Home تجزیہ امیش دیوگن کیس:سپریم کورٹ میں کیا ہوا؟ـ ایم ودود ساجد

امیش دیوگن کیس:سپریم کورٹ میں کیا ہوا؟ـ ایم ودود ساجد

by قندیل

سپریم کورٹ نے امیش دیوگن کے خلاف درج مختلف ایف آئی آر کو کالعدم کرنے کی پٹیشن پر آج تفصیلی بحث کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔

میں نے پروسیڈنگ کا مشاہدہ کرنے اور پھر اس کو لفظ بہ لفظ پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگایا ہے کہ سپریم کورٹ کی خواہش ہے کہ نوئیڈا میں درج ایف آئی آر پر تفتیش ہو اور باقی تمام ایف آئی آر کو سیکشن 161 یا سیکشن 162 کے تحت بیانات میں تبدیل کردیا جائے اور شکایت کنندگان کو بطور گواہ تسلیم کرلیا جائے ۔

واضح رہے کہ تلنگانہ اور مہاراشٹر میں بھی امیش دیوگن کے خلاف ایف آئی آر کرائی گئی ہیں ۔آج تلنگانہ اور مہاراشٹر سرکار کے وکیلوں نے بھی بحث کی اور عدالت سے استدعا کی کہ ان کے صوبوں میں درج ایف آئی آر کو کالعدم نہ کیا جائے ۔۔۔ انہوں نے دلیل دی کہ ہر چند کہ مدعا علیہ (امیش دیوگن) ایک ہی شخص ہے اور ایک ہی موقع کے خلاف یہ تمام ایف آئی آر ہیں تاہم ان کے صوبوں (تلنگانہ اور مہاراشٹر) میں درج ایف آئی آر میں الزامات کی نوعیت مختلف ہے۔

یہاں یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ سب سے پہلی ایف آئی آر راجستھان کے اجمیر میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد کوٹا میں ہوئی۔پھر نوئیڈا میں ہوئی۔ امیش دیوگن کی کوشش ہے کہ اگر ساری ایف آئی آر کالعدم نہ ہوں اور کوئی ایک باقی رہے تو پھر نوئیڈا میں درج ایف آئی آر باقی رہے۔ کیوں کہ ایک تو اس کا دفتر نوئیڈا میں ہے اور دوسرے وہاں یوگی کی سرکار ہے جو امیش دیوگن کی حمایت کر رہی ہے۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ امیش دیوگن نے بھی خود کو دھمکی دینے والوں کے خلاف ایک مبہم سی ایف آئی آر کرا رکھی ہے۔ لیکن جب اس کے وکیل نے اس ایف آئی پر بات کرنی شروع کی تو راجستھان سرکار کے وکیل نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ سپریم کورٹ میں آپ کی ایف آئی آر زیر بحث نہیں ہے۔

آج کی سماعت بڑی لمبی اور دلچسپ تھی۔تاہم زیادہ تر وقت خالص قانونی موشگافیاں ہوتی رہیں جو عوام کے لئے دلچسپی کا سامان نہیں رکھتیں ۔راجستھان سرکار چاہتی ہے کہ چونکہ اوریجنل ایف آئی آر اجمیر میں ہوئی تھی اس لئے ارنب گوسوامی کے کیس کی بنیاد پر اس کیس میں بھی اجمیر کی ایف آئی آر باقی رکھی جائے ۔امیش دیوگن کے وکیلوں کی کوشش ہے کہ اجمیر کی ایف آئی آر کالعدم کردی جائے ۔ راجستھان سرکار کے وکیل منیش سنگھوی اور اجمیر کے شکایت کنندہ کے وکیل سشیل کمار نے اچھی بحث کی۔

سب سے شاندار’ دلائل سے بھرپور اور متاثر کن بحث مہاراشٹر سرکار کے وکیل رضوان مرچنٹ نے کی۔ ان کے استدلال کا خلاصہ یہ تھا کہ ہر ایف آئی آر کی اپنی اہمیت ہے اور ہر شکایت کنندہ ایک الگ اکائی ہے لہذا کوئی ایف آئی آر کالعدم نہ کی جائے اور ہر ایف آئی آر پر تفتیش ہو۔ انہوں نے امیش دیوگن کی بدزبانی کی بھی کئی مثالیں دیں اور کہا کہ علاؤالدین خلجی موضوع بحث تھا لیکن امیش دیوگن نے ایک بار نہیں بلکہ تین بار خواجہ معین الدین چشتی کو لٹیرا کہا۔ انہوں نے بتایا کہ خلجی ہندوستان میں اس وقت آیا جب خواجہ چشتی اس دنیا سے کبھی کے رخصت ہوچکے تھے۔

بہر حال صحیح صورتحال تو فیصلہ آنے کے بعد ہی سامنے آسکے گی لیکن یہ بات واضح ہے کہ امیش دیوگن کے نٹ بولڈ کسے ضرور جائیں گے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment