Home تجزیہ امن و اتحاد ہی سے ہندوتو کا بیڑا غرق ہوسکتا ہے-عبدالعزیز

امن و اتحاد ہی سے ہندوتو کا بیڑا غرق ہوسکتا ہے-عبدالعزیز

by قندیل

2014ء سے ہی ’ہندو راشٹر‘ کیلئے ہندوتو کے پجاری کوشاں ہیں۔ اس کیلئے ان کے پیش نظر ایک کام یہ ہے کہ مسلمانوں کا جینا ملک میں حرام کر دیا جائے۔ نئی نئی تدبیروں، چالوں اور سازشوں سے اس کام پر ان کے چھوٹے اور بڑے سب لگے ہوئے ہیں۔ 2014ء سے لے کر 2019ء تک مسلمان ظلم پر ظلم سہتے رہے لیکن کسی بڑی مخالفت کیلئے نہ وہ سڑک پر اترے اور نہ ہی صدائے احتجاج بڑے پیمانے پر بلند کی۔ صبر و تحمل سے کام لیتے رہے اور اس امید میں رہے کہ 2019ء کے لوک سبھا الیکشن میں نریندر مودی کو دوبارہ گدی پر بیٹھنے کا موقع نہیں ملے گامگر جارحانہ قومیت کے بل بوتے پر مودی-شاہ کو دوبارہ ملک میں انارکی اور فتنہ و فساد پھیلانے کا موقع مل گیا۔ مودی پہلے سے بھی بھاری اکثریت سے جیت کر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے۔ نشہ اقتدار اس قدر چڑھا کہ قانون پر قانون بنانے لگے۔ ’تین طلاق‘ پر بھی قانون بنایا۔ کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کیلئے دفعہ 370 کو آناً فاناً ہٹایا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ اس پر بھی ملک میں سناٹا رہا لیکن جب شہریت ترمیمی بل دونوں ایوانوں میں منظور ہوکر قانونی شکل اختیار کرلیا تو ملک کا سناٹا ٹوٹا۔ خاموشی ختم ہوئی۔ احتجاج اور دھرنے کا دور شروع ہوا۔ دیکھتے دیکھتے ملک بھر میں دھرنا اور احتجاج غیر معمولی تحریک کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ دھرنے کا آغاز شاہین باغ دہلی سے ہوا۔ شاہین باغ کے طرز پر سیکڑوں شاہین باغ کالے قانون کے خلاف وجو دمیں آگئے۔
دسمبر 2019ء سے دہلی کے اسمبلی الیکشن کی ہمہ ہمی شروع ہوگئی۔ جیسے جیسے الیکشن کی تاریخ(8فروری2020ء) قریب آتی گئی الیکشن کی گرمی میں اضافہ ہوتا گیا۔جب الیکشن کو 10-15 دن باقی تھے تو بی جے پی نے انتخابی کامیابی کیلئے ساری قوت جھونک دی۔ دو سو سے زائد ایم پی، گیارہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، مودی کابینہ کے تقریباً سارے وزراء اور آس پاس کی ریاستوں کے بی جے پی کے لیڈران مودی-شاہ کی قیادت میں انتخابی میدان میں پوری طاقت سے اتر گئے۔ شاہین باغ ایک بڑا مدعا بی جے پی والوں کیلئے ہوگیا۔ ہر لیڈر شاہین باغ کا نام لینے لگا۔ مودی، شاہ، یوگی، گری راج سنگھ، کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما کے علاوہ بہت سے سنگھی لیڈروں نے شاہین باغ کوHotpotato (جھمیلے کی چیز) کی طرح استعمال کرنے لگے۔ اس سے بی جے پی والے اس سے دومقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ شاہین باغ کو ان لوگوں نے مسلمانوں کا دھرنا یا تحریک بتانے کی کوشش کی۔ حالانکہ غیر مسلم حضرات بھی بڑی تعداد میں شریک تھے اور ہیں۔ فرقہ وارانہ رنگ دینے کیلئے شاہین باغ کا استعمال کثرت سے کرنے لگے۔ اس شاہین باغ سے سارے ملک بھر کے شاہین باغ کو ختم کرنے بلکہ تحریک کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ بی جے پی کا یہ مقصد پورا نہیں ہوا۔ دوسرا مقصد الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا تھا، عام آدمی پارٹی کی جیت سے اس مقصد پر بھی پانی پھر گیا۔ ان دونوں مقاصد کے پورے نہ ہونے سے بی جے پی نے دہلی میں مسلم مخالف فساد کا منصوبہ بنایا۔ شروعات جعفر آباد کے شاہین باغ سے کپل مشرا نے پولس کو الٹی میٹم دے کر کی۔ الٹی میٹم 23فروری کو دیا اور 24فروری سے فساد بڑے پیمانے پر شروع ہوگیا۔ پولس، حکومت اور بی جے پی سب نے مل کر غریب مسلم بستیوں کو نہ صرف جلایا بلکہ 40 مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا۔ سیکڑوں مسلمانوں کو زخمی کر دیا جو اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اربوں کی جائیدادیں تباہ و برباد کی گئیں۔ چند ہندوؤں کی جانیں بھی تلف ہوئیں۔ ان کی جائیدادوں کو بھی نقصان پہنچا۔ فساد کرانے میں بی جے پی کی حکومت اور بی جے پی کے لیڈران ماہر ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ فساد کیسے برپا ہوتا ہے۔ پہلے وہ فرقہ وارانہ ماحول تیار کرتے ہیں اور جب پورے طور پر ماحول تیار ہوجاتا ہے تو ماچس کی تیلی سے فساد کی آگ لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
