( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ اشعر نجمی کے ادبی پرچے ’ اثبات ‘ کو الوداع کہہ دوں ، حالانکہ میں خوب جانتا ہوں کہ یہ شمارہ ( 39 ـ 38) اشعر نجمی کی ادارت میں شائع ہونے والا آخری شمارہ ہے اور اس کے بعد جو شمارہ آئے گا وہ اس پرچے کے نائب مدیر رضوان الدین فاروقی کی ادارت میں ہوگا اور پھر اس کی اشاعت ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گی ۔ تو پھر میں کیوں ’ اثبات ‘ کو الوداع کہنا نہیں چاہتا ؟ اس لیے کہ بند ہو کر بھی یہ میرے لیے زندہ رہے گا ، اس سے وابستہ یادیں اس پرچے کو کبھی بھلانے نہیں دیں گی اور جِسے بھلایا نہ جا سکے اسے الوداع نہیں کہا جا سکتا ۔ شہر ممبئی کے وہ دن بھی کیا دن تھے جب ادبی ہنگامے اس کا ایک حصہ ہوتے تھے ، اور ادبی معرکے نوجوان ادیبوں کی ذہنی آبیاری کرتے تھے ! ’ اثبات ‘ کا آغاز اُن ہی ایّام میں ، اُن ہی معرکوں اور ہنگاموں کے بیچ ہوا تھا ۔ بھیونڈی کی ادب دوست شخصیت ایڈوکیٹ یاسین مومن کے میراروڈ واقع وسیع فلیٹ میں اس کا اجراء ہوا تھا ، میں اس تقریب میں موجود تھا ۔ اس تقریب میں مرحوم شمس الرحمن فاروقی صاحب خصوصی طور پر شریک ہوئے تھے ، منفرد لہجے کے شاعر عادل منصوری بیرون ملک سے آگیے تھے اور شہر ممبئی کے ادیبوں اور ادب نوازوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ کچھ زیادہ دن تو اس اجراء کو نہیں گزرے ، یوں لگتا ہے جیسے یہ کل ہی کی بات ہو ! لیکن نہ آج فاروقی صاحب ہیں ، نہ عادل منصوری اور نہ ہی چند دنوں بعد یہ پرچہ رہے گا ! وقت کس قدر تیزی سے گزر گیا ہے ! مگر یاد رہے کہ نہ فاروقی صاحب مر کر ہمارے لیے مرے ہیں اور نہ عادل منصوری ، اور نہ ہی ’ اثبات ‘ ہمارے لیے کبھی ایک فراموش کیا ہوا نام رہے گا ۔ میں ’ اثبات ‘ کو اس لیے بھی الوداع نہیں کہنا چاہتا کہ اسے الوداع کہنے کا مطلب اشعر نجمی کو الوداع کہنا ہوگا ، اور اُن لمحات کو الوداع کہنا ہوگا جو میں نے ’ اثبات ‘ کے ساتھ بتائے ہیں ، اور اُن کھٹی میٹھی یادوں کو الوداع کہنا ہوگا جو ’ اثبات ‘ اور اشعر نجمی سے وابستہ ہیں ۔ ’ اثبات ‘ کی شروعات کے بعد ، اور یہ اس کا ایک کارنامہ ہے ، ایک ایسے ادبی معرکے کا آغاز ہوا تھا جس نے ماضی کے ادبی معرکوں کی یاد دلا دی تھی ؛ اشعر نجمی اور بہت پیارے ساتھی مرحوم ساجد رشید ( ساجد بھائی) کے درمیان معرکہ بنام فاروقی و گوپی چند نارنگ ۔ اس ادبی معرکے میں دونوں مرحوم بزرگ ادیبوں کی خوبیوں کے ساتھ کمزوریاں بھی اجاگر ہوئی تھیں ۔ خیر انسان خطا کا پتلا ہے میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا ، اور نہ ہی اس معرکہ کے منفی پہلوؤں پر ، ہاں اس کے مثبت پہلو پر ضرور بات کرنا چاہتا ہوں ۔ ساجد بھائی کا پرچہ ’ نیا ورق ‘ مضبوط قدموں پر کھڑا ہو چکا تھا ، ’ اثبات ‘ نیا نیا تھا ، اپنے قدم جما رہا تھا ، اشعر نجمی کی مدیرانہ صلاحیتوں کی تحسین شروع ہو چکی تھی ، لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ اگر مذکورہ ادبی معرکہ برپا نہ ہوا ہوتا تو شاید اپنے قدموں کو مضبوط کرنے میں ’ اثبات ‘ کو وقت لگتا ۔ فاروقی اور نارنگ کے چاہنے والوں میں ، جو ظاہر ہے کہ دو خیموں میں تقسیم تھے ، ایک لمبے عرصے تک ہلچل رہی اور شہر ممبئی میں ادبی سرگرمیاں تیز ہو گئیں ، پھر سب کچھ جیسے ختم ہو گیا ۔ ساجد بھائی نہیں رہے ،’ اثبات ‘ نے اچانک بوریا بستر سمیٹ لیا ، اور مجھے ہی نہیں بہتوں کو لگا کہ جیسے ان کی زندگی سے وابستہ کوئی ضروی چیز غائب ہوگئی ہے ۔ اشعر نجمی پھر آئے ، پرچہ پھر شروع کیا ، درمیان میں جو اڑچنیں آئیں اُنہیں عبور کرکے کسی فائنانسر کی سرپرستی کے بغیر ’ اثبات ‘ چلایا ، اور کیا خوب چلایا ! یہ سب میرا دیکھا ہوا ہے ، اس لیے الوداع کہنا مشکل ہے ۔ چاہے ’ اثبات ‘ کے عام شمارے رہے ہوں یا خاص شمارے سب اپنی جگہ خاص ہی رہے ہیں ۔
