حماس کی مرکزی قیادت اسماعیل ہنیہ، خالد مشعل سمیت ترکی کے آیا صوفیہ کے خطیب کی شرکت ، نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی گونج، شیخ کے منہج کو آگے لے کر چلنے کا عزم
دوحہ(عریب احمد صدیقی) : عالم اسلام کے عظیم داعی، ممتاز عالم،مفکر،فقیہ،ادیب و شاعر شیخ علامہ یوسف القرضاوی کی نماز جنازہ بعد نماز عصر قطری حکومت کے مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ دوحہ کی جامع الامام محمد بن عبد الوھاب المعروف جامع الدولة میں بعد نماز عصر ادا کی گئی اور تدفین ابو ہامور میں عمل میں آئی، شیخ کی نماز جنازہ شیخ محمد حسن ولدالدددشنقیطی نے پڑھائی۔ نماز جنازہ میں قطر کے ولی عہد اور نائب امیر سمو الشیخ عبداللہ بن حمد آل ثانی ، شیخ تمیم بن حمد آل ثانی ،امیر بلادالمفدہ کے ممثل شخصی شیخ جاسم بن حمد آل ثانی، شیخ جوعان بن حمد آل ثانی، شیخ عبدالرحمان آل ثانی وزیر خارجہ سمیت قطر کے دیگر وزراءواعلیٰ سطحی عہدیداروں کے علاوہ شیخ یوسف القرضاوی کے چاروں صاحبزادے ، شیخ محی الدین علی القراداغی، اسماعیل ہنیہ، خالد مشعل ،آیا صوفیہ کے خطیب علی الارباش (وزیر اوقاف ترکیہ) کے علاوہ اخوانی قائدین سمیت بڑی تعداد میں علماء، صلحا اور صوفیا نے شرکت کی۔ ایک اندازے کے مطابق نماز جنازہ میں تقریباً پچاس ہزار کے قریب فرزندان توحید شریک ہوئے۔ نماز جنازہ تین بار ادا کی گئی۔ پہلی نماز جنازہ قطر کی سب سے بڑی مسجد جامع الدولہ میں پھر قبرستان میں تدفین کے بعد دو بار ادا کی گئی۔ نماز جنازہ کے بعد شیخ علی القراداغی نے خطاب کیا اس دوران انہوں نے اپنے چالیس سالہ رفاقت کا تذکرہ کیا اور ان کی عظمت، دینی، ملی خدمات پر روشنی ڈالی۔اس کے بعد حماس کی مرکزی قیادت شیخ اسماعیل ہنیہ کا پرجوش خطاب ہوا انہوں نے اس دوران بتایا شیخ یوسف القرضاوی کےلیے آج پورے فلسطین میں نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے، اور آج مسجد اقصیٰ اور فلسطین کا بچہ بچہ شیخ کے غم اور ان کی جدائی میں رو رہا ہے۔ آج ہم عہد کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ شیخ کے بتائے ہوئے طریقے پر چلیں گے اور جب تک فلسطین کا ایک ایک انچ آزاد نہیں ہوجاتا تب تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔ انہوں نے کہاکہ آج شیخ کا انتقال ضرور ہوا ہے ، شیخ شہادت کے متمنی تھے، اور شیخ نے بڑی جرات اور ہمت سے زندگی گزاری، شیخ نے اعتدال کو قائم کیا، بہت سی نئی جہتیں کھولیں اور اسرارورموز سے پردے اُٹھائے۔ اسماعیل ہنیہ کی تقریر کے بعد مجمع نے زبردست نعرے لگائے ۔ کلمہ شہادت کے ورد کے دوران شیخ کا جنازہ جامع الدولہ سے مدفن کی طرف لے جایاگیا ۔ اس دوران قطری حکومت کی جانب سے مکمل سخت سیکوریٹی فراہم کی گئی اور ٹریفک نظام پر کنٹرول رکھاگیا۔ تدفین کے بعد دوبارہ پھر شیخ اسماعیل ہنیہ کا خطاب ہوا اس دوران انہوں نے اعتراف کیا کہ میں شیخ کا شاگرد ہوں اور شیخ سے بیس سالہ رفاقت میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ شیخ اسماعیل ہنیہ نے شیخ کے مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ یہ جو مخالفین ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری مخالفت سے شیخ پر کوئی اثر پڑے گا، امت اسلامیہ کے قلوب کل بھی شیخ کے ساتھ دھڑکتے تھے اور آج بھی دھڑک رہے ہیں اور کل بھی دھڑکتے رہیں گے۔شیخ اسماعیل ہنیہ نے کہاکہ شیخ صرف چار بیٹے اور تین بیٹیوں کے باپ نہیں ہیں ،بلکہ ملت اسلامیہ میں موجود لاکھوں کروڑوں فرزندان توحید کے والد ہیں۔ اس دوران مجمع میںموجود تمام افراد بشمول الاتحاد العالمي لعلماء المسلمين ، حماس، اور دیگر تنظیموں کے اراکین نے تجدید عہد کیا کہ شیخ کے منہج کو آگے لے کر چلیں گے، عزیمت کی راہ پر چلیں گے اس سے روگردانی نہیں کریں گے۔ شیخ صبری نے بھی شیخ کی رفاقت کا تذکرہ کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کی، انہو ںنے بتایاکہ شیخ نے ہمیشہ عزیمت کی راہ کو اختیار کیا کبھی بھی رخصت کی راہ نہیں اپنائی۔ تدفین کے بعد دعائے مغفرت کی گئی اور حماس سمیت دیگر اعلیٰ قیادت کو نکالنے کےلیے سیکوریٹی عملے نے جانفشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بحفاظت منزل مقصود تک پہنچایا۔ واضح رہے کہ کل شیخ کا ۹۶؍ سال کی عمر میں قطر میں انتقال ہوگیا تھا۔آج ان کے نماز جنازہ کی مکمل لائیو کاسٹ سرکاری طور پرقطر میں کی گئی۔