Home تجزیہ امریکی کانگریس میں شرم ناک جھوٹ ! -شکیل رشید

امریکی کانگریس میں شرم ناک جھوٹ ! -شکیل رشید

by قندیل

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

امریکی کانگریس سے اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاھو کی تقریر جھوٹ کا پلندہ تھی ، اسی لیے اس تقریر کو ایک دنیا ’ امریکی کانگریس میں کیا گیا بدترین خطاب ‘ قرار دے رہی ہے ۔ امریکہ کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی نے اسے ’ امریکی کانگریس میں دیے گیے اب تک کے خطبات میں سب سے بُرا خطاب ‘ کہا ہے ۔ اور یہ خطاب کیوں نہ بدترین ہو ! شرم ناک جھوٹ سے بھرے ہوئے خطاب میں نتن یاھو نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ’ اہلِ غزہ کو بے گھر نہیں کرنا چاہتے !‘ان کا کہنا تھا کہ ’ مسجد اقصیٰ کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی ہے !‘ کیا یاھو کی ان باتوں پر کوئی بھی شخص یقین کر سکتا ہے ؟ یقیناً نہیں ۔ نتن یاھو کو ایک دنیا ’ جنگی مجرم ‘ مانتی ہے ، اسی لیے امریکہ میں یاھو کی آمد پر شدید ترین مظاہرے دیکھنے کو آ رہے ہیں ، ان کی خطاب کا درجنوں ڈیموکریٹ قانون سازوں نے بائیکاٹ کیا ہے ، ایوان میں واحد فلسطینی امریکی رکن رشیدہ طلیب نے بینر لے کر خاموش احتجاج کیا ، بینر پر ایک جانب ’ جنگی مجرم ‘ اور ایک جانب ’ نسل کشی ‘ کا مجرم لکھا ہوا تھا ۔ سچ کہا جائے تو یاھو کا یہ خطاب امریکہ کی طرف سے انہیں ’ صفائی پیش کرنے کا موقع ‘ تھا ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’ ایک جنگی مجرم کو امن کے حامی کے طور پر پیش کرنے کی یہ امریکہ کی ایک کوشش تھی ‘ ، لیکن یہ کوشش ناکام ہوگئی ، کیونکہ امریکہ کی ایک بہت بڑی آبادی نے یاھو کے خلاف مثالی احتجاج کیا ۔ کیسی افوس کی بات ہے کہ جب تاریخ کی کسی کتاب میں دنیا کے ظالم ترین حکمرانوں اور لیڈروں کے نام ڈھونڈھے جاتے ہیں تو جو نام سامنے آتے ہیں اُن میں کوئی امریکی لیڈر یا کوئی اسرائیلی لیڈر نظر نہیں آتا ، یا تو چنگیز خان کا نام نظر آتا ہے ، یا ہٹلر ، مسولینی اور صدام حسین کے نام ۔ کچھ مزید ڈھونڈیں تو معمر قذافی اور فیڈل کاسٹرو کے نام بھی نظر آ جائیں گے ۔ آب روس کے حکمراں پوتن کو بھی ظالموں کی فہرست میں ڈھکیل دیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کہ اس فہرست میں یاھو اور امریکی صدر جو بائیڈن کے نام کیوں نہیں ہیں ؟ کیا امریکہ اور اسرائیل کے یہ حکمراں ظالم اور جابر نہیں ہیں ؟ باور تو یہی کرایا جاتا ہے ، لیکن یہ اتنا ہی بڑا جھوٹ ہے ، جتنا بڑا جھوٹ یہ کہنا ہے کہ فلسطینی دہشت گرد ہیں ۔ غزہ پر اسرائیلی حملے میں اب تک کئی ہزار افراد مارے جا چکے ہیں ، مرنے والوں میں بچے اور خواتین شامل ہیں ۔ ہزاروں خاندانوں کا مکمل طور پر صفایا کر دیا گیا ہے ، صفایا یعنی نسل کشی ۔ زخمیوں کی تعداد لاکھ سے متجاوز بتائی جا رہی ہے ۔ یہ تعداد جامد نہیں ہے ، یہ ہر سیکنڈ اور منٹ پر تبدیل ہو رہی ہے ۔ یہ جب لکھا جا رہا ہے تب اس میں مزید مرنے والے اور زخمی ہونے والے شامل کر لیے گیے ہوں گے ۔ یہ بچے اور یہ عورتیں کون مار رہا ہے ؟ کیا اس سوال کا جواب کسی کو نہیں معلوم ! سب جانتے ہیں ، مارنے والا اسرائیل ہے ، اور اس کے کندھے پر امریکہ کا ہاتھ ہے ، یا یہ کہہ لیں قاتل کا نام یاھو ہے ، اور سہارا جو بائیڈن کا ہے ۔ جو قاتل ٹولیاں فلسطینیوں پر حملے کر کے ، ان پر بمباری کر کے ، انہیں موت کی نیند سُلا رہی ہیں ، اُن ٹولیوں اور بمباروں کی قیادت اسرائیل کے حکمراں یاھو اور امریکہ کے صدر جو بائیڈن ہی کر رہے ہیں ۔ گویا کہ یہ بچوں اور عورتوں کے قاتل ہیں ، اس لیے ان کا شمار دنیا کے ظالم ترین حکمرانوں اور لیڈروں کی فہرست میں ازخود ہو جاتا ہے ۔ یاھو اور جو بائیڈن اِن دونوں کے ہاتھ فلسطینی بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ، یہ چونکہ بزدل لیڈر ہیں ، اس لیے انہیں راتوں کو نیند نہیں آتی ہوگی ۔ ضمیر تو خیر ان جیسوں کے پاس ہوتا ہی نہیں ہے ، لیکن خوف ہوتا ہے ، خوف کہ بے گناہوں کے قتل کا کوئی بدلہ لینے نہ آجائے ! اور یہ خوف انہیں جگائے رہتا ہے ، سونے نہیں دیتا ۔ فلسطینی بلا شبہ دنیا کی بہادر ترین قوموں میں سے ایک ہیں ، یا اگر یہ کہا جائے کہ وہ بہادروں کی فہرست میں سب سے اوپر ہیں تو غلط نہیں ہوگا ۔ فلسطین کو ہڑپنے کی کوششیں تو ۱۹۲۴ ء سے بھی قبل شروع ہو چکی تھیں ۔ مذکورہ سن میں صہیونی دہشت گردی نے ایک شیطانی شکل لے لی تھی ۔ فلسطینی ایک بھولی بھالی قوم تھے ، لڑائی جھگڑے سے دور ، اس سیدھی سادھی قوم پر صہیونی ٹوٹ پڑے تھے ۔ ’ ہگاناہ ‘ صہیونی اور کٹر یہودیوں کی دہشت گرد تنظیم تھی ، اس کا کام فلسطینیوں کا قتلِ عام تھا ، یہ ۱۹۴۸ء یعنی اسرائیل کی غیرقانونی پیدائش تک سرگرم رہی ، بعد میں یہ تنظیم اسرائیل کی فوج کا حصہ بنی ۔ اس کے تحت کئی تنظیمیں کام کرتی تھیں ،جیسے کہ ’ ارگن ‘ اور ’ لیہی ‘۔ اِن دہشت گرد تنظیموں نے بار بار فلسطینیوں کا قتلِ عام کیا ہے ، اور قتل عام کے جرم میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی ان کے ساتھی بنے رہے ہیں ۔ گویا کہ یہ سب کے سب فلسطینیوں کے مجرم ہیں ۔ کیا فلسطینی ’ دیر یاسین ‘ کو بھول سکتے ہیں ؟ یہ یروشلم کے قریب ایک فلسطینی گاؤں تھا ، ۱۹۴۸ء میں اس گاؤں میں مذکورہ صہیونی دہشت گرد تنظیموں کے درندے گھس گیے تھے اور وہاں موجود سب کو ، کیا بچے کیا بوڑھے ، عورتیں اور جوان ، موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ۔ ایک گاؤں ’ الدوایمہ ‘ تھا ، وہاں بھی ۱۹۴۸ء میں گھس کر شہریوں کا قتلِ عام کیا گیا تھا ، دہشت گردوں کا کمانڈر موشے دایان تھا ، جو بعد میں اسرائیل کا وزیردفاع بنا تھا ۔ اسی طرح نہ جانے کتنے گاؤں اجاڑے گیے اور کتنے فلسطینی تہہ تیغ کیے گیے ۔ یہ قاتلوں کی ٹولی اب غزہ ، رفح ، نضیرہ دیریاسین وغیرہ میں گھس کر وہاں قتلِ عام کر رہی ہے ۔ اور یاھو کہہ رہے ہیں کہ وہ اہلِ غزہ کو بے گھر نہیں کر رہے ہیں ! یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ، اور دنیا کے وہ لیڈر جو جمہوریت کا رات دن نعرہ لگاتے ہیں ، خاص کر بائیڈن ، جھوٹوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like