عدالت عظمیٰ میں مسلم یونیورسٹی کے مقدمے کی سماعت ہوئی، مباحثے ہوئے، جرحیں ہوئیں۔ فریقین کی جانب سے قوانین اور تاریخی شواہد کے سہارے باتیں رکھی گئیں۔ تحریری اور دستاویزی ضخامت بہت زیادہ ہے جو عدالت کے سپرد کر دی گئی۔ یونیورسٹی کی جانب سے جن دو مسلم وکلا ایم آر شمشاد ( مدھوبنی، بہار) اور شاداں فراست (گیا، بہار) نے بحث کی، وہ دونوں علی گڑھ سے فارغ نہیں ہیں۔ راجیو دھون اور کپل سبل تو بہر حال علیگ نہیں ہیں۔ علی گڑھ کی لاء فیکلٹی سے فارغ اور اس میں مقرر اساتذہ میں سے کتنے لوگوں نے ( اکیڈمک اعتبار سے ہی سہی) اس مقدمے میں کتنی مدد کی ہے، یہ عیاں ہے۔ (ایک مستثنٰی ہیں، جن کی تدریسی و انتظامی خدمات پچھلے سترہ برسوں سے دیگر جامعات میں ہیں)۔
اب فیصلہ عدالت میں محفوظ ہے۔ اٹکل بازیوں سے پرہیز نہایت ضروری ہے۔ دعا کیجیے کہ عدالت سے اقلیتی اسٹیٹس مل جائے۔
خدا نخواستہ، ایودھیا فیصلے (نومبر 2019) کی طرز پر یا کسی بھی "منطق و فہم” کی بنا پر ہماری منشا کے مطابق فیصلہ نہیں آتا ہے، تو کیا ہم مایوس، اور فرسٹریٹ ہو جائیں گے؟بالکل نہیں۔
قوموں کی زندگی میں عروج و زوال، شکست و فتح، کامیابی و ناکامی، نشیب و فراز کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ایک دروازہ بند ہونے پر کئی دروازے کھلتے ہیں، یا کھولنے کے اقدام کیے جاتے ہیں۔
ٹھنڈے دماغ سے خود احتسابی کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ قوم کے درمیان یہ دیانت دارانہ طور پر واضح رہنا چاہیے کہ جس وقت ایم اے او کالج قائم کیا جا رہا تھا، اس وقت مغربی اتر پردیش(نارتھ ویسٹ پراونس) کے اعلیٰ طبقے کے مسلمانوں کی نمائندگی (تعلیم اور سرکاری ملازمت) ان کی آبادی کے تناسب میں بہت زیادہ تھی۔ اعداد و شمار کے لیے انیل سیل کی کتاب (1968) کا آخری باب، پیٹر ہارڈی کی کتاب (1972)، فرانسس رابنسن کی کتاب (1974)، اور ڈیوڈ لیلی ویلڈ کی کتاب (1978) دیکھی جا سکتی ہیں ۔ سر سید نے ایک سیلیکٹ کمیٹی بنائی تھی اس میں بھی ان اعداد و شمار کا اعتراف درج تھا۔ اس اعتراف پر علی گڑھ تحریک کے قدآورترین رہنماؤں کا "مصلحت پسندانہ” موقف یہ تھا کہ حقیقی اعداد و شمار (statistics) کی بجائے آئیڈیولوجی پر غور کیجیے کہ مسلم پسماندگی کی آئیڈیالوجی کا بیانیہ مشتہر کر کے ہی سرکاری مراعات حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ (ڈیوڈ لیلیویلڈ، 1978، صفحات 120 تا 122 اور صفحہ 103)۔
پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے کس طبقے نے، کس سیاست یا مصلحت کے تحت یہ بیانیہ تیار کیا کہ پورے بر صغیر کی مسلم قوم کا ہر طبقہ نہایت پسماندہ ہے؟ اور اس بیانیہ کا فوری فائدہ اگلی کئی دہائیوں تک کس مخصوص خطے کے کس مخصوص طبقے ہی کو ملتا رہا؟ یہ نہایت اہم سوال ہے، جس سے گریز کیا جارہا ہے۔
کیا جدید عہد کے بر صغیر میں مسلمانوں کی جدید تعلیم کا دارو مدار صرف علی گڑھ کالج پر رہا ہے؟
ملاحظہ فرمائیں پیٹر ہارڈی کی کتاب (1972) کا یہ اقتباس (صفحات 103۔104):
"علی گڑھ کالج کی لیمیٹیشنس پر غور کرنا بے حد ضروری ہے۔ کسی بھی عہد میں علی گڑھ کالج نے مسلم اکثریت کو گریجوئٹ ڈگریاں نہیں دی ہیں۔ حتی کہ مغربی اتر پردیش کے مسلم کی اکثریت کو بھی نہیں۔ سنہ 1882 سے 1892 کے درمیان کل 1184 مسلمان گریجوئٹ ہوئے۔ ان میں صرف 220 ہی علی گڑھ کے تھے۔ بلکہ علی گڑھ کو علیحدہ کرکے الہ آباد یونیورسٹی کے دیگر مسلم گریجوئٹ کی تعداد دیکھیے تو یہ 410 تھی۔ البتہ علی گڑھ نے یہ کیا کہ مغربی اور ہند اسلامی آداب سکھاتے ہوئے ان کے اندر یہ شعور بیدار کیا یا برقرار رکھا کہ وہ مغلوں کے عہد کے ہی ایریسٹوکریٹ نہیں ہیں بلکہ برطانوی عہد کے بھی ایریسٹوکریٹ ہیں۔ اسی لیے اس کالج کے رہائشی کردار پر خاصا زور تھا کہ لیڈرشپ، اسپورٹس، وغیرہ کی معرفت بھی یہ احساس قائم رہے اور توانا بنا رہے، ورنہ علمیت (اسکالرشپ) کے فروغ پر نسبتا بہت زیادہ زور نہیں تھا۔ ڈیبیٹنگ سکھانے پر زیادہ زور تھا، امتحانات میں بڑی کامیابی پر نسبتا کم ہی زور دیا جاتا تھا۔ البتہ مسلم قوم کو سیاسی اعتبار سے متحد بنانے کی ترکیبیں ضرور کی جاتی تھیں۔”
علی گڑھ ایک تعلیمی تحریک سے زیادہ ایک سیاسی تحریک تھی۔ اسی لیے مسلم ایجوکیشنل کانفرنس (قائم 1886ء) کالج کو یونی ورسٹی بنوانے اور گرلز کالج قائم کرنے کے علاوہ صرف مسلم لیگ کی علیحدگی پسند سیاست کا آلہ کار بنا رہا۔ سنہ 1898ء یعنی سرسید کی وفات کے بعد جب کالج کو یونیورسٹی بنانے کی ملک گیر تحریک چلائی گئی تو بنگال کے مسلمانوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اس سے بنگالی مسلمانوں کا کیا فائدہ ہوگا؟ تب بہ مقام راج شاہی (مشرقی بنگال، موجودہ بنگلہ دیش) سنہ 1904ء میں ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس منعقد کر کے انہیں بہلایا گیا کہ مسلم یونیورسٹی کو الحاق کا ملک گیر اختیار ہوگا۔
اب بتائیے کہ الحاق کس کا ہوتا؟ کیا بنگال میں علی گڑھ کی طرز کا کوئی رہائشی مسلم کالج تھا؟ یہ بھی واضح رہے کہ 1920 سے 1947 تک غیر منقسم بنگال و پنجاب ہی مسلم اکثریتی صوبہ تھا۔ لیکن اس عہد میں یعنی ستائیس برسوں میں کل 9 یا 10 بار وائس چانسلر مقرر ہوئے (تب، تین برسوں کی میعاد ہوتی تھی؛ بی ایچ یو کے وی سی کی میعاد آج بھی تین برس ہی ہے)، ان میں سر ضیاءالدین تو کئی بار وی سی بنے، بدعنوانی کے الزام کے بعد تو اور زیادہ شدومد سے متواتر بنتے رہے، لیکن کسی بنگالی یا پنجابی مسلمان کو وائس چانسلر نہیں بننے دیا گیا۔ (یہاں تک کہ سب سے زیادہ فنڈ دینے والے چانسلر نظام حیدرآباد نے لاہور ہائی کورٹ کے جج سر عبدالقادر کو وی سی بنوانے کا وعدہ لے بھی لیا تو سر ضیاءالدین نے غلط حرکتیں کیں اور وعدہ سے مکر کر پھر خود ہی وی سی بن گئے؛ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں، "کہانی ایک سیاسی وائس چانسلر کی، جو ممبر سنٹرل اسمبلی بھی تھے”۔(روزنامہ، آگ، لکھنؤ، 13 اپریل 2023)۔
ستمبر کی چار تاریخ اور 23 تاریخ سنہ 1875ء میں جسٹس سید محمود (فرزند سرسید) نے دو طویل خطوط انگریزی اخبار پاینئر میں شائع کروائے اور ان خطوط میں واضح طور پر بنگالی مسلمانوں کو کمتر قرار دیتے ہوئے یہ کہا کہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو ملنے والی مراعات میں مغربی اتر پردیش کے مسلم خواص کو ترجیح اور فوقیت ملنی چاہیے، کیوں کہ جسٹس محمود کے مطابق "تاریخی اعتبار سے مغربی اتر پردیش کے مسلم خواص کی سیاسی اہمیت اور وزن [ویزن نہیں] زیادہ ہے”۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سرسید نے سنہ 1871ء کی ہنٹر رپورٹ (بنگال کے مسلمانوں کی خستہ حالی کے اعداد وشمار) کا استعمال کر کے برطانوی حکومت سے مسلم خواص کے لیے مراعات حاصل کرنے کا بیانیہ تیار اور مشتہر کیا تھا۔ یعنی مسلم پسماندگی کا سیاسی بیانیہ تو تیار کیا گیا بنگال (بہ شمول بہار، آسام، اڑیسہ، جھارکھنڈ) کے نام پر، لیکن مراعات میں ترجیح مانگی گئی مغربی اتر پردیش کے مسلمانوں کی ۔
علی گڑھ کیمپس لائف کے جانکاروں کو معلوم ہے کہ آزادی سے قبل پنجاب و سندھ کے خلاف اور آزادی کے بعد بہار کے خلاف کیمپس کی روز مرہ کی لائف میں کس طرح کے تعصبات کا اظہار آئے دن ہوتا رہتا تھا اور اب بھی ہوتا رہتا ہے۔
آزادی کے بعد، مغربی و جنوبی ہند کے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کا سہرا علی گڑھ کی بجائے خود ان کے اپنے قائم کردہ اداروں کو جاتا ہے۔ مثلا بمبئی کے انجمن اسلام کے اسکولوں نے شاید زیادہ مسلمانوں کو جدید تعلیم فراہم کیا ہے۔
آج بھی علی گڑھ کے اہم ترین عہدوں پر کون لوگ طویل ترین مدتوں سے لگاتار قابض ہیں، یہ روداد ایسی ہے جس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
زمانے تک اسکولوں میں داخلے کے فارم بھرنے کی مدت اس قدر کم ہوتی تھی کہ ملک کے دور دراز کے طلبا و طالبات اور ان کے والدین کے لیے داخلہ امتحانات کے لیے علی گڑھ تک آنا تو مشکل تھا ہی، انہیں داخلے کے اشتہار تک کی جانکاری نہیں مل پاتی تھی۔
موجودہ عدالتی جدو جہد کے بارے میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ سنہ 1965 میں اگر 75 فی صد ریزرویشن کے مطالبے کو لے کر وائس چانسلر یاور جنگ پر قاتلانہ حملہ نہ کیا گیا ہوتا تو یونیورسٹی ایکٹ پر کوئی خطرہ نہ آتا، اور پھر 1967 کے عزیز باشا فیصلہ کی نوبت بھی نہ آتی (عزیز باشا تمل ناڈو کے تھے؛ مغربی اتر پردیش کے رہنے والے نہیں تھے)۔ اور ابھی کا مقدمہ بھی ہمارے سر پر اولے بن کر نہیں گرتا، اگر ہم سنہ 2005 میں مسلم ریزرویشن نہیں کرتے۔ انٹرنل ریزرویشن سے کام چل ہی رہا تھا۔ اور مسلم ریزرویشن کو سنہ 2005ء میں میڈیکل پوسٹ گریجوئٹ کورس ہی سے شروع کرنا تو اور بھی زیادہ بڑی اور خطرناک نادانی تھی۔
وائس چانسلر پینل بنانے کا موجودہ طریقہ کار بھی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس میں جو مبینہ گھپلے ہوئے ہیں، وہ ایک الگ داستان ہے۔ ایک انٹرنلی سرکولیٹیڈ میمو کے تحت بتایا گیا کہ پانچ دنوں کے بعد 30 اکتوبر 2023 کو اے ایم یو کی ایگزیکیوٹیو کونسل وائس چانسلر کا پینل بنائے گی، یعنی ملک گیر پیمانے پر خواہاں امیدواروں کو جانکاری نہ دینے کی حتی المقدور ترکیبیں کی گئیں اور بیس بائیس لوگوں (ای سی ممبران) میں سے بیش تر انٹرنل ممبروں نے ہی، اپنی تگڑموں اور ترکیبوں سے صرف انٹرنل امیدواروں کا پینل تیار کر لیا۔
اب سے کچھ روز قبل ایک خاتون کی آواز میں ایک وائس میسج وہاٹس ایپ پر علیگوں کے درمیان سرکولیٹ ہو رہا تھا۔ اس میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے پر گہری فکر و تشویش کا اظہار تھا۔ دعاؤں کی درخواست تھی۔ تشویش کی بڑی وجہ ان محترمہ کے لیے یہ تھی کہ اگر مقدمہ ہار گئے تو وائس چانسلری کسی اور کو ملا کرےگی۔ ترجیحات کی اس سیاست کو سمجھنا ہوگا۔ دردمندی اور خیر خواہی سے لبریز اس خاتون کو یہ کہنے میں تامل رہا کہ یونیورسٹی کی ملازمتوں (داخلوں کے علاوہ) میں 60 فی صد کا ریزرویشن نافذ کرنا پڑ سکتا ہے، جن ملازمتوں پر، موجودہ طریقہ کار میں صرف ایک صوبے (یا دوسرے صوبے کا کچھ شیئر ہے) کا تقریبا مکمل قبضہ ہے۔
ہماری دعا ہے کہ سپریم کورٹ میں فیصلہ ہمارے اقلیتی اسٹیٹس کے حق میں ہو۔ آمین۔
لیکن کیا ہم ایمانداری اور دیانت داری سے خود احتسابی اور یونیورسٹی کی موجودہ متعصبانہ پالیسیوں اور عمل میں ضروری اصلاح اور انصاف پسندی کے نفاذ کی نیت بھی رکھتے ہیں؟
سر دست ہم مالی بدعنوانیوں، سرقہ بازوں کو نوازے جانے، جاہلوں اور نااہل اساتذہ کو انتظامی امور میں فوقیت دیے جانے ، امتحانات سے متعلق بدعنوانی وغیرہ جیسے سنگین مسائل کے ذکر سے پرہیز کرتے ہیں۔
معیاری تحقیق و تدریس کرنے والے اساتذہ کو پریشان اور ذلیل کرنے کا جو سلسلہ ہے، اس کے ذکر سے بھی سر دست گریز کرتے ہیں۔ ان خیر مقدم باز این آر آئی اولڈ بوائز کے ذکر کو بھی التوا میں رکھتے ہیں جو اندریش پرستوں کی ریاض، جدہ، دوحہ، لکھنؤ، دہلی وغیرہ میں مہمان نوازی اور خیر مقدم کرتے ہیں ۔
لیکن بہ حیثیت مجموعی کیا ہمیں اعتراف و احساس بھی ہے کہ ہم بے ایمانی اور منافقت کے مرتکب ہیں اور رہے ہیں؟ اصلاح کا سلسلہ تو اعتراف کے بعد ہی شروع ہوگا!
مجھ انسائڈر کو تو لگتا ہے کہ ایسی کسی بھی بے ایمانی اور بد دیانتی کا احساس تک ہم میں سے بیش تر کو نہیں ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے اور ہمیں ہدایت دے۔ آمین
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)