رئیس التحریرماہنامہ’’الداعی‘‘ عربی
و استاذ ادبِ عربی دارالعلوم دیوبند
زندگی ایک کہانی کے سوا کچھ بھی نہیں
لوگ کردار نبھاتے ہوے مرجاتے ہیں
(ملک زادہ جاوید)
مولانا محمد قاسم مظفرپوری (۱۳۵۶ھ/۱۹۳۷ء – –۱۴۴۲ھ /۲۰۲۰ء)کا نام تو راقم نے اُس وقت سنا تھا جب وہ اپنے گاؤں (ددھیال) راے پور ضلع سیتامڑھی سابق ضلع مظفرپور میں طفلِ مکتب تھا۔ وہ ہمارے گاؤں میں، مولانا محمد اسماعیل (تلمیذ شیخ الہندؒ) کی کھلیان کے میدان میں منعقدہ جلسے کو خطاب کرنے کے لیے تشریف لائے تھے، جو ۱۳۷۸ھ؍ ۱۹۵۸ء کی کسی شب میں اُ ن کے ہم عصر اور دوست مولانا محمد اویس القاسمی راے پوریؒ (۱۳۵۲ھ؍ ۱۹۳۳ء –۱۴۱۹ھ؍ ۱۹۹۸ء) کی دارالعلوم دیوبند سے فراغت کی خوشی میں اہلِ راے پور نے منعقد کیا تھا اور جس کو اُن کے ہم عصر و ہم علاقہ مشہور و معروف و مقبول عالم دین قاضی مجاہد الاسلام قاسمی جالوی دربھنگویؒ بانیِ اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا (۱۳۵۵ھ؍ ۱۹۳۶ء –۱۴۲۳ھ؍ ۲۰۰۲ء) اور اُن کے دوسرے ہم عصر وہم علاقہ مولانا عبدالحنان قاسمی بالا ساتھویؒ (۱۳۵۲ھ؍ ۱۹۳۴ء –۱۴۳۰ھ؍ ۲۰۰۹ء)بانیِ جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ نے بھی خطاب کیا تھا۔
مولانا محمد قاسم کی اُس وقت کی کوئی شبیہ، راقم کے خانۂ خیال میں محفوظ نہیں، مکتب کے مرحلے کے بعد، راقم اور اُس کے ہم قریہ وہم عمروں نے ایک سال گاؤں کے جنوب میں واقع گاؤں پوکھریرا کے مدرسہ نورالہدیٰ میں ابتدائی فارسی پڑھی اور دوسرے سال ہم لوگوں نے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ (تاسیس ۱۳۱۱ھ؍ ۱۸۹۳ء) میں داخلہ لیا، وہاں مولانا کے نام، کام اور علم و فضل کا شہرہ راقم کے کانوں میں اِتنا گونجا کہ ایسا لگا کہ وہ اُن کے ساتھ اور اُن کے پاس رہتا ہے اور اُنھیں قریب سے اِتنا جانتا ہے جتنا اُن کے ہم صحبت قریبی رشتہ دار اور افراد خانہ۔ وہ اُس وقت سوپول ضلع دربھنگہ کے مدرسہ رحمانیہ کے ایسے استاذ تھے جس پر مدرسے کی شہرت و عظمت کا مدار تھا۔ یہ مدرسہ حال آں کہ بہار کے بہت سے مدرسوں کی طرح مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ سے ہم رشتہ تھا اور اُس سے مُلْحَقَہ مدارس اِس حوالے سے بُری طرح بدنام ہیں کہ تعلیم و تعلم نام کی کوئی چیز وہاں نہیں ہوتی، اور یہ زبان زدِ خاص و عام ہے کہ جن نوجوانوں کو علمی استعداد کے حوالے سے مکمل طور پر برباد کرنا ہو، اُنھیں اُنھی مدرسوں میں سے کسی میں داخل ہوجانے کی ترغیب دینی چاہئے؛ لیکن مولانا محمد قاسمؒ کے وجود مسعود کی وجہ سے مدرسہ رحمانیہ سوپول شاید تنہا ایسا مدرسہ تھا جس کی تعلیم و تربیت مثالی تھی اور دور دور تک اُس کی نیک نامی کا باعث تھی۔ وہ وہاں مسلسل ۴۶ سال تک محوِ تدریس و تربیت رہے اور اِس پورے دورانیے میں وہاں علم وفضل کی ایسی بادِ بہاری چلتی رہی، جس کے جاں فزاو عطر بیز جھونکے دور دراز کے تعلیم کدوں تک پہنچتے اور اُن کے لیے باعثِ رشک اور مولانا ؒ کے لیے وجہِ ستایش اور ذریعۂ ذکرِ جمیل و دعاے جزیل بنتے رہے۔
