سر زمین ہند کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس کے آغوش میں تربیت پانے والوں نے دینی علوم اور اسلامی فنون کی نہ صرف بیش بہا خدمات انجام دی ہیں ؛ بلکہ علوم اسلامیہ کی ترویج و اشاعت اور تحقیق و تنقیح میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے، اور تاریخ اس پر شاہد ہے کہ اسلامی علوم و فنون کے حوالے سے جن عبقری شخصیات کی شہرت و عظمت کی شعاعوں نے اقصائے عالم کو تابانی بخشیں ان میں ایک نہایت ہی مؤقر اور بلند پایہ نام ، فخر ہندوستان، نابغۂ روزگار ، محدث اعظم ، رموز شریعت کے رازداں ، محقق یگانۂ عصر ، علامہ محمد انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کا ہے، جو اپنی محیر العقول جامعیت، علمی تبحُّر، کثرتِ معلومات، وسعتِ مطالعہ، حیرت ناک استحضار وقوتِ حفظ کے باعث لاریب وہ رشکِ عرب وعجم اور علمی دنیا کے لئے سرمایہ افتخار تھے ، آپ کی نابغیت و عبقریت اہل علم کے نزدیک تسلیم شدہ حقیقت ہے، مسافرانِ علم وتحقیق اور صاحبانِ قلم و قرطاس کی طرف سے حضرت العلامہ کی ہمہ جہت شخصیت پر مختلف زبانوں اور زمانوں میں کتابیں تصنیف ہوئیں، تحقیقی مقالے لکھے گئے، بہت سی یونیورسٹیوں میں ان کی شخصیت اور علمی کمالات پر تحقیقاتی مقالات لکھنے والے اسکالرز کو ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں تفویض ہوئیں، علمی و ثقافتی اداروں اور تنظیموں کی طرف سے علامہ کی شخصیت پر بڑے بڑے عالمی سیمینارز منعقد کئے گئے ، جن میں ان کی زندگی کے مختلف گوشوں اور ان کے عظیم علمی کارناموں کو تقریری و تحریری طور پر اجاگرکیاگیا، اور اس طرح ان کی علوم و معارف کے درِّ مکنون سے استفادہ و استفاضہ کا سلسلہ جاری ہے، اور بہ مشیتِ الٰہی جاری وساری ؛بلکہ روز افزوں رہے گا۔ آیت مبارکہ {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ}اس امر کا متقاضی ہے کہ آیات الٰہی کے پاسبانوں کی حیات مستعار کو بھی ضمناً تحفظ حاصل ہو ۔
بایں ہمہ علامہ کشمیری علیہ الرحمہ کی زندگی کے ادبی گوشے اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود تاہنوز مستور و مکنون چلے آرہے تھے، حالاں کہ آپ کی علمی زندگی کا یہ پر کیف گوشہ اس قدر حسین وجمیل ہے کہ کشمیری علوم سے استفادہ کرنے والا اس پر فریفتہ ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا، میدان علم و تحقیق کا ایک تازہ دم ، دور اندیش ، باہمت وباحوصلہ ، صاحب ذوق شہسوار ، جب کشمیری علوم کے بحرتلاطم خیز میں چھلانگیں لگاتا ہے تو اسے ہر ہر قدم پر شستہ و شگفتہ الفاظ عمدہ و خوبصورت تراکیب اور اعلی ادبی استعاروں کے جھرمٹ میں استقبال کرتے نظر آتے ہیں ، جس سے قلب و نظر کو غیر معمولی طور پر فرحت و شادمانی اور روح کو غایت درجہ تسکین کا احساس ہوتا ہے۔
ہمارے لئے انتہائی مسرت وشادمانی کا مقام ہے کہ رفیقِ محترم مولانا مفتی محمد نافع عارفی قاسمی زید مجدہ کا علمی ذوق اور ادبی شعور نے “علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور عربی زبان و ادب” جیسی شاہکار تصنیف منظرعام پر لاکر علامہ کشمیری کی زندگی کے اس دلنشیں گوشے سے روشناس کرانے کی عظیم الشان کوشش کی ہے، ہم نے پوری کتاب پر جستہ جستہ نظر ڈالی ہے ، شستہ وسہل ، رواں اسلوب وزبان میں امام کشمیری کے عربی زبان وادب کے کارناموں پہ سیر حاصل ، اور تشفی بخش گفتگو کی ہے ۔مؤلف کتاب چونکہ ایک معروف ومشہور علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ، دینی وروحانی حوالوں سے جس کی خدمات کے ان مٹ نقوش ارض بہار میں ثبت ہیں ، وہ ذاتی محنت ولگن ،اور قابل رشک متعدد صلاحیتوں سے بھی بحمد اللہ مالا مال ہیں ، علمی ، دینی ، سماجی اور اصلاحی میدانوں میں کچھ کر گزرنے کا عزم بھی اپنے پہلو میں ہمہ دم جواں رکھتے ہیں اور اس کے لئے مختلف جہات سے سدا سرگرم عمل بھی رہتے ہیں ، انہوں نے ہندوستان کے مختلف تعلیمی اداروں اور ممتاز علمی شخصیات سے خوب استفادہ کیا ہے ، تحقیقی اداروں کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا انہیں حسین موقع ملا ہے؛ اس لئے ان کا یہ منفرد علمی وتحقیقی کام جدید معیارِ تحقیق سے بحمد اللہ آراستہ ہے ، چونکہ صاحب کتاب ہمارے بے تکلف رفیق درس ہیں ؛ اس لئے زیر نظر کتاب کے تئیں ہماری سچی اور واجبی سی شہادت بھی مخدوش اور “ ثنا خوانی” کے زمرے میں آئے بغیر نہیں رہ سکتی ؛ اس لئے زیادہ تعارفی تفصیل وتوصیف میں جانا ٹھیک نہیں ؛ لیکن یہ کہے بغیر بھی نہیں رہا جاسکتا کہ زیر نظر کتاب اپنے مندرجات کی جامعیت ، زبان وادب کی شستگی ، حسن ترتیب اور جدید تحقیقی معیار کی رعایت کے باعث انتہائی گراں قدر اور بصیرت افروز ہے ۔کتاب اس قابل ہے کہ ہر سنجیدہ علم دوست وادب نواز فرد اسے سرمہ بصیرت بنائے ۔
توقع ہے کہ یہ کتاب علامہ کشمیری کی عربی زبان و ادب سے وابستگی اور عربی ادب میں ان کے مقام و مرتبے کے فہم و ادراک میں سنگ میل ثابت ہوگی، اور اہل علم اسے شوق کے ہاتھوں لیکر قدر کی نگاہوں سے پڑھیں گے ۔
رفیق گرامی قدر مولانا مفتی محمد نافع عارفی صاحب کی خدمت میں بصمیم قلب ارمغان تبریک و تہنیت پیش ہے کہ انہوں نے بلاشبہ ایک نہایت ہی عظیم المرتبت ہستی کی علمی عظمت اور جلالت شان کو اپنے خامہ گہر بار سے سلامی دینے کی کامیاب سعی کی ہے،اللہ آپ کی ان کاوشوں کو شرفِ قبولیت بخشے اور اسے آخرت کے لئے “زاد راہ “ بنائے ۔ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد۔