بی جے پی کے ایم پی پرویش ورما نے دہلی کے ہندوؤں کو خوف زدہ کرنے کیلئے انتخابی مہم کے دوران کہاکہ ”شاہین باغ کے لوگ تمہارے گھروں میں داخل ہوں گے اور تمہاری بہنوں اور بیٹیوں کا بلتکار کریں گے اور تمہیں قتل کریں گے“۔ کپل مشرا نے جن کو شاید بی جے پی والوں نے فساد کرانے کی ذمہ داری سونپی تھی، دہلی کے اسمبلی انتخاب کو ہندستان اور پاکستان کا نہ صرف مقابلہ بتایا بلکہ شاہین باغ سے پاکستانیوں کے داخل ہونے کا راستہ بتاتے ہوئے یہ کہاکہ دہلی میں یہیں سے پاکستانی داخل ہوں گے۔ امیت شاہ نے کہا تھا کہ ای وی ایم کے بٹن کو اس قدر زور سے دبانے کی بات کہی کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ والوں کو لگے۔ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر مسلمانوں کو غدار بتاتے ہوئے کہاکہ دیش کے غداروں کو گولی مارو۔ مجمع عام میں موجود سارے لوگوں نے اسے بار بار دہرایا۔
ان سب کے سردار 2002ء کے گجرات فساد کے ذمہ دار وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں کہاکہ ”جعفر آباد، سلیم پور اور شاہین باغ میں جو کچھ ہورہا ہے سنجوگ (اتفاق) نہیں ہے پریوگ (تجربہ) ہے۔ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بہت بڑی چال ہے“۔ بھلا یوگی ادتیہ ناتھ کیسے شاہین باغ کو بھولتے، انھوں نے کہاکہ ”کجریوال شاہین باغ والوں کو بریانی بھیجتے ہیں“۔ شاہین باغ اور بریانی یوگی کیلئے مسلمان کی علامت ہیں۔ مسلمان- مسلمان، پاکستان-پاکستان اور ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بات، عصمت دری کے ساتھ قتل، یہ وہ سب چیزیں تھیں جس سے ماحول پورے طور پر فساد کیلئے تیار ہوگیا۔ کپل مشرانے جعفر آباد کے شاہین باغ کی خواتین و مرد سے محاذ آرائی (Confrontation) سے فساد کا آغاز کیا جو ابھی تھما نہیں ہے۔ انوراگ ٹھاکر کا گولی مارنے کا نعرہ کل بھی دہلی کے راجیو چوک میٹرو اسٹیشن پر دہرایا گیا۔ ایک روز پیشتر بی جے پی کے ایم ایل اے ابھئے ورما نے لکشمی نگر میں مارچ کیا اور نعرہ بلندکیا ”پولس کے ہتیاروں کو گولی مارو سالوں کو“۔
مشہور صحافی خاتون شوبھا ڈے کا مضمون آج (یکم مارچ) ’دی ٹائمس آف انڈیا‘ میں شائع ہوا ہے، جس کا عنوان ہے:”Wanted: People who have the spine to confront hate-mongers.” (ضرورت ہے ایسے لوگوں کی نفرت پھیلانے والوں کا مقابلہ کرسکیں)۔ خاتون صحافی نے اپنے مضمون میں بی جے پی کی طرف سے نفرت پھیلانے والوں کا نام لے لے کر لکھا ہے کہ ان کی شرارت محض اس لئے بڑھ گئی ہے کہ ملک میں ان کے ساتھ محاذ آرائی نہیں ہورہی ہے۔ یہ خود محاذ آرائی کرکے فتنہ و فساد کو جنم دے رہے ہیں۔ یہ لوگ امن و انصاف اور ہندو مسلم اتحاد کے غارت گر ہیں۔
میرے خیال سے دہلی کا فساد بہت ہی اندوہناک اور غمناک ہے۔ جس طرح پولس نے فساد میں حصہ لیا اور بلوائیوں کو تین دنوں تک چھوٹ دی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی کیلئے اب فساد ہی ایک ایجنڈا ہے جس سے وہ احتجاج، دھرنے اور تحریک کو ختم کرنے کا منصوبہ اور عزم رکھتے ہیں۔ محترمہ شوبھا ڈے نے صحیح کہا ہے کہ ملک کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کی نفرتوں کو صحیح جواب دے کر ختم کرسکیں۔ دنیا بھر میں اب ملک کی بھی بدنامی ہورہی ہے۔ مودی حکومت بھی بدنام زمانہ ہوگئی ہے۔ مودی اپنی شخصیت کو جس قدر چمتکار بتانا چاہ رہے تھے وہ ساری چمک دمک ماند پڑتی جارہی ہے۔ بدنام زمانہ، نام نہاد مسلمان ایم جے اکبر اور عمیر الیاسی کو جنیوا بھیج کر دنیا کو بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندستان کے مسلمان خیر و عافیت سے ہیں اور شہریت ترمیمی قانون کی بنیاد امتیاز اور تفریق پر نہیں ہے۔ یہ دونوں شخصیتیں بی جے پی کیلئے کارآمد محض اس لئے ہیں کہ دونوں بدنام زمانہ ہیں۔ ایم جے اکبر کو شاید ایک سال بعد نمودارہوئے ہیں۔ ان پر ایک نہیں بیسیوں خواتین کی طرف سے جنسی ہوس رانی کا الزام لگا خود بی جے پی نے ان کو کنارے لگادیا تھا۔ اب ان کی بے جان شخصیت کو مسلمانوں کی دشمنی کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ عمیر الیاسی کی بھی شخصیت جھوٹ اور فریب کی شاہکار ہے۔ اپنے آپ کو ملک کے سارے ائمہ کرام کی انجمن کا صدر بتاتے ہیں جبکہ ان کے ساتھ دو چارامام بھی نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں سے مدد لینے کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی ایسے لوگوں کا سہار الے رہی ہے جو خود بے سہارا ہوگئے ہیں۔
مشہور مصنف اور قلم کار چیتن بھگت نے اپنے ایک مضمون میں جو آج (یکم مارچ) کے ’دی ٹائمس آف انڈیا‘ میں شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ”Why a prosperous, harmonious Hindu Rashtra is an impossibility” (ایک فلاحی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مبنی ایک ہندو راشٹر کیوں ناممکن ہے)۔ چیتن بھگت ایک اچھے دانشوروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔انھوں نے دلائل اور شواہد سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہندو راشٹر کی جدوجہد ملک کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جائے گی اور لوگ جدید سائنسی سوچ اور سماجی ہم آہنگی سے محروم ہوجائیں گے۔ مضمون نگار نے حقیقت بیانی سے کام لیا ہے۔ جب سے مودی کی حکومت ہوئی ہے ہندستان کی معاشی حالت بحران کی شکار ہے۔بے روزگاری حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پچاس سال میں پہلی بار ایسی بے روزگاری ہوئی ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ پریشان کسان خودکشی کر رہا ہے۔ مذہبی دھماچوکڑی کچھ اس طرح ہے کہ مسلمان، دلت اور پسماندہ طبقہ پہلے سے کہیں زیادہ غربت اور افلاس میں مبتلا ہوگیا ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی پالیسی سے مذکورہ لوگوں کے کاروبار پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ کارخانے بڑی تعداد میں بند ہوگئے ہیں۔ کئی قسم کے کاروبار حکومت کی مذہبی پالیسی کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں۔ ان سب کے باوجود نہ موجودہ حکومت کے ذمہ داروں کی آنکھیں کھل رہی ہیں اور نہ حکمراں جماعت کی بیداری کے کوئی آثار نظر آرہے ہیں بلکہ روز بروز معاشی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ دہلی شہر میں جو لوگ تباہ و برباد ہوئے ہیں۔محنت و مشقت سے جنھوں نے اپنا گھر بنایا تھا، کاروبار شروع کیا تھا وہ سب کے سب تباہ و برباد کر دیئے گئے۔ ان کو پھر سے زندگی شروع کرنے میں کتنی دشواریاں اور مشکلیں پیش آئیں گی۔ ہر کوئی جانتا ہے مگر ان فرقہ پرستوں اور فسادیوں کو ذرا بھی خیال نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانیت ان کے اندر سے بالکل ختم ہوگئی ہے۔ حیوانوں سے بدتر ہوگئے ہیں۔ ان کو زیر کرنے کی اب ایک ہی شکل باقی رہ گئی ہے کہ امن پسندوں اور انصا ف پسندوں کا اتحاد بڑے پیمانے پر ہو۔ ساتھ ساتھ پر امن ماحول اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ یہی دو چیزیں یعنی امن اور ہندو مسلمانوں کا اتحاد ان کے ہندوتو اور راشٹر واد کیلئے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ فساد، فتنہ ان کیلئے مرعوب غذائیں ہیں۔ اسی سے ان کی سیاست، جماعت اور حکومت زندہ ہے۔ اگر فتنہ فساد نہ ہوں، امن و اتحاد بحال رہے تو ان کیلئے یہی چیز سامانِ موت ثابت ہوسکتی ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment