( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
امریکہ کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن دو بار اسرائیل گیے ، وہاں کے صدر نتن یاہو کی پیٹھ تھپتھپا آئے کہ ’ کمال کر رہے ہو ، کمال کرتے رہو ، امریکہ تمہارے ساتھ کھڑا ہوا ہے ‘، اور باقاعدہ یہ اعلان بھی کیا کہ ’ میں امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے نہیں ایک یہودی کی حیثیت سے اسرائیل آیا ہوں ‘ ۔ بلنکن کے بعد امریکہ کے صدر جو بائیڈن اسرائیل پہنچے ، اور فوجی امداد کی یقین دہانی کرا آئے ، وہ بحری فوجی بیڑے پہلے ہی بھیج چکے تھے ۔ لیکن مسلم ملکوں میں سے کسی ایک بھی سربراہِ مملکت کو جانے دیں معمولی وزیر تک کی ہمت نہیں ہوئی کہ غزہ چلا جاتا ! کیا یہ بزدلی کی ، بے شرمی کی اور اُن طاقتوں کے سامنے ، جو یقیناً نہ اللہ رب العزت سے زیادہ طاقت ور ہیں ، اور نہ ہی اس کے مقابلے زیادہ عزت دینے والے ، ناک رگڑنے کی انتہائی ذلیل مثال نہیں ہے ! ایسا اس لیے ہے کہ مسلم ملکوں کے سربراہوں کو ، وزرا کو یہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں زیاددہ عزیز ہے ، انہیں خوفِ آخرت سے زیادہ یہاں کی موت سے ڈر لگتا ہے ، ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان کی دولت ان کے ہاتھوں سے چھین نہ لی جائے ۔ لیکن دولت تو چھینی جانی ہے ، اور موت بھی آنی ہے ، بس عزت کی بجائے اس طرح جو موت آئے گی وہ بے عزتی کی موت ہوگی ۔ عزت اور ذلت تو اللہ ہی کے ہاتھ ہے ، وہی ہے جسے چاہے باعزت بنا دے اور جسے چاہے ذلیل کر دے ۔ جب یہ تحریر لکھی جا رہی ہے تو قاہرہ میں دنیا بھر کے حکمراں ، جن میں مسلم حکمراں بھی شامل ہیں ، جنگ بندی اور قیامِ امن کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں ۔ اور اسرائیل ہے کہ بم پر بم برسا رہا ہے ۔ اس نے ۲۴ گھنٹے میں ۳۷ قتلِ عام کیے ہیں ! قتلِ عام کا مطلب ہے خاندان کے خاندان کو نابود کرنا ! کوئی اس کے خلاف کارروائی کے لیے آواز نہیں اٹھا رہا ہے ۔ وہ طیب اردوگان جنہیں ’ امیرالمومنین ‘ کہتے لوگوں کے منھ نہیں تھکتے صرف ’ انتباہ ‘ دے رہے ہیں ! یہ کیسا دوغلا پن ہے ! کیا ’ امیر المومنین ‘ ایسے ہی ہوتے ہیں ؟ یا کیا دینی بھائیوں کی بربادی کا دکھ بک بک کر کے منایا جاتا ہے ؟ سچ کہیں تو مسلمان نہ امت ہیں اور نہ ہی ملت ، وہ بس ایک ریوڑ ہیں جنہیں کبھی دین کے نام پر ، کبھی مسلک کے نام پر اور کبھی طاقت کے بل پر ہانکا جاتا ہے ، اور وہ بھیڑ بکریوں کی طرح ادھر سے ادھر بھاگتے رہتے ہیں ۔ ککااشش انہیں ہوش آ جائے ! پتہ ہے غزہ کو جو امدادی ٹرک بھیجے گیے ہیں اُن میں سب سے زیادہ کیا تھا ؟ کفن ! جی ہاں کفن ! اُن لاشوں کے لیے جو بے گور ہیں ، اور ننگی پڑی ہوئی ہیں ! ان کا قاتل کون ہے ؟ کیا یہ سوال جواب طلب ہے ؟ سب جانتے ہیں کہ کون بم برسا رہا ہے ، اور کون بم برسانے والوں کی مدد کر رہا ہے ، اور کون ہے جو مظلوموں کو مرتے ہوئے دیکھ رہا ہے ، لیکن انہیں بچانے کے لیے کچھ نہیں کرتا ۔ عرب اور اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کا صرف یہ قصور نہیں ہے کہ وہ خاموش ہیں ، ان کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ انہوں نے اللہ رب العزت کا دامن چھوڑ کر امریکہ اور برطانیہ کا ، بلکہ کئیوں نے اسرائیل کا دامن تھام لیا ہے ۔ آج نہ سہی کل اِن سب سے حساب لیا جائے گا ، اور وہ حساب سخت اور تیز ہوگا ، اللہ کا حساب ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)