Home نقدوتبصرہ علامہ یوسف القرضاویؒ – محمد خالد ضیا صدیقی ندوی

علامہ یوسف القرضاویؒ – محمد خالد ضیا صدیقی ندوی

by قندیل

علامہ یوسف القرضاویؒ بیسویں صدی کی ان شخصیات میں سے ہیں جو صدیوں بعد معدن انسانیت سے نکلا کرتی ہیں۔وہ ایک ہمہ گیر،ہمہ جہت،عہد ساز اور ایک صدی پر محیط شخصیت کے مالک تھے۔ان کی ذات علوم وفنون کا سرچشمہ اور نبوغ وکمال کی منتہا تھی۔ وہ بیک وقت مفکر، مفسر،محدث، فقیہ، اصولی،مجتہد، مجدد، معلم، داعی، مربی، مصلح، صحافی، مصنف، خطیب، انشا پرداز، شاعر، مجاہد، عابد وزاہد سب کچھ تھے۔ان کی شخصیت میں اللہ تعالی نے ان متضاد اوصاف وکمالات کو جس قدر خوب صورتی اور توازن کے ساتھ جمع کردیا تھا اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے۔سچ ہے کہ اس جیسا جینیس اور عبقری انسان ہرروز آسانی سے پیدا نہیں ہواکرتا۔’ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا’۔
ایک قلم کار جب ان کے کاموں اور کارناموں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتا ہے،تووہ حیران وپریشان ہوجاتا ہے کہ ان کی ہمہ جہت زندگی کے کس پہلو سے اپنی گفتگو کا آغاز کرے؟ آیا ان کی فقیہانہ دعوت کا تذکرہ کرے یا داعیانہ فقاہت کا۔فقہ اسلامی میں ان کے کارناموں کا تذکرہ کرےیا فکر اسلامی میں ان کی نمایاں خدمات کا۔ان کی جرأت وبے باکی کا تذکرہ کرے،یان کی استقامت وپامردی کا۔ان کی حکمت وبصیرت،ان کی تحریر وتقریر،ان کی اسلامی حمیت اورملی غیرت کا تذکرہ کرے،یا ان کے اخلاق وتواضع، تعلق مع اللہ، استغنا وبے نیازی اور ان کی پیشانی پر ہویدا نور ایمان کا۔ان کی اجتہادی شان اور مجددانہ کام کا تذکرہ کرے،یا ان کی عالمانہ اورمحققانہ تصانیف کا۔غرض یہ کہ ان کے گوشہ ہائے حیات کا ہرگوشہ اتنا متنوع اور پرکشش ہے کہ ایک قلم کار کا قلم پکڑ کر اسے کہتا ہے: "جا ایں جا است”۔
علامہ قرضاوی کی خدمات کا دائرہ ،صرف مصر اور قطر نہیں تھا؛بلکہ پوری دنیا کو محیط تھا۔تمام عالمی ،دینی اور اسلامی تحریکات سے ان کا مضبوط اور قریبی رابطہ تھا،جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ان کو جو محبوبیت ومقبولیت حاصل ہوئی،وہ کم لوگوں کو حاصل ہوئی ۔اللہ تعالی نےان کو زندگی بھی طویل عطا فرمائی،اور کام بھی ان سے خوب لیا۔ان کے وقت میں بڑی برکت عطا ہوئی تھی۔ زندگی بھر قلم وقرطاس سے ان کا رشتہ مضبوط رہا،جس کے نتیجے میں ان کے قلم سے ۱۷۰/سے زائدکتابیں نکلیں، جن میں سے ہر ایک زبان کی شستگی،اسلوب کی شگفتگی،ادب کی چاشنی، فکروخیال کی رعنائی،علم وتحقیق کی گہرائی، استنباط واستدلال کے صبر آزما تقاضوں کی پاس داری،روایت کی پختگی، جدیدیت کی تازہ کاری، قلب ونظرکی وسعت اور اعتدال وتوازن کی خوب صورتی کی وجہ سے بصیرت افروز، فکر انگیز، چشم کشا،روح پرور اور سرمۂ چشم ہے۔علامہ کی کوئی تحریر فکرو دعوت سے خالی نہیں،ان کی فکر میں گہرائی بھی ہے اور تازگی بھی؛لیکن ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی تجدیدی اور فلسفیانہ فکر کو بھی ایسے شگفتہ اور دل نشیں اسلوب میں پیش کرتے ہیں کہ باذوق قاری بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ :’ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ‘۔
علامہ قرضاوی کی شخصیت اور ان کے افکار وآثار پر ان کی زندگی میں بھی گراں قدر کام ہوا،اور ان کی وفات کے بعد بھی سلسلہ جاری ہے۔اسی سلسلے کی تازہ ترین اشاعت زیر تعارف کتاب ہے،جس میں علامہ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر ہندوستان اور عرب دنیا کے متعدد نامور اصحاب قلم کے گراں قدر مضامین شامل ہیں۔
کتاب کے پہلے حصے میں علامہ محمد عمارہ، شیخ عوامہ،پروفیسر خورشید احمد،مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی،پروفیسر محمد محسن عثمانی ندوی،مولانا سید سلمان حسینی ندوی، شیخ احمد سامی الکومی، ڈاکٹر مسعود صبری،ڈاکٹر ہبہ رؤوف عزت،ڈاکٹر وارث مظہری، ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی،مولانا محمد نوشاد نوری قاسمی،مولانا اشتیاق عالم فلا حی،مولانا مجیب الرحمن عتیق ندوی، مفتی رحمت اللہ ندوی اور مولانا صابر حسین ندوی کے گراں قدر مضامین شامل ہیں۔جب کہ دوسرے حصے میں خود علامہ قرضاوی کی منتخب تحریروں کے اردو تراجم شامل کیے گئے ہیں۔
ان مضامین میں سے بعض براہ راست عربی میں لکھے گئے تھے جن کا ترجمہ اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ علامہ محمد عمارہ کے مضمون کی تلخیص وترجمانی:مولانا احمد الیاس نعمانی ندوی نے ’فقیہ امت شیخ القرضاوی‘ کے عنوان سے کی ہے ،جس میں ان پہلوؤں کا مختصراً تذکرہ کیا گیا ہے جو علامہ قرضاوی کو دور حاضر کا عظیم ترین فقیہ قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ علامہ قرضاوی زمانے کی ضرورتوں سے آگاہ فقیہ تھے،جس کی شہادت ان کے فتاوی کا وہ مجموعہ دیتا ہے جو تقریباً پندرہ سو صفحات پر مشتمل ” الفتاوی المعاصرۃ” کے نام سے شائع ہوا ہے۔اس مضمون میں علامہ کی فقیہانہ شان کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مفکرانہ مقام پر بھی اچھی روشنی ڈالی گئی ہے۔اخیر میں علامہ محمدعمارہ نے لکھا ہے کہ علامہ قرضاوی کے نزدیک عصر حاضر کے فقیہ کو فقہ کی درج ذیل قسموں پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے:فقہ مقاصد،فقہ سنن،صورت حال کا گہرا فہم،تہذیبی فقہ،ترجیحات اور اعمال وامور کے باہم مراتب کا گہرا علم،مصالح ومفاسد کے درمیان تقابل کا صحیح ملکہ،آداب اختلاف کا علم،فقہ اخلاق،وہ دور بینی جس کی بدولت انسان حال کی قید میں مقید نہ رہ کر مستقبل کے لیے صحیح منصوبہ بندی کرسکے۔(ان اقسام کی تفصیل کے لیے دیکھیے: کتاب ہذا،صفحہ:۵۹-۵۸)
شیخ محمد عوامہ کے مضمون کی ترجمانی مولانا محمد سہیل ندوی نے ’علامہ قرضاوی کی خصوصیات‘ کے عنوان سے کی ہے،جس میں علامہ قرضاوی کی ان صفات وامتیازات کا ذکر کیا گیا ہے جو بقول شیخ عوامہ صرف انھی کا حصہ تھیں۔جیسے:علوم شرعیہ میں ان کی مہارت،علمی تفوق اور گہرائی وگیرائی،وسعت قلبی،تصنیف وتالیف کی کثرت،علم وفکر کی جامعیت وغیرہ۔پھر ان خصوصیات کو ان کی بعض تحریروں کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے۔
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا ایک مضمون بھی( جو درحقیقت علامہ قرضاوی کی جدوجہد سے بھرپور زندگی کی ۹۰/بہاریں مکمل ہونے پر ان کی زندگی ہی میں بہ زبان عربی لکھی گئی تھی) کتاب کی زینت ہے۔جسے مولانا محمد فرید حبیب ندوی نے ’شیخ قرضاوی:ایک عظیم مفکر اور جلیل القدر داعی‘ کے عنوان سے اردو کا قالب بخشا ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی کے حوالے سے حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی کی یہ تحریر بڑی قدردانہ ہے، جس میں علامہ کے علمی قد اور ان کی دعوتی وفکری خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیاگیا ہے۔