مولانا مرحوم ہمارے علاقے کے مذکور الصدر تین عالموں: (مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ و مولانا محمد اویس القاسمیؒ و مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ) میں تیسرے تھے، جن کی علمی پختگی کی ایسی دھاک بیٹھی کہ بعد میں ہمارے وسیع تر خِطّے کے علما و فضلاے مدارس سے پُرْ ہوجانے کے باوجود اُس میں ذراسی کمی نہیں آئی؛ بل کہ تینوں حضرات کی علمی یکتائی اور دینی و دعوتی و خطابتی و تالیفی و اجتماعی و اِصلاحی کارناموں کی انفرادی شناخت نہ صرف علی حالہ قائم رہی؛ بل کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا رنگ مزید شوخ اور اُس کی نکہت اور روح پرور ہوتی رہی۔
حال آں کہ حالات کی سازگاری و ناسازگاری،ـ وسائل کی فراہمی و عدم فراہمی، افتادِ طبع کے اختلاف، مواقع کی موزونیت و ناموزونیت، صلاحیتوں کی نوعیت اور رجحانِ فکر و نظر کی سَمْت کے اعتبار سے اِن تینوںحضرات کی ادایگیِ کار، فیض بخشیوں اور اکتسابات میں تفاضل رہا؛ لیکن مجموعی طور پر اُن کا علمی مقام و مرتبہ، خواص و عوام دونوں کے نزدیک ہمیشہ مُحْترَم و مُسَلَّم رہا۔
مولانا محمد قاسم مظفرپوری حد درجہ سادہ مزاج تھے، اُن کے وجود پر غیر معمولی معصومیت چھائی رہتی، اُن کے ہونٹوں کی تبسم ریزی ہر حال میں قائم رہتی، اُن سے پہلی بار بھی ملنے والوں کو ایسا لگتا کہ اُن سے برسوں کی دید و شنید بل کہ قرابت و رفاقت ہے، اُن میں ہر ایک کے لیے ایسی اپنائیّت تھی جو اکثر اپنوں میں بھی نہیں ہوتی۔ یہ اُن کے اعلی و ارفع انسان ہونے کی محکم دلیل تھی۔ بعض دفعہ انسان بڑا عالم و فاضل تو ہوتا ہے؛ لیکن اِنسانیت کے صحیح معیار پر اُترنے والا انسان نہیں ہوتا، یہ اِس لیے کہ اعلی سے اعلی تعلیم یافتہ ہونا قدرے آسان ہے؛ لیکن اعلی اِنسان بننا دنیا کا سب سے زیادہ مشکل کام ہے، جو خداے پاک کی توفیقِ خاص سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اِس راقم کی اُن سے سب سے پہلی ملاقات، اِس دنیوی زندگی کے ایک بے حد مبارک، یادگار اور تاریخی سفر کے دوران اچانک طور پر ہوئی اور اُن سے محبت اور اُن کی عقیدت آن کی آن میں دلوں میں اتر کر ہمیشہ کے لیے پیوست ہوگئی۔
مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند کے مشہور عالَم و بے نظیر اِجلاسِ صدسالہ منعقدہ جمعہ –اتوار: ۳–۵؍ جمادی الاولی ۱۴۰۰ھ مطابق ۲۱ –۲۳؍ مارچ ۱۹۸۰ء، میں شرکت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے، بہار کے اپنے علاقے بالخصوص اپنے گاؤں اور اپنے خطے کے سیکڑوں علما و فضلا وذمے دارانِ مدارس اور علما صورتوں کے عوام کے ساتھ، یہ راقم جینتی جنتا اکسپریس ٹرین سے (جو اب ویشالی سوپر فاسٹ کے نام سے جانی جاتی ہے) سہ شنبہ (منگل) : ۳۰؍ ربیع الآخر ۱۴۰۰ھ مطابق ۱۸؍ مارچ ۱۹۸۰ء کو ۲ بجے سہ پہر کو مظفرپور اسٹیشن سے روانہ ہوا ۔ راقمِ سطور اور اُس کے ہم قریہ علما عصر کی نماز کے وضو کے لیے اپنے ڈبے کے دونوں کناروں کا جن میں غسل خانے وغیرہ بنے ہوتے ہیں، جائزہ لینے کو نکلے تو نہ صرف ہمارا ڈبّہ؛ بل کہ سارے ڈبے علما یا علما صورت مسلمانوں سے پر نظر آئے، ایسا منظر شاید اِس ملک نے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ اسی بھیڑ میں ہم نے دیکھا کہ ایک سیدھے سادے عالم، جو وضع قَطع سے دیہات کے مکتب کے پرانی طرز کے مُلاَّ لگ رہے تھے، چند نوجوان علما کے جلو میں دو ڈبوں کے بیچ کی جگہ جہاں دونوں ڈبے آ ہنی پلیٹوں سے ایک دوسرے سے جڑ کر مسافروں کی آمد و رفت کے لیے راہ تشکیل دیتے ہیں، وضو کر رہے تھے اورایک نوجوان عالم لوٹے سے موزوں مقدار میں پانی انڈیل رہا تھا؛ تاکہ ٹرین کی تیز رفتاری کی وجہ سے پیدا شدہ جنبش کی وجہ سے وضو کرنے میں زیادہ پریشانی نہ ہو۔ ہم نے اُن نوجوانوں سے جو اُن کے ارد گرد تھے سرگوشی کے ذریعے معلوم کیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ اُنھوں نے بتایا کہ یہ مولانا محمد قاسم مظفرپوری ہیں اور اِسی ڈبے میں اِس کیبن میں جو راستے سے ملی ہوئی ہے اُن کی اور ہم لوگوں کی برتھ ہے۔ مولاناؒ نے جب وضو کرلیا تو ہم لوگ اُن سے مُتَعَارف ہوے، راقم نے اپنا نام بتایا تو اُنھوں نے فوراً فرمایا کہ آپ کا نام سنتا رہتا ہوں؛ لیکن ملاقات اب ہو رہی ہے اور بڑے مسعود و مبارک سفر میں ہورہی ہے۔ پھر دہلی تک موقع بہ موقع ملاقات ہوتی رہی اور علمی استفادے کا موقع بھی ملتا رہا۔ دہلی میں اترتے وقت کی ہمہ ہمی کی وجہ سے مولانا کا ساتھ جو چھوٹا تو دیوبند کے انسانی سیلاب کی وجہ سے، چہار روزہ قیام کے دوران، پھر ملاقات نہ ہوسکی۔ ایسا سیلاب مسلمانوں نے برصغیر میں شاید کہیں دیکھا ہوگا؛ اِسی لیے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ (۱۳۳۳ھ؍ ۱۹۱۴ء –۱۴۲۰ھ؍ ۱۹۹۹ء)نے اِس اجلاس صد سالہ کی افتتاحی نشست میں فرمایا تھا کہ میں نے دنیا کے کونے کونے کو دیکھا ہے؛ لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں کا اتنا بڑا اور ایسا بابرکت مجمع میدانِ عرفات کے بعد دنیا میں کہیں نہیں دیکھا۔ مولاناؒ سے اِس پہلی ملاقات میں، راقم جس بات سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوا وہ اُن کی بے نفسی اور اپناپن تھا، پہلی ملاقات میں اِتنی اُنسیت اِس راقم کو شاید چند ہی علما سے مل کر محسوس ہوئی ہوگی۔ راقم کا یہ سفر جو پہلے سے ہی بہت مزے دار تھا مولاناؒ کی رفاقت کی وجہ سے اور خوش گوار، دل پسند اور لذّت ریز بنا رہا۔
بعض دفعہ اِنسان بعض بے بہا نعمتوں کے حوالے سے (جو اُس کو آسانی سے مُیَسَّر آجاتی ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جب چاہے گا اُس سے فائدہ اٹھالے گا؛ کیوں کہ وہ اُس کے گھر کی نعمت ہے) وہ لاشعوری طور پر ناقدری کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ کے تعلق سے اُس کی طرف سے یہی کچھ ہوا کہ وہ سمجھتا رہا کہ وہ حاصل شدہ نعمت ہیں، جب جی میں آئے گا اُس سے مُتَمَتِّع ہوجائے گا؛ چناں چہ صد سالہ اِجلاس میں شرکت کے لیے سفر کے دوران مولانا مرحوم سے جو شرفِ ملاقات و تعارف حاصل ہوا تو اس کے بعد ۲۸ سال تک وہ اس سعادت سے محروم رہا، تا آں کہ اِمارتِ شرعیہ نے پھلواری شریف میں اپنے ماتحت سرگرم عمل مدارس اسلامیہ کی تنظیم سے وابستہ مدرسین کی تدریب کے لیے، ایک سہ روزہ پروگرام منعقد کیا جو سوموار –بدھ: ۱۰ –۱۲؍ صفر ۱۴۲۹ھ مطابق ۱۸ — ۲۰؍ فروری ۲۰۰۸ء کے عرصے میں المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء کی عمارت میں جاری رہا۔ اس موقع سے عربی زبان کی تدریس کے صحیح اور عملی منہج کے موضوع پر محاضرات کے لیے اِس راقم کو مدعو کیا گیا۔ اس پروگرام کی اکثر نشستوں میں حضرت مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ امارت کے ایک اہم ذمے دار اور علمی سرپرست کی حیثیت سے شریک رہے۔ محاضروں کے بعد اکثر راقم کی اُن سے نیاز مندانہ ملاقات ہوتی اور وہ عربی زبان کی تدریس کے منہجِ کار پر اُس کے خیالات اور مشوروں کی سراہنا کرکے اُس کا حوصلہ بڑھاتے۔ اس موقع سے اُن کی شفقتوں بھری صحبتوں سے مستفید ہونے کا قدرے دراز اور پرسکون موقع ملا۔
افسوس ہے کہ اپنے مشاغل کے تسلسل اور بیماریوں کے ہجوم، اسفار سے بڑی حد تک (لکھنے پڑھنے کے کاموں کے پابند سلاسل بنائے رکھنے کی وجہ سے ) پرہیز کے سبب اپنے وطن آمد سے بھی دراز نفس محرومی رہی، نتیجتاً حضرت مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ اور اُن جیسے دیگر علماے صالحین و متقنین کی زیارت اور ان سے برکت اندوزی و علم وفکر آموزی سے بھی محرومی رہی، جس کا تاحیات قلق رہے گا۔
مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ کو ویسے تو اکثر علومِ شریعت میں مہارتِ تامہ حاصل تھی؛ لیکن عملی اور تدریسی طور پر فقہ و اصول فقہ سے زیادہ اشتغال رہا، تفسیر و حدیث میں بھی بصیرت مندانہ گہرائی و گیرائی تھی، قضا و افتا کے کاموں میں تاحیات منہمک رہے؛ اِس لیے فقہی جزئیات، اشباہ ونظائر اور اُصول و علل پر گہری نظر تھی؛ اِسی لیے وہ نئے نئے پیش آمدہ مسائل کے حوالے سے فرعی اجتہاد و استنباط میں گنے چنے علماے ماہرین میں سے ایک تھے۔ قاضی مجاہدالاسلام قاسمی نوراللہ مرقدہ کی وفات سے فقہ و فتاویٰ و قضا کے سلسلے میں جو زبردست خلا پیدا ہوگیا تھا امارت شرعیہ کی سطح پر اُنھوں نے بڑی حد تک اپنے علمی وجود سے اُس کو پر کیے رکھا۔ اب اُن کے بعد امارت شرعیہ کی دنیا میں خصوصاً اور فقہ اکیڈمی وغیرہ میں عموماً، بڑی کمی محسوس کی جائے گی۔ خداے کریم اِن علمی، فقہی، شرعی، قضائی اور ہمہ گیر اسلامی اِداروں کی اپنے فضل و کرم سے دست گیری فرمائے اور اُن کے لیے مطلوبہ رجال علم و رجال کار فراہم کرتا رہے۔
اُن کی سطح کے خطّۂ بہار کے علماے کاملین نے بالعموم اپنے خطے کو چھوڑ کر ہندوستان کے دیگر علاقوں میں جاکر اپنے علم و کمال کو جلا بخشنے کو زیادہ بہتر سمجھا کہ اس سے اُن کی علمی وجاہت، ذاتی شہرت میں اضافے کے ساتھ ساتھ مادی اکتسابات اور تحریری وتقریری سرگرمیوں کے ذریعے اُنھیں اپنی عظمت کی دھاک بٹھانے کا سنہرا موقع ملا؛ کیوں کہ بہت سے پڑھے لکھوں کا اعتقاد ہے کہ عصر حاضر میں بہار کا علاقہ مردم خور ہے، کہ بے شمار اہل اِستعداد علما جنھوں نے حصول علم و فضل کے بعد اپنے وطن بہار ہی کو اپنی علمی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، اُنھیں یہ سرزمین اِس طرح کھا گئی کہ وہ حینِ حیات ہی بے نام و نشان بن گئے اور اُن کی علمی صلاحیت گھن رسیدہ ہوکر اپنا کوئی جوہر نہ دکھا سکی، اس کے برعکس اُن سے نسبتاً کم صلاحیت کے لکھے پڑھے لوگوں نے، بیرونِ بہار جاکر علمی و فکری سطح پر ایسے کارنامے انجام دیے کہ جبینِ کائنات پراُن کا نقشِ دوام ثبت ہوگیا۔
لیکن مولانا محمد قاسم مظفرپوری رحمۃ اللہ علیہ نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اپنی پوری زندگی میں شمالی بہار کے اُسی علاقے میں سرگرمِ خدمت رہنے کو ترجیح دی، جس کی خاک سے وہ اُٹھے تھے، وہیں تدریسی سرگرمی انجام دی، وہیں رہ کر علمی و تالیفی کارناموں کی طرح ڈالی، ادارے قائم کیے، علم و فضل کے قافلوں کی راہ نمائی کی اور اُنھیں سرگرم سفر کیا، مردم سازی و رجال گری کا فریضہ ادا کیا، مُتَعَدِّد اِداروں کی سرپرستی کی اور کئی مہتم بالشان اِداروں کی علمی عظمت کے بھرم کے باقی رہنے کا ذریعہ بنے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنی سادہ پُرکار زندگی کے ذریعے نسلِ نو کے تازہ دم و پُر حوصلہ علما کے لیے نمونۂ عمل اور نقشِ راہ بن کر اُن کی زندگی کی راہوں میں دور دور تک اپنے کردار کی صاف شفاف و تیز روشنی بچھادی، جس کی وجہ سے اُن کے راہ سے بھٹکنے کا کوئی خدشہ باقی نہ رہا۔
مولانا محمد قاسمؒ نے اپنے جیسے مخلص وسادہ مزاج وصالح علما کی طرح صرف کام کو مَطْمَحِ نظر بنایا، نام آوری اور مال و منال کے حصول کی خواہش سے، اُن کی فطرت بالکل ناآشنا رہی۔ وہ بے نفسی و خلوص اور اللہ کی رضا جوئی کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتے تھے؛ کیوں کہ اِنھی عناصر سے اُن کا خمیر اُٹھا تھا، اِسی لیے جہاں کام کی ضرورت محسوس ہوئی، وہیں مصروف کار رہے اور قناعت، صاف دلی، زیبایش و آرایش سے یکسر خالی، ہلکی پھلکی زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور پہنچ گئے؛ تاکہ حساب و کتاب کے دفتر طولانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ غیب کا علم تو صرف خداے علام الغیوب والمقادیر کو ہے؛ لیکن مولانا مرحوم کے متعلق یہ راقم یہ بات پوری قوت سے کہہ سکتا ہے کہ حدیث نبوی میں جَنَّتِی مومن کی جو نشانیاں بتائی گئی ہیں، اُن میں سے بہت سی اُس کو اُن میں نظر آئیں۔ اللہ تعالیٰ اُنھیں مرحوم و مغفور کرے اور اپنی اعلی جنت کا باسی بنائے۔
مختصر سوانحی نقوش
نام: محمد قاسم
والدماجد کا نام: معین الحق بن محمد ابراہیم بن فخر الدین بن لعل محمد۔
جاے ولادت: مادھوپور، ڈاک خانہ: انگواں، وایا: ججوارا، ضلع مظفرپور، صوبہ بہار۔
تاریخ ولادت: ۱۳۵۶ھ؍ ۱۹۳۷ء۔
تعلیم: ابتدائی تعلیم یعنی قرآن پاک ناظرہ واردو فارسی ابتدائی اپنے گاؤں مادھوپور اور اس سے جڑے ہوے گاؤں انگواں کے مدرسہ تعلیم القرآن میں حاصل کی۔ یہاں آپ کے اساتذہ: مولانا محمد وارثؒاور مولانا محمدایوبؒ رہے۔ اُس سے آگے کی تعلیم یعنی فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم ایک سال مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ دربھنگہ میں حاصل کی، اس مدرسےمیں آپ کے اساتذہ میں مولانا عبدالجبار مونگیری اور مولانا مقبول احمد خاں تھے۔ اس کے بعد آپ نے ۱۳۷۰ھ؍ ۱۹۵۱ء میں لہریا سرائے دربھنگہ کے مدرسہ امدادیہ میں داخلہ لیا اور ۱۳۷۳ھ؍ ۱۹۵۳ء تک یہاں عربی دوم تا عربی چہارمتک کا مرحلہ طے کیا۔ یہاں آپ کے اساتذہ میں مولانا عبدالرحیم دربھنگوی (تلمیذ شیخ الہندؒ) اور مولانا محی الدین اورمفتی عبدالحفیظ وغیرہ تھے۔درجہ پنجم عربی میں ۱۹۷۳ھ؍ ۱۹۵۴ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوے اور دورۂ حدیث تک یہیں محوِ تعلیم رہے اور یہیں سے ۱۳۷۷ھ؍ ۱۹۵۸ء میں فارغ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہاں آپ نے بخاری شریف کے ۶۴ اسباق حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نور اللہ مرقدہ (۱۲۹۵ھ؍ ۱۸۷۹ء –۱۳۷۷ھ؍ ۱۹۵۷ء) سے پڑھے، اورآپ کی وفات حسرت آیات کے بعد باقی اسباق حضرت مولانا سید فخرالدین احمد ہاپوڑی ثم المرادآبادی قدس سرہ (۱۳۰۷ھ؍ ۱۸۸۹ء –۱۳۹۲ھ؍ ۱۹۷۲ء) سے پڑھی۔ ترمذی شریف حضرت شیخ الادب مولانا محمد اعزاز علی رحمہ اللہ (۱۳۰۰ھ؍ ۱۸۸۲ء –۱۳۷۴ھ؍ ۱۹۵۴ء) سے اور مسلم شریف حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ (۱۳۰۴ھ؍ ۱۸۸۶ء –۱۳۸۲ھ؍ ۱۹۶۷ء)سے، دیگر کتب حدیث اس وقت کے نام ور علماے گرامی سے پڑھیں ، جن میں سرفہرست دار العلوم کے سابق مہتمم حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۱۵ھ؍۱۸۹۷ء–۱۴۰۳ھ؍ ۱۹۸۳ء) ہیں۔
مولانا محمد قاسمؒ کی علمی عظمت ولیاقت کے لیے، یہ بات کافی ہے کہ اُس وقت دارالعلوم میں مُمْتَحَنَہ کتابوں میں اعلیٰ نمبر ۵۰ تھا؛ لیکن اساتذۂ کرام نے اُن کے جوابات کی صحت، ترتیب، خوش خطی وغیرہ سے خوش ہوکر مَتَعدِّد کتابوںمیں ۵۱، ۵۲ اور ۵۳ نمبر دیے۔ انھوں نے دارالعلوم میں دورۂ حدیث میں فرسٹ پوزیشن اور فرسٹ ڈویـژن حاصل کیا، جو ایک غیر معمولی بات ہے اور اُن کے مثالی طالبِ علم ہونے کا بیّن ثبوت ہے۔
عملی زندگی دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ۱۳۷۷ھ؍ ۱۹۵۸ء سے ۱۳۷۸ھ؍ ۱۹۵۹ء تک مادرِ علمی مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں اعزازی طور پر ایک سال تدریسی خدمت انجام دی، ۱۳۷۸ھ؍ ۱۹۵۹ء سے مارچ ۲۰۰۴ء (محرم ۱۴۲۵ھ) تک مسلسل ۴۶ سال تک مدرسہ رحمانیہ سوپول ضلع دربھنگہ میں مصروفِ تعلیم و تربیت رہے۔ یہاں کی تدریسی خدمت مولانا محمد قاسمؒ نے امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی ؒ (۱۳۳۲ھ؍ ۱۹۱۳ء –۱۴۱۱ھ؍ ۱۹۹۱ء) اور مدرسے کے مہتمم و ذمے دار اعلی مولانا محمد عثمان متوفی فروری ۱۹۷۷ء (صفر ۱۳۹۷ھ) کے اصرار پر قبول فرمائی، مولانا محمد قاسمؒ نے وہاں تعلیم و تربیت کی ایسی جو ت جگائی کہ مدرسے کے وقار و اعتبار میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور وہ دربھنگہ کے علاقے کا قابل تقلید مدرسہ بن گیا۔ مولاناؒ کو بھی وہاں کی آب و ہوا راس آئی، ذمے داروں نے قدر شناسی کی اور مولاناؒ کو اپنی تعلیمی جدوجہد کے بار آور ہونے کا خوش گوار احساس ہوا؛ اِس لیے زندگی کا جوشِ عمل وقوت کار کا اصل دورانیہ آپ نے یہیں گزار دیا اور علما کی ایک بڑی کھیپ تیار کردی جو تاحیات آپ کی منت شناس اور آپ کے لیے دعا گو رہے گی۔ تدریس و تربیت کے ساتھ آپ نے وہاں کارقضا کی ذمے داری بھی انجام دی۔ امارت شرعیہ نے پھلواری شریف کے مرکزی دارالقضا کے علاوہ جب مدرسہ رحمانیہ سوپول میں اپنا پہلا ذیلی دارالقضا قائم کیا، تو روز اول سے آپ اس کی ذمے داری سے وابستہ کردیے گئے۔ مولانا محمد عثمان کی زندگی میں نائب قاضی اور اُن کی وفات کے بعد مستقل قاضی کی حیثیت سے قضا کی ذمے داری انجام دی۔ مدرسے سے بہ حیثیت استاذ سبک دوش ہوجانے کے بعد بھی ۴؍ فروری ۲۰۱۰ء (۱۹؍ صفر ۱۴۳۱ھ) تک، یعنی ۵۲ سال تک اس خدمت کو انجام دیتے رہے۔ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی وفات کے بعد امارت شرعیہ کے ذمے داروں نے مرکزی دارالقضا کے قاضی کی حیثیت سے پھلواری شریف تشریف لے آنے کی آپ سے درخواست کی؛ لیکن پیرانہ سالی، کم زوری اور دیگرنا گزیر التزامات و مشاغل کی وجہ سے، وہاں مستقلاً قیام سے معذرت کرلی، البتہ بہ وقتِ ضرورت مقدمات کی سماعت کی خدمت قبول فرمالی، جس سے تاحیات عہدہ برآہوتے رہے۔اِسی کے ساتھ دربھنگہ شہر کے قلعہ گھاٹ کے غرب میں واقع مہدولی گاؤں میں امارت شرعیہ نے جب دارالقضا قائم کیا تو وہاں بھی انھیں ہی قاضی کی ذمے داری سپرد کی گئی۔ نیز مرکزی دارالقضا نے وقتاً فوقتاً فضلاے مدارس کی تدریب کے لیے متعدد جگہوں میں قضائی کیمپ قائم کیے، جہاں کارہاے قضا کی تدریب کے لیے اُنھیں ہی زحمت دی گئی اور آپ نے وہاں تدریب کا فریضہ انجام دیا۔ اِس سلسلے میں کرناٹک، مالیگاؤں، تمل ناڈو، دارالعلوم بدرپور آسام، المعہد العالی الاسلامی شاہین نگر حیدرآباد اور دیگر مقامات کا متعدد مرتبہ سفر کیا۔ نیز اپنے گاؤں: انگواں مادھوپور میں مدرسہ طیبہ قائم کیا اور تاحیات اس کے ناظم رہے، نیز وہیںبچیوں کے لیے معہد الطیبات کی تاسیس کی اور اس کے بھی ناظم و ذمے دار رہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اساسی کی ذمے داری بھی انجام دی، امارت شرعیہ کی مجلس عاملہ کے بھی تاحیات رکن رہے۔ نیز اسلامک فقہ اکیڈمی کے رکن تاسیسی کی خدمت بھی آپ کے سپرد رہی۔ اتحاد علماء المسلمین قطر کی رکنیت پر بھی فائز رہے۔ مدرسہ اسلامیہ شکر پور کے صدر و سرپرست، مدرسہ قاسم العلوم بردی پور دربھنگہ، مدرسہ اصلاحیہ پاک ٹولہ سیتامڑھی، معہد الطیبات کرم گنج دربھنگہ، مدرسہ سبیل الشریعہ آوا پور سیتامڑھی، ابوالحسن علی ندوی ایجوکیشنل ویلفیئر ٹرسٹ وغیرہ کی بھی دمِ آخر تک سرپرستی کی۔
تحریری کاوشیں: رشتہ داروں کا احترام اور یتیموں کا اکرام کیجیے ، بینک سے متعلق چند مسائل اور بینک انٹرسٹ کا مصرف،مسجد کے آداب و احکام، مکاتیبِ رحمانی (حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی کے اہم خطوط کا مجموعہ)،کیا کثرتِ عبادت بدعت ہے؟،رہ نماے قاضی ،معلم و مربی: خصوصیات و امتیازات، الأدلۃ الحنفیۃ من الأحادیث النبویۃ علی المسائل الفقہیّۃ (اس کتاب میں فقہ حنفی کے مسائل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں مُدَلَّل کیا گیا ہے۔ اِس کتاب کی پہلی جلد جو عبادات پر مشتمل ہے محدث کبیر محمد بن عبداللہ بن مسلم بہلوی کی تالیف ہے، مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ نے اِس کتاب کا تکملہ دو جلدوں میں تالیف فرمایاجو معاملات پر مشتمل ہے، اِس طرح یہ کتاب تین جلدوں میں دارالقلم دمشق سے شائع ہوئی اور اہل علم و تحقیق کے لیے بے پناہ فائدے کا ذریعہ بنی)۔
