Home مقبول ترین علامہ شبلی پر کتابیں یا انسائیکلو پیڈیا ! – شکیل رشید

علامہ شبلی پر کتابیں یا انسائیکلو پیڈیا ! – شکیل رشید

by قندیل

شبلی شناس ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کی دو جِلدوں پر مشتمل نئی کتاب ’ اثراتِ شبلی ‘ کو اگر علامہ شبلی نعمانی اور ان سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا انسائیکلو پیڈیا کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا ۔ شخصیات میں مداحّین ہی نہیں وہ بھی شامل ہیں ، جنہیں ایک زمانہ شبلی کے دشمنوں کے روپ میں دیکھتا اور جانتا ہے ۔ کتاب ملنے سے پہلے کتاب دیکھی تھی ۔ ہوا یہ کہ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی علاج کے سلسے میں ممبئی آئے تھے ، ان سے ملاقاتیں رہیں ، کتاب کا دیدار کیا ، سرسری طور پر کتاب دیکھی بھی ، اور ڈاکٹر صاحب سے کہا بھی کہ یہ کام تو کسی انسائیکلو پیڈیا جیسا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا کہ یہ کام واقعی مشکل تھا ۔ کتنا مشکل ؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کام کرنے کے لیے مجموعی طور پر ، دونوں جِلدوں کے لیے ، بالترتیب 187اور 182کتابوں کو اور 8اور 15رسالوں کو کھنگالنا پڑا ہے ۔ یہ ایک مشکل کام تھا ، محنت طلب ، لیکن اللہ جو کام کروانا چاہتا ہے وہ کروا ہی لیتا ہے ۔ یہ کتاب ہے کیا ، یا اس کا موضوع کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب دونوں ہی جِلدوں کے (دونوں جِلدوں کی شخصیات کے زمانہ میں فرق ہے ) دیباچوں میں ڈاکٹر صاحب نے دے دیا ہے ۔ پہلی جِلد کے دیباچہ میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ، ’’ یہ کتاب دراصل علامہ شبلی کے ان اثرات کی داستان ہے جن کا ذکر مصنّفین کے نوک قلم پر آ گیا ہے ۔ ابھی ان افکار و خیالات اور اثرات شبلی کا مطالعہ بہرحال باقی ہے جن کا تعلق فکر و نظر کے مستعار لینے سے ہے ۔‘‘ سوال یہ ہے کہ ’ اثرات ‘ سے ڈاکٹر صاحب کا کیا مطلب ہے ؟ اس سوال کا جواب بھی انہوں نے دیا ہے ، ’’ مختلف کتب و رسائل اور مختلف علوم و فنون کی کتب کی ترتیب و تدوین اور اشاعت میں انہوں نے اہلِ قلم کے تعاون کے ذریعہ تصنیف و تالیف کے فن کے فروغ میں عدیم النظیر کارنامہ انجام دیا ۔ یہی سبب ہے کہ ان کے فیض تربیت سے ملک میں متعدد اہلِ علم ، ادیب و انشا پرداز اور محقق و مصنف کے بلند رتبے پر فائز ہوئے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دور کا آسمانِ علم و ادب علامہ مرحوم کی بدولت منوّر ہے ۔ علامہ مرحوم کی اس منفرد کاوش کا ذکر و اعتراف بے شمار اہلِ قلم نے اپنی کتابوں ، دیباچوں ، مقدموں اور مکاتیب میں کیا ہے ۔ راقم کو ’ شبلی : خود نوشتوں میں ‘ کے زمانۂ تصنیف میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر ان کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اثراتِ شبلی کا ایک نیا مرقع سامنے آ سکتا ہے ۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ زیرِ نظر کتاب میں اس نوع کے نہایت اہم واقعات آگیے ہیں ۔ ان میں سے بہت سی باتیں ضخیم حیات شبلی میں اضافہ ہیں ۔ ‘‘مطلب یہ کہ شبلی سے جن ادیبوں نے تعاون لیا ، یا ان کے کام سے متاثر ہوئے ، یا ان کے کام کی تحسین کی ، اور اپنی کتابوں ، دیباچوں ، مقدموں و مکاتیب میں اس کا ذکر کیا ، اسے اس کتاب میں جمع کر دیا گیا ہے ۔ پہلی جِلد علامہ کی وفات ( ۱۸ ، نومبر ۲۰۱۴ء ) تک کے ذکر پر مشتمل ہے ، اس لیے اس میں وہ شخصیات شامل ہیں جنہیں علامہ سے راست یا ان کی حیات میں رابطے کا یا اثر قبول کرنے کا موقعہ ملا ، دوسری جِلد میں بعد کی شخصیات ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نےپہلی جِلد کے دیباچہ میں کئی اہم شخصیات کے نام دیے ہیں جنہوں نے علامہ سے تعاون لیا ، مثلاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق استاد فلسفہ پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ ، جنہوں نے اپنی کتاب ’ پریچنگ آف اسلام ‘ لکھتے ہوئے علامہ شبلی سے اسلامی علوم و فنون کے بارے میں واقفیت حاصل کی ، مولوی عبدالزاق کان پوری ، جنہوں نے ’ البرامکہ ‘ لکھتے ہوئے علامہ کی مدد لی ، مولوی سیّد علی امجدی اشہری جنہوں نے میر انیس کی سوانح لکھتے ہوئے علامہ سے استفادہ کیا ، نیز مولانا سیّد عبدالحئی حسنیؒ اور دیگر ۔ پہلی جِلد میں کُل 105 شخصیات کے مقدموں ، دیباچوں اور کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے ، جو اندراجات جائزہ میں شامل کیے گیے ہیں ان کا تعلق علم و ادب کے مختلف موضوعات سے ہے ، اور جن اہلِ قلم کے اقتباسات شامل ہیں ، ان کا ، اگر تفصیلی ممکن نہیں ہو سکا تو مختصراً سہی ، مگر تعارف کرادیا گیا ہے ، ساتھ ہی ان کی کتابوں کا تعارف بھی کرایا گیا ہے ۔ پہلی جِلد میں جن 105شخصیات کا تذکرہ اور تعارف اور اقتباسات شامل ہیں ان میں چند نام ملاحظہ کریں ؛ سرسید احمد خان ، نواب سلطان جہاں بیگم ، مولوی عبدالحلیم شررؔ ، جرجی زیدان ، پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ ، منشی محمد امین زبیری ، بابائے اردو مولوی عبدالحق ، پنڈت منوہر لال زتشی ، بیگم مہدی افادی ، علامہ سر محمد اقبال ، محمود عباسی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، میمونہ سلطان شاہ بانو ، مولانا عبدالماجددریابادی ، مجنوں گورکھپوری اور رئیس احمد جعفری وغیرہ ۔ اس فہرست میں منشی امین زبیری اور بابائے اردو مولوی عبدالحق یہ دو نام ایسے ہیں جوعلامہ سے معاندانہ رویہ رکھتے تھے یا ایسا الزام ہے ، ان کے وہ دیباچے یا مقدمے جن میں علامہ کی تنقید یا تنقیص کا پہلو ہے اس کتاب میں شامل ہیں ، انہیں پڑھ کر اور ان کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی تحقیق یا تبصرے پڑھ کر علامہ کی زندگی کے بھی اور ان افراد کی زندگی کے بھی کئی چھپے پہلو سامنے آجاتے ہیں ۔ ایک مثال ملاحظہ کریں ؛ امین زبیری نے ’ خطوط شبلی ‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی تھی جس کے دو ایڈیشن بالترتیب 1926 ء اور 1935ء میں شائع ہوئے ، پہلے ایڈیشن کے دیباچہ کے مقابلے دوسرے ایڈیشن کا دیباچہ تفصیلی ہے ، اس میں ایسی باتیں شامل کر لی گئی ہیں جو علامہ کی شخصیت پر دھبہ لگاتی ہیں ، جیسے کہ علامہ کو جذباتی قرار دینا ، ان کے خطوط میں جذباتیت تلاش کرنا ، خواتین کے بارے میں ان کی سوچ ، کسی لڑکی کی تربیت کرنے ، متجرد کی زندگی اور عقدِ ثانی کی خواہش کا ذکر وغیرہ ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ، ’’ یہ سب دراصل تسلسل کے ساتھ اس لیے ذکر کیے جا رہے ہیں کہ ’خطوط شبلی ‘ کے ذکر میں آئندہ فسانہ بنانے میں نقش و نگار کا کام دیں ۔ ‘‘مولوی عبدالحق کےاقتباسات کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب ان لفظوں کو نشان زد کرتے ہیں جو علامہ کی تضحیک میں لکھے گیے ہیں ، مثلاً علامہ کو ہر جگہ ’ مولوی ‘ اور حالی کو ’ مولانا ‘ لکھنا ، علامہ کے مذاقِ سلیم پر شبہ کرنا اور پھر اسے عامیانہ کہنا ، بقول ڈاکٹر صاحب ، ’’ پورا اقتباس علامہ شبلی کی ہجو ملیح ہے ۔ ‘‘
کتاب کی دوسری جِلد 2014 ء سے عہدِ حاضر تک کی ان شخصیات کے احوال اور ان کی تحریروں کے اقتباسات پر مشتمل ہے ، جو کسی نہ کسی طرح علامہ سے متاثر ہوئے ہیں ۔ اس جِلد میں جن 104 شخصیات کا ذکر ہے ان میں سے اکثر علامہ کے انتقال کے بعد پیدا ہوئے ہیں اور چندایسی شخصیات ہیں جو علامہ کی حیات میں گود میں رہے ہوں گے ۔ اس فہرست میں اہم نام ہیں مولانا سیّد ابوالحسن علی ندویؒ ، عبدالرزاق قریشی ، علی جواد زیدی ، مولانا مجیب اللہ ندوی ، رشید حسن خان ، مولانا سیّد محمد رابع ندوی ، شمس الرحمن فاروقی ، پروفیسر عبدالستّار دلوی ، ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہانپوری ، شمیم طارق اور ڈاکٹر نگار سجاد ظہر وغیرہ ۔ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کا کہنا ہے کہ یہ جِلد ’’ اپنی نوعیت اور افادیت کے لحاظ سے حصہ اوّل سے کم نہیں بلکہ بعض حیثیتوں سے بڑھی ہوئی ہے ۔‘‘ اس جِلد میں علامہ کی وفات کے بعد ’ دبستانِ شبلی ‘ نے پوری قوت کے ساتھ ملّت کی ذہنی تاریخ میں جو کردار ادا کیا اور آج بھی ادا کر رہا ہے ، اس کی ایک تصویر ، حوالوں کے ساتھ ، سامنے آ گئی ہے ۔ اس کتاب کو انسائیکلو پیڈیا کہنے کی سب سے بڑی وجہ 209 اہم شخصیات اور ان کی کتابوں کا تعارف ہے ، یہ ایک اہم کارنامہ ہے اور یقیناً حوالہ جات کے لیے یہ دونوں جِلدیں ریسرچ اسکالروں کے لیے مفید ثابت ہوں گی ۔
اس کتاب کے ساتھ میں مزید ایک کتاب ’ شبلی اقتباسات کی روشنی میں ‘ کا تعارف ضروری سمجھتا ہوں ، کیونکہ ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب بھی شبلی کے ’ اثرات ‘ سامنے لاتی ہے ۔ یہ کتاب 150 اہلِ قلم کے کوئی دوسو اقتباسات پر مشتمل ہے ، اور اِن اقتباسات کا انتخاب کرتے ہوئے بقول ڈاکٹر صاحب ، اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ یہ ، ’’ اپنے موضوع پر لکھی گئی تحریروں میں منفرد اور ممتاز ہوں ۔ یا اس سے شبلی کی شخصیت کے کسی خاص پہلو کی وضاحت یا صراحت ہوتی ہو ۔ یا وہ ادب و انشا کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہوں ۔ ان اصولوں کی بنا پر یہ انتخاب علامہ شبلی سے متعلق بہترین اور خوبصورت تحریروں کا مجموعۂ عطر ہو گیا ہے ۔‘‘ اس انتخاب میں جو اقتباسات شامل ہیں ان میں علامہ شبلی کی کتابوں ، خدمات و شخصیت اور ان کے اوصاف و کمالات کے تقریباً تمام اہم پہلوؤں کا اجمالاً ہی سہی ذکر آ گیاہے ۔ مثال کے طور پر ایک اقتباس پادری جان ملکم کا الندوہ کے سلسلے میں پیش ہے ، ’’ اب علامہ ممدوح ایک ایسے بڑے کام میں مشغول ہیں کہ اگر وہ مکمل ہو گیا تو سمجھ لینا چاہیے کہ مشرق میں ایک نیا دور مسلمانوں پر طلوع ہوگا ۔ اگر الندوہ فی الحقیقت کامیاب ہوگیا یعنی شیعہ و سنّی ، وہابی و حنفی وغیرہ علما ء درحقیقت اسلام کی عمارت بنانے میں متفق ہو گیے اور ہر ایک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ نہ بنائی تو ہندوستان و مشرق میں مسلمان قوم کا ایک زندہ تاج محل بن جانا کچھ مشکل نہیں ہوگا ۔‘‘ لیکن اس کتاب میں ایک کمی ہے ، جن شخصیات کے اقتباسات شامل ہیں ان کے حالات یا تذکرے نہیں دیے گیے ہیں ، لہٰذا اگر ہم اس کتاب سے یہ معلوم کرنا چاہیں کہ پادری مالکم کون تھے ، تو مایوسی ہاتھ آئے گی ۔ اس کمی کے باوجود یہ ایک لاجواب کتاب ہے ۔ تینوں کتابیں ، ’ اثراتِ شبلی ‘ کی دونوں جِلدیں ، اور ’ شبلی اقتباسات کی روشنی میں ‘ ’ ادبی دائرہ اعظم گڑھ ‘ ( موبائل نمبر:9838573645)سے شائع ہوئی ہیں ۔ پہلی کتاب کی دونوں جِلدوں کی مجموعی قیمت 800 روپیہ ہے ، مجموعی ضخامت 544 صفحات ہے ۔ ان جِلدوں کا انتساب بالترتیب ڈاکٹر دبیر احمد ، صدر شعبۂ اردو مولانا آزاد کالج ، کولکاتا ، اور ڈاکٹر محمد شکیل اختر ، جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے نام ہے ۔ دوسری کتاب 160 صفحات پر مشتمل ہے ،قیمت 250 روپیہ ہے ، اس کا انتساب مولانا اعجاز احمد اعظمیؒ کے نام ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب ’ بیانِ شبلی-۲ ‘ مذکورہ کتابوں سے پہلے ملی تھی ، اس کا تفصیلی تذکرہ پھر کبھی مختصراً اتنا بتا دوں کہ یہ کتاب ’ بیان شبلی ‘ کا دوسرا حصہ ہے ، اور اس نام سے مزید حصے بھی شائع ہونے کی امید ہے ، بلکہ ’ بیانِ شبلی- ۳ ‘ کا سرورق آگیا ہے اور کتاب پریس میں جا چکی ہے ۔ اس کتاب میں علامہ شبلی کی خدمات و حیات پر گیارہ مقالے شامل ہیں ، ان مقالوں کا بڑا حصہ شبلی کی وفات پرلکھی گئیں تعزیتی تحریروں پر مشتمل ہے ، ان تحریروں کو بڑی ہی محنت سے تلاش کیا گیا ہے ۔ کتاب کے ’ پیش گفتار ‘ میں حافظ عمیر الصدیق ندوی نے سچ ہی لکھا ہے ، ’’ ایسے خزانوں کی تلاش اور پھر حفاظت سے ان کی یکجائی محض برائے شوق نہیں ، اس کے لیے قسام ازل جنون اور وارفتگی کی عطا و بخشش کا فیصلہ کرتا ہے ، اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ الیا س صاحب کو شبلی کی طرح نصیب کی دولت ملی تو یہ کچھ مبالغہ نہیں ، نہ یہ حیرت کی بات ہے ۔‘‘ ندوی صاحب نے شبلی کے جس نصیب کی جانب اشارہ کیا ہے وہ مولانا عبدالماجد دریابادی کے ایک مضمون کے حوالہ سے ہے جس میں لکھا ہے ، ’’ تنوع یا رنگا رنگی کی دولت شبلی ہی کے نصیب میں آئی ۔ ‘‘ اس کتاب کا انتساب ’ تخلیقی نثر نگار اور صاحب طرز ادیب حقانی القاسمی کی نذر ‘ ہے ۔ کتاب نئی دہلی کے معروف ادارے ’ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ‘ نے خوبصورت انداز میں شائع کی ہے ۔ کتاب 224 صفحات کی ہے ،قیمت 350 روپیہ ہے ۔ اس کتاب کا اشاریہ مولانا محمد عرفات اعجاز اعظمی نے بڑی ہی عرق ریزی سے تیار کیا ہے ۔

You may also like

Leave a Comment