Home قومی خبریں ملک کے ۲۲؍ مبینہ ماہرین تعلیم کا وزیر اعظم کو خط، یونیورسٹیوں کے نصاب سے مولانا مودودیؒ کی کتابیں نکالنے کا مشورہ

ملک کے ۲۲؍ مبینہ ماہرین تعلیم کا وزیر اعظم کو خط، یونیورسٹیوں کے نصاب سے مولانا مودودیؒ کی کتابیں نکالنے کا مشورہ

by قندیل

نئی دہلی: ہندووں کی ایک جماعت جس میں ملک کے 22مبینہ ہندو ماہرین تعلیم اور دانشوران شامل ہیں نے حال ہی میں پی ایم مودی کے نام خط لکھ کر مالی اعانت والی یونیورسٹیوں ، جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، جامعہ ہمدرد وغیرہ میں داخل نصاب مولانا مودودی کی کتابوں پر پابندی لگانے کا مشورہ دیا ہے ۔اس خط میں دلیل یہ دی گئی ہے کہ مولانا مودودی (علیہ الرحمۃ) کی کتاب میں مبینہ طور پر نفرت انگیز مواد موجود ہیں۔خط میں لکھا گیا کہ ہم آپ کے نوٹس میں یہ بات لانا چاہتے ہیں کہ سرکاری مالی اعانت سے چلنے والی اسلامی یونیورسٹیوں جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہمدرد یونیورسٹی کے بعض شعبہ جات کی طرف سے ڈھٹائی کے ساتھ جہادی باتوں کو اپنے نصاب میں شامل کر لیا گیا ہے۔ ہندو سماج، ثقافت اور تہذیب پر کبھی نہ ختم ہونے والے پرتشدد حملے اسی تعلیمات کا براہ راست نتیجہ ہیں۔یہ گہری تشویش کی بات ہے کہ سرکردہ اسلامی یونیورسٹیاں اس طرح کے نظریات کو قانونی حیثیت اور احترام کا درجہ فراہم کر رہی ہیں، خاص طور پر جب سے ہندوستان کے کچھ ممتاز مسلم رہنماؤں نے مبینہ طور پر 2047 تک تقسیم ہند کے بعد کے ہندوستان کو اسلامی بنانے کے اپنے عزم کا کھلے عام اعلان کیا ہے۔ چونکہ ان یونیورسٹیوں کو عوامی پیسے سے سپورٹ کیا جا رہا ہے، اس لیے ٹیکس دہندگان اور متعلقہ شہریوں کے طور پر ہمیں ایسی تعلیمات کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے کا حق ہے۔ اس لیے ہم آپ کی نوٹ میں یہ بات لانا چاہتے ہیں۔ اس مسئلے کے قومی سلامتی کے مضمرات کے پیش نظر، یہ معاملہ آپ کی ذاتی توجہ اور پیروی کا مستحق ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد نے اپنے شعبہ اسلامیات میں انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ مطالعاتی پروگراموں کے حصے کے طور پر، مؤثر طریقے سے مبینہ طور پرملک مخالف نصاب کو اپنایا ہوا ہے۔ یہ تینوں ادارے پورے ہندوستان کے اسلامی تعلیمی اداروں کے لیے ٹریل بلیزر اور رول ماڈل ہیں۔ لہٰذا، وہ جو رخ اختیار کرتے ہیں وہ پورے ہندوستان کے اسلامی تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں مسلم سیاست کے بنیادی اصول وضع کرتا ہے۔مندرجہ بالا سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے یہ گہری تشویش کی بات ہے کہ مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریریں، جنہیں اسلام کا مستند سرچشمہ کہا جاتا ہے، مذکورہ تینوں اسلامی یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ مولانا آزاد کی طرح مودودی نے 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کی مخالفت ہندوستان کی کسی محبت اور ہندوستان کی ہمہ گیر تہذیب کے لیے نہیں کی تھی بلکہ اس لیے کہ وہ مشن غزوہ ہند کے لیے پرعزم تھے جو پورے ہندوستان کو اس کا حصہ بنانے کا عزم رکھتے تھے۔ پورے برصغیر میں غیر مسلموں اور ان کی ثقافت کا مکمل صفایا کر کے عالمی اسلامی امت بنانا مولانامودودی کا ہدف تھا۔جیسا کہ سب جانتے ہیں، اسلام علاقائی قومی ریاستوں اور ہندوستان جیسی تہذیبی ریاستوں کے تقدس پر یقین نہیں رکھتا بلکہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ تمام سچے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ پورے کرۂ ارض کو اسلام کی چھتری میں لے آئیں۔ تاہم تقسیم کی مخالفت کے باوجود، اورنگ آباد میں پیدا ہونے والے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ایک بار پاکستان منتقل ہو گئے جب اسلامی ریاست ایک حقیقت بن گئی۔ اس لیے مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی اور اسلام کے دیگر نظریات کے حاملین کی کتابوں کی اشاعت یا گردش پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیے جو کھلے عام مبینہ طور پر غیر مسلموں کیخلاف جہاد کا مطالبہ کرتی ہیں اور اجتماعی قتل یا زبردستی اسلام قبول کرنے پر اُکساتی ہیں۔طویل خط سے پتہ چلتا ہے کہ ماہرین تعلیم یہ چاہتے ہیں کہ بچوں کو ایسی کتابیں نہ پڑھی جائیں جن میں مبینہ طور پر’ جہادی‘ باتیں بتائی گئیں۔

You may also like

Leave a Comment