Home ستاروں کےدرمیاں علامہ قمرالدین گورکھپوری:ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے- عزير احمد قاسمى

علامہ قمرالدین گورکھپوری:ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے- عزير احمد قاسمى

by قندیل

استاد الاساتذہ، محدث جلیل، شیخ التفسیر، حضرت علامہ مولانا قمر الدین احمد صاحب نائب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کا بروز اتوار 22 دسمبر سن 2024ء کو علی الصباح قبل نمازفجر انتقال ہو گیا، انا لله وانا اليه راجعون لله ما اخذ ولله ما اعطى وكل شيء عنده بمقدار.
حضرت والا کے انتقال سے جو دھچکا اور غم ہمارے پورے خاندان پر پڑا ہے اور ناقابل بیان ہے، رب کریم حضرت والا کى بال بال مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے۔ امین
حضرت والا سے ہمارے گھر انے کے تعلقات کم و بیش 50 سال سے تھے، یہ حقیر سن 1975 ءمیں دارالعلوم دیوبند گیا، اس سے پہلے ہمارے دو بھائی حضرت مولانا فضیل احمد صاحب، اور حافظ شعیب احمد رحمهما الله حضرت کی خدمت میں رہ چکے تھے، جنہیں حضرت والا اپنی اولاد کی طرح سمجھتے اور مانتے تھے، ا حقر جس وقت دارالعلوم دیوبند گیا کم عمر تھا ،حضرت کے گھر میں آنا جانا رہتا تھا، حضرت کی اہلیہ جنہیں ہم "چچی جان” کہا کرتے تھے( تغمدها الله بواسع رحمته ويسكنها فسيح جناته) بڑی شفقت کا معاملہ فرماتی تھیں، چونکہ حضرت والا کی کوئی صلبی اولاد نہیں تھی ،اس لیے اپنے بڑے بھتیجے جناب مولانا معراج الحق صاحب استاد جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد کو اپنے پاس رکھ رکھا تھا، گھریلو ضروریات کو ہم دونوں پورا کر دیا کرتے تھے، وہ بھی اولاد کی طرح شفقت فرمایا کرتی تھیں، یہ میرا سال پنجم تھا،حضرت والا علیا کے استاد تھے،بعد میں حضرت سے کتب حدیث پڑھنے کا اتفاق ہوا،اس کے ساتھ ساتھ اور بھی درسی کتابوں میں جہاں کوئی اشکال ہوتا تھا حضرت سے پوچھ کر حل کر لیا کرتا تھا ،میرے بڑے بھائی مولانا فضیل احمد مرحوم نے حضرت والا سے اپنے وطن گو رکھپور چلنے کی درخواست کی، جسے حضرت والا نے شرف قبولیت سے نوازا، میرے والدمولانا مجیب اللہ صاحب (تلمیذ شیخ الاسلام و شیخ الادب) مدرسہ عربيہ بيت العلوم بیروا چندن پورضلع گورکھپور(حال مہاراج گنج) کے ناظم تھے،دیہات کی وجہ سے وہاں مواصلاتى نظام ایسا نہیں تھا کہ حضرت کو اسٹیشن سے بذریعہ گاڑی یا رکشہ لایا جا سکے، اس لیے والد صاحب نے ہاتھی کا انتظام کروایا، اس پر سوار ہو کر حضرت والا اسٹیشن سے مدرسے تشریف لائے،کئی دن قیام فرمایا ،آس پاس کے مدارس کے ذمہ داران کی کافی بھیڑ رہی، حضرت والا شکار کے بے حد شوقین تھے، اس لیے قریبی جنگل میں شکار کا انتظام کرایا گیا، کچھ شکاری تجربہ کار لوگ حضرت کے ساتھ گئے ،اور شکار بھی لائے ،پھر یہ سلسلہ متعدد بار پیش آیا کہ حضرت ہماری دعوت کو شرف قبولیت سے نوازتے تھے، اور کئی کئی دن قیام فرمایا کرتے تھے ،میرے والد صاحب نے اپنی آخری عمر میں علالت کی بنا پر ادارے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، اور اب ہماری رہائش دوسری جگہ ہو گئی تھی، یہاں پر بھی والد صاحب ہی کا قائم کردہ ادارہ مدرسہ سعد ابن ابی وقاص تھا، حضرت والا وہاں بھی "چچی جان” کے ساتھ تشریف لایا کرتے تھے، اور اسی پرانے انداز میں وعظ و نصیحت کے ساتھ ساتھ شکار کا بھی سلسلہ چلتا رہتا تھا ،تعلیم و تربیت وعظ و نصیحت ہر طرح کی مجالس ہوا کرتی تھیں، راقم السطور جس وقت مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں تدریس سے متعلق تھا، حضرت کی معیت میں دارالعلوم کی طرف سے سن ١٤٠٢ھ میں حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمہ کے حکم پر مالیگاوں اور بمبئی کا سفر ہوا،جس میں مختلف جگہوں پر بیانات بھی ہوئے، احقركے دیوبند سے بہ سلسلہ تعلیم سعودی عرب جانے کے بعد بھی خط کتابت اور ملاقات ہوتی رہتی تھی، حضرت کی وہی شفقتیں وہی عنایتیں اب بھی رہا کرتی تھیں، میرے بھتیجوں مولوی محمد ازھد مرحوم، مولوی سہیل احمد ،ومولوی محمداخلد سلمهما جس وقت دیوبند میں زیر تعلیم تھے ان کے ساتھ بھی ہمیشہ شفقت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے، خاص طور پر گورکھپور کے طلباء کے ساتھ تو بہت ہی محبت و تعلق سے پیش آتے،ان کی خواہش ہمیشہ یہ رہتی تھی کہ اس پسماندہ علاقے کے طلباء زیادہ سے زیادہ تعلیم میں آگے بڑھیں، اور اپنے ضلع کا نام روشن کریں، دارالعلوم كےاختلافی دور میں ہمیشہ طلباء کو ان کی یہی نصیحت رہا کرتی تھی کہ تم طلبِ علم کے لیے دارالعلوم آئے ہو کسی بھی اختلاف سے تمہارا کوئی بھی سروکار نہیں رہنا چاہیے، بلکہ یکسوئی کے ساتھ تعلیم ہی کی طرف اپنی توجہ کو مرکوز رکھو، یوں تو حضرت کے جاننے اور عقیدت رکھنے والے ہندوستان کے گوشے گوشے میں ہیں، لیکن مغربی یو پی میں خاص طور پر اہل مدارس اپنے پروگراموں میں حضرت کو ضرور بلانا چاہتے تھے، اور حضرت والا بھی اپنی تدریسی مشغولیت نیز دارالعلوم دیوبند کی ذمہ داریوں کے باوجود کوشش یہی کرتے تھے کہ آنے والے علماء اور محبین کی دل شکنی نہ ہو، حسب وسعت وقت ضرور دیتے تھے، اپنے شاگردوں خاص طور پر جو دیوبند سے جا چکے ہیں اور کسی ادارے سے وابستہ ہیں ،دیوبند آنے کے موقعہ پر ان حضرات کی يہى خواہش ہوتی ہے کہ اپنے اساتذہ سے ضرور ملاقات کریں ،اور ان سے دعائیں لیں، حضرت مولانا ان کی دعوت ضرور کرتے تھے، آپ نے 58 سال تک اپنے مادر علمی کی دل وجان سے خدمت کی، دارالعلوم دیوبند سے پہلے مدرسہ عبدالرب میں بھی شیخ الحدیث رہے، اور وہاں كى جامع مسجد میں تفسیر کا سلسلہ جاری فرمایا، دارالعلوم دیوبند میں دوره حدیث کی کتابوں کو بار بار اور سالہا سال پڑھایا،اب بخاری شریف جلد ثانی حضرت سے متعلق تھی، میرے برادر کبیر مولانا فضیل احمد کا 10 فروری سن 2009 ءمیں جب انتقال ہوا جنازه دہلی سے وطن لے جایا جا رہا تھا، راستے میں حضرت کا فون آیا تعزیت مسنونہ اورتلقين صبر کے بعد فرمایا کہ میں تمہارے گھر پہنچ رہا ہوں، چنانچہ حضرت تشریف لائے، اور جنازے کی نماز پڑھائی، گھر کے جملہ افراد کو تسلی دلائی، یہ حضرت کی غايت درجہ شفقت اور محبت اورخورد نوازى کی بات تھی۔
حضرت کے تلامذہ میں ایک سے ایک عالم فاضل ہیں،جن کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہوگی، دارالعلوم دیوبند کے موجودہ اساتذہ میں چند کے علاوہ سبھی حضرت کے خوشہ چینوں میں ہیں۔
دل سے دعا ہے کہ رب کریم حضرت والا کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے، خاندان کے جملہ افراد خصوصا مولانا معراج الحق صاحب، مفتی احسان الحق صاحب وغیرہ نیز محبین، مخلصین، تلامذہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمين

You may also like