انگریزی سے ترجمہ:حاجی محمد صابر
کیا اے ایم یو کا مطلب اللہ میاں کی یونیورسٹی ہے؟ کیا یہ ایک نہایت ہی مقدس اور خدا داد دانش گاہ ہے، جہاں اصلاح کو انسانی مداخلت سمجھا جائے اور توہین آمیز قرار دیا جائے؟آخر ایسا کیوں ہے کہ اس رہائشی یو نیورسٹی کا شیخ الجامعہ(وائس چانسلر)بننے کا حق محض اتر پردیش اور حیدرآباد کے مسلم اشرافیہ کو ہی حاصل ہے ؟ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ پروفیسر پی ۔کے عبدالعزیز 2007-2012) )کے علاوہ پچھلی ایک صدی سے تقریباً تمام وی سی اتر پردیش اور حیدر آباد کے چند مسلم خواص ہی رہے ہیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اے ایم یو کی ایگزیکٹیو کونسل (ای سی ) نہایت ہی محدود کلب، علاقائی اور طبقاتی تعصب پر مشتمل ہے؟ اسے متنوع کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ اے ایم یو کو اپنی ایگزیکٹو کونسل میں مختلف خطوں، ذیلی علاقوں، متعدد طبقات اور مختلف لسانی گروہوں سے ممبران کیوں نہیں ملنے چاہئیں؟
تاریخی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، جو ہندوستان کی سب سے بڑی رہائشی یونیورسٹی ہے، ایک طویل عرصے سےتعلیمی اور انتظامی اعتبار سے اصلاحات کی پر منتظر ہے۔ عملی طور پر ہندوستانی سیکولرازم، اعلیٰ تعلیم کے اس ادارے کے ساتھ بالکل ایسا ہی سلوک کر رہا ہے جیسا کہ مسلم پرسنل لا اور اس طرح کے دیگر معاملات کے ساتھ کرتا رہا ہے۔ اور تو اور، ہندوستانی سیکولرازم ، عملی طور پر مسلمانوں کے قدامت پرست ، رجعت پسند اور فرقہ پرست عناصر کو ہی بڑھاوا دیتااور ان کی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔
اس قدامت پرستی کا سارا الزام صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے مذہبی ماہرین یا رہنماوئںپر ہی ڈال دینا صحیح نہیںہے بلکہ کچھ معروف ماہرین تعلیم (جو انگریزی زبان میں بیان بازی کرتے ہیں، اہل الرائے مصنفین ، اثر و رسوخ رکھنے والے قانون داں،بغیر داڑھی کے کورٹ، پینٹ اور ٹائی پہننے والے کالم نگار) کسی سے کم ذات( اشراف )پرست ، پدرشاہی نظام کے حامی اور قدامت پسند نہیں ہیں۔ ان افراد کو اینگلو انتہا پسند کہنا غط نہیں ہو گا۔
آزادی کے فوراً بعدہندوؤں کی زبردست مزاحمت کے با وجود بھی نہرو حکومت نے ہندو پرسنل لا میں علامتی اصلاحات کیں۔ اسی طرح، نہرو حکومت نے ایک اور سب سے بڑی رہائشی یونیورسٹی بنارس ہندو یونیورسٹی (بی۔ایچ۔یو۔) کی انتظامی ترتیب میں بھی اصلاحات کیں۔ اے ایم یو اور بی ایچ یو دونوں یونیورسٹیوں کو بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہمہ وقت نوآبادیاتی حکومت سے یونیورسٹی کا درجہ ملا۔ دونوں اتر پردیش میں ہیں، دونوں کو مرکزسے مالی اعانت ملتی ہے ؛ دونوں اپنے ناموں میں مذہبی شناخت کے نشانات رکھتی ہیں؛ دونوں ہی تاریخ کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں ، اور دونوں ہی 1200 کروڑ روپے سے زائد عوامی پیسے سے استفادہ کرتی ہیں، لیکن جہاں بی ایچ یوکے وی سی کو تین سال کی میعاد حاصل ہے، وہاں اے ایم یو میں ان کے ہم منصب کو پانچ سال کی میعاد ملتی ہے۔ اےایم یو کے برعکس بی ایچ یو کی ایگزیکٹیو کونسل میں اس یونیورسٹی کے انٹرنل پروفیسروں کی ممبرشپ نہایت محدود ہے۔
جس طرح مسلم پرسنل لا میں اصلاح نہیں کی گئی تھی، اسی مانند اے ایم یو بھی بدستور غیر اصلاح شدہ ہے۔ لبرلز تو یہ توقع رکھتے ہیں کہ اصلاحات مسلم کمیونٹی کے اندر سے آئیں گی، لیکن امید رکھنے والوں کی نگاہیں تو کافی لمبے عرصے سے منتظر ہیں! خیر:
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک!