اس مضمون میں علامہ قرضاوی کو نئی نسل کے استاد کبیر اور پچھلی نسل کے عظیم الشان مفکرین وقائدین کے تلمیذ رشید کے طور پر بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ان سے اپنے اور حضرت مولاناعلی میاں ندویؒ کے تعلقات کی نوعیت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
ایک مضمون شیخ احمد سامی الکومی کا ہے،جس کا ترجمہ مرتب کتاب ابوالاعلی سید سبحانی صاحب نے ’ایک زبردست مجاہد صفت امام‘ کے نام سے کیا ہے۔جس میں ان کاتعارف ایک وسیع النظر عالم دین،فکر اسلامی کے عظیم راہی،تحریک اسلامی اور معاصر اسلامی دنیا کے عظیم رہنما اور ایک زبردست مجاہد صفت امام کے طور پر کرایا گیا ہے۔
کتاب میں شامل مضامین میں ایک اہم مضمون ’سیاسی مسائل میں اجتہاد اور علامہ قرضاوی‘ کے عنوان سے ڈاکٹر مسعود صبری کا ہے۔اس کی تلخیص وترجمانی بھی مرتب کتاب کے قلم سے نکلی ہے۔جس میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ سیاسی مسائل پر غور وفکر کے سلسلے میں علامہ قرضاوی کا کیا انداز تھا۔مضمون میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ سیاسی مسائل پر غور وفکر کے کچھ اصول اور بنیادیں ہیں جو علامہ کے پیش نظر رہتی تھیں۔چند بنیادیں کچھ اس طرح ہیں:
۱۔ شریعت کے کلی مقاصد کی روشنی میں شریعت کے جزوی نصوص پر غور وفکر۔
۲۔زمانے کی سمجھ،اور اس بات کی سمجھ کہ زمانے کی تبدیلی سے فتوی میں بھی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔
۳۔ کسی بھی حکم کے نتیجے میں رونما ہونے والے مصالح اور مفاسد کے درمیان موازنہ۔
۴۔ترجیحات کاتعین۔اس حوالے سے علامہ قرضاوی کا جو موقف ہے وہ بڑا شاندار اور معتدل ہے۔
( تفصیل کے لیے دیکھیے: کتاب ہذا،صفحہ:۱۰۶-۱۰۵)
۵۔تبدیلی لانے والی فقہ۔
۶۔جس چیز کی حرمت کے تعلق سے نص وارد نہ ہو،وہ اصلاً حلال ہے۔سیاسی مسائل میں شرعی رہنمائی تلاش کرتے وقت اس اہم اصول کا بھی (علامہ قرضاوی کے نزدیک) خیال رکھنا ضروری ہے۔
۷۔ امت کے عمل اور سیاسی معاملات میں خلفائے راشدین کے اسوے پراعتماد۔
یہ وہ چند بنیادیں ہیں،جو علامہ قرضاوی کے سیاسی مسائل میں غور وفکر کی محور ہیں۔
ایک اہم مضمون ڈاکٹرہبہ رؤوف عزت کا ہے،جس کا ترجمہ مرتب نے ’خواتین سے متعلق علامہ قرضاوی کے افکار کامطالعہ‘ کے عنوان سے کیا ہے۔اس مضمون میں علامہ قرضاوی کے ان افکار وخیالات کو پیش کیا گیا ہے جو انھوں نے معاصر مسلم خواتین کے مسائل سے بحث کرتے ہوئے ظاہر کیے ہیں۔مضمون میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ علامہ قرضاوی جب خواتین کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں،تو سب سے پہلے وہ ایک انسان اور ایک خاتون کےطور پر خواتین کے مطلوبہ رول اور ان کے دائرۂ کار سے متعلق اسلامی تصور کی مختلف جہتوں کا تعین کرتے ہیں۔ پھر ان کے جو حقوق اور ان کی ذمے داریاں ہیں،ان پر بحث کرتے ہیں۔مضمون نگار کا ماننا ہے کہ خواتین کی شخصیت اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ اسی وقت تکمیل پاتی ہے ،جب وہ قرآنی آیات،احادیث نبوی،امہات المؤمنین اور صحابیات رسول کی زندگیوں سے میل کھاتی ہو۔اورعلامہ قرضاوی یہی کرتے ہیں کہ ان تمام دلائل کو تفصیل سے بیان کرکے اپنے مضبوط عقلی اصولوں کے ذریعے مقاصد شریعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے عورت کی شخصیت کی ایک مثالی تصویر پیش کرتے ہیں، جس میں وہ عورت کے خاندانی کردار پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔
اسلامی حلقوں میں خواتین کے تعلق سے جو سخت گیر موقف پایا جاتا ہے،علامہ کے نزدیک بنیادی طور پر اس کے دو اسباب ہیں:یا تو اکثر لوگ ان شرعی نصوص سے ناواقف ہوتے ہیں جن نصوص میں مشکل کے مقابلے میں آسانی فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے،یا جن نصوص کو وہ جانتے ہیں ان کے سلسلے میں سوئے فہم کا شکار ہوتے ہیں،وہ ان سے بے محل استدلال کرتے ہیں۔اس لیے وہ خواتین سے متعلق افراط اور تفریط دونوں رویوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے عورتوں کو نہ تنگی ڈالنے کے حق میں ہیں،نہ ہی ان کو مغربی معاشرے کی طرح آزاد چھوڑ دینے کے قائل ہیں۔
ایک اہم مضمون ’فکر اسلامی کا نقیب،علم وتفقہ کا نشان امتیاز‘ کے عنوان سے مولانا مجیب الرحمن عتیق ندوی کا ہے۔ یہ مضمون اپنے طرز بیان اور حسن انشا کے لحاظ سے بڑا ممتاز ہے۔ اس میں علامہ قرضاوی کے اوصاف وکمالات کا قدرے تفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے ان کے کام کے دومیدانوں: علم وتفقہ اور فکر اسلامی کو ان کا نشان امتیاز قراردیاگیا ہے۔سچی بات یہی ہے کہ فقہ اسلامی اور فکر اسلامی کی آبیاری میں شیخ قرضاوی نے اپنے خون جگر کا نذرانہ جس فیاضی سے پیش کیا ہے،وہ کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔ مولانانے اپنے اس فاضلانہ مضمون میں علامہ کی حق گوئی وبے باکی کے نمونے بھی پیش کیے ہیں،ساتھ ہی وقت کے مشائخ ومعاصرین کی نگاہ میں ان کی جوقدر ومنزلت تھی،اس پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔مضمون کا وہ حصہ جو ان کی قید وبند کی صعوبتوں سے متعلق ہے، آنکھوں کو پرنم اور دلوں کو پر غم کردیتا ہے۔
’علامہ قرضاوی اور مسلم دنیا کے مسائل‘ کے عنوان سے شامل مضمون بھی بڑا جامع اور مفید ہے۔ مضمون نگار مولانا اشتیاق عالم فلاحی(مقیم دوحہ قطر) نے اپنے اس مضمون میں علامہ قرضاوی کی خدمات کے وسیع دائرے میں ایک ایسی خدمت کو موضوع بنایا ہے جو امت کے مسائل میں رہنمائی اور عالم اسلام کے متعدد مسائل میں ان کے اجتہادی اور مجاہدانہ کردار سے متعلق ہے۔ اسی ضمن میں انھوں نے علامہ قرضاوی کی جانب سے مسئلۂ فلسطین اور تحفظ مسجد اقصی کے سلسلے میں کی جانے والی مادی اور سیاسی کوششوں کے ساتھ ان کی قلمی ولسانی جدو جہد کا بھی تذکرہ کیا ہے۔مسلم دنیا کے مسائل کےذیل میں مضمون نگار نے عرب بہاریہ تحریک کے موقع پرعلامہ قرضاوی کے کردار کا بھی ذکر کیا ہے، اور لکھا ہے کہ اس وقت جب کہ اچھے اچھے علما عوامی جد وجہد کی حوصلہ شکنی اور ظالم حکمرانوں کی تائید میں کھڑے تھے، علامہ پوری قوت کے ساتھ انقلاب پسند عوام کے ساتھ کھڑےتھے۔ مسلم دنیا کے یہی دو مسائل نہیں تھے جن سے علامہ نے دلچسپی لی؛بلکہ اس کے علاوہ عالم اسلام کے جملہ مسائل پر انھوں نے اپنی رائے پیش کی اور موقع بہ موقع اپنا کردار بھی ادا کیا۔
