Home نقدوتبصرہ ’اندازِ بیاں‘-۳ کے بارے میں- نایاب حسن

’اندازِ بیاں‘-۳ کے بارے میں- نایاب حسن

by قندیل

ادب کے نئے جہانوں کی دریافت اور فکر و تحقیق کے اَن چھوے گوشوں کی بازیافت حقانی القاسمی کا خاصہ اور امتیاز ہے۔ ان کی فطرت میں مہم جوئی کی صفت ودیعت کی گئی ہے ،سوان کا ذہن و قلم روایتی موضوعات اور فرسودہ عنوانات کی بجاے غیر روایتی موضوعات کی کھوج میں مصروف رہتے ہیں۔وہ روایتی موضوعات کو بھی اپنی بے پناہ علمیت،تحقیقی سربرآوردگی،تنقیدی ژرف نگاہی اور ادبی و تخلیقی انفراد کی بدولت قاری کے لیے دلچسپ بنادیتے ہیں اور پامال عنوان پر لکھی ہوئی ان کی تحریر بھی بالکل تازہ و شاداب معلوم ہوتی ہے۔ حقانی القاسمی عصرِ حاضر کے ان گنے چنے ادیبوں میں سے ایک ہیں، جن کے یہاں اسلوب کے حسن و جمال کے ساتھ مواد و معلومات کی فراوانی بھی ہوتی ہے۔ انھیں پڑھیے تو نہ صرف زبان و ادا کا لطف حاصل ہوگا؛بلکہ متعلقہ موضوع پر آپ کے علم میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ حقانی القاسمی کی تنقید پر تخلیق کی چھاپ ہوتی ہے اور ان کی سبک و شیریں نثر پڑھ کر ذوق ووجدان جھوم اٹھتے ہیں۔
حقانی القاسمی نے اپنے لگ بھگ چالیس سالہ علمی،ادبی،تنقیدی و صحافتی سفر میں نت نئے تجربے کیے ہیں اور ان کا تقریباً ہر تجربہ گوکہ قلیل العمر رہا ،مگر کامیاب و سرخرو ضرور رہا ہے۔’اخبارِ نو‘سے شروع ہونے والی ان کی عملی صحافتی و ادبی زندگی ’نئی دنیا‘سے ہوتے ہوئے ‘استعارہ‘تک پہنچی اور استعارہ سے ہی مختصر الوجود حقانی کی ادبی کوہ قامتی کے ایک سے بڑھ کر ایک نمونے سامنے آئے۔اس کے بعد سہارا گروپ سے وابستہ ہوئے اور اس کے ادبی رسالہ ’بزمِ سہارا‘ کو اپنی ادبی و ادارتی مہارتوں کی بدولت گوناگوں محاسن و امتیازات کا نمونہ بنادیا،جتنے دن اس رسالے سے وابستہ رہے اور حالات سازگار رہے، یہ رسالہ تمام تر ادبی،فنی و علمی خصوصیات کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ ادبی صحافت میں ایک نیا تجربہ انھوں نے ۲۰۱۶میں ’اندازِ بیاں‘کے نام سےکیا اور رسائل کے بے پناہ ہجوم میں اس کا امتیاز یوں قائم کیا کہ اسے یک موضوعی رکھا،یعنی یہ طے کیا کہ یہ رسالہ دراصل ایک کتابی سلسلہ ہوگا اور اس کا ہر شمارہ کسی ایک موضوع پر مرکوز ہوگا۔ یہ مجلہ بھی حقانی القاسمی کے ادبی اکتشاف اور تحقیق و جستجو کا شاندار نمونہ ہے۔ اس یک موضوعی مجلے کے ذریعے درحقیقت وہ ایک نئی ادبی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ اس سے قبل کے اس رسالے کے دوشمارے(۲۰۱۶اور2018 (اردو دنیا میں غیر معمولی مقبولیت و شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ پہلا شمارہ خواتین قلم کاروں کی خودنوشتوں کے جائزوں پر مشتمل تھا،جبکہ دوسرے شمارے میں انھوں نے اردو دنیا کو پولیس کے تخلیقی چہرے سے روشناس کروایا تھا۔ پولیس جوکہ برصغیر میں بہ وجوہ ایک مہیب؛بلکہ بہت حد تک مکروہ و قابلِ نفریں شبیہ کا حامل طبقہ ہے،اس کے نرم و ملائم پہلو کو سامنے لاتے ہوئے حقانی القاسمی نے ماضی بعید سے لے کر عصرِ حاضر تک کے ان شاعروں،ادیبوں،تخلیق کاروں، تنقید نگاروں اور فنکاروں کی کامیاب تلاش و جستجو کا نتیجہ قارئین کے سامنے پیش کیا،جو پولیس کی نوکری کرتے ہوئے زبان و ادب و تحقیق و تنقید کی زلفیں بھی سنوارا کرتے تھے یا اب بھی وہ اس کارِ خیر کو انجام دیتے ہیں۔
