Home تجزیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ہندوستانی سیاست-کنور محمد اشرف

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ہندوستانی سیاست-کنور محمد اشرف

by قندیل

جامع و مرتب:سجاد حسن خان
(تیسری قسط)
(۶)
علی گڑھ کی سیاسی زندگی کاموجودہ دورتقسیم ہندوستان یعنی اگست ۴۷ءشروع ہوتاہے اوریہ علی گڑھ کی زندگی میں ہراعتبار سے نیابلکہ انوکھاساہے ۔ علی گڑھ نے مسلم قومیت کوجنم دیااوراس کے رہنما،شاعر، مؤرخ اورادیب تقریباََ سب کے سب ایک زمانہ تک اسی درسگاہ سے نکلے مگر علی گڑھ نے اس قومی تحریک کی ابتدا مُسدس حالی ؔسے کی جس کانقطہ نظر فرقہ پرستی سے یکسر پاک ہے ۔ اسی طرح جب علیگڑھ میں سیاسی تنظیم کی بنیاد یں رکھی گئیں تواس کا گمان بھی نہیں ہوسکتاتھاکہ ہندمسلم سوال ایک دن دوجداگانہ بلکہ متصادم قومیتوں کے نظریوں کی صورت میں وطن کے سامنے پیش ہوگا۔محمد علی کے گانکریس سے جو بھی اختلاف رہے ہوں مگرراؤنڈ ٹیبل کانفرنس کی آخری تقریر میں بھی مرحوم کاواحد مطالبہ مشترکہ ہندوستان کی آزادی کاتھا۔محمد علی کے علاوہ حسرتؔ نے زندگی بھر مزدورحکومت اورمسوویث نظام کے خواب دیکھے اورہمارے ممتاز اولڈبائز میں ڈاکٹر کچلوامن عالم اورسوویت دوست تحریک کے آج بھی سب سے بڑے رہنماہیں ۔ مگرتقسیم کے بعد اب پاکستان کی موجودہ فضامیں مسدس حالی ؔ کی نہیں بلکہ شاہنامہ اسلام ؔ کی مانگ ہے اورلوگ ’’تاریخ کشورکشائی‘‘ لکھ کر اپنے نزدیک شبلی ؔ کی تاریخی روایات کاحق اداکرتے ہیں ۔ اسی طرح پاکستان حسرتؔکی روایات کاپیرونہیں بلکہ مزدورتحریک اورکمیونسٹ رجحانات کومٹانے کاعلانیہ دعویدار ہے ۔ پالسی کے اعتبار سے ہمارے موجودہ پاکستانی حکمراں جنوبی افریقہ اورامریکہ سے دوستی اوراتحاد کرسکتے ہیں مگر ہندوستان کے روادار نہیں ہیں۔ بہرنوع اس سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ علی گڑھ کی سیاسی تحریک کاایک پہلویہ بھی تھاجس کے منطقی تقاضے سے پاکستانی ذہنیت اورہندوستان دشمنی کے رجحانات ابھرے چنانچہ پاکستان کے حکمران اب ایک ’’ نیاعلی گڑھ‘‘ خود پاکستان میں بناناچاہتے ہیں ۔
ہندوستان کانیاعلی گڑھ اب جن بنیادوں پرقائم ہورہا ہے یاہوسکتاہے اس میں کسی ایسے قومی تصور کی گنجائش نہیں ہے جوہندوستان کی مشترکہ قومیت اورلادینی جمہوری حکومت کے اصول سے متصادم ہوگواس اصول کے برتنے میں علی گڑھ کی راہ میں دقتیں مسلم قومیت کے فرسودہ نظریوں سے نہیں بلکہ ہنددوستانی قومیت کے ان عناصر کی جانب سے آئیں گی جوآج بھی انسانی مساوات سے ناآشنا اورجمہوریت کے اصولوں سے عملًا بے نیاز رہناچاہتے ہیں ۔ چنانچہ آج پورے یقین سے نہیں کہاجاسکتاکہ قومیت کاتصوراس درجہ نموپزیر اورجمہوریت نواز ہے کہ انسانیت کی ترقی اوراقلتیوں کی فلاح کاضامن ہوسکے۔ حقیقت تویہ ہے کہ واقعہ کے اعتبار سے ہندوستان اورپاکستان دونوں جگہ سرمایہ داری نظام حاوی ہے جواپنی مصلحتوں کے مطابق کبھی قومیت اورکبھی رسمی جمہوریت کاجامہ پہن لیتاہے علی گڑھ ان دل شکن اوریاس انگیزحالات میں کیامسلک اختیار کریگامجھے معلوم نہیں ۔لیکن یہ البتہ کہاجاسکتاہے کہ مسدس حالی،ؔ کامریڈ، اتحاد سلام ، احرار لیگ، خلافت یاجمہوری انقلاب کے وہ سب مظاہرجن پرایک زمانہ تک ہماراانحصار رہاہے ایٹم اورہائڈروجن کے اس دورمیں جہاں انسانیت ایک ہولناک عالمگیر جنگ اورلامحدود ترقی کے درمیان کھڑی ہے دورازکاربلکہ گمراہ کن اورخطرناک ثابت ہوں گے ،سرسید کی طرح علی گڑھ کودوبارہ ایک نیافلسفہ حیات تلاش کرناپڑے گامگراس راہ میں جانے کتنے پرانے اورنئے افسانوں کاخون ہوجائے گا :
طے می شودایں رہ بہ درخشیدن برقے
مابے خبراں منتظر شمع وچراغیم

(۷)
ایک تعلیم گاہ کی حیثیت سے علی گڑھ کو سیاست کی ہنگامہ آرائیوں سے کوئی خاص تعلق نہ ہونا چاہیے مگر اس کوکیاجائے کہ مدرستہ العلوم کی بنیاد ڈالی گئی تو مسلمانوں کوانگریزی تعلیم دینے کاایک مقصد یہ بھی قرار پایاکہ وہ برطانوی دور کے سماجی اور سیاسی تقاضوں سے کماحقہ باخبر ہوجائیں ، یعنی علی گڑھ کے نوجوان جب زندگی میں داخل ہوں تو پورے جوش وولولہ کے ساتھ خود بھی آگے بڑھیں اورمسلمانوں کوبھی آگے بڑھائیں ۔ چنانچہ تقریباً نصف صدی تک علی گڑھ نے مسلمانوں کی تمدنی اور کلچرل تحریکوں کے علاوہ سیاسی اداروں کی بھی رہنمائی کی ۔ہماری سیاسی سرگرمیوں کاایک پہلووہ تھاجس سے مسلمانان ہند کارجحان درجہ بدرجہ ملت پسندی ، فرقہ پرستی اوربالآخر جداگانہ مسلم قومیت کے تصور سے وابستہ ہوگیا جس کی تعبیر آپ کومسلم لیگ کی تاریخ اور پاکستان کے ظہور میں ملے گی ۔ ہماری سیاسی زندگی کاایک انقلابی اورسامراج دشمن پہلوبھی ہے جس کی طرف میں نے اپنے مضمون (مطبوعہ شمارہ خصوصی علی گڑھ میگزین موسومہ علی گڑھ نمبر)میں اشارہ کیاہے ۔ یہاں بعض ان تاریخی واردات اورسماجی حالات کاجائزہ لیناچاہتاہوں جنہوں نے انگریزی دور میں مسلمانوں کے ذہن اورعلی گڑھ کے ضمیر کی تشکیل کی ہے اور جنہیں ذہن نشین کر لینے کے بعد علی گڑھ کے سیاسی میلانات کوسمجھنااورپرکھناایک طرح پر آسان ہوجاتاہے ۔ اس سلسلہ میں ، میں مضمون کے آخر میں علی گڑھ کی بعض ممتاز سیاسی شخصیتوں کابھی ذکر کرونگا۔

(۸)
میں نے اپنے ایک مضمون میں سر سید کوراجا رام موہن رائے سے مشابہت دی تھی اور یہ اس حد تک صحیح ہے کہ یہ دونوں رہنمانئے دور کے تقاضوں کوعلانیہ مانتے اوراپنی قوم سے منواناچاہتے ہیں ۔مغربی تہذیب ، انگریزی تعلیم ، پارلیمنٹری طرز حکومت ، اصلاح معاشرت، مذہبی لبرلزم ، عقلیت پسندی ، اخبار نویسی حتیٰ کہ سادہ طرز تحریر شاید ہی کوئی ایسا عقیدہ ہو جس میں سرسید راجہ رام موہن رائے کے قدم بہ قدم نہ چلے ہوں ۔