اردو غزل کی روایت صدیوں پر محیط ہے، جس میں ہر دور نے اپنی فکری جہات، جمالیاتی شعور، اور تہذیبی اثرات کے تحت غزل کو نہ صرف برتا بلکہ نیا آہنگ بھی دیا۔ میر تقی میر سے لے کر غالب، اقبال، فراق، ناصر، منیر، فیض، راشد، اور آج کے کئی معتبر ناموں تک اردو غزل ایک مسلسل ارتقا کی داستان ہے۔ اس منظرنامے میں امیر حمزہ ثاقب کی غزل گوئی ایک الگ شناخت کی حامل ہے۔ ان کی غزل نہ صرف فکری گہرائی، باطنی کشف، اور صوتی حسن سے آراستہ ہے بلکہ ایک ایسی فضا پیدا کرتی ہے جسے سمجھنے کے لیے محض لغت، عروض اور شعریات کی بصیرت کافی نہیں، بلکہ ایک مخصوص ذہنی و روحانی آمادگی بھی درکار ہے۔
ان کی غزلوں میں کوئی میکینیکل انجینئرنگ نہیں، کوئی بازاری ساخت گری یا شعری ترکیب کی مشقِ بے حاصل نہیں، بلکہ ایک ایسا جمالیاتی تحیر ہے جو قاری کو اس قدر خاموشی سے گرفت میں لیتا ہے کہ وہ اس کی کیفیت کو لفظ میں بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
تحیر اردو شاعری کا قدیم اور معتبر عنصر ہے، لیکن ثاقب کے ہاں یہ تحیر محض ایک تاثر نہیں بلکہ ایک فکری و روحانی تجربہ ہے۔ ان کی بعض غزلیں ایک ہی مصرع یا شعر کی سطح پر نہیں بلکہ مجموعی طور پر ایک جذبہ اور کیفیت منتقل کرتی ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں ان کی غزل گوئی شمس الرحمٰن فاروقی کے اس نظریے سے جا ملتی ہے کہ اچھا شعر وہ ہے جو قاری کو ایک مکمل فکری و جمالیاتی تجربہ عطا کرے، نہ کہ محض لسانی چمک دمک۔
فاروقی نے "شعر شور انگیز” میں اس پہلو پر اصرار کیا کہ اردو غزل کو محض مفہومی تنقید سے نہیں، بلکہ صوتیاتی پہلو سے بھی برتنا چاہیے۔ ثاقب کی غزلوں میں یہ صوتیاتی تجربہ اپنی انتہا پر ہے۔ آواز یہاں خارجی سطح پر نہیں بلکہ باطن میں گونجتی ہے
"اک گانٹھ تھی آواز کے دھاگے میں پڑی تھی
اک ناخن سفاک تھا شرمندہ و ناکام”
یہاں "آواز” کو ایک دھاگہ فرض کر لینا، اس میں گرہ پڑ جانا، اور ناخن سفاک کی بے بسی سے اس گرہ کو نہ کھول پانا – یہ سب کچھ ہمیں محض بیان کی سطح پر نہیں بلکہ آواز کے باطن میں لے جاتا ہے۔ یہاں اظہار کی نارسائی کو ایسے صوتیاتی استعارے سے پیش کیا گیا ہے جو اپنی معنوی تہ داری کے ساتھ صوتی تاثر بھی پیدا کرتا ہے۔
ثاقب کی غزلوں میں بعض مقامات ایسے آتے ہیں جہاں میر اور غالب کی بازگشت سنائی دیتی ہے، لیکن یہ تقلید نہیں بلکہ تخلیقی مکالمہ ہے۔
ثاقب کا شعر:
"میری تلاش کیا کہ ابھی گم شدہ ہوں میں”
میر کا شعر یاد آتا ہے:
"کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنوں
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے”
دونوں میں ایک باطنی گمشدگی کا احساس ہے۔ لیکن جہاں میر کی گمشدگی تہذیبی جلاوطنی سے جڑی ہے، وہیں ثاقب کی گمشدگی روحانی و باطنی تنہائی کی علامت ہے۔
