(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اقلیتی کردار پر اٹھنے والے سوالات پر ، چیف جسٹس چندر چوڈ کے جمعہ کے فیصلے نے ، فی الحال تو روک لگا دی ہے ، لیکن سوالات کرنے والے اور مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرانے کی خواہش رکھنے والے ، کتنے دن خاموش رہیں گے ، اور کیا چیف جسٹس کے فیصلے نے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ہمیشہ کے لیے محفوظ بنا دیا ہے ، اس بارے میں حتمی طور پر ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے ، کہ خود چیف جسٹس کی سربراہی والی سات رکنی بنچ نے ، ایک تین رکنی بنچ کو ، مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے حتمی فیصلہ کی ذمہ داری سونپ دی ہے ۔ حالانکہ تین رکنی بنچ اپنا فیصلہ چیف جسٹس کی سربراہی والی سات رکنی بنچ کے فیصلہ کی روشنی ہی میں کرے گی ، لیکن جب تک کوئی فیصلہ نہیں آجاتا ، ایک دھڑکا لگا رہے گا ۔ عدلیہ پر ان دنوں بڑا دباؤ رہتا ہے ، اور دباؤ کا کبھی کبھی منفی اثر بھی پڑ جاتا ہے ، اس کی سب سے روشن مثال بابری مسجد کا فیصلہ ہے ۔ ایک وجہ وہ عناصر بھی ہیں جو مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کے مخالف ہیں ۔ ان عناصر میں حکمراں ٹولہ بھی شامل ہے ، بلکہ پیش پیش ہے ۔ نہ جانے کب یہ عناصر کوئی چال چل جائیں اور ایک سیدھا سادا فیصلہ کوئی اور رخ اپنا لے ۔ لہذا جب تک مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے تعلق سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں آجاتا ، تب تک دھڑکنیں بے قابو رہیں گی ۔ لیکن ضروری ہے کہ دھڑکنوں کو قابو میں کیا جائے اور جمعہ کے فیصلہ پر غور و غوض کرکے آگے کا لائحۂ عمل طے کیا جائے ۔ چیف جسٹس نے اپنے فیصلہ میں ، جو چار جج صاحبان کی حمایت اور تین کی مخالفت کی بنیاد پر دیا گیا اکثریتی فیصلہ ہے ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھا ہے ، انہوں نے بہت واضح لفظوں میں کہا ہے کہ اقلیت کے ذریعہ بنایا گیا ادارہ اقلیتی ادارہ ہی کہا اور مانا جائے گا ، اگر اس ادارہ کا انتظام غیر اقلیت کے ہاتھوں میں ہے تب بھی اس کا اقلیتی کردار متاثر نہیں ہوگا ، اور انتظامیہ غیر اقلیت کی ہو سکتی ہے ، لیکن اسے ادارہ کے اقلیتی کردار سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوگا ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا مُسلم یونیورسٹی نے خیرمقدم کیا ہے ، مسلم دانشوروں نے بھی اسے سراہا ہے ۔ لیکن فیصلہ میں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جنہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔ مثلاً کہا یہ جا رہا ہے کہ ’ غیر اقلیتی انتظامیہ ‘ کی بات کرکے چیف جسٹس نے مسلم یونیورسٹی میں حکومت کو مداخلت کا موقع فراہم کر دیا ہے ! اس مقدمہ پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ اپنے فیصلہ کے ذریعہ سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق 1967 کے سید عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا جج مینٹ کو مسترد کیا ہے ۔ عزیز باشا کے فیصلے میں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کوئی ادارہ جسے کسی سینٹرل ایکٹ کے ذریعے قائم کیا گیا ہو ، وہ اقلیتی کردار کا حق دار نہیں ہوسکتا ۔ لیکن چیف جسٹس چندر چوڑ کی قیادت میں سپریم کورٹ نے اپنے ہی سابقہ فیصلے کو پلٹتے ہوئے کہا ہے کہ کسی ادارے کا اقلیتی کردار محض اس بنیاد پر ختم نہیں ہوسکتا کہ اس ادارہ کا قیام پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعہ عمل میں آیا ہے ، لہذا عزیز باشا مقدمہ میں سپریم کورٹ کا سابقہ موقف اور استدلال دونوں غلط ہے ، مزید یہ کہ چیف جسٹس نے فیصلہ میں یہ بھی کہا ہے کہ آرٹیکل 30 کا اطلاق ان سبھی اداروں پر یکساں طور پرہوتا ہے جو آئین ہند نافذ ہونے سے قبل قائم ہوئے ہیں اور جو آئین کے نفاذ کے بعد قائم ہوئے ہیں ، اور یہ کہ اقلیتی ادارہ ہونے کے لیے صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ ادارہ مکمل طور پر اقلیت کے ہاتھ میں ہو ، بلکہ اس کا قیام اقلیت کے ذریعے ہونا لازمی ہے ۔ پھر بھی اگر اس فیصلہ پر کوئی شک و شبہ ہے تو اس پر غور و خوض لازمی ہے ۔ مسلم یونیورسٹی کے ذمہ داران ، ماہرین قانون ، دانشوران اور علیگ برادری کو چاہیے کہ وہ یہ دیکھیں کہ یہ فیصلہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو متاثر کرے گا یا یہ فیصلہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے دعوے کو مزید مضبوط اور پختہ کرے گا ، اور اس کے بعد اگر ، فیصلہ میں کسی قسم کی کمزوری نظر آئے ، تو اسے دور کرنے کے لیے ، اور آگے کی قانونی لڑائی کے لیے تیاری شروع کی جائے ۔ لڑائی یقیناً اس فیصلہ پر ختم نہیں ہوئی ہے ، مسلم یونیورسٹی کی یہ لڑائی ابھی جاری ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)