانون پر عمل آوری سے انکار نہیں کرسکتی‘ ان کے اس بیان پر اگرچہ کہ تنقید کی گئی مگر ایک طرح سے ان سیاہ قوانین کی مخالفت کرنے والے ہندوستانی عوام ذہنی طور پر تیار ہوچکے تھے کہ عدالتی فیصلہ خلاف آسکتا ہے اور مرکز اپنے فیصلے پر اٹل بلکہ ہٹ دھڑمی کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔ کپل سبل اور خورشید نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ریاستیں مرکزی احکام ماننے سے انکار کرے تو یہ غیر آئینی ہوگا۔ اگرچہ کہ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ خود یہ قوانین غیر دستوری ہے۔ کئی ریاستیں باقاعدہ ان سیاہ قوانین کے خلاف قراردادیں منظور کرچکی ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مرکز اور ریاستوں کے درمیان ایک بار پھر ٹکراؤ ہوگا‘ خلیج بڑھے گی۔ 1980ء کے دہے میں مرکز اور ریاست کے تعلقات کو بہتر بنانے اور ہم آہنگی کے لئے سرکاریہ کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے اپنی سفارشات پیش کی تھیں۔ گورنرس کے رول پر بھی ہر دور میں تنقیدیں ہوتی رہی ہیں اور حالیہ عرصہ کے دوران بنگال اور کیرالا کے گورنرس کی حالت قابل رحم ہے۔ ریاستی حکومتیں اور وہاں کے عوام انہیں نظر انداز کرکے انہیں ان کی بے وزنی کا احساس دلارہے ہیں۔

شہریت ترمیمی قانون این پی آر‘ اور پھر این آر سی سے متعلق اگرچہ کہ بار بار یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ شہریت دینے کے لئے ہے چھیننے کے لئے نہیں۔ تین ممالک کی مذہبی جبر و ستم کی شکار اقلیتوں کو شہریت دینے کے لئے یہ قانون ہے۔ کوئی بھی ہندوستانی مسلمان کسی مظلوم کے ساتھ ہمدردی اور انصاف کے خلاف نہیں ہے مگر اس کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ دوسرے ممالک کی اقلیتوں سے تو ہمدردی ہے‘ خود اپنی سرزمین پر بسنے والی اقلیتوں کے ساتھ سنگدلی کیوں؟ یہ پہلاموقع ہے کہ مسلم دشمنی کا اس قدر کھل کر بی جے پی اور سنگھ پریوار اظہار کررہی ہے اور یہ بھی آزاد ہندوستان کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ ہندوستانی عوام کی اکثریت اس مسلم دشمنی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ آج دلتوں اور عیسائیوں کو اس بات کا احساس ہوچکاہے کہ اِن سیاہ قوانین سے پہلا نشانہ تو مسلمان ہوں گے مگر وہ بھی ہندوتوا طاقتوں کے عتاب اور تعصب سے محفوظ نہیں رہیں گے۔

سکھ برادری نے جس طرح سے سینہ ٹھونک کر شہریت ترمیمی قانون اور NRC کی مخالفت کی‘ بلکہ دہلی میں اکالی دل نے تو بی جے پی سے انتخابی مفاہمت سے تک انکار کردیا ہے۔ سکھ بھائیوں کے اس جذبے کو سلام کیا جاسکتا ہے۔ وقت اور حالات کے اِس نازک ترین دور میں جس طرح سے انہوں نے ساتھ دیا ہے یہ احسان کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ سکھوں نے ہر دور میں انسانیت کی بقاء کے لئے آگے بڑھ کر اپنا رول ادا کیا۔ کشمیر کے سنگین حالات کی وجہ سے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ اپنے امتحان کی فیس دینے کے موقف نہیں تھے تو ان سے ہمدردی جتانے والوں نے طوطا چشمی اختیار کی اور سکھوں نے ان کی فیس ادا کی تھی۔

شاہین باغ میں احتجاج کرنے والی خواتین سے یگانگت کے اظہار کے لئے پنجاب سے پانچ بسوں میں سکھوں کا قافلہ آتا ہے‘ اور وہ یہاں بھی اپنا لنگر شروع کردیتا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ ہندوستانی مسلمانوں کو خدائی مدد ہے۔ اُترپردیش میں یوگی حکومت کی بوکھلاہٹ کا اندازہ وہاں کی پولیس کے رویہ سے کیا جاسکتا ہے۔ ظلم وہی کرتا ہے جو کمزور ہے۔ جو طاقتور ہوتا ہے وہ تو محبت سے اپنا کام لیتا ہے۔ یوگی اترپردیش کی تاریخ کے بدترین ناکام ترین چیف منسٹر ثابت ہوچکے ہیں۔ جس طرح سے لکھنو، گھنٹہ گھر اور ایٹاوا میں احتجاجی مظاہرین پر پولیس کے ذریعہ انہوں نے اپنی جھنجھلاہٹ اور بھڑاس نکالی‘ اس سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کازوال شروع ہوچکا ہے۔ منور راناکی بیٹیوں کی گرفتاری ور ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے یوگی حکومت نے اپنے آپ کو ساری دنیا کی نظروں سے گرالیا۔ کیوں کہ لکھنؤ گھنٹہ گھر کے احتجاج میں اکھلیش یادو کی بیٹی بھی تو شامل تھی‘ اس کے خلاف ایف آئی آر اس لئے درج نہیں کیا گیا کہ سماج وادی پارٹی اقتدار میں نہ بھی ہو تو وہ اس سے خوفزدہ ہیں۔منور رانا نے کچھ عرصہ پہلے اپناقومی اعزاز بھی واپس کرنے کا اعلان کیا تھاہوسکتا ہے کہ اس کا بھی حساب کتاب بے باق کرنے کی کوشش کی گئی ہو جو بھی ہو‘منور رانا تو پہلے ہی سے عوامی شاعر تھے‘ اب ان کی بیٹیاں بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ لدیدا اور عائشہ کی طرح حق اور انصاف کے لئے جدوجہد کرنے والی نمائندہ بن گئیں۔