پولیس کے تخلیقی چہرے کی بازیافت کے بعد حقانی القاسمی کے ذہنِ رسا نے قبیلۂ اطبا کا رخ کیا اور بڑی عرق ریزی و جاں فشانی کے بعد اندازِ بیاں کا تیسرا شمارہ میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات کے نام کرتے ہوئے تقریباً ساڑھے پانچ سو صفحات میں ہندوبیرون ہند کے درجنوں ڈاکٹر تخلیق کاروں، ادیبوں، شاعروں،مترجمین،تنقید نگار اور محققین کی خدمات کا جائزہ پیش کیا ہے۔جو لوگ ہسپتالوں کے وارڈوں میں کٹے پھٹے ،بیمار و لاچار،مدقوق و مشلول جسموں کے درمیان رہتے اور ان کی جراحی و معالجے میں مصروف ہوتے ہیں،کیا انھیں ادب جیسے فنِ لطیف سے بھی کوئی واسطہ ہوتا ہوگا؟کیا ان پر بھی ایسے شاداب لمحے اترتے ہوں گے،جب رات شعر کہا کرتی ہے اور جب فکر کے سوتے پھوٹتے اور ادب و فن کے شہہ پارے وجود میں آتے ہیں؟حقانی صاحب ہمیں ’اندازِ بیاں‘ کے تازہ شمارے کے ذریعے جواب دیتے ہیں کہ ہاں بالکل!،ان میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک ادیب،شاعر،نثرنگار،ناقد ،محقق و مترجم ہوتا ہے اور ہے،پھر وہ ہمیں ان کے احوال اور کارناموں سے بالتفصیل متعارف کرواتے ہیں۔
اس مجلے کا ہر مضمون اپنی جگہ بھرپور اور جامع ہے،مگر حقانی صاحب کا افتتاحیہ جسے انھوں نے‘دستِ مسیحائی’ کے عنوان سے لکھا ہے ، وہ لاجواب اور حقانی کے وفورِعلمیت و ادبیت کا شاہکار ہے۔ پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل اس مضمون میں حقانی صاحب نے اردو ادب کی مختلف اصناف میں میڈیکل ڈاکٹروں کی خدمات پر مختصر مگر جامع تبصرہ کیا ہے اور قاری کی ذہنی و علمی لطف اندوزی کا بھرپور سامان فراہم کردیا ہے۔ اس مضمون میں حقانی صاحب نے ۲۸ڈاکٹر شاعروں،تین مزاح نگاروں،۱۱فکشن نویسوں،چار مصنفین،پانچ مترجمین، پانچ ناقدین و محققین کا تعارف کروایا ہے۔ ان شخصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے ان کی فنی خوبیوں،تصانیف اور امتیازات کی بھی نشان دہی کی ہے۔ جو شاعر ڈاکٹر ہیں ان کے شاعرانہ کمالات بھی بیان کیے ہیں اور ان کے شعری نمونے بھی پیش کیے ہیں،جو فکشن نگارڈاکٹر ہیں ان کی کہانیوں کے خصائص و اوصاف پر بھی روشنی ڈالی ہے۔اس اداریے میں حقانی صاحب نے اردو زبان میں طب کی مختلف شاخوں اور گوشوں پر لکھی جانے والی کتابوں کی طرف بھی اشارے کیے ہیں اور ان ڈاکٹروں کا بھی تذکرہ کیاہے ،جو اپنے پیشے میں مصروف رہنے کے ساتھ زبان و ادب سے بھی والہانہ تعلق رکھتے اور وقتا فوقتا ادب دوستی کا ثبوت فراہم کرتے رہتے ہیں۔