مولانا صابر حسین ندوی نے ’علامہ قرضاوی اور اخوان‘ کے عنوان سے ایک مختصر اور چشم کشا مضمون لکھا ہے،جس میں علامہ کی تحریکی زندگی کا اخوان المسلمون کے حوالے سے جائزہ لینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ ابتدا ہی میں علامہ قرضاوی حسن البنا شہیدؒ کی شخصیت اور دعوت سے کس طرح متاثر ہوئے،اور پھر کس طرح ان کے دست وبازو بن کر کھڑے ہوگئے۔ان کے انتقال کے بعد ان کی فکر کے فروغ میں کسی طرح اپنی جدو جہدکا ایک ایک قطرہ نچوڑ کر رکھ دیا ۔اور اس راہ میں آنے والی صعوبتوں کو کس طرح خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ مضمون کا وہ حصہ بڑا عبر ت انگیز ہے جس میں کبائر علما کونسل کے فتوی کی روشنی میں پاسبان حرم نے اخوان پر یہ الزام لگا یا کہ یہ تنظیم دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں کی پناہ گاہ ہے؛اس لیے اس پر پابندی لگنی چاہیے۔
ایک بڑا دلچسپ،خوب صورت اور معلومات افزا مضمون وہ ہے جو مولانا محمد نوشاد نوری قاسمی کے قلم سے نکلا ہے،جس کا عنوان ہے: ’علامہ قرضاوی: مشاہیر امت کی نظر میں‘۔اس مضمون میں نے انھوں نے مشاہیر امت کے ان قیمتی تأثرات کو جمع کردیا ہے ، جن کا اظہارانھوں نے علامہ قرضاوی کے بارے میں مختلف وقتوں میں کیا ہے۔کسی شخصیت کی مرتبہ شناسی کا ایک اہم ذریعہ اس کے مشائخ، معاصرین اور اہل تعلق کے تأثرات بھی ہوا کرتے ہیں،جن سے شخصیت کے مختلف گوشوں پر اچھی روشنی پڑجاتی ہے۔ شیخ کے بارے میں جن مشاہیر نے اپنے تأثرات کا اظہار فرمایا ہے،ان میں شیخ عبدالفتاح ابو غدہ،شیخ مصطفی زرقاء،شیخ ابوالحسن علی حسنی ندوی،شیخ محمد غزالی مصری،مفتی محمد تقی عثمانی،مولانا ڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی ندوی،شیخ عبداللہ بن عمر نصیف،شیخ عبداللہ العقیل قابل ذکر ہیں۔ ان علمی اور قد آور شخصیات کے نام سے ہی ان کے گراں قدر تاثرات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
(ان حضرات کے تأثرات جاننے کے لیے دیکھیے:کتاب ہذا،صفحہ:۱۸۸-۱۶۷)
مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے ” اپنے دور کے مجتہدومجدد” کے عنوان سے ایک بڑا شاندار اور طاقت ور مضمون لکھا ہے، جس میں علامہ قرضاوی کے مجتہدانہ مقام اور مجددانہ شان کو ان کی ایک تحریر کی روشنی میں بڑی خوب صورتی سے واضح کیا گیا ہے۔مولانا نے علامہ سے اپنے دیرینہ تعلقات کا بھی تذکرہ کیا ہے،اور علامہ کے الطاف وعنایات سے بہرہ ور ہونے کی کہانی بھی سنائی ہے۔جس سے مولانا کے مقام ومرتبے اور ان کی عظمت وبلندی کا بھی پتہ چلتا ہے۔مولانا سید سلمان حسینی ندوی خود دور حاضر کے بڑے خطبا میں ہیں۔عربی اردو دونوں زبانوں میں ان کی طلاقت لسانی کا ان کے حریف بھی قائل ہیں؛لیکن انھوں نے علامہ قرضاوی کی فصاحت وبلاغت اوران کی ساحرانہ خطابت کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کی خطابت کے روشن آفتاب کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا۔
علامہ قرضاوی کی تقریر وتحریر کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ انھوں نے امام حسن البنا کے دعوتی اخلاص،اعتماد اور ایمانی طاقت،مولانا مودودی کی علمی تحقیقات،مباحثے کی قوت،استدلال کی منطقیت اور اسلوب کی دل پذیری، اور مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کہ نگہ بلند،سخن دل نواز،جاں پرسوزکو اپنی علمی وادبی وجود کا پیکر بنالیا تھا،جس کے نتیجے میں ان کی کتابت وخطابت کو وہ شہرت ملی ،جو دوسروں کو نہ مل سکی۔
اس کتاب میں پروفیسر محسن عثمانی ندوی کا بھی ایک خوب صورت مضمون موجود ہے۔ عنوان ہے :” یوسف گم گشتہ:علامہ یوسف القرضاویؒ”۔اس مضمون میں علامہ قرضاوی کی جدوجہد سے بھرپور زندگی کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا گیا ہے۔اس میں علامہ قرضاوی کے کمالات کاپوری فراخ دلی سے اعتراف کیا گیا ہے۔صاحب مضمون کے بقول علامہ قرضاوی کا علم یک رخی اور یک فنی نہیں تھا،ان کی نگاہ پورے اسلامی ذخیرے پر تھی۔وہ ملکی اور عالمی حالات سے مکمل باخبر رہنے والے عالم تھے۔ وہ نہ شرقی تھے نہ غربی۔ان کی خدمات کا دائرہ عالمی تھا،یہی وجہ ہے کہ ان کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے درمیان جو محبوبیت ملی وہ شاہان کج کلاہ اور سلاطین عالم پناہ کو بھی نہ مل سکی۔
علامہ قرضاوی کی وسعت نظری،وسعت قلبی اور شان اجتہاد کے تذکرے کی ضمن میں ہندوستان کے علما اور اصحاب افتا پر ان کا قلم سخت اور لہجہ تند ہو گیا ہے،جو عقل کی بجائے صرف نقل سے کام لے کر مسلکی جمود سے سر مو انحراف گوارا نہیں کرتے ۔انھوں نے ان امرا اورعلما پر بھی شدید تنقید کی ہے جنھوں نے علامہ کو ذہنی اور جسمانی صعوبتوں اور اذیتوں سے دوچار کیا۔انھوں نے لکھا ہے کہ مستقبل میں جب کوئی مؤرخ علامہ قرضاوی کے حالات پر کتاب لکھے گا،ان کے کارناموں کو سامنے لائے گا،تو ان سیاہ بخت اور سیاہ رو اشخاص کا بھی تذکرہ کرے گا جنھیں یوسف القرضاوی سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ان کےمخالفین کو اچھے ناموں سے یاد نہیں کیا جائے گا؛بلکہ ان کو حزب الشیطان سمجھا جائے گا۔
انھوں نے یوسف گم گشتہ کے پس منظر میں یہ بات لکھی کہ مصر میں سیاست کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہی جو حضرت موسی کے بجائے فرعون کے ہم فکر اور ہم خیال تھے،جس کی بنا پر انھیں مصر سے ہجرت کرنی پڑی۔
’علامہ یوسف القرضاوی کی یاد میں‘۔ا س عنوان سے مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کا ایک تأثراتی مضمون بھی شامل کتاب ہے،جس میں انھوں نے علامہ کی تحریکی اور دعوت وعزیمت سے بھرپور زندگی کا نقشہ کھینچا ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ شیخ قرضاوی کا امام حسن البنا شہید اور مولانا مودودی سے تعلق ایک مرشد ورہنما کا تھا۔یہی وجہ ہے کہ دونوں کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا شیخ قرضاوی کے لیے بڑا صبر آزما تھا۔مولانا نے علامہ قرضاوی کے امتیازات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا امتیاز صرف یہ نہیں ہے کہ وہ علمی اور فکری کتابوں کا ایک بیش بہا ذخیرہ چھوڑ گئے؛بلکہ ان کا امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پیچھے اپنے ارشد تلامذہ کی ایک بڑی فوج چھوڑگئے جو دنیا بھر میں علم کی قندیلیں روشن کیے ہوئے ہیں اور باطل افکار سے نبرد آزما ہیں۔
