مولانا سید مناظر احسن گیلانی(۱۹۵۶-۱۸۹۲)بیسویں صدی کے ان جبالِ علم و فکر میں سے تھے،جنھوں نے ایک عالم کو اپنی نابغیت سے متاثر کیا اور جن کا علمی ورثہ آج بھی دنیا کے لیے ایک گراں بہا سرمایے کی حیثیت رکھتا ہے۔ مولانا گیلانی اپنی نوعیت کی نہایت منفرد اور مختلف الجہات شخصیت تھے،جس میں علم و نظر کا جمال،فکروفلسفہ کا کمال،ادب و فن کی جاذبیت،زمانہ شناسی اور ملی دردمندی کا احساس،تاریخی و تحقیقی بصیرت کا حسن،ادب و زبان کا لطف،سلوک و تصوف کی نزاکت،خلوص و للہیت کا نور،تفقہ و تدبر کا شعور ؛سب بہت وافر مقدار میں جمع ہوگئے تھے۔ حالاں کہ ہندوستان کی سطح پر انیسویں اور بیسویں صدی بڑی ماجرا پرور تھی اور ان میں سیاست کے علاوہ دوسرے تقریباً تمام ہی زندہ شعبوں میں بڑے عظیم الشان انقلابات رونما ہوئے،جنھوں نے برصغیر کے ہر گوشے اور انسانی طبقے کو متاثر کیا، ہر ایک شعبے میں بے شمار جینئس افراد پائے گئے اور ان میں سے کئیوں نے اپنے آپ کو برصغیر ہی نہیں، عالمی سطح پر منوایا،ان کی یکہ تازی تسلیم کی گئی اور اپنے فن میں ان کے تفوق کو سراہا گیا،مگر کچھ ایسے لوگ بھی اسی صدی میں ہوئے،جن کا عبقری ذہن بہ یک وقت کئی سمتوں میں چلتا تھا ،جن کے ایک دماغ میں کئی دماغوں کی تفکیری صلاحیت تھی اور جنھیں قدرت نے ایک ہی زندگی میں گویا کئی زندگیاں جینے کا موقع عطا فرمایا،سو انھوں نے ایک نہیں،انیک شعبوں میں اختصاص و امتیاز حاصل کیا اور عوام الناس ہی نہیں،خواص بھی ان کے علم و ہنر اور فکر و نظر کی فیاضیوں، گہرباریوں، عنایتوں اور خرد افروزیوں سے بہرہ مند ہوتے رہے۔ میرے خیال میں مولانا گیلانی بھی ایسی ہی نہایت فیاض و جواد شخصیات میں سے ایک تھے۔ انھوں نے علم و فکر کے کئی شعبوں کو متاثر کیا،تعلیم و تربیت کے کئی میدان فتح کیے،تصنیف و تالیف کے باب میں تو ان کا کمال بے مثال ہے،جو کچھ لکھا،بے پناہ لکھا،جس موضوع پر قلم اٹھایا اسے پانی کر دیا، ان کے قلم کو خدا نے سیال بنایا تھا اور ان کا مطالعہ عدیم النظیر تھا،سو جب وہ لکھنا شروع کرتے ،تو الفاظ و افکار ان کے قلم سے آبشار کے مانند بہتے چلے جاتے ؛چنانچہ یہ ایک تحیر زا حقیقت ہے کہ ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت‘‘ جیسی سوا سات سو صفحات کی نہایت معیاری تاریخی و تحقیقی کتاب انھوں نے محض بیس دنوں میں لکھ دی تھی ۔ مولانا گیلانی نے عملی زندگی دیوبند میں تکمیلِ تعلیم کے بعد فوراً شروع کی اور معاون استاذ کے علاوہ وہاں سے جاری شدہ رسالے ’القاسم‘ و’الرشید‘ کے ادارۂ تحریر میں بھی شامل کیے گئے ، پھر جو ان کا بہرۂ علم و تحقیق و تصنیف کھلنا شروع ہوا،تو ۱۹۵۶ء میں آخری سانس لینے تک قائم رہا۔ نہایت والہانہ اسلوب میں لکھی گئی کتاب’’سیرت ابوذر غفاریؓ‘‘ اسی ابتدائی تحریری دور کی یادگار ہے۔بعد میں انھوں نے علم حدیث،قرآن،فلسفہ،تاریخ،تعلیم،سیرت،تحقیق،سوانح،تصوف؛سب پر لکھا اور شان دار لکھا،ان کی شاعری بھی لاجواب تھی اور اردو،عربی،فارسی و مگدھی میں ان کا کلام موجود ہے۔ تدریسی خدمت ایک طویل عرصے تک حیدر آباد کے جامعہ عثمانیہ میں انجام دی اور وہاں انھوں نے ایک سے بڑھ کر ایک ہیرے جواہر تراشے،جن میں ڈاکٹر حمیداللہ جیسے یگانۂ روزگار عالم و محقق بھی شامل ہیں۔
مولانا جب زندہ تھے،تو خود بے پناہ لکھتے رہے،بہت سے موضوعات پر داد تحقیق دی اور بہت سی شخصیات کو زندگی عطا کی،مگر افسوس کہ ان کی وفات کے بعد ان کی تحریریں تو سرحد کے اِدھر اور اُدھر متواتر چھپتی رہیں اور ان کے علمی ترکے سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہے،مگر نئی نسل کو ان کی عظیم القدر شخصیت سے متعارف کروانے کا سلسلہ بہ وجوہ بہت دیر سے شروع ہوا،چھٹ پٹ مضامین تو ان پر ان کے معاصرین اور مختلف شاگردوں نے لکھے،مگر باضابطہ سوانح ان کی وفات کے کم و بیش ۳۳؍ سال بعد ۱۹۸۹ء میں مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ کے قلم سے منظرعام پر آئی،پھر اس کے بعد وقفے وقفے سے ان پر تصنیف و تالیف اور ریسرچ کا سلسلہ چلتا رہا؛چنانچہ کئی کتابیں،کتابچے اور ہند و پاک کی جامعات میں تحقیقی مقالات لکھے گئے،جن میں سے بعض شائع بھی ہوئے۔
نئی نسل میں گیلانیات کے محقق؛بلکہ والہ و شیدا ہمارے محترم ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی صاحب ہیں،جنھوں نے ضابطے کی تحقیق یا جامعاتی اصطلاح میں ’سندی‘ تحقیق تو منٹو اور ان کے خطوط پر کی ہے،مگر مولانا گیلانی ان کی عقیدتوں کا محور تبھی سے ہیں،جب وہ دیوبند میں زیرِ تعلیم تھے؛چنانچہ اسی زمانے میں انھوں نے مولانا گیلانی کے شعری سرمایے کو منظرنامے پر لانے کے جتن کیے اور ۲۰۰۷ء میں ’مناظرِگیلانی‘ کے نام سے مولانا کا مختصر زندگی نامہ اور دستیاب کلام شائع کروایا،پچھلے دنوں مزید ترمیم و اضافے کے ساتھ اس کتاب کا نیا ایڈیشن مرکزی پبلی کیشنز دہلی سے شائع ہوا ہے۔
اب فاروق اعظم صاحب نے مولانا گیلانی کی عدیم المثال شخصیت کو نئی نسل سے متعارف کروانے اور ان کی حیات و خدمات کے قابلِ رشک پہلووں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک اور بڑا اہم،غیر معمولی،قابلِ قدر اور لائقِ صد تحسین و پذیرائی کام کیا اور ۵۶۲ صفحات پر مشتمل ایک ضخیم،معیاری اور خوب صورت کتاب’’علامہ سید مناظر احسن گیلانی:احوال و آثار‘‘ کے نام سے مرتب کرکے شائع کروائی ہے۔ مختصر لفظوں میں یہ کتاب گیلانی شناسی یا گیلانیات کے باب میں بلا تامل ایک منی انسائیکلو پیڈیا کہی جاسکتی ہے،جس میں مرتب نے مولانا گیلانی پر لکھے گئے سوانحی،تحقیقی،تنقیدی و تاثراتی مضامین کی ایک کہکشاں آباد کردی ہے ،یہ مضامین بھی ایسے ہیں، جن کے لکھنے والے ہمہ شما قسم کے لوگ نہیں ،زیادہ تر خود مولانا گیلانی کے معاصرین ،ان کے شاگرد ،خوشہ چین اور کچھ نئی نسل کے باصلاحیت ،ذی علم اہلِ قلم ہیں۔
اصل کتاب سے پہلے مولانا بدرالحسن قاسمی کا پیش لفظ ہے اور اس کے بعد فاروق صاحب کا مقدمہ بہت جچاتلا اور تحقیقی نوعیت کا ہے،جس میں انھوں نے مولانا گیلانی پر اب تک ہونے والی تصنیف و تحقیق و تنقید کے حوالے سے بڑی معلومات افزا گفتگو کی ہے۔ کتاب کے مقالات تین حصوں میں منقسم ہیں،پہلا حصہ’’احوال‘‘ کا ہے،جس میں پیش لفظ اور مقدمے کے علاوہ سترہ مضامین شامل ہیں، پہلا مضمون فاروق اعظم صاحب کا ’مطالعۂ گیلانی:چند ضروری باتیں‘ کے عنوان سے ہے،اس میں انھوں نے مولانا گیلانی کی شخصیت کے تعلق سے پھیلی ہوئی چند تاریخی و تحقیقی غلطیوں یا تسامحات کی درست حوالوں کے ذریعے تصحیح کی ہے،اس کے بعد ڈاکٹر حمیداللہ(مولانا سید مناظر احسن گیلانی)،ڈاکٹر غلام محمد حیدرآبادی(تذکرۂ احسن)،پروفیسر مظفر گیلانی(مولانا مناظر احسن گیلانی:حیات اور شخصیت)،سید صباح الدین عبدالرحمن(مولانا مناظر احسن گیلانی)،حکیم سید محمود احمد برکاتی(مولانا مناظر احسن گیلانی اور ٹونک)،مولانا ابوالحسن علی ندوی(مولانا سید مناظر احسن گیلانی)،مفتی ظفیرالدین مفتاحی(علامہ گیلانہ رحمۃ اللہ علیہ)،ماہرالقادری(مولانا مناظر احسن گیلانی)،ڈاکٹر امان اللہ راٹھور(مولانا مناظر احسن گیلانی:ایک تاریخ ساز شخصیت)،مولانا سید ازہر شاہ قیصر(مولانا سید مناظر احسن گیلانی،دارالعلوم کا ایک فرزند)،مولانا سید انظر شاہ کشمیری(حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی اپنے خطوط کے آئینے میں)،مولانا عبدالماجد دریابادی(محققِ گیلانی)،مولانا سعید احمد اکبرآبادی(حبرِ امت)،مولانا شاہ معین الدین ندوی(مولانا مناظر احسن گیلانی)،مولانا حکیم سید ظہیر احمد برکاتی(مولانا مناظر احسن گیلانی) کے مضامین ہیں۔
دوسرا حصہ’افکار‘ کے عنوان سے ہے اور اس میں مولانا عبدالباری ندوی(بڑا نادر سنگم:دل و دماغ دونوں کا)،سعاد محمد عباس،سید عبدالغفار بخاری(مولانا گیلانی اور ان کا مطالعۂ ادیان)،ڈاکٹر سعود عالم قاسمی(مولانا گیلانی اور علم حدیث)،مولانا بدرالحسن قاسمی(علامہ مناظر احسن گیلانی کے تین نامور اساتذہ)،پروفیسر محسن عثمانی ندوی(اسلامک ہوسٹلس)،مولانا منظور نعمانی(مولانا گیلانی اور الفرقان)،مولانا عتیق الرحمن سنبھلی(مولانا گیلانی اور الفرقان)،ڈاکٹر امان اللہ راٹھور(مولانا گیلانی اور مولانا عبدالماجد دریابادی) کے مضامین ہیں۔