کچھ کتابیں منتظرِ طباعت ہیں، جیسے: رہنماے مفتی ، قرآن کریم کی سورتوں کے مضامین کا تعارف،مجموعۂ مقالات، زندگی کا سفر، مشائخ، معاصرین اور شاگردوں کے چند خطوط وغیرہ۔
اسفار حج و عمرہ: مولانانے کئی بار حج و عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ پہلا حج ۱۴۱۷ھ ؍ ۱۹۹۷ء میں کیا۔ دوسرا حج ۱۴۲۹ھ؍ ۲۰۰۹ء میں، جب کہ تیسرا حج رابطۂ عالم اسلامی مکۂ مکرمہ کی دعوت پر ۱۴۳۴ھ؍ ۲۰۱۳ء میں کیا۔ دو بار آپ نے عمرے کی سعادت حاصل کی۔
پس ماندگان: مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک صاحب زادہ مولانا عبداللہ مبارک ندوی اور دو صاحب زادیاں اور ان کے خاوند مولانا عبیدالرحمن و جناب محمد اشرف علی اور برادر حافظ محمد ناظم رحمانی اور ان کی اولادیں ہیں۔
وفات: کئی ماہ سے علیل اور زیرِ علاج رہے، بالآخر سوموار –منگل: ۱۱–۱۲؍ محرم ۱۴۴۲ھ مطابق ۳۱؍ اگست –۱؍ ستمبر ۲۰۲۰ء کی درمیانی شب میں بہ وقت تہجد پونے ۳ بجے آخری سانس لی۔ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَجَعَلَ جَنَّۃَ الفِرْدَوْسِ مَثْوَاہُ۔ منگل: ۱۲؍ محرم=یکم ستمبر کو ظہر کی نماز کے بعد نماز جنازہ زکریا کالونی میں ادا کی گئی، جس کی امامت جامع العلوم مظفرپور کے سرپرست اور دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ کے رکن مولانا اشتیاق احمد مدظلہ نے کی اور زکریا کالونی شہر مظفرپور کے قبرستان میں آسودۂ خواب ہوے۔
مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ ایسے عالم باعمل دنیا سے جانے کے بعد بھی جاوداں رہتے ہیں اور دلوں کی گہرائیوں میں ، زبانوں کی سطحوں پر، ہونٹوں کی جنبشوں میں اور روحوں کی تہ داریوں میں ہمیشہ موجود و مذکور رہتے ہیں اور کسی اسماعیل میرٹھی کو اِس حسرت کے اِظہار کی کبھی ضرورت نہیں ہوتی:
تا سحر وہ بھی نہ چھوڑی تونے اے بادِ صبا
یادگارِ رونقِ محفل تھی پروانے کی خاک
(مولانا محمد اسماعیل میرٹھیؒ: ۱۸۴۴ –۱۹۱۷ء)
کیوں کہ مولاناؒ کے ایسے علم وفضل کے پروانے کے سلسلے میں خاک ہوجانے کے بعد بھی، کسی بادِ صبا کے اسے اڑالے جانے کا اندیشہ نہیں ہوتا؛ کیوں کہ وہ خاکی طورپر معدوم ہوجانے کے بعد بھی زندوں کے خانہ ہاے خیال میں متحرک اور اُن کے ہونٹوں پہ نغمۂ شیریں بن کر مچلتے رہتے ہیں اور اُن کے ساز ہستی کی خاموشی، نغمۂ جاوید کی شکل اختیار کرلیتی اور ہر دلِ شُنْوَا کے لیے ہمہ وقت مسموع رہتی ہے:
جو گوشِ دلِ شُنْوَا ہو، تو بزمِ ہستی میں
سکوتِ ساز بھی، اِک نغمۂ مُجَسَّم ہے
مولاناؒ کی فرقت کا غم ایک طبعی بات ہے؛ لیکن موت ایسی سچائی ہے، جو اپنے وقت پر برپا ہوکے رہتی ہے۔ اس نے انبیا واولیا کو نہیں چھوڑا تو کسی بڑے سے بڑے ذی علم وفضل و صلاح کو کب چھوڑنے والی ہے:
لاَ یَرْحَمْ المَوْتُ ذَا جَاہٍ لِعِزَّتِہٖ
وَلَا الَّذِیْ کَانَ مِنْہُ العِلْمُ یُقْتَبَسَ