میرا تعلق ریاست اترپردیش کے ایک پس ماندہ ضلع بہرائچ سے ہے ، جو لکھنؤ سے تقریباً 125 کلومیٹر شمال میں نیپال سے متّصل واقع ہے۔
مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ آج سے 66 برس قبل 1954ء میں ایک ہندو زمین دار سنت رام نے ، جو علاقہ مہسی کے میگلا نامی گاؤں کے باشندہ تھے ، اپنا ایک وسیع قطعۂ اراضی (41 بگھہ 13 بسوا) علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کو عطیہ کیا تھا ۔ چودھری سنت رام نے اپنی تمام جائیداد کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور بنارس ہندو یونی ورسٹی کے درمیان برابر برابر تقسیم کردیا تھا۔
طویل عرصے تک اس قطعۂ اراضی کا کوئی خبر لینے والا نہ تھا۔ چند برس قبل وہاں تعلیمی اور رفاہی کاموں سے دل چسپی رکھنے والے کچھ افراد نے اس معاملے میں دل چسپی لی ، زمین کے کاغذات نکلوائے ، مسلم یونی ورسٹی کے ذمے داروں سے رابطہ کیا اور اس زمین کا کوئی اچھا مصرف نکالنے پر زور دیا ۔ بالآخر یونی ورسٹی کے ذمے داروں نے اس پر ایک ہائر سیکنڈری اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اللہ کرے ، یہ کام جلد ہوجائے ۔ بنارس ہندو یونی ورسٹی کی طرف سے غالباً اب تک اس کو عطیہ کی گئی زمین کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
کیسے کیسے لوگ تھے جنھوں نے مذہب اور ذات پات سے اوپر اٹھ کر قوم کی تعلیمی ترقی کی فکر کی تھی اور اپنی ساری دولت اس کام کے لیے نچھاور کردی تھی۔ سر سید علیہ الرحمۃ کے دور سے آج تک مسلم یونی ورسٹی کو تعاون فراہم کرنے والوں میں ہندوؤں کی بھی خاصی تعداد ہے۔