بایں ہمہ ان میں سے ایک ہندوستانی ’’قومیت‘‘ کااوردوسرا جدیداسلامی قومیت کا بانی ہے اور جس طرح راجہ صاحب کوہندوستانی اپنی قوم پرستی کاجنم داتامان کر انکے گن گاتے ہیں ، پاکستانی سرسید کاکلمہ پڑھتاہے اورعلی گڑھ تحریک کودعائیں دیتاہے ۔ اس تضاد کی بڑی وجہ یہ ہے کہ راجہ صاحب ہندوستانیون کے جس طبقہ سے مخاطب تھے وہ اپنی نفسیات اورسماجی صلاحیتوں کے اعتبار سے ان مسلمانوں ( اورہندوؤں ) سے بنیادی طور پر مختلف تھا جن سے سر سید کو سابقہ پڑاتھا۔
راجہ رام موہن رائے کے عہد تک ممبئی ، مدراس بالخصوص کلکتہ میں ہندوستانیوں کاایک جدید متوسط طبقہ وجود میں آچکاتھا جس میں ایسٹ انڈیاکمپنی کے ہندوستانی دلالوںاورساہوکاروں کے علاوہ انگریزی عہد کے نئے زمیندار، انگریزی تعلیم یافتہ وکیل ، بیریسٹر ، کالجوں کے پروفیسر ، اخبار نویس اورمصنف نمایاں طورپر نظر آتے ہیں ۔اس کااندازہ آپ اس واقعہ سے کیجئے کہ راجہ صاحب نے ۱۸۱۷ء میں ہندوکالج کی بنیاد ڈالی اورسنہ ۱۸۵۷ء میں جب کلکتہ کے ساتھ ساتھ ممبئی اورمدراس میں یونیورسیٹیاں قائم ہوئیں توہندوستانی گریجویٹوں کی تعداد ۸۶۶ تھی جن میں ۱۳۱ ایم ۔اے پاس تھے ۔ تحریک سوشل اصلاح کا آپ کواندازہ اس سے ہوگاکہ راجہ صاحب نے ۱۸۲۸ء میں برہموسماج کی بنیاد ڈالی اورمغربی ہندمیں سنہ ۱۸۴۰ء سے یعنی پرم ہنس منڈل بنتے ہی اصلاح کاکام شروع ہوگیا۔ سیاسی تنظیم نے بھی اسی نسبت سے جنم لیناشروع کیا۔ یوں تولینڈ ہولڈ رز سوسائٹی بہت پہلے بن چکی تھی مگر سنہ ۱۸۵۱ء میں کلکتہ کی برٹش انڈیا ایشوسی ایشن کے قیام کے بعد کل ہند سیاست کے منصوبے بننا شروع ہوگئے ۔ سنہ ۱۸۵۲ء میں ممبئی ایسوسی ایشن اورمدراس نیٹو ایسوسی ایشن نے جنوب میں سیاست کے اسی باب کی ابتداکی اوربالآخر ۱۸۸۵ء میں آل انڈیاکانگریس وجود پذیر ہوگئی ۔ صنعتی ترقی پر نظرڈالئے توبنگال میں راجہ صاحب کے رفیق کار دوارکاناتھ ٹیگور نے انگریز سرمایہ دارورں کی دیکھادیکھی بنکوں اورکارخانوں کے خواب دیکھناشروع کردئے۔اور سن ۱۸۵۱ء میں ممبئی سوتی کپڑے کاپہلاہندوستانی کارخانہ کھل گیا۔ صنعتی ترقی کے سلسلہ میں یہ بھی ذہن میں رہے کہ ممبئی ، مدراس اورکلکتہ کے صنعتی مرکزوں میں ریل جاری ہوچکی تھی اوراخبار اوررسالے شائع ہورہے تھے جن میں وطن کے ہرسوال پرآزاد نہ بحث وتنقید ہوتی تھی اورخود انگریز حکمرانوں کاایک گروہ جسمیں ممبئی کے دوسابق گورنر ( الفسٹن اورمیلکام ) اورمدراس کاایک گورنر (منرو) شامل تھے، علانیہ اِس نظریہ کی تبلیغ کر رہے تھے کہ حکومت کے بڑے عہدے ہندوستانیوں کودئے جائیں ۔ بالفاظ دیگر جب راجہ رام موہن رائے وطن کے سیاسی رہنماکے حیثیت سے ہمارے سامنے آئے تواپنے مقاصد کے حصول کے لئے وہ حکومت کے دست نگر نہ تھے ، بلکہ ایک منظم باشعور متوسط طبقہ کی حمایت انہیں حاصل تھی ۔اس وقت میں اس بحث میں نہیں پڑناچاہتاکہ اس ہندوستانی ’’قوم پرستی ‘‘کی اخلاقی اورسیاسی قدریں کیاتھیں ۔
