Home مقبول ترین امکان ادبی فورم کے زیر اہتمام معروف فکشن نگار شموئل احمد کی وفات پر آن لائن تعزیتی نشست کا انعقاد

امکان ادبی فورم کے زیر اہتمام معروف فکشن نگار شموئل احمد کی وفات پر آن لائن تعزیتی نشست کا انعقاد

by قندیل

دربھنگہ: شموئل احمد ان فکشن نگاروں میں ہیں جنھوں نے اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں سے الگ ہٹ کر راہ چنی جس پر وہ گامزن رہے اور کامیاب ہوئے۔ عورت کی جنسی کشش ہر دور میں موضوع فن رہی ہے اور شموئل احمد بھی اس کے اسیر ہوئے، اس لیے انھوں نے بھی اپنے افسانوں اور ناولوں میں عورت کی جنسی کشمکش اور اس کے نفسیاتی کردار وعمل کومتنوع انداز میں موضوع بنایا۔یہ باتیں معروف افسانہ نگار و صحافی ڈاکٹر سید احمد قادری نے امکان ادبی فورم کے زیر اہتمام معروف فکشن نگار شموئل احمد کی وفات پر آن لائن منعقدہ تعزیتی نشست میں صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ شموئل نے اپنے فکشن میں علم نجوم، فلکیات اور ہندو اساطیر کے اپنے مطالعے کو بڑے ہی فنکارانہ حسن و معیار کے ساتھ پیش کیا ہے۔شموئل احمد منٹو کی طرح متنازعہ رہے اور رہیں گے،یہی ان کی کامیابی ہے۔نشست میں معروف افسانہ نگار اور سابق چیف کنٹرولر، ایس ای سی ریلوے، بلاسپور، چھتیس گڑھ نے شموئل احمد صاحب کو اس صدی کے منٹو سے تعبیر کرتے ہوئے ان کی مغفرت کی دعا کی اور کہا کہ شموئل احمد اردو فکشن کے ایل الگ راگ، رس اور اور رنگ کا نام ہے۔ خواتین سے جڑے مسائل کو برتنے میں انھیں مہارت حاصل تھی۔مجھے انتظار ہی رہا کہ وہ اردو افسانے کے بے وفا مرد کے نام سے بھی کتاب منظرعام پر لائیں گے۔اس کائنات کاتخلیق کار، اس عالمی شہرت یافتہ تخلیقی فنکار کو جو سنگھاردان میں زندگی کی کڑوی سچائی کو دیکھتا دکھاتا تھا، اس شموئل احمد کے درجات بلند کرے۔
نشست کی نظامت کر رہے سی ایم کالج دربھنگہ سے وابستہ ڈاکٹر عبدالحی نے مقررین اور شرکا کا استقبال کیا اور مرحوم شموئل احمد کی خدمات اور ان کی مختصر سوانح بیان کی اور کہا کہ شموئل احمد کے کچھ افسانوں سے اختلاف کے باوجود ان کی مکمل خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔سنگھاردار، اونٹ، مصری کی ڈلی، ظہار، سراب جیسے افسانوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کے افسانے ایسے اچھوتے موضوعات پر ہیں کہ ان کا ذکر فکشن کی تاریخ میں ہمیشہ کیا جاتا رہے گا۔شموئل ایک نڈر افسانہ نگار تھے اور ان کی فکشن نگاری انھیں ایک ممتاز ادیب بناتی ہے۔ معروف صحافی اور مونگیر یونیورسٹی میں اردو کے استاد ڈاکٹر زین شمسی نے امکان ادبی فورم کی غرض و غایت بیان کی اور کہا کہ یہ تعزیتی نشست شموئل صاحب کو ہماری طرف سے چھوٹا سا خراج عقیدت ہے کہ انھیں یاد کرنے والے کم ہیں۔شموئل کا اردو فکشن میں جتنا بڑا قد ہے اس حساب سے اردو ناقدین نے ان کی پزیرائی نہیں کی ہے۔ شموئل اپنے انداز اور اسلوب کی ندرت کے لیے یاد کیے جاتے رہیں گے۔
حکومت مغربی بنگال کے اعلی عہدیدار معروف شاعر اور ادیب جناب کلیم حاذق نے اس نشست میں شموئل احمد صاحب کے ساتھ جڑی یادوں کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ شموئل احمد ایک خاص طرز کے افسانہ نگار تھے، اپنے افسانوں میں انھوں نے کردار اور واقعات کو جیسا ٹریٹمنٹ دیا ہے وہ اردو ادب میں کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کی کہانیاں زندہ رہنے والی کہانیاں ہیں۔جناب کلیم حاذق نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ بہار اردو اکادمی کے رسالے زبان و ادب کو ان پر ایک خصوصی شمارے کی اشاعت کرنی چاہئے تاکہ اس عظیم فنکار کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا جائے۔ سبھی شرکا نے اس تجویز کی تائید کی۔