کتاب کا تیسرا حصہ ’ادبیات‘ کا ہے اور اس میں مولانا کے نثری اسلوب،شعری امتیازات اور ان کی کتابوں کے تجزیے پر مشتمل تحریریں شامل کی گئی ہیں،جن کے لکھنے والے ڈاکٹر امان اللہ راٹھور(مولانا مناظر احسن گیلانی:مکتوب نگاری اور دوسری صلاحیت)،مولانا محمد فیصل ندوی(مولانا گیلانی ادب اسلامی کا ایک نمایندہ درِ تابندہ)،ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی(مولانا مناظر احسن گیلانی کا نثری اسلوب)، مولانا تنویر خالد قاسمی(مخصوص طرزِ انشا کا موجود مولانا مناظر احسن گیلانی)،پروفیسرمحسن عثمانی ندوی(علامہ سید مناظر احسن گیلانی ایک چہار لسانی نعت گو شاعر)،پروفیسر ابو منور گیلانی(مولانا مناظر احسن گیلانی اور مثنویِ خوابِ وطن) اور ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی(علامہ سید مناظر احسن گیلانی کا شعری جہان) ہیں۔
چوتھے حصے کا عنوان ہے’علامہ سید مناظر احسن گیلانی مشاہیر کی انجمن میں‘ ،جس میں ان کے تعلق سے مولانا سید حسین احمد مدنی،قاری محمد طیب قاسمی،علامہ سید سلیمان ندوی،مفتی محمد شفیع دیوبندی کی مختصر تاثراتی تحریریں شامل اشاعت کی گئی ہیں۔ آخرمیں مولانا کی کتابوں کی فہرست دی گئی ہے،جن کی مجموعی تعداد ۲۷؍ ہے اور ان میں سے بیشتر ہندوپاک کے علمی حلقوں میں متداول و مقبول ہیں۔
کتاب کے مشتملات کی سرسری جھلک سے بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں مرتب نے کیسے قیمتی مواد کو جمع کردیا ہے اور مولانا گیلانی کے تعلق سے کیسا شان دار کام انھوں نے کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ساری تحریریں مختلف کتابوں،رسائل و جرائد میں شائع شدہ ہیں،مگر آج کے سہولت پسند دور میں قدیم کتابوں یا رسالوں کی ورق گردانی کون کرتا ہے،پھر یہ کہ ایک ایک مضمون کی تلاش میں سیکڑوں صفحات کی ورق گردانی کرنا اور درجنوں لائبریریوں کی خاک چھاننا کارے دارد!مگر فاروق صاحب جیسے سنجیدہ مزاج اور مرتکز ذہن اسکالر ایسا کرسکتے ہیں؛چنانچہ انھوں نے یہ کام کیا اور بیسیوں کتابوں اور رسالوں میں منتشر مضامین کو خوب صورتی سے مرتب کرکے اہلِ علم کے ذوقِ کتاب بینی کی سیرابی کا سامان کردیا ہے،خصوصاً جو لوگ مولانا گیلانی کی دل آویز و ہشت پہلو شخصیت اور ان کے کارناموں کے بارے میں جاننا،پڑھنا چاہتے ہیں،ان کے لیے یہ کتاب نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ قومی اردو کونسل کے مالی تعاون اور مرکزی پبلی کیشنز کے زیر اہتمام اس کی اشاعت عمل میں آئی ہے۔قیمت 500 روپے مناسب ہے۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے مؤلف سے 9718921072 اور ناشر سے 9811794822 پر رابطہ کر سکتے ہیں۔