اس کتاب کا سب سے طویل، طاقت ور اور کلیدی مضمون وہ ہے جو ” امت مسلمہ کے لیے دھڑکنے والا دل خاموش ہوگیا” کے عنوان سے ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی کے قلم سے نکلا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس مضمون میں دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ علامہ قرضاوی کی علمی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر جس قدر شرح وبسط کے ساتھ انھوں نے لکھا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ علامہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے وہ کافی ہے۔مضمون میں ان سے اپنی محبت وعقیدت کا اظہار بھی ہے،اور ان کی وفات پر داغ یتیمی کا احساس بھی۔ان کی پرکشش اور کثیر الجہات شخصیت کے تعارف میں جو کچھ لکھا ہے،وہ ڈاکٹر صاحب ہی کا حصہ ہے۔ڈاکٹر صاحب نے علامہ کی زندگی کے مختلف مراحل ،ان کے امتیازی اوصاف،فکری توسع،ان کی جرأت وبے باکی،ان کی قلمی ولسانی جدوجہد، مسئلۂ فلسطین سے ان کے قلبی تعلق،ان کے فقہی منہج،اعتدال وتوازن، تصوف اور خواتین سے متعلق ان کے موقف،اور ان کے مجددانہ مقام اور مجتہدانہ شان کے حوالے سے جس طرح مفصل ومرتب گفتگو کی ہے،وہ ان کے تجزیاتی قلم کا شاندار نمونہ ہے۔
علامہ قرضاوی کی شخصیت کا حسن ان کی جامعیت میں پوشیدہ ہے۔ایسی جامع اور ہمہ جہت شخصیت متقدمین میں علامہ ابن تیمیہ ؒکی نظر آتی ہے۔حسن اتفاق کہ علامہ قرضاوی اور علامہ ابن تیمیہ:دونوں کی زندگیوں میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں انقلابی فکر کے حامل رہے۔ دونوں نے اپنے اپنے وقتوں میں فقہی وفکری جمود پر کاری ضرب لگائی۔دونوں نے فقہ المقاصد کے باب میں بنیادی کام کیا۔ دونوں نے دشمنان اسلام کا مقابلہ کیا۔دونوں نظریاتی مخالفین کی چیرہ دستی کا شکار ہوئے اور قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں۔اسی طرح تبحر علمی،فکری وسعت اور اظہار حق کی جرأت دونوں کا نشان امتیاز تھی۔
علامہ قرضاوی کے فکر وفلسفہ،فقہ واستدلال،ملی شعور،معاصر حالات پر نظر،حق گوئی وبے باکی، اخلاص وللہیت، وسطیت واعتدال اور ان کی مجاہدانہ زندگی کو مختصر طور پر سمجھنے کے لیے یہ مضمون مرجع اور سند کا درجہ رکھتا ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے کا عنوان ہے’منتخبات قرضاوی کے اردو تراجم‘۔ اس حصے میں شامل مضامین کے عناوین کچھ اس طرح ہیں:
علامہ قرضاوی کی علمائے امت کے نام آخری وصیت (ترجمہ:ابوالاعلی سید سبحانی)
اپنی مظلوم بیٹی کے نام علامہ قرضاوی کا خط (ترجمہ: محی الدین غازی)
قصیدۂ نونیہ کے منتخب اشعار کا ترجمہ (ترجمہ: مولانامحمد فرید حبیب ندوی)
بین مذہبی مذکرات کا قرآنی منہج اور گلو بلائزیشن کے دور میں دعوت کے تقاضے (ترجمہ: مولانا محمد اعظم ندوی)
وہ اصلاح جو ہمیں مطلوب ہے(ترجمہ: مولانا محمد خالد ضیا صدیقی ندوی)
ضعیف اور موضوع احادیث کا فتنہ (ماہنامہ الشریعہ،ستمبر2004)
تحریک اسلامی کے لیے انمول مشورے (ماہنامہ زندگی نو،نومبر2022)
تجدید واجتہاد سے گریز (ترجمہ: منیر احمد خلیلی)
اس طرح متنوع علمی حیثیوں اور مختلف انداز فکر کی حامل شخصیتوں کے گراں قدر مضامین سے مالا مال یہ مجموعہ علامہ قرضاوی کی پایہ شناسی کے حوالے سے ایک جامع ، قابل قدراور مفید مجموعہ بن گیا ہے۔ اس اہم مجموعے کی نفیس اور دیدہ زیب اشاعت پر مرتب کتاب ابوالاعلی سید سبحانی صاحب علم دوست حضرات کی طرف سے شکریے اور قدردانی کے مستحق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام کتاب : علامہ یوسف القرضاویؒ
ترتیب : ابوالاعلی سید سبحانی
صفحات : ۲۷۲
اشاعت : ۲۰۲۲ء
قیمت : ۳۰۰
ناشر : ہدایت پبلشرز اینڈ
ای میل: [email protected]
فون: 09891051676

You may also like

Leave a Comment