غالب کا یہ شعر دیکھیے:
"دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں”
ثاقب کہتے ہیں:
"تمھارا رنگ نہ آنا تھا، سو نہیں آیا
دھنگ سجاتے رہے لاکھ استعاروں کی”
یہاں بھی ایک جذباتی احتساب ہے، ایک بے بسی، ایک لمحۂ خود احتسابی۔ مگر ثاقب کے ہاں الفاظ کا انتخاب نہایت نپاتلا، تازہ اور صوتی طور پر ہموار ہے۔
ثاقب کی شاعری میں ایک خاص طرح کی روحانی پاکیزگی پائی جاتی ہے جو تقلید یا صوفیانہ تصنع سے آزاد ہے۔ ان کا یہ شعر:
"آندھیاں تیز بے نیازی کی، نغمہ و دف نہ یار غار کوئی
اور روشن چراغ حسرت ہے، تو ہم اپنی ہجرت ہیں”
یہاں نغمہ و دف اور یارِ غار کی تلمیحات مل کر روحانی تجرید کو ایک شخصی تجربہ بنا دیتی ہیں۔
ثاقب کے عشقیہ اشعار میں جو پیکر ابھرتے ہیں وہ نہ میر کے محبوب کی طرح فریادی ہیں، نہ غالب کے محبوب کی طرح طنزیہ یا خود مختار۔ بلکہ یہ ایک ماورائی معشوق ہے جس کا حسن صرف ظاہری لذت تک محدود نہیں، بلکہ ایک عرفانی کشف کی جانب اشارہ کرتا ہے:
"کوئی بتائے بہشتِ خیالِ وصل میں بھی
عذابِ ہجر کی ساعت کہاں سے آتی ہے”
یہاں وصل اور ہجر کا کلاسیکی تضاد ایک روحانی کشمکش میں ڈھل جاتا ہے، جو "باؤلی وحشت” اور "حسِ لمس” جیسے استعاروں میں متشکل ہوتا ہے۔
ثاقب کے یہاں "خود” کا تصور نہایت پیچیدہ اور تہ دار ہے۔ یہ صرف ایک نفسیاتی وجود نہیں بلکہ ایک کائناتی انا ہے جو گمشدگی، تلاش، حیرت اور سناٹے کے تجربے سے گزرتی ہے:
"اک کائناتی غم کی گرہ کھولتا ہوں میں
میری تلاش کیا کہ ابھی گم شدہ ہوں میں”
یہ خودی اقبال کے فلسفہ خودی سے مختلف ہے۔ یہاں نہ کوئی دعویٰ ہے، نہ کوئی نصب العین۔ بلکہ یہ خودی بے پناہ تنہائی میں عرفان کی ایک جھلک ہے۔
ثاقب کے بیشتر اشعار محض معنی خیز نہیں بلکہ صوتیاتی اعتبار سے بھی مکمل ہیں:
"رات لہرایا لمس خوشبو کا
سایہ روشن ہوا تھا گیسو کا
آخری نیند کے سفر کی ہوس
عشق طالب ہے تیرے پہلو کا”
یہاں "لام، س، ش، ک، ہ” کی نرمی اور تسلسل ایک وجدانی کیفیت پیدا کرتی ہے جو معنویت سے بالاتر ہو کر قاری کو محض آواز کے جادو میں جکڑ لیتی ہے۔
ثاقب کے استعارے محض زبان کی بازی گری نہیں بلکہ ایک باطن کے تجربے کی تجسیم ہیں
"عکس کو انقباض حیرت سے
آئنہ ہے کہ عکس کا بھوکا”
یہاں سوال بھی ہے، حیرت بھی، اور بیان کی جمالیاتی چمک بھی۔ یہ استعارہ ہمیں خودی، آئینہ، اور عکس جیسے کلاسیکی تصورات سے جوڑتا ہے، لیکن ان کا اظہار بالکل نیا ہے۔
شمس الرحمٰن فاروقی نے اردو غزل کی تنقید میں تین عناصر کو بہت اہم سمجھا:
1. فنی ہنر مندی اور صوتی حسن
2. شعری فضا اور تہذیبی حوالہ
3. شعر کی معنوی اور علامتی جہتیں
