شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
ہندستان کے وزیر داخلہ امت شاہ کے تعلق سے اخبارات میں جو بیانات شائع ہوتے ہیں، اُن میں اقلیت آبادی سے نفرت، بدلہ لینے کی خو، شدّت پسند اعلانات اور ڈرانے دھمکانے جیسے معاملات زیادہ سے زیادہ سامنے آتے ہیں۔ اُن کا ماضی تو اِس سے بھی مشکل اور قوم کے لیے صبر آزما رہا ہے۔ گجرات کے فسادات کے لیے یہ بات کہی جاتی ہے کہ مودی جی کے منشا کے مطابق امت شاہ نے ہی سارے آپریشن انجام دیے تھے جس کے لیے دونوں پر مقدّمات چلے اور امت شاہ کو جیل اور روپوش رہنے کے جبر کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ خیر سے جب وہ ہندستان کے وزیرِ داخلہ اور ایک میعاد تک بھارتیہ جنتا پارٹی کے جب صدر ہوئے، اُس زمانے میں بھی اُن کی گذشتہ پہچان سایہ کی طرح اُن کے ساتھ رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ ایک دہائی سے زیادہ مدّت تک وزیر داخلہ ہونے کے باوجود اُن کی ہندستان یا عالمی سطح پر مدبّرانہ حیثیت قائم نہیں ہوئی اور اُن کی باتیں، تقریریں یا الیکشن کے موقعے سے آنے والے بیانات سے بھلے ووٹ حاصل ہو جاتے ہوں مگر ایک ماہر سیاست داں اور وزیرِ اعظم کے بعد نمبر دو شمار کیے جانے والے فرد کی حیثیت سے اُن کی شناخت کا دائرہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے باہر نکلتا ہوا نظر نہیں آتا۔ علم سیاسیات کے ماہرین کے لیے بھی یہ قابل غور نکتہ ہے کہ وہ محترم وزیر داخلہ کے سیاسی عروج اور کار کردگی کے ساتھ اُن کے افکار و نظریات اور ملک و قوم کے بارے میں اُن کی فکر مندی کے معاملات پر مضامین اگر لکھیں بھی تو اُن میں کیا لکھیں؟
گذشتہ جمعہ کو ٹیوٹر (ایکس) پر امت شاہ کے حوالے سے ایک حیران کُن اور تعجّب خیز خبر آئی۔ معلوم ہوا کہ امت شاہ نے اپنے پارلیمانی حلقہ گاندھی نگر میں موجود نئے پرانے کتب خانوں میں دو دو لاکھ روپے کی کتابیں خرید کر بھیجی ہیں اور وہ اِس بات کے لیے فکر مند ہیں کہ ملک میں کتابوں سے بے رخی کا کیسے مقابلہ کیا جائے اور کس طرح ایسا ماحول بنایا جائے کہ لوگ کتب خانوں تک آئیں اور اپنے مزاج کے اعتبار سے کتابوں کو منتخب کر کے پڑھنے کی کوشش کریں۔ امت شاہ نے ٹیلی کانفرنسنگ سے اُن کتب خانوں کے لائبریرین حضرات سے بات کی اور اُن کے اندر ترغیب نَو پیدا کرنے کے لیے متعدد مشورے دیے۔ امت شاہ نے لائبریرین صاحبان کو یہ مشورہ دیا کہ آنے والے برس میں تیس فی صد ریڈر شپ کیسے بڑھ سکے گی، اِس کے لیے علمی کوششوں کی ضرورت ہوگی۔ اُنھوں نے قارئین اور لائبریری سے استفادہ کرنے والے افراد کو مرکز میں رکھتے ہوئے اِس بات کی صلاح دی کہ ذرا اُن کی دل چسپیوں اور ضرورتوں کا بھی پتا لگائیں کہ وہ کن موضوعات اور مضامین کی کتابوں کو پڑھنا چاہتے ہیں اور لائبریری اُن کتابوں کو پہلی فرصت میں حاصل کر کے پڑھنے والوں کو فراہم کرے۔ امت شاہ کا لائبریرین حضرات کے لیے ایک اور صلاح یہ تھی کہ ٹیکنا لوجی کی مدد سے ہر لائبریرین اپنے قارئین کے ذوق اور ضرورت کو سمجھنے کی کوشش کرے اور جلد سے جلد اُنھیں اُن کی خواہش کے مطابق کتابیں فراہم کرنے کی کوشش کرے۔ اُن کا ایک اور مشورہ بہت گار گر ہے کہ اہم ترین کتابوں کا ڈی جی ٹلائی زیشن جلد از جلد ہو تاکہ اُن سے استفادہ کرنے میں ہر خواص عام کو سہولت حاصل ہو۔