جو لوگ یونیورسٹیوں کے انتظامی امور سے ناواقف ہیں، ان کے لیے کچھ بنیادی حقائق کو جاننا نہایت ہی ضروری ہے۔یونیورسٹیوں کی سربراہی وائس چانسلرز کرتے ہیں، جو اپنے اختیارات بنیادی طور پر ایگزیکٹو کونسل اوراکیڈمک کونسل سے حاصل کرتے ہیں۔ یوجی سی کے ضوابط کو اپنانے اور اس کی توثیق(subordinate legislations, as observed by the Supreme Court, in the Kalyani Mathivanan vs K V Keyaraj, 11 March 2015) کرنے کے علاوہ ، ایگزیکٹیو کونسل اسٹیچوٹ، آرڈیننس، قواعد اور ضوابط تیار کرتا ہے۔ ایگزیکٹو کونسل کچھ ممبران پر مشتمل ہوتی ہے جیسے کہ اے ایم یو کی ای سی میں کل 28 ممبران ہیں۔ ان 28میںسے فی الحال 15سیٹیں خالی ہیں۔
اے ایم یو کی ای سی کی ساخت دیگر مرکزی یونیورسٹیوں سے بالکل مختلف ہے۔ یونیورسٹی میں پڑھانے والے اساتذہ کو کافی بڑی تعداد میںاس یونیورسٹی کے وی سی بذات خودنامزد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ خاص عہدے ہوتے ہیں جیسے پراکٹر یا کسی رہائشی ہال کا سینئر ترین پرووسٹ؛ دونوں ہی اپنا یہ اقتدار وی سی کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس ایگزیکٹو کونسل میں چار دیگر اساتذہ ممبران شامل ہوتے ہیں۔ ان کو اساتذہ ہی منتخب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، چھ دیگر ممبران اے ایم یو کورٹ سے ای سی کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں۔
اے ایم یو کورٹ تقریباً 180ممبران پر مشتمل ہے جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ ان افراد میںسے ایک کو اے ایم یو کے ریکٹر (اتر پردیش کے گورنر) کے ذریعے نامزد کیا جاتا ہےاور چار دیگر ممبران کو صدرِ جمہوریہ (وزیٹر) مرکزی حکومت کے ذریعےنامزد کرتے ہیں۔فی الحال 193میں سے123 نشستیںخالی ہیں۔
عملی طور پرتو اے ایم یو کے ایگزیکٹو کونسل میں شاذ و نادر ہی10 فیصد سے زیادہ ممبران غیر مسلم ہوں گے۔ان ممبران کی کافی تعداد اتر پردیش کے ان خانوادوں سے ہوگی جن کے آبا و اجداد سابقہ زمیندار اور تعلق دار تھے؛ جن کے لیے ڈیوڈ لیلیویلڈ نے اپنی کتاب Aligarh’s First Generation: Muslim Solidarity in British India, 1978میں ’’کچہر ی میلیئو‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کیاہے۔ مختصراً، یہ ’’کچہری میلیئو‘‘ ایک کلب کی مانندہے جو یونیورسٹی کی انتظامیہ میں اپنے ہی کلب کے ممبر کی تاج پوشی چاہتا ہے۔ تاریخی طور پر اس کلب کی اخلاقیات ایسی ہیں، جن کے تحت اس کلب( ’’کچہری میلیئو‘‘) کے مسلمان، ہندوستان کے بقیہ مسلمانوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ یہ بات سب سے واضح طور پر، پہلی بار، انگریزی روزنامہ’ دی پانیئر‘ میں شائع(4 اور 23 ستمبر 1875) دو خطوط میںعیاں ہوئی: محمڈن اینگلو آرینٹل کالج (اب یونیورسٹی) کے بانی سر سید احمد خان کے بیٹے، جسٹس سید محمود (1850-1903) کے ذریعہ شائع کئے گئے ان دو خطوط میں ان کی رائے کے مطابق یوپی اور پنجاب کے مسلمان ، بنگال کے مسلمانوں سے زیادہ اہمیت اور فوقیت کے حقدار تھے۔