ثاقب کی غزل ان تینوں سطحوں پر مکمل ہے۔ وہ فنی طور پر عروض، زبان، صوتیات اور بیان پر دسترس رکھتے ہیں۔ ان کی شعری فضا تہذیب، عرفان، اور داخلی تجربے سے مالا مال ہے، اور ان کی شاعری علامتوں، استعاروں اور تجریدی تجربات کا ایسا مرقع ہے جسے محض لغوی سطح پر سمجھنا ممکن نہیں۔
ثاقب کی شاعری میں کہیں کہیں ہمیں وہ تشکیک بھی ملتی ہے جو جدیدیت کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے:
"یہ دنیا ہاتھ باندھے سامنے تھی
مگر میں آسماں کو تک رہا تھا”
یہ میر کے اس شعر سے ایک فکری رشتہ رکھتا ہے:
"دل کی لگی نہ جانے کیا کیا دکھائے ہے
اک آئینہ ہے، درد دکھائے ہے”
ثاقب کے یہاں دنیا ایک مظہر ہے، لیکن شاعر کی نگاہ حقیقتِ کبریٰ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
سفر، ہجرت اور داخلی منازل
ثاقب کے ہاں "سفر” محض زمینی نہیں بلکہ روحانی و باطنی سفر ہے:
"اب کسی سفر پہ جاؤں، بتا نازنینِ و ہم
اپنی قبائے روح بھی تہ کر چکا ہوں میں
میرا پتا ٹھکانہ کہاں، اک مرے سوا
میری تلاش کیا کہ ابھی گم شدہ ہوں میں
باشندگان قریہ دل صف بہ صف رہیں
اک کائناتی غم کی گرہ کھولتا ہوں میں”
یہاں ہجرت ایک عاشقانہ یا سیاسی علامت نہیں بلکہ وجودی سوال کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
ثاقب کی غزلوں میں کسی مخصوص فکری یا نظریاتی تحریک کی بازگشت نہیں ملتی۔ وہ نہ ترقی پسند ہیں، نہ محض جدیدیت کے نمائندہ، نہ ہی مابعد جدید فکری ساخت کے تحت لکھتے ہیں۔ ان کی شاعری ایک انفرادی اظہاریہ ہے جو ایک ماورائی حسِ وجود سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ وہی کیفیت ہے جسے غالب نے یوں بیان کیا:
"دل ہی دل میں جلا ہے جو کچھ، دل کو خبر نہیں”
ثاقب کی شاعری بھی کچھ اسی طرح کی داخلی آگ کا اظہار ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا بظاہر ممکن نہیں، لیکن جب وہ شعری پیکر میں ڈھلتی ہے تو ایک ایسا طلسم پیدا کرتی ہے جو قاری کو دیر تک اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔
امیر حمزہ ثاقب کی غزل گوئی، اردو غزل کی طویل روایت میں ایک تازہ اور باوقار اضافہ ہے۔ ان کا شعری نظام فکر، زبان، صوت، اور فضا کی سطح پر مکمل ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی کے وضع کردہ تنقیدی اصولوں کی روشنی میں ان کا کلام نہ صرف درجہ کمال کو پہنچتا ہے بلکہ اردو غزل کو ایک نئی جمالیاتی سمت بھی دیتا ہے۔
ثاقب کی غزل وہ روحانی دستک ہے جو درِ دل پر پڑتی ہے، اور قاری کو یاد دلاتی ہے کہ شعر محض الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ ایک وجودی تجربہ بھی ہے، جو لفظوں کے ورے میں واقع ہوتا ہے۔ وہی تجربہ جس کی تعبیر ممکن نہیں لیکن جسے ہم سب محسوس کرتے ہیں، جیسے ہوا، خوشبو، یا لمس۔ یہی وہ غزل ہے جو سنتے نہیں، سُنتی ہے۔