پچھلے ہفتے اسرائیل نے ایک بالکل غیر قانونی فیصلہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی اونروا UNRWA کی کارروائیوں کو یک طرفہ سےبند کر دے ۔ پوری دنیا نے اسرائیل کے اس فیصلے کی تنقید کی۔ یہ ایجنسی اسرائیل کے ہاتھوں پناہ گزین بننے والے لاکھوں فلسطینیوں کے لیے زندگی کا سہارا ہے ۔ انڈین ایکسپریس نے فوراً ہندوستان میں مقیم اسرائیلی سفیر سے اس کے حکومت کے نا قابل فہم نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے کہا ۔ لیکن یہی پرچہ ہندوستان میں فلسطینی سفیر یا اونرواکے صدر یا ترجمان کو اسی طرح کا موقع دینے میں ناکام رہا ۔ اس سلسلے میں یکم نومبر 2024 کو انڈین ایکسپریس کو ایک مراسلہ ای میل کیا گیا لیکن اس نے اسے نہیں چھاپا بلکہ ایڈیٹر کے نام خطوط کے کالم میں اسے مختصراً بھی شائع کرنے سے گریز کیا۔ یہاں مذکورہ جواب کےمتن کا اردو ترجمہ کیا جا رہا ہے:
مجھے یہ دیکھ کربڑا عجیب لگا کہ انڈین ایکسپریس (30 اکتوبر 2024) نے اسرائیل کے ’اونروا‘(UNRWA )کی کارروائیوں کو اسرائیل اور مشرقی یروشلم میں بند کرنے کے غیر قانونی فیصلے کے لیے جواز پیش کرنے کے لیے ہندوستان میں اسرائیلی سفیر کو اپنے صفحات پر جگہ دینے میں اتنی جلدی کیوں کی۔ ایک ایسی ریاست کے سرکاری نمائندے کو مفت جگہ پیش کرنے کا کیا جواز تھاجس پر نسل کشی کے الزام میں بین الاقوامی عدالت اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے سامنے غزہ پٹی کو بری طرح تباہ کرنے، 43,000 سے زیادہ افراد کو ہلاک کرنےاور ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو زخمی کرنے کا الزام ہے اور ان میں زیادہ تر ان مظلوم فلسطینیوں کی اولاد ہیں جنہیں اسرائیل نے سات دہائیوں قبل جلاوطنی پر مجبور کیا تھا۔ انڈین ایکسپریس اسرائیلی ترجمان کو مفت جگہ دینے کا جواز صرف اس صورت میں پیش کرسکتا تھااگر اس نے نئی دہلی میں فلسطینی سفیر اور انروا کے ترجمان کو بھی اسی طرح کی جگہ دی ہوتی ۔
اسرائیل، اقوام متحدہ کی بنائی ہوئی ایک ریاست ہے جو اقوام متحدہ کی سیکڑوں قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزی کرتی رہی ہے اور خود اس بین الاقوامی ادارے کو تنقید کا نشانہ بنا تی رہی ہے۔ اس نے عالمی رائے عامہ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا ہے۔
اسرائیل بھول جاتا ہے کہ اسے مئی 1949 میں دو شرائط کے ساتھ اقوام متحدہ کےرکن کے طور پر قبول کیا گیا تھا: (1) اسے بے گھر فلسطینی پناہ گزینوں کو ان کے گھروں اور زمینوں پر واپس جانے کی اجازت دینی ہوگی اور (2) اسے غیر قانونی طور پر قبضہ کی گئی فلسطین کی زمین خالی کرنی ہوگی۔( 1948-1949 میں خانہ جنگی کے دوران اسرائیل نے فلسطین کے ۷۸ فیصد رقبہ پر قبضہ کرلیا تھا جبکہ اقوام متحدہ کی مجوزہ تقسیم میں یہودی وطن کے لیے فلسطینی اراضی کا 56فی صد مختص کیا گیا تھا) ۔ اسرائیل نے ابھی تک اقوام متحدہ سے کیے گئے ان دو پختہ وعدوں کی تعمیل نہیں کی ہے۔ اس کے برعکس، اس نے فلسطینی پناہ گزینوں کی ان کی سابقہ جائیدادوں اور زمینوں پر واپسی کو ناممکن بنا دیا اور 1948-1949 کے دوران قبضے کی گئی فلسطین کی زائد اراضی کو خالی کرنے کے بجائے اس نے 1967 میں باقی 22 فی صد فلسطینی اراضی پر بھی قبضہ کر لیا اور اقوام متحدہ کی سیکڑوں قراردادوں کے باوجود اب بھی اس پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔
اسرائیل’اونروا‘کے پیچھے عرصے سے اس لیے پڑا ہواہے کیونکہ اس کے اسکول فلسطینی پناہ گزینوں کے بچوں کو اچھی اورمفت تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ اگر انھیں اتنی اچھی تعلیم نہ ملتی تو فلسطینی مشرق وسطیٰ کے روہنگیا بن چکے ہوتے جو اسرائیل کی دلی خواہش ہے۔ اسرائیل نے ’اونروا‘ کے ایک درجن کے قریب عملے پر حماس کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام لگایا تھا جس کے جواب میں ایجنسی نے اپنے 13000 ملازمین میں سے نو (۹) کو فوراً نکال دیا تھا۔ اسی کے ساتھ ، ایجنسی کے بروسلز آفس کے ڈائریکٹر لورینزو روڈریگز کے مطابق، اسرائیل پچھلے ایک سال کے دوران غزہ میں ’اونروا‘ کے 260 اہلکاروں کو ہلاک کر چکا ہے۔
اسرائیل کے سب سے بڑے حمایتی امریکہ سمیت پوری دنیا نے ’اونروا‘ کے خلاف اسرائیلی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ یہ ایجنسی اسرائیل کے ہاتھوں پناہ گزین بنائے گئے لوگوں کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔ اسرائیل کو خود ان مہاجرین کی بحالی کے لیے کام کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بجائے، اس نے ان کی تمام جائیدادیں ضبط کر لیں اور 1952 کے ’’واپسی قانون‘‘ کے ذریعے اس نے پوری دنیا سے یہودیوں کو دعوت دی کہ وہ اسرائیل آئیں اور ان پناہ گزینوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں اور زمینوں پر قبضہ کرلیں۔ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم خود ایک فلسطینی پناہ گزین کی چھوڑی ہوئی جائیداد میں رہتے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)