آج ہندوستان کے گوشے گوشے میں شاہین باغ کی طرز پر خواتین کے احتجاجی مراکز قائم ہونے لگے ہیں۔ یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اب تک مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ وہ اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کیلئے ڈرتا تھا، آج خود خواتین باہر نکل گئی ہیں‘ جس کی وجہ سے جو خوف مَردوں کے دلوں میں تھا‘ وہ بھی باہر نکل گیا۔پولیس فوج سے بھی ڈرنے کا دَور ختم ہوگیا کیوں کہ یہ بات اس کے ذہن نشیں ہوچکی ہے کہ اب جینا ہے تو اپنی اسی سرزمین پر عزت اور وقار کے ساتھ جینا ہے۔ ورنہ فرقہ پرست بزدلوں سے مقابلہ کرکے جان دے دیناہے۔ جو بھی ہوگاکم از کم اب ہندوستانی مسلمان اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگے گا۔ اب اِن سیاہ قوانین سے دستبرداری تک اس کا جوش جذبہ، اتحاد برقرار رکھنا ضروری ہے۔ فرقہ پرستوں کے پالتو چیانلس پر ”بھونکتے اینکرس“ آخری حد تک کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح سے ملک میں انتشار پیدا ہو۔ بعض اینکرس کاحال پاگلوں اور خارش زدہ کتوں سے زیادہ بدتر ہے‘ وہ اچھے خاصے سیکولر افراد کو بھی لقمے دے دے کر زہر اُگلنے کیلئے مجبور کرنے لگے ہیں۔ 19/جنوری کو انہوں نے کشمیری پنڈتوں کو شاہین باغ میں گڑبڑ کیلئے اُکسانے میں کوئی کسر نہی چھوڑی تھی مگر اِن احمقوں کو کیا پتہ تھا کہ شاہین باغ میں ڈیڑھ مہینے سے چٹان کی طرح مضبوط اٹل اِرادوں کے ساتھ اپنے حق کیلئے آوازاٹھانے والی خواتین صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ ہندوستان کے ہر مظلوم شہری کیلئے لڑرہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاہین باغ کے پلیٹ فارم سے کشمیری پنڈتوں نے بھی اپنے درد کا اظہار کیا اور شاہین باغ کے مظاہرین نے ان کشمیری پنڈتوں کے درد کو بانٹ لیا۔ اپنی ا یک فلم کی سستی شہرت کے لئے ویویک اگنی ہوتری کی سازش ناکام ہوگئی۔ جس نے کشمیری پنڈتوں کو اُکسایا تھا کہ شاہین باغ پہنچ جائیں جہاں احتجاجی مظاہرین جشن منارہے ہیں۔

شاید یہ پہلا موقع ہے کہ نصیرالدین شاہ، سونی رازدان، جاوید جعفری، جیسے فلمی اداکار جو ہمیشہ اپنی ایک الگ دنیا میں رہا کرتے تھے ”سیاہ قوانین“ کے خلاف مظاہرین کے ہمنوا بن گئے۔ نصیرالدین شاہ نے دی وائر کو دیئے گئے انٹرویو میں کتنے کرب کے ساتھ کتنی سچی بات کہی کہ جس ملک میں 70برس سے ہیں یہاں سب کچھ کرنے کے بعد بھی اپنی شہریت ثابت کرنا ہے۔

جامعہ ملیہ، جے این یو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، آئی ٹی احمد آباد، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد، نظامیہ طبیہ کالج حیدرآباد سے لے کر ہر ادارہ نے ہندوستان کے دستور، سیکولر کردار کے تحفظ اسے فرقہ پرست طاقتوں کے چنگل سے محفوظ رہنے کیلئے جو آواز اٹھائی ہے‘ جو قربانیاں دی ہیں وہ تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائیں گی۔

اپنے حق کے لئے لڑائی سبھی لڑ رہے ہیں کہ ہر ایک کو اپنے اپنے اپنے طور پر اپنے طریقہ سے اپنی پہچان کے ساتھ اپنی طاقت کے مظاہرے کا حق اور ا ختیار ہے۔ تاہم اپنی اپنی پہچان کے ساتھ اگر تمام تحریکات متحد ہوجائیں تو کامیابی یقینی ہے۔چند مہینے ہی سہی ہم اپنی زبان پر قابو رکھیں ایک دوسرے پر تنقید‘ الزام تراشیوں سے گریز کریں۔اس وقت چاہے وہ سیاسی قائدین ہوں یا ملی‘ رہنماء یا صحافتی ادارے ایک دوسرے کی طاقت بنیں‘ نظریاتی اختلافات کو کچھ دن کیلئے سہی گٹھری باندھ کر کسی تاریک کمرے میں پھینک دیں اور ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔کسی کا نقصان نہیں ہوگا ہر د و کا فائدہ ہوگا اس وقت فرقہ پرستی تعصب، نفرت، دشمنی کا اس قدر گھٹاٹوپ اندھیرا ہے کہ جہاں سے جو بھی چراغ جلتا ہے اُسے جلنے دیں‘ ہر ایک چراغ سے روشنی لیں اور اپنی منزل کی طرف قدم بڑھاتے جائیں۔

You may also like

Leave a Comment