اب ذرااس مسلم ’’ قوم ‘‘ پر نظر ڈالئے جس کے لئے ۱۸۷۵ء میں سرسید نے علی گڑھ کالج کی بنیاد ڈالی ۔ یہ صحیح ہے کہ کلکتّہ مدرسہ کی ۱۷۸۲ء میں بنیاد پڑی اوربنگال کے نئے ماحول سے متاثر ہوکر بعض مسلمانوں نے سنہ ۱۸۵۶ء میں محمڈن لٹریری سوسائٹی کی بنیاد ڈالی اور مجھے یقین ہے کہ اگر ممبئی یامدراس میں اس قسم کی تحریک شروع ہوتی تو بعض تجارت پیشہ مُسلمان یقینی اِس کی حمایت کرتے مگر مُسلمانوں کا دل ودماغ اوراسلامی تمدن کے مرکز ساحلی شہروں میں نہیں بلکہ شمالی ہند میں تھے اور یہاں کارنگ ڈھنگ نرالاتھا۔ یہ مغل حکومت کے نظریہ رزم وبزم کومنتہائے زندگی اورجاگیری نظام کو ’’بہ ابد مقرون ‘‘ سمجھتے تھے اوراپنی خوشی سے کسی تبدیلی کیلئے تیار نہ تھے ۔ ان کی زندگی کی سرگرمیوں کانقشہ آپ دیکھنا چاہیں توافسانہ آزاد پڑھئے یاسلیمین کاسفرنامہ دیکھئے بہر نوع جب ۱۸۰۳ء میں لارڈ لیک کادہلی میں داخلہ ہوا اور۱۸۵۶ء میں برطانیہ نے نواب واجد علی شاہ کوحکومت سے معزول ومحروم کیا توان کی آنکھیں کھلیں مگر نظریے نے ان کے پاس قیام امامت اورجہاد فی سبیل اللہ ہی کے تھے ۔ رہنمابھی فقہ کی اصطلاحوں میں گفتگو کرتے اوردارالاسلام اوردارالحرب کی بحثیں اٹھاتے تھے جن سے اس دور کی ہیئت اجتماعی کوکوئی علاقہ نہ تھا۔ امراء ان نظریوں اورعلمی بحثوں سے بھی بے نیاز تھے ۔انہیں طرب وتعیش سے کہاں فرصت تھی ۔ اس سے فراغت پاتے تومرغ بٹیر لڑانے میں مصروف ہوجاتے ۔ بالآخر ایک ایساوقت آیاجب علماء نے پہلے سکھوں کے غلبہ اوراس کے بعدانگریزی تسلط کا احساس کیا اور بالاکوٹ کی ناکامی کے بعد ۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان ہوا۔ پورے شمالی ہندوستان میں انہیں جگہ جگہ ناکامی کامنہ دیکھناپڑاتوسیاسی احتساب کی بجائے انہوں نے انگریز دشمنی کواس حد تک جزوایمان بنالیاکہ انگریزی تعلیم کوبھی حرام اورمخرب ایمان سمجھنے لگے۔ چنانچہ مولانامحمدقاسم نے جب ۱۸۶۱ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی تومغربی علوم کونصاب سے خارج کودینے کے علاوہ یہ شرط بھی قراردی کہ حکومت سے کبھی کوئی امداد نہ لی جائے گی ۔ یہی نہیں بلکہ آج تک نئی صنعت اوربنکوں کی مقتضیات اورماہیت سے بے خبر رہ کر تجارتی سود کوحرام قرار دیاجاتاہے اوربعض رہنمایانِ ملک و ملّت کواس کا یقین ہے کہ جدیدصنعت اورحکومت کاسرمایہ دارانہ نظام شریعت کی بنیاد پرچل سکتاہے ۔مختصرا ًیوں سمجھئے کہ راجہ رام موہن رائے کے بالمقابل سرسید کوجس ملت سے سابقہ ہوا، وہ تعلیمی اعتبار سے نصف صدی اورصنعتی لحاظ سے ایک صدی پیچھے رہ گئی تھی چنانچہ دونوں کی سیاسی قدروں میں بھی زمین آسمان کافرق تھا۔ اس کااندازہ اس سے ہوگاکہ جب ۵۷ء میں مغل بادشاہت کودوبارہ قائم کرنے کے لئے شمالی ہندوستان کے مسلم (اورہندو) امراء جان کی بازی لگارہے تھے تواس کی مخالفت میں کلکتہ کی برٹش انڈیاایسوسی ایشن کے رہنمایعنی اس دور کاقوم پرست عنصر انگریزوں کی حمایت میں رائے عامہ کوبرانگیختہ کررہاتھا۔ وجہ ظاہر ہے ۔ بہادرشاہ اورمجاہدین ان لوگوں کی نگاہ میں جاگیر دارانہ رجعت پسندی کے ترجمان تھے اوربس ! مجاہدین دہلی کے نظریہ کااس سے اندازہ کیجئے کہ انہوں نے سب سے پہلے دہلی کالج کونذر آتش کیااس لئے کہ اس کی تعلیم سے بے دینی کی بوآتی تھی ۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ مسلمانوں کے یہ نظرئے اس درجہ مقبول عام اورہمہ گیر تھے کہ سنہ ۱۸۴۸ء تک خود سرسیّد ،سیّد احمد بریلوی کی امامت اوراسمٰعیل شہید کے جذبہ جہاد کے معترف اورحامی تھے ۔
۱۸۴۸ء کے بعد سرسید نے پرانے نظام سیاست ومعاشرت سے بتدریج انحراف شروف کیاان کاعقیدہ مغل بادشاہت بلکہ نفس ملوکیت سے پہلے ہی اٹھ چکاتھااب جہاد وامامت سے منہ موڑ کرانگریزی حکومت کوتسلیم کیااورانگریز دوستی کومصالح ملی کے مطابق قرار دیا۔ اسی حقیقت شناسی کانتیجہ تھاکہ سرسید نے ترکی کی خلافت کے ادعا کی بھی مخالفت کی۔یہاں تک پرانے نظام سے انحراف کاسوال تھا۔ اب دورجدید کے تقاضوں کی باری آئی اورانہوں نے جی کھول کرپارلیمنٹری نظام کے سب اصول مانے بلکہ ۵۷ء کی بغاوت کے تجزیہ میں عوام سے رابطہ قائم نہ کرنے پربرطانیہ کوموردالزام ٹھہرایا۔ سرسید ان اصولوں کے ماننے اورمنوانے میں اس درجہ ثابت قدم تھے کہ انہوں نے سول سروس میں ہندوستانیوں کی شرکت کے مسئلہ پر سریندرناتھ بنرجی کی دل سے حمایت کی ۔ بالفاظ دیگر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ سرسید مسلمانوں کے رام موہن رائے تھے اوردل سے جمہوریت کے اصولوں کواپناچکے تھے ۔ مگرسوال انفرادی طورپراپنانے کانہیں بلکہ مسلمانوں سے منوانے کاتھااورمسلمانوں کی یہ کیفیت تھی کہ سنہ ۱۸۶۸ء میں کلکتہ ہائی کورٹ کے ۲۴۰ سند یافتہ وکیلوں میں ایک مسلمان ،۱۰۴ سند یافتہ ڈاکٹروں میں ایک مسلمان، محکمہ تعمیرات کے ہزاروں ملازموں میں لے دے کر ایک مسلمان سب انجینئر اوربس ۔ہنٹرکمیشن کی تعلیمی رپورٹ مطابق ۱۸۸۲ء میں مسلمانوں کایہ عالم تھاکہ سرکاری کالجوں کے ۲۵۹۰طالب علموں میں صرف ۱۲۵مسلمان ،اسی طرح صنعتی مدارس کے ۲۹۶۸ طلبامیں مسلمانوں کی تعداد ۴۶۱ تھی ۔ ثانوی تعلیم کایہ حال تھاکہ ہندوؤں کی ۸۳فیصدی تعداد کے مقابلہ میں مسلمان صرف ۱ ۱ فیصدی تھی ۔ یہ بھی خیال رہے کہ شمالی ہند بالخصوص مسلم تمدن کے مرکزوں مثلا دہلی ،لاہور ، پٹنہ ،ڈھاکہ ،رامپوروغیرہ کے مسلمان طالب علموں کی نسبت ان اعداد وشمار سے کہیں زیادہ کم ہوگی ۔ چنانچہ سرسید عجیب شش وپنج میں مبتلاتھے۔ انہیں باربار اعتراف کرناپڑتاتھاکہ کونسل اورقانون ساز جماعتوں کے لئے سریندر ناتھ جیسے بیدار مغز لوگوں کی ضرورت ہے اورمسلمانوں میں کوئی سریندر ناتھ نہیں ہے ۔ سرسید کے جھنڈے کے نیچے وہ مخلوق جمع ہوئی جس کانقشہ ہمارے ایک ممتاز اولڈ بوائے نے ’’مرزاپھویا‘‘ کے روپ میں کھنیچاتھایعنی معزول امیر گھرانوں کے وہ عناصر جنہیں نئی زندگی کی ہرچیز سے وحشت ہوتی تھی اوروہ علی گڑھ اس وقت آئے تھے جب دولت اوراقبال دونوں نے ان سے منہ موڑ لیاتھا۔ اکبر کی زبان میں یوں سمجھئے کہ نچلے طبقے کے لوگ اس لئے آتے تھے کہ کلر کی کریں اورخوشی سے پھول جائیں ۔ امیروں کی اولاد علی گڑھ کااس لئے رخ کرتی تھی کہ بی ۔ اے ہوکرنوکر ہوجائیں پھر بوڑھاپے میں پنسل مل جائے اوراس طرح ’’ عزت وآبرو‘‘ سے زندگی گذارلیں ۔ یہی وہ نسل تھی جس کے تحفظ وبقاکے لئے سرسید نے ’’وفادار مسلمانوں‘‘ کے راگ الاپے تھے اور اب انہیں ’’ ھمرھان سست عناصر‘‘ کے بل پر مسلمانان ہند کونئی زندگی اورنئے تمدن میں شامل ہونے کی دعوت دے رہے تھے ۔ یوں سمجھئے کہ اس نئے دور میں مرزاپھویاسے سریندرناتھ کاکام لیناچاھتے تھے مسلمانوں میں ایک جاندار طبقہ دستکاروں کابھی تھااورحالی نے ان کی سماجی اہمیت بھی سمجھ لی تھی مگراول توسرسید خود طبقہ امراسے تعلق رکھتے تھے پھر مزدورسیاست کاچرچارام موہن رائے نے کیا۔پیرس کمیون کی ناکامی کے بعد یورپ کی کسی محفل میں بھی نہ تھایعنی ہمیں مزدورسیاست کی منزل تک پہنچنے کے لئے ہندواورمسلم ’’قومیت‘‘ کی بہت سی بھول بھلیوں سے گزرناتھا۔ تقسیم بھارت اورپاکستان اسی دریائے بیتابی کی ایک موج خون ہے۔
بہرنوع مسلمانوں کونئے دور اورنئی سیاست تک لانے کامرحلہ سرسید کیاکسی رہنماکے لئے بڑاجانکاہ تھا۔ یہ صدیوں کی منزل برسوں بلکہ مہینوں میں طے کرنی تھی ۔ہوشمندی کہتی کہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی کوشش لاحاصل ہے، امنگیں مصرتھیں کہ چشم زدن میں یہ سفر طے ہو۔ چنانچہ سرسید کے ایماپرحالی نے مذہب کی چاشنی دیکراسلامی تمدن کاایک نقشہ کھینچا جس میں علم وسائنس نے کشورکشائی کی جگہ لی اورعرب کی قبائلی روایات ہماری جمہوریت کانقش اول بلکہ سر چشمہ قرارپائیں ۔ رہی ہماری پستی اس کاالزام ہندوستان کے سراورمستقبل کے لئے ہمارادامن مغرب بلکہ انگلستان کے ساتھ جوڑدیاگیا۔حالی کی سحربیانی نے فلاکت زدوں اورحرماں نصیبوں کے ’’ عروق مردہ ‘‘ میں بجلی کااثر کیااورعلی گڑھ کی بدولت جگہ جگہ مسلم اسکول ،کہیں کہیں کالج اورہر صوبہ میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرس کی شاخ قائم ہوگئی ۔ تھوڑے دن بعد مسلمان مدرسوں اورخودعلی گڑھ میں امراء اورجاگیر داروں کے بچوں کے ساتھ معمولی حیثیت کے مسلمان نوجوان بھی تعلیم پانے لگے ۔ آخر میں مسلمان لڑکیوں کا نمبر بھی آگیا۔ اورہم اس آن بان کے ساتھ سیاست کی محفل میں براجمان ہونے لگے ۔