اس تعزیتی نشست سے گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد کے پرنسپل اور معروف ادیب و ناقد ڈاکٹر اسلم فاروقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شموئل احمد اکیسویں صدی کے مقبول فکشن نگاروں میں سے ایک تھے، ان کی کہانیاں ہمیں چونکاتی تھیں۔ جن موضوعات پر انھوں نے قلم اٹھایا ہے اس پر لوگ لکھتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ان کے افسانے قاری کو آخر تک باندھے رکھتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں ایک فطری رنگ نظر آتا ہے۔
معروف ادیب اور دی وائر سے وابستہ صحافی ڈاکٹر فیاض احمد وجیہہ نے اس موقع پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے دور میں جب بولنے کی آزادی پر ہر طرح سے حملہ کیا جارہا ہو، شموئل احمد جیسے فکشن نویس کا ہمارے درمیان سے رخصت ہوجانا صرف ادب کا نقصان نہیں ہے بلکہ معاشرے کے اس احتجاج اور مزاحمت کا بھی تھم جانا ہے، جس کے اظہار کا حوصلہ اکثر لوگوں میں نہیں ہے۔ انھوں نے کسی بھی اردو ادیب کے مقابلے آگے بڑھ کر اپنا احتجاج درج کرایا اور آخر وقت تک فاشزم کے خلاف بولتے رہے اور ملک میں رونما ہونے والے مختلف واقعات پر بے باکی سے اپنی رائے رکھی اور مذمت بھی کی۔وہ مکتی بودھ کی بات کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اظہار رائے کی آزادی کے خطرے اٹھانے ہوں گے اور اپنے تازہ ناول چمراسر تک میں انھوں نے اسی دیدہ دلیری سے لکھنے کی کوشش کی ہے۔
دربھنگہ کے ایم ایل ایس ایم کالج میں اردو کی استاد ڈاکٹر نفاست کمالی نے کہا کہ شموئل احمد اپنے بے باک اسلوب اور منفرد لب و لہجے کے لیے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کے فکشن میں جنس اور اس کی جمالیات کا گہرا عکس نظر آتا ہے۔ ان کا دلکش اسلوب اور فنی رویہ انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز بناتا ہے۔ویر کنور سنگھ یونیورسٹی کے بھبھوا کالج میں اردو کے استاد ڈاکٹر سید اشہد کریم الفت نے کہا کہ شموئل احمد ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی تحریریں اردو فکشن میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ انھوں نے منٹو کے بعد جنسیات کو اردو فکشن میں ایک خاص نقطہ نظر کے ساتھ پیش کیا ہے۔ شعبہ صحت میں جس طرح یورولوجسٹ کی اہمیت کوہم نظرانداز نہیں کرسکتے اسی طرح ادب میں شموئل احمدکا فکشن سماجی امراض کی تشخیص میں ہماری معاونت کرتا ہے۔اس موقع پر معروف ادیب و ناقد اوردھروا کالج رانچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر غالب نشتر نے کہا کہ شموئل کا چلے جانا میرا ذاتی نقصان ہے۔ وہ نئے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور ہمیشہ رابطے میں رہتے تھے۔ ان کے ناول ہوں، افسانے ہوں یا پھر تنقیدی مضامین ، سبھی جگہ شموئل احمد نے اپنی ایک انفرادی شناخت قائم کی ہے۔ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور وہ انسان دوست ادیب تھے۔
ملت کالج دربھنگہ میں اردو کے استاد ڈاکٹر شاہنواز عالم نے اس موقع پر کہا کہ شموئل احمد کی افسانہ نگاری کے تعلق سے کسی بھی پلیٹ فارم پر جب گفتگو ہوتی ہے تو اس کی تان جنس اور جنس پرستی پرآکر ٹوٹتی ہے. حالانکہ شموئل احمد کے کئی افسانے ایسے ہیں جن میں جنس کے علاوہ دوسرے موضوعات کو فنکارانہ شعور کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔شموئل احمد کی افسانہ نگاری میں جو بات مجھے متاثر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے آدمی کی داخلی زندگی کی پر اسرار کیفیت کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے. داخلی زندگی کی تلملاہٹ اور اس کی کربناکی کا اظہار اپنے آپ میں ایک دشوار کن معاملہ ہے۔ لیکن شموئل احمد نے اس دشوار کن مراحل کو جس خوبصورتی سے طے کیا ہے اس کو افسانے میں بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے ۔’سنگھار دان’ ان کا شاہکار افسانہ ہے جس کے تعلق سے طارق چھتاری نے نے لکھا ہے کہ شموئل احمد نے اردو افسانے کو سنگھار دان کا تحفہ دیا ہے۔ اگر ان کی بات پر سنجیدگی سے غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ تحفہ کوئی معمولی تحفہ نہیں ہے بلکہ ایک غیر معمولی تحفہ ہے۔وہ تحفہ کیا ہے؟ سنگھار دان کے ناقد کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے. میری ناقص رائے میں سنگھار دان ہماری مشترکہ تہذیب کی علامت ہے جو مذہبی منافرت کی زد میں آگیا ہے۔ اسی طرح ان کا افسانہ بگولے جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے استعمال کئے جانے والے ہتھکنڈوں کا بیان نہیں ہے بلکہ ایک عورت کی عزت نفس کو سمجھنے اور برتنے کا بیان ہے۔ افسانہ اونٹ بھی جنس کے پردے میں مذہبی ریاکاری کو طشت از بام کرتا ہے. وہیں مصری کی ڈلی عورت کی جنسی نا آسودگی کا بیانیہ ہے۔مگدھ مہیلا کالج پٹنہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سہیل انور نے کہا کہ شموئل احمد ایک لائق افسانہ نگار تھے جنھیں دنیا جہاں کا علم تھا اور انھوں نے افسانوں میں اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے۔اس موقع پر گورکھپور یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر شاعر اور ادیب ڈاکٹر محبوب حسن نے شموئل کی وفات کو اردو دنیا کے لیے ناقابل تلافی خسارہ بتایا اور کہا کہ شموئل روایت شکن فنکار کے طور پر ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔
اس موقع پر شاہد حبیب فلاحی، ریسرچ اسکالر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی لکھنو کیمپس نے کہا کہ شموئل کے افسانوں عنکبوت، منرل واٹر، القمبوس کی گردن، نملوس کا گناہ وغیرہ پڑھتے ہوئے محسوس ہوا کہ فکری سطح پر شموئل نے قاری پر جس انداز میں اثرات مرتب کرنے کی کوشش کی ہے وہ ایک بڑے حوصلے کا مطالبہ کرتا ہے۔اس کے باوجود انھوں نے اپنے افسانوں میں ان موضوعات کو جگہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مخالفین زیادہ پائے جاتے ہیں۔ان سب کی پرواہ کیے بغیر وہ ادب کی تخلیق اور فکشن کی خدمت میں مصروف رہے۔
گوگل میٹ کے ذریعہ منعقدہ اس تعزیتی نشست میں ملک کے مختلف شہروں سے ریسرچ اسکالرز اور ادب دوست خواتین و حضرات اور اردو ادب کے اساتذہ نے شرکت کی جن میں ڈاکٹر سحر افروز،ڈاکٹر شمس اقبال،ڈاکٹر اعظم ایوبی،ڈاکٹر منصور خوشتر،اصغر انصاری، ڈاکٹر ابو حذیفہ،ڈاکٹر محمد جسیم الدین،محمد فیاض، معراج عالم،انور احمد،سنجیدہ بانو، ثنا اختر، فاروق اعظم، ارشاد عالم، آسیہ پروین،شازیہ خاں، پروانہ خاتون، عدنان، ترنم آرا، سلطان انصاری کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ تقریباً40 لوگ آن لائن اس تعزیتی نشست سے ڈھائی گھنٹے تک جڑے رہے۔ ڈاکٹر عبدالحی نے اظہار تشکر کیا اور شموئل احمد صاحب کے لیے اجتماعی دعائے مغفرت پر اس تعزیتی نشست کا اختتام ہوا۔

You may also like

Leave a Comment