ای۔سی ۔کی میٹنگیں وائس چانسلر کے ذریعہ بلائی اور طے کی جاتی ہیں۔ شیخ الجامعہ اپنے تقریباً تمام اختیارات استعمال کرتا ہے اور ای سی کی جانب سے اہم فیصلے لیتا ہے۔ وی سی صاحب کو ایک مکمل ایمرجنسی (صوابدیدی) طاقت بھی فراہم کی گئی ہے، جس کے مطابق ایگزیکٹو کونسل کو اطلاع صرف تبھی ملے گی جب وی سی صاحب چاہیں گے ۔ای سی ممبران کے اعتراض کو وی سی نظر انداز کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔
دیگر مرکزی یونیورسٹیوں کے برعکس اے۔ ایم۔یو۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے بڑی تعداد میں رہائشی اور غیر رہائشی اسکولوں کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ حیرت تو یہ ہوتی ہے کہ یو جی سی اسکولوں کی تعلیم کے لئے آخر فنڈ ہی کیوں دے رہی ہے؟ در اصل یہ اے ایم یو میں ہر سال ہونے والی تدریسی و غیر تدریسی عملہ کی بھرتیوں اور طلبا کے داخلوں میں تعصب اور اقربا پروری کا ایک او ربڑا میدان ہے۔ مثال کے طور پر پچھلی ایک دہائی سے زائد عرصے سے ایک پروفیسر اس پر حکمرانی کر رہا ہے۔ اے ایم یو اسکولوں کا ڈائریکٹوریٹ اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کو بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ داخلوں پر بھی کنٹرول رکھتا ہے۔پرائمری سطح پر اسکولوں میں داخلے کے لیے نہ صرف تحریری ٹیسٹ بلکہ انٹرویو بھی شامل ہیں۔ ایک چھوٹے سے معصوم بچے کا انٹرویو ’’بورڈ آف پروفیسرز ‘‘ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ان بچوں پر نفسیاتی اور ذہنی اثرات کا تصور کیا جاسکتا ہے!
در حقیقت اس طرح تو ایڈمیشن پروسیس میرٹ کی بنا پر ہونا تھا؛ جبکہ درحقیقت ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔آگے چل کران اسکولوں کے فارغین طلبا قومی مقابلہ جاتی امتحانات میں بالکل نہ کے برابر سیٹیں نکال پاتے ہیں۔ کیا اے ایم یو اسکولوں کے پروفیسر ڈائریکٹر کے پاس کوئی غیر معمولی اکادمک تحقیقی تعلیمی سندہے؟
اے ایم یو کو سب سے بڑی رہائشی یونیورسٹی ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں غیر تدریسی ملازمین کوبھی بھرتی کرنا پڑتی ہے۔اس کے نتیجے میں یونیورسٹی کے مالی حالات نہایت ہی نا گفتہ بہ ہو جاتے ہیں۔ یہ معاملہ اس قدر گمبھیر ہے کہ یونیورسٹی کی مالیاتی انتظامیہ شدید افراتفری کا شکار ہے۔یو جی سی اور مرکزی وزارت تعلیم مسلسل اے ایم یو کو مشورہ دے رہی ہیں ،اور یہاں تک کہ انتباہ بھی کر رہی ہیں کہ وہ تدریسی اور غیر تدریسی ملازمین کی کل تعداد کے مخصوص تناسب کو پورا کرنے کے لیے کام کرے، لیکن یہ مشورے اور انتباہ سعیِ لاحاصل ہیں۔ یہ خود ساختہ مالیاتی افراتفری اکثر اس کے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی میں تاخیر کرتی ہے۔ اس جاگیردارانہ ڈھانچے کی سرپرستی میں غیر تدریسی ملازمین کی ایک بہت بڑی فوج کھڑی کی گئی ہے۔ ان میں سے بہت سارے ملازمین عوامی پیسے کے عوض مختلف اکیڈیمک ایڈمینسٹریٹرس کو ذاتی خدمات پیش کرتے ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اب اساتذہ کی بھرتی کا کیا ہوگا؟ دہائیوں پہلے، ہندوستان ٹائمز نے رپورٹ کیا تھا کہ بہت زیادہ بڑھتی ہوئی اقربا پروری اور جانبداری کے نتیجے میں یونیورسٹی کے زیادہ تر ملازمین چند مخصوص مسلم خاندانوںسے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ مجموعی طور پر تعلیمی لحاظ سے سب سے زیادہ نا ن پرفارمِنگ اساتذہ ہی یونیورسٹی کے اہم ترین انتظامی عہدوں پر فائز رہتے ہیں۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ ان اساتذہ کیCVs میں شامل اشاعتوں کی فہرست پر ایک سر سری نظر ڈالیں تواس کی گواہی بھی ملتی ہے۔ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ اساتذہ ۔منتظمین میرٹو کریسی سے نفرت کرتے ہیں، تعلیمی لحاظ سے کامیاب اساتذہ کا مذاق اڑاتے ہیں اور انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سرقہ کی حوصلہ افزائی کرنے والے تحقیقی نگران ( جو خود سرقہ کے مجرم ہیں)، یونیورسٹی کے نظام میں ہیرو جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسے سرقہ باز زیادہ تر ہوم یونیورسٹی کے علاوہ دیگر مرکزی اور صوبائی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور دیگر ملازمین کے سلیکشن بورڈ پر بھی نظر آتے ہیں۔ مزیدان اساتذہ کوصوبائی سروس کمیشن کے سوالیہ پرچے ترتیب دینے اور جوابات کی جانچ کے لیے بھی بلایا جاتا ہے۔ لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان اساتذہ کی قابلیت سے تو بی اے کے طلبا تک مطمئن نہیں ہوتے۔ لہذا ، نتیجتاً اے ایم یو میں نئی نسلیں برباد ہو رہی ہیں۔ ان اساتذہ کو تعلیم کا حقیقی معیار بھلا کون سمجھائے۔
تعلیم اور تحقیق پر اِنویسٹ کرنے کے بجائے اس اقربا پروری کے عالم میں جہالت کی جڑیں مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔حال یہ ہے کہ اب اس دانش گاہ کو یونیورسٹی کہتے ہوئے شرم آتی ہے ! ان لوگوں کی ترجیحات تو علم کے فروغ کے لئے وبالِ جان ثابت ہوتی جا رہی ہیں۔ یہاں اپنے ’’اقلیتی کردار‘‘ کا تاریخی جھنڈا اٹھانے کے با وجود مسلمانوں سے متعلق تحقیقات کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ اب آپ ہی بتلائیے؛ کیا مذکورہ بالا چند مثالیں اور علامات ایک ’’یونیورسٹی سسٹم ‘‘کے لئے بہت مفید ہیں یا انتہائی مضر؟ کیا یہ قوم کے ٹھیکے دار واقعی مسلمانوں کے پرفارمِنگ اثاثہ ہیں یا پھرمسلمانوں کے مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹنے والی "non-performing liabilities”ہیں۔ قارئین کو مر حوم عمر خالِدی کے اس موضوع سے متعلق تحریر شدہ مضمون سے بھی کچھ جوابات مل سکتے ہیں۔ ملاحظہ ہو؛ (Twocircles.Net, May 24, 2010)
اب اہم سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ: اگر ان سے چھٹکارا نہیں پایا جا سکتا تو آخر ان مسائل کا حل کیا ہے؟ کسی بھی یونیورسٹی کے نظام پر اس کے ایگزیکٹیو کونسل کی بالادستی ہوتی ہے ۔ چاہے وہ طالب علم ہوں، یا اساتذہ، یا غیر تدریسی عملہ، سب سے زیادہ تعداد اتر پردیش اور بہار سے ہی آتی ہے۔ اے ایم یو میں یوپی اور حیدرآبادکے مسلم اشرافیہ کے علاوہ اور بھی وی سی رہے ہیں، جنہیں کچہری ملیوکہا جاتا ہے۔