۲۰۱۴ء میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آئی، تعلیم اُن کے لیے اولیت کا شعبہ نہیں تھا۔ اسمرتی ایرانی سے شروع کر کے دھرمندر پردھان تک اگر تمام وزرائے تعلیم کی فہرست پیش نظر ہو تو یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ اِس حکومت کو تعلیمی ماہرین کی کبھی ضرورت نہیں رہی۔ یہاں نریندر مودی اور امت شاہ کی ڈگریاں زیرِ بحث نہ آئیں تو اچھا ہے کیوں کہ اُنھوں نے زندگی اور سڑک سے جو سیاست سیکھی، اُس نے اُنھیں ملک کی زمام دس برسوں سے سونپ رکھی ہے۔ نریندر مودی نے وزیر اعظم بننے کے پہلے ہی سال یومِ اساتذہ پر ملک بھر کے چنے ہوئے طلبہ کی ایک نمایندہ کلاس لگائی تھی اور باضابطہ طور پر استاد کی طرح اُس دن اُنھوں نے درس و تدریس کے فرائض انجام دیے تھے۔ دس برسوں میں کئی بار سی۔ بی۔ ایس۔سی۔ بورڈ کے امتحانات سے پہلے اُنھوں نے بچّوں کو امتحان کو بوجھ کے طور پر نہیں لینے کا سبق سکھانے کے لیے پھر کلاس لگائی۔ اپنے من کی بات میں کبھی کبھی اُنھیں تعلیم کی بات یاد آ جاتی ہے مگر جہالت سے لڑ رہے ہندستانی سماج میں تعلیم کو جس انداز سے مرکزی ایجنڈا کا حصّہ بنایا تھا، اُس میں اِس حکومت کی کوئی خاص دل چسپی ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی۔ وزیر داخلہ نے تو اِن دس گیارہ برسوں میں کبھی جھوٹے منہ بھی موڑ کر یہ نہیں دیکھا کہ ہندستان کی تعلیم گاہیں کیا کر رہی ہیں اور کیا وہ ملک کے وقار میں اضافہ کرنے کی اہل ہیں یا نہیں؟ اِس کے بر خلاف یو۔ جی۔ سی۔ کے چیر مین اور مرکزی یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلرس جن بنیادوں پر چنے جانے لگے، وہ بڑے تعلیمی اداروں کے ترقی معکوس کے وسائل بن گئے۔ نیٹ اور دوسرے بڑے قومی سطح کے امتحانات میں بڑے پیمانے پر بے ایمانی اور نا انصافی کو رَوا رکھنے کے الزامات عائد ہوتے رہے۔ کئی بار امتحانات کو یا اُن کے رزلٹ کو مسوخ کرنا پڑا یا اکثر لیپا پوتی کر کے حکومت نے خود کو بچایا مگر دیش کے با صلاحیت بچّوں کے مستقبل سے کھیلواڑ قائم ہو گیا۔ اِس میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر تعلیم کی جواب دہی سے کیوں کر انکار کیا جا سکتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اور اُن کی حلیف جماعتوں پر صرف تعلیمی اداروں کے ساتھ بد سلوکی کا الزام نہیں ہے بل کہ جمہوری اداروں کے فطری ارتقا پر قد غن لگانے میں بھی اُن کی مہارت ثابت ہوتی ہے۔ راجا رام موہن رائے فاؤنڈیشن کو حکومت نے برسوں سے اتنا کمزور ادارہ بنا دیا جس کی وجہ سے ملک بھر میں کتب خانوں کے لیے کتابوں کو سرکار کی جانب سے تقسیم کا عمل مفلوج ہو کر رہ گیا۔ پہلے دَور میں کچھ چنندہ ناشرین کی مٹھّی میں یہ ادارہ قید ہو گیاتھا، بعد میں اُس کی جمہوری کارکردگی کو رفتہ رفتہ سلب کرتے ہوئے ایک ناکارہ شعبے میں اُسے تبدیل کر دیا گیا۔ آج ملک بھر میں حکومتِ ہند کی جانب سے کوئی ایک بھی ایسا ادارہ نہیں جس کے فرائض میں یہ بات داخل ہو کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے چھوٹے بڑے، سرکاری اور غیر سرکاری کتب خانوں کی مالی مدد، کتابوں سے مدد یا انفرا اسٹرکچر کو فروغ دینے کے لیے معاونت کی کوئی صورت پیدا کر سکے۔ جو ادارے مرکزی حیثیت کے حامل تھے، اُن کے احوال بھی نا گفتہ بہ بنا دیے گئے ہیں۔ اِن دس برسوں میں رضا لائبریری، رام پور کی تحقیقی اور علمی حیثیت کو مٹّی میں ملانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ دھیرے دھیرے غیر اردو داں افراد کو ایسے اداروں کی چور دروازے سے سر براہی پیش کر دی جاتی ہے۔ اِن دس برسوں میں خدا بخش اورینٹل پبلک رائبریری کا حال تو اور برا رہا۔ بغیر ڈائرکٹر کے اتنے بڑے ادارے کو چلانے کا حکومتِ ہند کا ایک عجیب و غریب انداز ہے۔ دو بار ڈائرکٹر کے انتخاب کے لیے اشتہارات نکلے، قومی سطح کی انتخابی کمیٹی بنائی گئی لیکن کمیٹی نے جو سفارشات پیش کیں، اُنھیں مرکزی حکومت خارج کر دیتی ہے۔ ابھی ابھی اِسی ہفتے میں خدا بخش لائبریری کے خالی پڑے ڈائرکٹر کے عہدے کے لیے جو انتخابی کمیٹی نے جو سفارش کی تھی، اُسے کابینہ وزیر جناب دھرمیندر پردھان نے منسوخ کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں بھی غیر اردو داں کو انچارج بنا کر بھیجنے کی پوشیدہ خواہش اب عمل پیرا ہوگی۔ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے گرانٹ سے ملک کی ہزاروں لائبریریوں کو سالانہ سو دو سو کتابیں اور نئی مطبوعات مفت میں حاصل ہو جاتی تھیں۔ رسائل کی ایک بڑی تعداد بھی اِس اسکیم کی تحت کتب خانوں میں پہنچ جاتی تھی۔ ملک کے ہر شہر کے دس بیس اداروں کو مالی معاونت دے کر کچھ ادبی گہما گہمی ہو جاتی تھی مگر اب یہ خواب و خیال کی باتیں ہیں۔
امت شاہ نے اپنے حلقۂ انتخاب میں کتب خانوں اور کتابوں کے لیے جو ہم دردانہ سلوک شروع کیا ہے، اِس کا سلسلہ آگے بڑھنا چاہیے۔ وہ اور ہمارے وزیرِ اعظم ایک منٹ میں یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہر پارلیمنٹ کا ممبر اپنے حلقۂ انتخاب کی سو پچاس لائبریریوں کی کتابوں سے، انفرا اسٹرکچر سے اور جدید کاری کے لیے ساز و سامان مہیّا کرانے کی پہل کر دیں تو ملک میں ایک تعلیمی انقلاب آ سکتا ہے۔ جہالت اور غربت سے لڑنے کے لیے کتابوں سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں۔ ایسے کاموں سے امت شاہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی دونوں کی امیج ببی بدلے گی اور عوام میں اُن کی نیک نامی میں بے شک اضافہ ہو سکتا ہے۔ کاش! اِس خوش خیالی کو سطحی سیاست کی نظر نہ لگے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)