الغرض اپنی افتتاحی تحریر میں حقانی القاسمی نے ڈاکٹر اور ادب کے باہمی ربط و ارتباط کا نہایت جامع اور وسیع الذیل تعارف کروایا ہے۔حالاں کہ ساٹھ صفحے میں لکھاگیا یہ مضمون بھی ڈاکٹر ادیبوں اور تخلیق کاروں کا کلی احاطہ نہیں کرتا،کہ ان کی تعداد سیکڑوں نہیں، ہزاروں میں ہوسکتی ہے اور ان سب پر لکھنے کے لیے کئی جلدیں درکار ہوں گی ،جیسا کہ خود حقانی صاحب نے بھی لکھا ہے کہ:’’یہ محض تعارفی نوعیت کا تاثر ہے۔تفصیل سے لکھتا تو شاید ہزار صفحات بھی ناکافی ہوتے۔اس میں بہت سے ایسے نام شامل ہیں جن کی ادبی شناخت مستحکم اور مسلم ہے،ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے تخلیق کار ہوں گے،جن کی جستجو جاری رہے گی۔اِسے آپ جستجو کا ایک آغاز کہہ سکتے ہیں‘‘۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ آغاز بھی کئی انجاموں پر بھاری ہے اور اپنے آپ میں غیر معمولی اہمیت و معنویت کا حامل ہے ۔ اردو زبان میں ڈاکٹر فنکاروں،ادیبوں اور تخلیق کاروں پر ایسا مبسوط ،مفصل اور معلومات افزا مقالہ میری نظر سے نہیں گزرا۔اس مضمون کو پڑھ کر اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئین بے شمار مراجع تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں اور طلبا و اسکالرز اس کے اوّلی حوالہ جات و مصادر تک پہنچ کر باقاعدہ تحقیق و تصنیف کی بنیاد اٹھا سکتے ہیں۔گویا حقانی صاحب کا یہ مضمون میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات کو اجاگر کرنے کے حوالے سے بنیاد کا پتھر اور مشعلِ راہ ثابت ہوگا۔
مجلے کے باقی چالیس سے زائد مضامین بھی بھرپور ہیں اور اردو کے علاوہ عربی،انگریزی اور دیگر زبانوں میں لکھنے والے ڈاکٹروں کی علمی ،ادبی و تخلیقی خدمات کا مبسوط جائزہ پیش کرتے ہیں۔ آخر کے ایک باب میں ’اندازِ بیاں‘ کے پچھلے شمارے پر ملک و بیرون ملک کے مطبوعہ و برقی اخبارات،ویب سائٹس وغیرہ میں اردو اور انگریزی زبانوں میں شائع ہونے والے تبصرات و تاثرات کو بھی جمع کردیا گیا ہے۔جبکہ حقانی صاحب نے اس مجلے کا آخری باب اپنی مرحومہ و مغفورہ بیٹی انیقہ سے منسوب کیا ہے،جو ستمبر دوہزار انیس کو ایک حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئی تھی ،اس کی وفات پر بڑی تعداد میں موصول ہونے والے تعزیتی پیغامات اور اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کو اس میں محفوظ کردیا گیا ہے۔اس باب کے شروع میں حقانی صاحب کا نوٹ نہایت اثر انگیزہے اور معصوم و کم عمر بیٹی کی ناگہانی موت پر ایک حساس باپ کے درد و کرب کو بیان کرتا ہے۔ الغرض اندازِ بیاں کا یہ تیسرا شمارہ سابقہ شماروں کی طرح ہی ظاہر و باطن کے حسن و جمال آراستہ ہے اور اس کا مطالعہ ادب کے شائقین و قارئین کے لیے بے پناہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔ادب دوست اور علم و مطالعہ کے شائقین یہ مجلہ اس کے ناشر عبارت پبلی کیشنز سے حاصل کر سکتے ہیں۔رابطہ نمبر9015698045/9891726444:

You may also like

Leave a Comment