کچہری میلیئو کے درمیان ہی وی۔ سی۔ کے عہدے کومحدود رکھنے کے اس استحقاق’ کے پیچھے کچھ عوامل ضرور ہوتے ہوں گے؛ اس استحقاق کا ایگزیکٹو کونسل کی تشکیل سے کوئی تعلق تو نہیں ہے، جس میں فوری اصلاحات کی اشد ضرورت ہے؟ ای سی ایک ایسا محدود کلب ہے کہ اگر عدالتی انکوائریوں کی رپورٹس ، مالی گھوٹالوں اور بھرتیوں میں گھپلوں کو بے نقاب کرتی بھی ہیں، تو بھی ان سفارشات کو نافذ نہیں ہونے دیا جاتا ہے۔ ہر غلط کام پر پردہ ڈالا جاتا ہے ۔مختصر یہ کہ یونیورسٹی میں پھیلی برائیوں کے لیے کافی حد تک الزام ایگزیکٹو کونسل کی کمپوزیشن پر ڈالا جاسکتا ہے ۔ لہذا سماجی طور پر زیادہ حقیقت پسندانہ اور قابلِ نمائندگی بنانے کے لیے ای۔سی۔کی کمپوزیشن میں اصلاح و ترمیم وقت اور حالات کا اہم تقاضہ ہے۔
اس کے علاوہ یہ امر بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اے۔ایم۔یو۔ میں وی۔سی۔ کے انتخاب کا عمل دیگر مرکزی یونیورسٹیوں سے مختلف نہیں ہونا چاہیے۔ اے ایم یو ایکٹ1981 کے متعلقہ جزو میں یکسانیت لانے کے لیے ضروری ترمیم کی جانی چاہیے۔ اس مخصوص جزو کا شاید ہی اے ایم یو کےاقلیتی کردار پر کوئی اثر پڑتا ہے ، جو اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مقدمہ زیر سماعت ہونے کے باوجود بھی اے ایم یو نے یو جی سی کے ضوابط کو اپنانے کے لیے محدود ترمیم کی ، جس کے تحت وی سی کی زیادہ سے زیادہ عمر 70 سال تک بڑھا دی گئی ہے، جب کہ پرو وائس چانسلر کے لیے عمر 65 سال ہی رہنے دی گئی ہے۔ ستم ظریفی تویہ کہ یو۔جی۔سی۔ کے ضابطے، جس کے مطابق وائس چانسلرشپ کو دس سال کا تجربہ رکھنے والے پروفیسرز تک ہی محدود کیا گیا ہے، اس شق کو بھی موقع پرستانہ طور پر اپنایا گیا ہے۔مزید یہ کہ وائس چانسلرشپ کے انتخاب میں سرچ و سلیکشن کمیٹی کے اصول کو بھی شاطرانہ طور پر نظرانداز کیا گیا ہے ، کیونکہ ابھی بھی اے ایم یو میںوی سی کا انتخاب اس کی ایگزیکٹو کونسل اور اے ایم یو کورٹ کے ذریعے کیا جاتاہے!
جب کہ دیگر مرکزی یونیورسٹیوں کی ای۔ سی۔ دو ممبروں کا انتخاب کرتی ہے جس میں تیسرا ممبر وزیٹر (مرکزی وزارت تعلیم کے ذریعے صدر جمہوریہ) سے شامل کیا جاتا ہے۔ یہ تین رکنی کمیٹی ”سرچ و سلیکشن کمیٹی” کے طور پر کام کرتی ہے۔ یہ کمیٹی اگلے وی۔سی کے لیے ناموں کے ایک پینل کی تجویز کرتی ہے اور ان ناموں میں سے ایک کو مرکزی حکومت وی۔ سی کے طور پر مقرر کرتی ہے۔لیکن اے ایم یو میں کُل پانچ ناموں کے پینل کو شارٹ لسٹ کیا جاتا ہے اور پھر اے ایم یو کورٹ ان پانچ میں سے دو نام حذف کر دیتی ہے اور بقیہ تین نام مرکزی حکومت کو بھیجے جاتے ہیں۔ آخر کارتین میں سے ایک کو اے ایم یو کا وی سی مقرر کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، اے ایم یو کورٹ اونچی ذات کے قدامت پسند، پدر شاہی اور رجعت پسند مسلمانوں کا ایک مجموعہ ہے جہاں وی سی شپ کے امیدوار کو اس کورٹ سے کامیاب ہونے کے لئے میونسپل باڈی کے انتخابات کے امیدوا ر کی مانند ، خود کو نیچے لانا پڑتا ہے۔ وی ۔سی کے انتخاب کا یہی عمل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ زیادہ تر ”کچہری میلیئو” سے ہی تعلق رکھنے والے اشرافیہ وی۔ سی۔ بنا دئے جاتے ہیں۔
یہ اے ایم یو کے اس ایگزیکٹیو کونسل، کورٹ، اور اکیڈمک کونسل، وغیرہ، کی ساخت ہے، جو میرٹوکریٹک داخلہ پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اے ایم یو میں، قانون کے کورسز میں CLAT کے ذریعے؛ انجینئرنگ میں JEE کے ذریعے، اور دوسرے کورسز میں CUET کے ذریعے داخلہ کیوں نہیں ہونا چاہئے؟ اے ایم یو میں داخلہ مافیا اور ان کا غلبہ اس قدر مضبوط ہے کہ کچھ مخصوص نان پرفارمنگ امیدواروں (خاص طور پر بی ٹیک، ماسٹرز ان لاء، پی ایچ ڈی، وغیرہ)کے داخلوں کے لیے انتخابات متوقع (predictable) رہتے ہیں۔مثلاً:
’’کچھ اندرونی لوگوں نے راقم کے ساتھ اعتراف کیا کہ 2021 میں سوالیہ پرچہ اس وقت بھی لیک ہو گیا تھا جب بی ٹیک کا داخلہ ٹیسٹ ہو رہا تھا۔ اس کا الیکٹرانک ثبوت اے ایم یو اساتذہ کے واٹس ایپ گروپس پر ایک سینئر پروفیسر (ڈین، ایگریکلچرل سائنسز، جو ایگزیکٹیو کونسل کے سابقہ رکن بھی تھے) نے دستیاب کرایا تھا۔ اس کے باوجود بھی ، امتحان کو منسوخ نہیں کیا گیا ، اور سوالیہ پیپر کے ایک اور سیٹ کے ساتھ دوبارہ منعقد نہیں کیا گیا‘‘۔
لہذا اے ایم یو بہت تیزی سے ایک ”پولیس ضلع” بن رہا ہے جو طلبا کی بے ضابطگی اور بد تہذیبی سے دوچار ہوتا جا رہا ہے۔ طمنچہ اور کٹّہ کیمپس کی عام لغت بن چکا ہے؛ یاد رہے، ایسی علامات اقربا پروری اور تعصبی خصلت سے زیادہ عیاں ہوتی ہیں۔ ان طلبا کو مختلف قسم کے تحفظات اور مراعات کے ذریعے ترقی کی منازل طے کرائی جاتی ہیں، جن میں سول تعمیرات کے ٹینڈر اور رہائشی ہالوں/ ہاسٹلوں میںسینئر فوڈ؛ وارڈن ہائوسس پہ قبضہ؛ اور یونیورسٹی کی طرف سے دیگر قسم کے سازوسامان اور سٹیشنری کی خریداری کے ٹھیکے شامل ہیں۔ اے ایم یو کورٹ کے 180 ممبران میں سے کم از کم 15 طلباممبران بھی شامل ہیںاور کئی کورٹ ممبران تو سابقہ طلبا ہی ہوتے ہیں۔ ان طلبا میں سے کچھ لینڈ مافیا میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان میں سے اچھی خاصی تعداد اتر پردیش اور بہار کے اس طرح کے ضائع ہوچکے طالب علموں کی ہے۔ طلبا کی بے ضابطگی سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ اکثر و بیشتر ایسے طلبا اور سابق طلبا کی سرپرستی ، استاد منتظمین کرتے ہیں۔ تعجب کی بات نہیں کہ ایسے اساتذہ میں سے کچھ لینڈ ڈویلپرز اور ہاؤسنگ اپارٹمنٹ بنانے والوں کے پیشے سے سرمایہ دار بن رہے ہیں۔ اس سرمایہ کا استعمال بر سرِ اقتدار پارٹی کے دلالوں کو رشوت دے کر وائس چانسلری حاصل کرنے میں کیا جائے گا۔
مختصر یہ کہ اے ایم یو کو اپنی بھرتیوں اورداخلوں کے طریقہ کار میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ میرٹوکریسی اور سماجی تنوع کو غالب کرنے کے لیے، اس کی ایگزیکٹو کونسل کی تشکیل کو اصلاحات کے ذریعے تبدیل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس میں جتنی تاخیر ہوگی اتنی ہی بیماری مہلک او ر کینسر کی طرح لاعلاج بنتی جائے گی۔
(اصل مضمون7مارچ کو انگریزی ویب سائٹ ریڈف ڈاٹ کام پرشائع ہوا ہے)