بہت مشکل ہے کہ احیائے مذاہب نمبر ، ادب میں فحاشی و عریانی نمبر ، عالمی نثری ادب نمبر اور فاروقی صاحب کی تحریروں کی کلیات اور فاروقی صاحب کے تراجم کی سوغات کو کبھی بھلایا جا سکے ۔ ان نمبروں کا نکالنا آسان نہیں تھا ، ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے کے مصداق لوگ ہاتھوں میں لاٹھیاں لیے کھڑے تھے ۔ فحاشی نمبر کی اشاعت پر جو ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا تھا میں اس کا ایک کردار تھا ۔ ہوا یہ کہ مذکورہ نمبر میں ایک بزرگ عالمِ دین کا ایک مضمون شائع ہوگیا جس پر ایک مسلم جماعت کے عہدیدار خم ٹھونک کر میدان میں آ گیے تھے ، اس سلسلے میں ان سے اور اشعر نجمی سے میری بات ہوئی تھی ۔ اشعر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے ، ان کی اپنی دلیلیں تھیں ، مضبوط دلیلیں ۔ مجھے مرحوم سکندر احمد یاد آ گیے جو کہا کرتے تھے کہ اشعر نجمی اپنے خود کے ایک بہترین وکیل ہیں ۔ اور یہ سچ بھی ہے ، اس کا ثبوت ’ اثبات ‘ کے اداریے ہیں ۔ کئی نکات پر اختلاف رکھنے والے بھی ان اداریوں کو پڑھتے وقت اشعر نجمی کی باتوں سے اتفاق کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ، بھلے بعد میں اپنے پہلے کے موقف پر لوٹ جائیں ! اشعر نجمی کے لیے نہ سہی مگر ’ اثبات ‘ کے پڑھنے والوں کے لیے اس کا بند ہونا افسوس ناک ہے ۔ میرے ہاتھوں میں یہ اشعر نجمی کی ادارت میں شائع ہونے والا آخری شمارہ ہے ، حسب معمول سب سے پہلے میں نے اس کا اداریہ پڑھا ہے ، جس کا عنوان اس بار ’ تمہارے نام آخری خط ‘ ہے ۔ اس ’ آخری خط ‘ سے پہلے کئی خط ’ نادیدہ قاری ‘ کے نام تھے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ’ نادیدہ قاری ‘ کیوں ’ تمہارے ‘ ہو گیا ! شاید اس لیے کہ قاری اب نادیدہ نہیں رہ گیا ہے، کئی خطوں کے بعد وہ مدیر کا آپنا ہوگیا ہے ، اس قدر بے تکلف کہ اب اسے ’ تمہارے ‘ کہہ کر مخاطب کیا جا سکتا ہے ۔ اسی لیے اشعر بھائی میں کسی تکلف کے بغیر یہ کہہ رہا ہوں کہ اداریے میں یہ جو ’ نہ ‘ کا فلسفہ پیش کیا گیا ہے پڑھنے میں بہت اچھا لگتا ہے، آپ کا یہ سوال بھی پڑھنے میں ٹھیک لگتا ہے کہ ’’ اشاعت برائے اشاعت کا میں کبھی قَائل نہیں رہا، اگر کوئی شمارہ مجھے کچھ نیا نہیں دیتا تو پھر میں اسے جاری کیوں رکھوں؟‘‘، لیکن میرا ایک سوال ہے ، کیا کوئی مدیر ( یہاں میں ایک آزاد مدیر کی بات کر رہا ہوں جیسے کہ آپ ہیں ) ایسا بھی لاچار یا بیزار ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ نیا نہ کرسکے؟ بس یہ میرا آخری سوال ہے ۔
پرچہ ہمیشہ کی طرح لاجواب ہے ۔ تمام تحریریں چاہے وہ میلان کنڈیرا کے لیے الوداعیہ کے مضامین ہوں ، مصنوعی ذہانت پر گوشہ ، خوشبیر سنگھ شاد اور شہرام سرمدی کے کلام ، اشعر بھائی کے عالمی ادب کے ترجمے ، ابرار مجیب اور قسیم اظہر کے افسانے ، مالک اشتر کے تبصرے ، فاروقی صاحب کے خطوط ،یون فوسسے کی تحریر کا رضوان الدین فاروقی کا کیا ہوا ترجمہ اور دیگر تحریریں سب لاجواب ہیں ، لیکن مشمولات پر تفصیلی بات کرنے کا یہ موقعہ نہیں ہے ۔ اشعر بھائی کو ان کے آئندہ کے تخلیقی کاموں کے لیے نیک خواہشات اور تمنائیں ۔اس شمارے کی قیمت 499 روپے ہے ، اسے موبائل نمبر 8169002417 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