حالی کے نالہ و نواکا ایک رد عمل یہ ہوا کہ علی گڑھ کے نوجوان عمل کے اعتبار سے کیسے ہی کیوں نہ ہوں، نصب العین کے اعتبار سے ’’ہمدوش ثریا‘‘ ہو گئے اور حالی کے بعد اُس صورت حال نے شبلی کی اسلامی جمہوریت اور بالأ خر اقبال کا ’’قلندری‘‘ جامہ پہنا تو نفسیات کے منطقی تقاضے سے وہ رد عمل شروع ہوا جسے خود اقبال نے’’سوختن نا تمام‘‘ کے پر معنی الفاظ سے تعبیر کیا ہے ۔ اگر اقبال سے اس کی تشریح طلب کرتے تو وہ غالبا ً فلسفیانہ انداز میں آپ کو سمجھاتے کہ در اصل ’’سوختن نا تمام ‘‘، کا عمل ، ’’تراشیدم، پر ستیدم، شکستم‘‘، کا مترادف ہے۔ یہ فطرت کا عمل ، حیات دوام کا تقاضا اور مرد قلندر یعنی صحیح مسلمان کے خصایص میں داخل ہے۔ میرے نزد یک اس سے مراد علی گڑھ اور مسلمانوں کی وہ تلون مزاجی اور ہنگامہ پسندی ہے جو امنگوں کی بد لگامی اور وسائل حیات کے فقدان سے لازما ًپیدا ہوتی ہے ۔ہماری اسی روماں نوازی کا کرشمہ ہے کہ ہم سیاست میں بھی بقول اقبال ہر گھڑی ایک نیا خدا تراشتے ہیں۔ علی گڑھ کے مخصوص ماحول نے ہمارے اس احساس کی شدت اور بھی بڑھادی ہے اس لئے کہ ہم کبھی حکمران وقت اور متمول تھے لیکن آج محکوم ہی نہیں بلکہ مفلوک الحال بھی ہیں اور ہماری مفلوک الحالی لا علاج ہے ۔ہماری تقریبا ً ایک صدی کی سیاسی سر گرمیوں کے بعد جب علی گڑھ کا نوجوان بمبئی میں’’ ملا بارہل‘‘ کے بعد بنارس کے مدنپورہ پر یا دہلی میں نئی دہلی کے بعد جامعہ مسجد کی گلیوں پر نظر ڈالے تو آپ ہی انصاف کیجئے کہ وہ کسے رہنما سمجھے ۔ بہر نوع ہم اس دیدہ ٔ ترکی یاد سے کتنے ہی تشنہ فریاد کیوں نہ ہوں واقعہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی گرم بازاری کا سارا سرمایہ ہماری یہی بے سرو سامانی اور ہمارا غیر متناہی اضطراب ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارے ہمسایوں میں بہروپیوں کی کوئی کمی ہے ۔ وہاں بھی قدم قدم پر اسی طرح کے لوگ دکھائی پڑتے ہیں البتہ فرق اتنا ہے کہ انہوں نے متوسط طبقہ کے چار چھ فیصدی انسانوں کی فلاح کا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے ۔ یہاں فقط اﷲ کا نام ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ہم راہرو اور راہبر کا فرق سمجھیں یا نہ سمجھیں، سیاسی رہنماؤں کے فریب و فساد سے نفرت کرنا ضرور سیکھ گئے ہیں اور علی گڑھ جس طرح سیاسی پیر پرستی میں پیش پیش رہتا ہے بت شکنی میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔
اس تمہید کے بعد آئیے وطن کی تحریک آزادی اور علی گڑھ کے سیاسی رد عمل پر ایک سرسری نظر ڈالیں ۔ میں نے سیاسی واقعات کی تفصیلات مذکورہ بالا مضمون میں دے دی ہیں ۔یہاں میں پہلے برطانوی دور کی سیاسی بساط کا اور اس کے بعد ان منزلوں کا ذکر کروں گا جن سے ہم علی گڑھ کے لوگ دل مسوس مسوس کر گزرے ہیں ۔
(جاری)

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment