شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی، دہلی
(M)9810532735
[email protected]
علی جاوید بھائی سے پہلی ملاقات 18نومبر،2002کے ایک دو دن بعد شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی کے اسٹاف روم میں تب ہوئی تھی جب میں یہاں بطور لیکچرار جوائن کرچکا تھا۔ جانے کیوں وہ اوروں سے مختلف لگے ۔میانہ قد،گورا رنگ ،سر پہ چاندی سے چمکتے گھنے سفید بال، کالی بھویں،ہلکی مونچھیں ،ہونٹوں پہ مسکان ، بے شکن تروتازہ چہرہ ، شفاف پیشانی اورروشن آنکھیں۔ انھوں نے استری کیا ہوا تنگ مہری کاپاجامہ اور اجلا کرتا زیب تن کیا ہوا تھا۔کرتے پہ ہلکے سبز رنگ کی باریک پٹیاں آنکھوں کو بھلی لگی تھیں۔ پاؤں میں انھوں نے سرخی مائل بادامی کلر کے سینڈل پہن رکھے تھے اور دائیں ہاتھ میں سہ ماہی اقدار کے کسی شمارے کی کاپی تھی جس کے وہ خود مدیر تھے ۔تعارف سے جب پتہ چلا کہ اسی شعبے میں سینئر ریڈر ہیں تو لمحے بھر کے لے چونکاکہ مادر علمی علی گڑھ کے شعبوں میں کسی طالب علم یا استاذ کو بغیر شیروانی کے محض کرتے پاجامے میں نہ کبھی آتے دیکھا ،نہ سنا اور نہ ہی سوچا جا سکتا تھا۔بہر حال پہلا تعارف شناسائی،میل جول اورقربت سے ہوتا ہوا ایک ایسی دوستی میں ڈھل گیاجس میں احترام،لحاظ،بے تکلفی اور انڈر اسٹنڈنگ سبھی شامل تھے۔
وہ بہت ہی ذہین ، مہذب اور وضع دار انسان تھے۔ان کے اندر ایک سلیقہ اور رکھ رکھاؤ تھا۔ گفتگو نرمی سے اور باتیں مزے کی کرتے تھے ۔ کسی طرح کاتعصب ،منافقت اور کینہ نہ رکھتے ۔خیالات کا اظہار برملا اور شکایتیں منھ پر کرتے اور لڑائیاں آمنے سامنے کی لڑتے تھے۔ ذاتی طور پر علی جاوید بھائی جیسی یادداشت والی محض دو شخصیتوں کوقریب سے دیکھا ہے ؛ ایک پروفیسر آل احمد سرور اور دوسرے پروفیسر شمیم حنفی کو۔ ان میں کے تیسرے علی جاوید بھائی تھے۔ علی جاوید بھائی کوبکثرت اردو، فارسی کے اشعار،طویل نظمیں، مرثیے ،عمدہ اور مزاحیہ نثر پارے،ہندی کے دوہے اور چوپائیاں اور سنسکرت کے کچھ اشلوک ان کی نوک زبان پرتھے ۔ابن انشاء کی’ آخری کتاب ‘کے تقریباً تمام قند پارے،مشتاق یوسفی،پطرس بخاری کے مزاحیہ متن اور سجاد ظہیر، پروفیسر احتشام حسین وغیرہ کے تنقیدی جملے بھی ازبر تھے۔اسی طرح لوگوں کے نام،شہروں کے راستے،خطوں کے پتے،ٹیلی فون اور موبائل کے نمبر تک انھیں یاد ہوتے۔
پکے کمیونسٹ تھے لیکن مذہبی معلومات ،فقہی مسائل اور اپنے مسلک کی جزئیات سے ان کی واقفیت حیرت انگیز تھی۔خدا کے قائل نہ تھے مگر اس کے انبیا و رسل اور مقدس بندوں پرایقان رکھتے تھے ۔ مجلسی آدمی تھے ، دیر دیر تک دوستوں اور ہم جولیوں کے ساتھ بیٹھتے اور باتیں کرتے۔خوش گپیاں پسند تھیں تاہم مزاج یا نظریے کے خلاف کوئی بات ہوتی تو گفتگو کو مناظرانہ ڈگر پر لے آتے ۔ البتہ اس سلسلے میں کج بحثی نہیں کرتے ، دلائل اور حوالوں کو بڑی فراخ دلی سے قبول کرلیتے تھے۔
ستمبر2006میں انجمن اساتذۂ اردو جامعات ہند کی انیسویں آل انڈیا کانفرنس کشمیر کے سب سے اونچے تفریحی مقام پٹنی ٹاپ میں رکھی گئی تھی۔ ایک ساتھ جانے والوں میں علی جاوید بھائی ،شاہد پرویز بھائی ، میں،ڈاکٹر نجمہ رحمانی ،ڈاکٹر ارجمند آرا اور ڈاکٹر فرحت رضوی تھیں۔ٹرین میں رات کے کھانے کے بعد بات چل نکلی تومختلف شعری اصناف تک جا پہنچی،پھر کیا تھا، علی جاوید بھائی نے غز ل،ہزل ،قطعات، عشقیہ ، طنزیہ ، مزاحیہ نظمیں، ہجویہ قصیدے اور کلاسیکیت کے اعلیٰ کلام سے لے کر جدیدیت کی بے تکی شاعری تک کیا کیا نہ سنا ڈالے۔ علامہ اقبال کی خضر راہ ، اخترالایمان کی ایک لڑکا ، جعفر زٹلی ،فیض، فراز،سردار، کیفی اور حبیب جالب کے سیاسی ، رومانی اور فکری شاعری سے ساغر خیامی کی مزاحیہ شاعری تک۔ مارے شوق کے آس پاس کے مسافر ہمارے کمپارٹمنٹ میں جمع ہوکر ہم لولوگوں کے ساتھ داد دینے اور فرمائشیں کرنے لگے تھے ،اور علی جاوید بھائی پر تو جیسے ایک سرشاری کی کیفیت طاری تھی،ایسی کہ کیا کسی مشاعرہ بازشاعر پر ہوگی۔پروفیسر شاہدپرویز انھیں روک کر مجلس برخاست کرنے اور سونے کا اعلان نہ کرتے تو جانے وہ کب تک اور کیا کیا سناتے رہتے۔پھر بھی یہ’’ ون شاعر مشاعرہ‘‘تقریباً دو گھنٹے تک چلتا رہا۔
ایک بار پٹنہ میں قومی کونسل کی جانب سے بڑے پیمانے پر کانفرس کی ۔افتتاحی پروگرام میں بہار کے گورنر آئے ہوئے تھے ۔ پروگرام کے اختتام سے ذرا پہلے گورنر کے عملے کے ایک صاحب نے اسٹیج پر آکر آہستگی سے کان میں کہا گورنر صاحب کے جاتے وقت راشتریہ گان ہوگا ، انتظام ہے نا؟انتظام کیا کسی کو خیال تک نہ تھا۔چند لمحوں میں انتظام ممکن بھی نہ تھا۔ سب پریشان، لیکن علی جاوید بھائی کا چہرہ بالکل نارمل جیسے کہہ رہے ہوں کیا فرق پڑتا ہے۔ گورنر صاحب کی تقریر ختم ہوتے ہی علی جاوید بھائی نے اعلان کیا اب راشٹڑیہ گان ہوگا ، تمام حضرات کھڑے ہوجائیں۔یا خدا یہ ہو کیا رہا ہے،نہ کسی گانے والے کو بلایا گیا ہے ، نہ ریکارڈنگ کا انتظام ہے۔حیرت کے بھنور سے تب نکلا جب دیکھا علی جاوید بھائی بڑے احترام اور خوش الحانی سے راشتریہ گانا گارہے ہیں۔کیا مجال جو پورے گانے میں کہیں بھی تلفظ، ترنم یا طرز ادا میں کوئی جھول آیاہو۔
خواہشوں کے باوجود اُن کے مزاج میں ایک نوع کی بے نیازی تھی ۔ دوسروں کے کام کے تئیں وہ ذمہ دار اور پابند تھے ،مگر اپنے کاموں سے کسی حد تک لاپروا ۔معاملہ کتنا ہی بڑا اور اہم کیوں نہ ہواسے اپنی باتوں سے ہی نہیں عمل سے بھی ایسا ہلکا پھلکا بنادیتے جیسے یہ اہم معاملہ نہ ہوا ، ڈھابے پر بیٹھ کر چائے پینے جیسی تفریح ہو۔مارچ 2005میں’اساتذہ اور طلبا کے رشتے‘ کے عنوان سے انجمن اساتذۂ اردو جامعات ہند کی اٹھارھویں کانفرنس کے انعقادکی تیاری دہلی یونیورسٹی میں بڑی دھوم دھام سے کی،کانفرنس سے ٹھیک دودن پہلے کہنے لگے کل مجھے پاکستان(غالباً) جاناہے،آپ ہیں، نجمہ ہے ، اور لوگ بھی ہیں سب مل کر اسے دیکھ لیجیے گا (دیکھ لیجیے گا بمعنی سنبھال لیجیے گا)۔ دہلی یونیورسٹی میں ہی پرگتی لیکھک سنگھ (انجمن ترقی پسند مصنفین) کی آل انڈیا کانفرنس کا انعقاد کیا گیاجس میں پورے ہندوستان سے تمام زبانوں کے مندوبین بلائے گئے تھے۔دو دن پہلے ہم تین چاردوستوں کے ساتھ بیٹھے ،کہنے لگے : ’ہندوستان کے ہر صوبے سے ڈیلی گیٹس آرہے ہیں، ان کے ٹھہرنے اور کھانے پینے کا بندوبست کرنا ہوگا،اسٹیج تیار کرنا ہے، ڈیلی گیٹس کی لسٹ بناکر انھیں بیگ تقسیم کرناہے ، پروگرام ترتیب دینا ہے، دیکھ لیجیے ہم لوگوں کو کیسے کرنے ہیں سارے کام ، کچھ طالب علموں کوبھی ذمہ داریاں سونپنی چاہئیں تاکہ ان کی ٹریننگ ہوجائے ۔
وقت سے پہلے ہی ‘کانفرنس ہال کے اندر اور آس پاس بھیڑ جمع ہوگئی۔ سب لوگ اپنے اپنے کام انجام دے رہے تھے ۔ علی جاوید بھائی رات سے ہی لاپتہ تھے۔ سب ایک دوسرے سے پوچھتے کہ علی جاوید بھائی کہاں ہیں؟ جواب سب کے پاس ایک تھا ’ہوں گے کہیں۔ ‘ کانفرنس کے شروع ہونے میں جب چند منٹ رہ گئے تو دیکھا مسکراتے ہوئے آرہے ہیں۔پوچھا کہاں تھے، کہنے لگے ارے ذرا دیر میں آنکھ کھلی ،سوچا ناشتہ کرکے ہی چلوں۔‘ ان کا اپنے تمام پروگراموں سے وہی برتاؤ ہوتا جو کسی بے فکرے کا بیگانے کی شادی سے ہوتا ہے؛ نہ کوئی الجھن ، نہ بے چینی، نہ ہاو ٔہو،نہ کسی طرح کا شو اَپ۔اکثر پروگراموں کے انعقاد میں ہم لوگ متعینہ وقت سے ذرا پہلے پہنچتے اور ہر لمحے اس خدشے میں مبتلا رہتے کہ پتہ نہیں سامعین آئیں گے بھی یا نہیں،بعض دوستوں کی زبان سے نکلتا خدا جانے علی جاوید بھائی بھی آئیں گے یا نہیں۔ لیکن اُن کی بے فکری کے باوجود حیرت انگیز طور پراُن کے پروگرام بے حد کامیاب ہوتے ۔اب اللہ جانے یہ علی جاوید بھائی کی کرامت تھی یا ان کے دوستوں اور چاہنے والوں کی ان سے بے لوث محبت۔
یہ واقعہ ہے کہ علی جاوید بھائی شناساؤں کو ناراض کرنے میں موقع محل کا خیال نہ رکھتے تھے اور دشمن بنانے کا جوہنراُن کو آتا تھا، کسی اور کو کیا آتا ہوگا۔ اس معاملے میں وہ جن طریقوں کا استعمال جس بے باکی اور اعلانیہ طور سے کرتے تھے ان طریقوں کا استعمال درویشی کی سلطنت میں تو عام ہے، علم و ادب اور سیاست کی دنیا میں ممنوع نہ سہی ،شاذ ضرور ہے ۔کیا عجب کہ علی جاوید بھائی کو دشمن بنانے کا یہ غیر معمولی ہنر انھیں عربی شاعروں کے جذبۂ اظہار کے علم سے حاصل ہوا تھا، یا اُن کی اپنی ہی مصلحت نااندیشی اور منافقت سے لاعلمی کی بنا پر ، یاپھر حق پرست درویشوں اور بے نیاز صوفیوں ،رشیوں کی بے باکی سے واقفیت کی بدولت۔اسی لیے تو طالب علمی کے زمانے سے وہ کمیونسٹ پارٹی اور یونیورسٹی کی سیاست میں سرگرم عمل رہنے کے باوجود پنڈت جواہر لال نہرو کی طرح موقع بے موقع سچ بولنے سے باز نہ آتے۔ جھوٹوں کو آئینہ دکھانے میں شاید انھیں مزہ آتا تھا،مکاروں سے معاملات کرتے ہوئے اسے اس کی پچھلی مکاری بالعموم یاد دلادیتے ، کوئی دوست ان سے کسی مشترکہ دوست کی شکایت کرتا تو کہتے ’’آپ کسی اور کے سامنے میری بھی اسی طرح شکایت کرتے ہوں گے ۔‘‘ میرے ایک بہت پرانے دوست نے ان سے فون پرطویل گفتگوکرتے ہوئے ایک مخصوص ریاست کے تمام لوگوں کے بارے میں نا معقول مفروضوں کا اظہار کیا توانھوں نے میرے دوست سے کہا ’’سب ایسے نہیں ہوتے ، آپ اپنے دوست ۔۔۔۔ کو ہی دیکھ لیجیے،موصوف نے جواب دیا وہ تو ٹھیک ہے ، لیکن ہے تو وہ بھی اسی خطے کا۔ دوسرے دن علی جاوید بھائی نے اسٹاف روم میں کئی کولیگ کے سامنے مجھ سے کہا ’’ بھئی ۔۔۔۔ ہے تو آپ کا دوست لیکن آدمی اچھا نہیں ہے،میں تو اسے سنجیدہ سمجھتا تھا۔ بہر حال مجھے ان سے جو کہنا تھا میں نے کہہ دیا ،آپ ابھی فون کرکے ان سے پوچھیے کہ تم نے علی جاوید سے ایسا کیوں کہا۔‘‘ میں نے جواب دیا:علی جاوید بھائی !آپ بہت سے ایسوں کو نباہ رہے ہیں،ایک دو میرے حصے میں بھی سہی۔ یہ سن کر زور کا قہقہہ لگایا۔
جمہوریت اور انسان دوستی کے معاملے میں وہ اکثر جذباتی ہوجاتے تھے۔تب ذات پات،عقیدے ،کلاس ، اقتدار، صاحب اختیاراور مذاہب تک کو تنقید کانشانہ بنانے سے نہ چوکتے ، نہ ہی ذات پات، عقیدے، کلاس اور مذاہب میں شدت سے یقین رکھنے والے دوستوں کی پروا کرتے تھے ۔وہ حبیب جالب کے زبردست مداح ہونے کے باوجود اُن کے اس طنزیہ شعرپر ایقان نہیں رکھتے تھے:
حق اچھا پر حق کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا
تم بھی کوئی منصور ہوجو سولی پہ چڑھو ،خاموش رہو
سو، ان کے لیے حق اچھا تھا اور حق کے لیے مرنے کو بھی ہمہ وقت خود ہی آمادہ رہتے تھے ۔بھلے ہی وہ منصور نہ تھے لیکن سولی پرمنصورسے بدرجہا زیادہ بار چڑھے ،چڑھائے گئے، اورظلم اور ناانصافی کے خلاف خاموش رہنا تو شاید ان کی سرشت میں تھا ہی نہیں۔ دنیا کے کسی خطے میں جبر وزیادتی ہو وہ اپنی حد تک اس کے خلاف آواز ضرور بلند کرتے یا اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں آواز ملانا اپنا فرض جانتے ۔ کیا مجال جو کوئی خوشامد یا غلط بیانی یا غلط کام کرے اور وہ خاموش رہ جائیں،خواہ سامنے والا طالب علم ہو، دوست، بزرگ یا اعلیٰ عہدیدار کیوں نہ ہو۔اس معاملے میں وہ موقع محل کی نزاکتوں کوبھی طاق پر دھر دیتے تھے ۔ ان کی بے باکی ، بے لاگی ، حق گوئی اوران کے سولی پر چڑھنے کے شوق کے کئی چشم دید واقعات میں سے ایک یہ ہے کہ شاستری بھون میں این۔سی ۔ پی۔یو۔ایل کی ایگزیکٹیوکمیٹی کی میٹنگ تھی۔میٹنگ کی صدارت اس وقت کے ایچ۔ آر۔ ڈی منسٹر جناب ارجن سنگھ صاحب کر رہے تھے۔ ممبران میں ’ذہن جدید‘ کے مدیرجناب زبیر رضوی، اہم اکٹیوسٹ اور شاعر گوہر رضا،حیدرآباد سے جناب جلیل پاشا اور دوسرے حضرات کے علاہ این۔سی۔پی۔یو۔ایل کے وائس چیئرمین محترم شمس الرحمٰن فاروقی، ڈائریکٹر علی جاوید اور پرنسپل پبلی کیشن آفیسر کی حیثیت سے میں بھی موجود تھا۔ممبران کو ایجنڈے کی جو کاپی بھیجی گئی تھی اس میں یہ تجویز بھی شامل تھی کہ کونسل سے ہر عمر کے تخلیق کار اور ناقدین و محققین کو ایوارڈز دیے جائیں۔جب ایک ممبر کی گفتگو کی باری آئی تو انھوں نے لمبی تقریر شروع کردی، اور ہر ایک ڈیڑھ منٹ کے بعد بڑے پرجوش انداز میں کہتے کہ کونسل سے دیے جانے والے ایوارڈز کے نام ارجن سنگھ ایوارڈ رکھے جائیں،اس تجویز پر کئی ممبران کی گردنیں بھی اثبات میں ہل رہی تھیں۔علی جاوید بھائی نے تقریر کرنے والے سے کہا وقت محدود ہے، آپ نے اپنا خیال پیش کردیا ،اب دوسروں کو موقع دیجیے۔تیسری بارٹوکنے کے باوجود جب ان کی تقریر جاری رہی تو علی جاوید بھائی ان کے بغل میں جاکھڑے ہوئے،ایک ڈیڑھ منٹ تک انتظار کیا اور پھرنرمی سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انھیں بٹھانے کے بعد کمیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’ارجن سنگھ جی ہمارے کرم فرما ہیں، ہم ان کا احترام کرتے ہیں ۔ کونسل نے شاعرو ادیب اور نقادوں کوایوارڈزدیے جانے کا پروپوژل پیش کیا ہے، اگر یہ منظور ہوجاتا ہے تو اردو میں میرؔ، غالبؔ،فراقؔ اورسرشار جیسے بڑے بڑے شاعر و ادیب ہیں، ایوارڈز ان کے نام پر رکھے جائیں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ محترم ارجن سنگھ جی کو بھی اس پر اعتراض ہوگا ۔ ‘‘یہ بات کسی دھماکے سے کم نہ تھی ، تاہم ارجن سنگھ جی کا چہرہ کسی بھی طرح کے تاثر سے بالکل عاری تھا، البتہ بقیہ ممبران کے چہروں پر حیرت، تعجب ، اچنبھے اور سکتے کی کیفیتیں جیسے لمحہ بھر کے لیے جم سی گئی تھیں۔
اسی نوع کا دوسرا واقعہ بھی سن لیجیے کہ مولانا آزاد نیشنل اردو اوپن یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر شمیم جے راجپوری کے ریٹائر ہونے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سینٹر فار انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ہال میں ان کی کتاب کی رسم اجرا کی بڑی ہی پر وقار تقریب تھی ،جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے سابق وزیر اعظم محترم جناب اندر کمار گجرال صاحب ڈائس پر تشریف فرما تھے۔ تقریباً سبھی مقررین کی گفتگو میں اردو زبان کی شیرینی،اس کی ترقی،اس حوالے سے مولانا آزاد یونیورسٹی کی خدمات ، پروفیسر شمیم جے راج پوری کی حسن کارکردگی اور جناب اندر کمار گجرال صاحب کی تعریفیں ضرور شامل ہوتیں۔ علی جاوید بھائی تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو رسمی جملوں کے بعد یوں گویا ہوئے : ’’بہت دنوں سے اردوکی ترقی ، اس سے محبت اور اس کے لیے کوشش اور قربانی کی باتیں کی جاتی رہی ہیں، لیکن اردو کا جو حق اسے ملنا چاہیے وہ ابھی تک نہیں ملا۔آپ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اردو کو جائز حق دلانے کے لیے محترم اندر کمار گجرال صاحب کے زیر قیادت گجرال کمیٹی بنی، سفارشات پیش کی گئیں ، لیکن وزیر اعظم رہتے ہوئے بھی گجرال صاحب نے اردو کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘ ‘صاف دیکھا گیا کہ گجرال صاحب کے چہرے پر پہلے سے نکھری ہوئی دمک یک لخت ماند پڑ گئی ، شانے ڈھیلے ہوئے اور کرسی پر تنا ہوا جسم قدرے جھک گیا۔
مرزا اسداللہ خاں غالب کی مانند علی جاوید بھائی کے دوستوں میں بھی طرح طرح بلکہ بقول ابن صفی بھانت بھانت کے لوگ شامل تھے: مولوی، موالی ،مفتی، مولانا، مزدور، منافق ، منسٹر،متعدد ریاستوں کے سربراہان ،جج، وکیل،آئی۔جی، پولس کمنشنر، شاعر، ادیب، اسکالر ، اساتذہ، ایکٹی وسٹ ، میڈیا پرسن ،مستورات ،فلمی ہستیاں، مختلف ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کے عہدیداران، اداروں کے ذمہ داران اور بالکل نچلی سطح کے خدمت گاران بھی ۔ حسب مراتب سبھوں سے ان کی بے تکلفی تھی ،برتاؤ تھا۔ نہ کسی سے کچھ کہنے میں جھجکتے ، نہ کسی کی سننے میں کوتاہی برتتے ۔بالعموم وہ سامنے کسی کی تعریف نہیں کرتے ،مگر اُن میں جو خامیاں ہوتیں بوقت موقع منھ پر کہہ دیتے تھے، بلکہ ان کے دشمنوں میں جو اچھائیاں ہوتیں ان کا تذکرہ بھی انھی کے سامنے کرجاتے ،جس کے نتیجے میں ماہ بہ ماہ ، سال بہ سال ان کے دوستوں کی گنتی گھٹتی اور دشمنوں اور بدظنوں کی تعداد بڑھتی رہتی تھی۔ غالباًان کاایک بھی ایسا دشمن نہیں ہے جو اُن کادوست نہ رہ چکا ہو ، ہاں یہ ضرور ہے کہ سیاسی حریفوں کی مانند ان کی دشمنی بھی کبھی پرماننٹ نہیں ہوتی تھی۔وہ دوستی نبھانا جانتے تھے مگر دوستی کی نزاکتوں کا لحاظ کم کرتے ، البتہ اُن کے وہ دوست جو اُن کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھے ، رشتے کے اس نازک آبگینے کوبچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ ایسے دوستوں میں پروفیسر شاہدپرویز بھائی ،معروف جرنلسٹ ڈاکٹرفرحت رضوی ،پروفیسر اپوروا نند،پروفیسر سبودھ مالاکار، پروفیسر پرشوتم اگروال ، ریٹائرڈ آئی۔پی۔ایس آفیسراور ناول نگار جناب وی۔این۔رائے ،مشہور ڈراماٹسٹ انیس اعظمی اورمفتی عطاء الرحمان قاسمی جیسے حضرات کی ایک طویل فہرست ہے۔
دوستی میں ان کا اصول تھا کہ آدمی اچھا ہو، سچا ہو ، بیباک ہو، کم ظرف نہ ہو۔اسی طرح دشمنی کے لیے بھی انھوں نے کچھ اصول بنا رکھے تھے ، ایک معیار طے کررکھا تھا۔چنانچہ اس رشتے میں انھوں نے کم عیاروں کو کبھی بھی اپنا مد مقابل بننے کا شرف نہیں بخشا۔ ان کی لڑائیاں ہمیشہ اونچی سطح کے لوگوں سے رہیں، براہ راست رہیں اور بالعموم نظریاتی اور اصولی بنیادوں پر رہیں، محض پسند و نا پسند اور اغراض کی تکمیل اور عدم تکمیل کا معاملہ تقریباً نہ کے برابر تھا۔ اس رشتۂ ناپسندیدہ یا کہیے ان کے اس پسندیدہ رشتے سے جو شخصیات منسلک رہیں ان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ ،پروفیسر قمر رئیس ،ڈاکٹر خلیق انجم ، پروفیسر نامور سنگھ جی ،پروفیسر اخترالواسع اور پروفیسر عبدالحق کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں ۔ ایسی لڑائیوں میں حریفوں سے ان کی گفتگو بند نہ ہوتی لیکن انھیں طنز وتشنیع کا نشانہ بنانے اور ان کی خامیاں بیان کرنے سے مطلق پرہیز نہ کرتے ۔ ہاں اگلے مرحلے یا اگلی قسط میں پھر سے دوستی ہوجاتی یا شکوک وشکایات رفع ہوجاتے تو اور بات تھی ،دل ایسا صاف ہوجاتا جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو،مگر ان سے متعلق ان کی رائیں جوں کی توں رہتیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ علی جاوید بھائی دور اندیش تھے ، مگر دور اندیشی پر عمل کرنے سے جیسے انھیں بیر تھا۔کسی کمیٹی یا کسی ادارے کا کوئی ناپسندیدہ شخص سربراہ بنا دیا جاتا تو اس کمیٹی یا ادارے سے وہ احتجاجاً نہ صرف خود مستعفی ہوجاتے تھے بلکہ قریبی دوستوں سے بھی ایسا کرنے کو کہتے ،اس نوع کی ان چاہی قربانیاں سب سے زیادہ ان کے بے حد گہرے دوست اوران کے سخت ناقد پروفیسر شاہد پرویز بھائی کو دینی پڑی۔ فیصلے وہ بالعموم حد درجہ محبت اور زبردست احتجاج کے جذبات سے مغلوب ہوکریا پھر بہت ہی عجلت میں کرتے تھے،جن کے نتائج اسی طور سامنے آتے جو اس طرح کے جذبات اور جلد بازی میں لیے گئے فیصلوں کے ہوتے ہیں۔جب چڑیاں کھیت چُگ جاتیں تو کہتے :’’ میں نے سوچا تھا آدمی شریف ہے، سنجیدہ ہے، یہ تو بہت ہی نالائق نکلا،چاپلوس ہے، غلط اعتماد کیا اس پر۔ ‘‘یا یوں کہ ’’یہ کام غلط ہوگیا،فیصلے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے تھی مجھے۔‘پھر مجھے مطمئن کرنے اور خود کو تسلی دینے یافیصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے خود کلامی کے سے لہجے میں کہتے : ’’اس وقت کے لحاظ سے تو ٹھیک ہی تھا۔‘‘ شاید اسی ’خود تسلی ‘ کی نفسیات کے باعث انھوں نے اپنے کسی فیصلے پر بظاہر کبھی غم نہیں کھایا، افسوس نہیں کیا،اور اگر کیا بھی توبقول غالبؔ :’’ برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم‘‘ کی مانند ۔
یہ بھی سچ ہے کہ وہ مختلف النوع لوگوں سے معاملات اور طرح طرح کے تجربات رکھنے کے باوجود زمانہ شناس ذرا کم تھے، اور مردم شناس توشاید بالکل نہیں۔اپنے بعض سینئر دوستوں ،رفقائے کار اوراداروں کے سربراہوں سے متعلق سب کچھ جانتے اور کہتے ہوئے کہ ’’ ریکیٹئر ہے،خود غرض ہے ، خوشامدی ہے‘، جاہل ہے ‘،مکار ہے، منافق ہے‘، ان کی باتوں میں آجاتے ،ان پر یقین کر لیتے تھے ۔ خدا جانے وہ ایسا اپنی سادہ دلی کے باعث کرتے تھے،کسی موہوم امید پر، یا ایک اورتجربے سے گزرنے کے شوق میں۔ ایسے لوگوں سے ان کے تعلقات ساون بھادوں کی دھوپ چھاؤں جیسے تھے، گاہے دوستی ،گاہے بد ظنی یاناراضگی۔یہ ضرور تھا کہ ان کی دوستی کا عرصہ ہجر کی راتوں جیسا طویل ہوتا،ناراضگی کا وقفہ وصل محبوب کا سا مختصر، اور جو مختصر نہ ہوتا تو وہ خود کرلیتے ، کبھی ان پر دل کی بھڑاس نکال کر، کبھی ان کی پشیمانی یا پریشانی پرترس کھاکر اور کبھی اپنے آپ ہی مسکراہٹوں اورصاحب سلامت کے وسیلے یا کسی نئے پلان کے توسط سے ۔ البتہ جن لوگوں سے انھیں حد درجہ دلی صدمہ پہنچتا،یا جنھیں حتمی طور پر وہ برا مان چکے تھے ان کے تعلقات پر تالے لگاکر چابیاں دریائے فرات میں پھینک دیتے۔
ان کے کئی بزرگ، ہم عصر اور جونیئر دوستوں نے بعض معاملات بالخصوص ان کے پروفیسر شپ کے پروموشن میں انھیں فریب دیا ، اندھیرے میں رکھا ،پسِ پردہ دل وجان سے ان کی مخالفت کی اور ان کے خلاف سازشیں رچیں۔سو، وہ اپنے ایسے اردو دوستوں یا کہیے بعض رفقائے کار کی منافقانہ عنایتوں کے باعث وقت معینہ سے برسوں بعد تب بمشکل پروفیسر بن پائے جب ان کے ریٹائر منٹ میں محض دو دن باقی رہ گئے تھے۔یہاں اس بات کا ذکر شاید بے جا نہ ہو کہ ان کے پروفیسر بننے میں جن حضرات نے حد درجہ معاونانہ، مخلصانہ اور مثبت کردار ادا کیے وہ علی جاوید بھائی کی دوستی، ان کے نظریات اور عقائد کے لحاظ سے بعدالمشرقین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں پروفیسر سید محمد ہاشم، پروفیسر معین الدین جینابڑے اور پروفیسر شہزاد انجم کے نام لائق ذکر ہیں۔ اس واقعے کے بعد میں اُن سے از راہِ مذاق کہا کرتا : ’علی جاوید بھائی اب تو خدا پر ایمان لے آئیے کہ آپ کے خلاف سازشوں اور کھلی مخالفت کے مقابلے خدا نے آپ کی حمایت میں آپ کے عقیدے اور نظریے کے برعکس اپنے اُن نیک بندوں کو لاکھڑا کیاجن سے آپ کو کوئی امید نہ تھی۔‘ وہ زور کا قہقہہ لگاتے اور کہتے: ’ ہاں!ان لوگوں نے ایمانداری ، علمیت اور شرافت کا ثبوت دیا ہے ۔
علی جاوید بھائی کی رواداری ہی تھی کہ انھوں نے اپنے خلاف ہونے والی ہر ایک سازش اور مخالفتوں کو جانتے ہوئے بھی اُن رفیقوں (؟)سے کچھ کہا سنی نہیں کی اورتعلقات کو جوں کا توں رکھا ، شاید اس لیے کہ یہ لوگ ان کی دشمنی کے اعلیٰ معیار پر پورے نہ اترتے تھے ۔ مگر دوستوں سے ان کی عیاریوں اور منافقتوں کا ذکر ثبوت اور حوالوں کے ساتھ ضرور کرتے، بوقت تذکرہ اگر ان حضرات میں سے کوئی موجود ہوتا تو اسے مخاطب کر کے کہتے کہ آپ نے میرے خلاف یہ یہ سازشیں کیں،ثبوت یہ یہ ہیں۔
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے وسط میں جب مظلوموں اور بے بضاعت بندوں کی حمایت میں آنے والے ادیب و شاعر، فنکار، انٹلکچوئلز، اساتذہ اور اکٹیوسٹوں کے ساتھ سرمد و منصور جیسے سلوک کیے جانے لگے تو اظہار آزادی ،بے باکی اور حق گوئی کے بہت سے خود ساختہ علم بردار گاندھی جی کے آئیڈیل بندروں کی مانند اپنی آنکھیں، کان اور منھ بند کر کے حصار ذات کی عافیت گاہوں میں محصور ہوگئے ۔ اس لیے نہیں کہ وہ غلط نہیں دیکھیں گے،غلط نہیں سنیں گے اور غلط نہیں بولیں گے۔بلکہ ا س خوف سے کہ کہیں سچی باتیں دیکھنے ،سننے اور بولنے کے جرم میں انھیں بھی’حضرت ناصح‘ کا باغی نہ تصور کرلیا جائے اور ان کے ساتھ بھی سرمد و منصور کا سا سلوک نہ کیا جائے۔مگر علی جاویدبھائی ایسے مصلحت پسند اساتذہ ، اسکالرز اور عوام میں شامل ہی کب تھے ،انھیں زمانہ شناسی اور مصلحت اندیشی آتی کہاں تھی،ظلم و ناانصافی کے خلاف احتجاج اور حق کا برملا اظہارتو جیسے ان کی گھٹی میں پڑا تھا، سو ، ذاتی گفتگو، نجی محفلوں،سوشل میڈیا، عوامی جلسوں، جلوسوں ،مظاہروں اور تحریروں، تقریروں میں کھل کر لکھتے، بولتے اوراحتجاجی پروگراموں میں نہ صرف شریک ہوتے بلکہ ان کے انعقاد میں حتی الامکان تعاون بھی کرتے رہتے تھے ۔ نتیجتاً کئی بارانھیں ذہنی ، جذباتی اور جسمانی اذیتیں اٹھانی پڑیں،جگہ جگہ جواب دینے پڑے،بھاگ دوڑ کرنی پڑی ،گھنٹوں تھانوں میں بتانے پڑے اور دوسرے نقصانات سہنے پڑے ۔ اس کے باوجود وہ اظہار حق سے باز نہ آئے، مصلحت اختیارنہ کی ، صاحبان اقتدار کے آستانوں کو بوسے نہ دیے اور مشکل وقتوں میں بھی ظلمت کو ضیا ،صرصر کو صبااوربندے کو خدا کہنے سے انکار کرتے رہے۔
ان کی شخصیت کے بعض پہلو تب سامنے آئے جب وہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان میں بحیثیت ڈائریکٹر فائز رہے۔اس زمانے میں انھوں نے کئی اہم اور لائق قدرکام کیے ، مثلاً وہاں کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کروایا،سہ ماہی فکروتحقیق اورماہنامہ اردو دنیا کے ایڈیٹر کی تنخواہ اور ان کے قلمی معاونین کے معاوضے بڑھوائے ۔ پہلے شہروں شہروں جانے والی کونسل کی موبائل لائبریری کے لیے وین کرائے پر لی جاتی تھی، ان کے دور میں موبائل لائبریری کے لیے کونسل کی اپنی بس خریدی گئی ۔جسولہ میں اردو بھون کے نام سے مجوزہ عمارت کی تیزی سے تکمیل کی گئی جس کا نوڈل آفیسر مجھے بنایاگیاتھا۔ ایک اہم کام یہ کیا کہ انھوں نے پہلی بار ہائی اسکول لیول تک کے مدرسوں کو کمپیوٹر سنیٹر دینے شروع کیے،تاکہ دینی مدارس کے طلبہ مین اسٹریم میں آسکیں۔ اس سے قبل یہ سینٹر صرف این۔جی۔اوز ،اور عصری تعلیم گاہوں کو ہی دیے جاتے تھے۔ اسی طرح پہلے نارتھ ایسٹ کے صوبوں کے لیے مختص کی ہوئی کونسل کی رقم یا تو بالکل خرچ نہیں کی جاتی تھی یا محض برائے نام ۔ علی جاوید بھائی نے وہاں کے لیے کئی پروگرام مرتب کیے جیسے سیمنار، کانفرنس،کتاب میلے ، ڈرامے،گیت اورغزل گائیکی کی محفلوں اور دوسرے تعلیمی اور ثقافتی پروگرام وغیرہ کا انعقاد،جو اردو کی تہذیب، چاشنی ،تعارف اور گنگا جمنی رکھ رکھاؤ پر مبنی تھے ۔ اس طرح ملک کے اہم دانشور ، شاعر و ادیب، ڈرامہ نگار، گائک،قومی اورعوامی آرٹسٹ اور مختلف میدانوں کے فنکاروں کواردو کے حوالے سے اپنے جوہر دکھانے اور غیر اردو داں کو دیکھنے ، سننے اور سمجھنے کی دعوتیں دی گئیں ۔ سیمنار کے ذریعے انھوں نے کئی نئے ٹیلنٹ دریافت کیے اور کچھ ایسی عبقری شخصیات کو سامنے لایا، جنھیں اردو دنیا بھلانے پر تلی بیٹھی تھی۔ اس عرصے میں ایک اہم کام انھوں نے یہ کیا کہ ہندوستان بھر کی یونیورسٹیز سے اکسپرٹ بلواکراندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیوررسٹی میں چار روزہ ورکشاپ منعقد کرکے ہندوستان کی تمام یونیورسٹیز کے لیے اردو کاایک ایسا نصاب تیار کروایاجس کا اسی فیصد مواد یکساں تھا اوربیس فیصد مواد میں علاقائی شاعروادیب اور فنکاروں کو جگہ دی گئی تھی۔ یہ نصاب پی۔ایچ۔ڈی ، ایم۔ اے،اوربی۔اے سے لے کر ایڈوانس ڈپلومہ، ڈپلومہ اور سرٹیفیکیٹ کورس تک کے لیے تیار کروایاگیا تھا۔اس ورکشاپ میں شامل تمام اساتذہ کے دستخط سے ایچ۔آر۔ڈی منسٹری کو یہ تجویز بھی پیش کی گئی تھی کہ کونسل کو یہ اجازت دی جائے کہ تجرباتی طور پر دہلی کے دس اسکولوں میں اردو کے اساتذہ رکھے جائیں جن کی تنخواہ کونسل اپنے بجٹ سے دے گی اور اگر اردو پڑھنے والوں کی دلچسپی بڑھی تو اساتذہ کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔لیکن اسے شرف قبولیت نہیں ملی۔
یہ زمانہ علی جاوید بھائی کے لیے اس لحاظ سے اچھا نہیں رہا کہ اس عرصے میں انھوں نے کئی ایک اچھے دوستوں کو کھویا،کئیوں کو نظر انداز کیااور بعض لائق دوستوں کو کمیٹیوں میں رکھنا ضروری نہ سمجھا۔ پھربھی ان کے چند ایک بے حد مخلص دوستوں نے ان کوتاہیوں کا شکوہ یا گلہ کرنے کے بجائے ان سے مزے لیے۔اس عرصے میں ان کے مزاج میں ایک نوع کی جھنجھلاہٹ بھی پیدا ہوگئی تھی۔ شاید اس لیے کہ انھیں اس قدر مصروف رہنے کی عادت نہ تھی ، اور یہاں دن بھر طرح طرح کے لوگوں سے گفتگو کرنے،شکایتیں سننے، معاملات سلجھانے ، صاحبان اقتدار کی سفارشیں لانے والوں سے بحث کرنے ،مختلف نوعیتوں کے پروگرام مرتب کرنے،کثرت سے میٹنگوں میں شرکت کرنے اور روٹین کے کاموں کی انجام دہی سے وہ ذہنی طور پر الجھ جاتے تھے ۔ بارہاان کے چیمبر سے وزیٹر ناراض ہوکر نکلتے جنھیں پرنسپل پبلیکیشن آفیسرکے کمرے میں ان کی دل دہی کرکے نارمل کیا جاتا۔اس عرصے میں کچھ لوگ ان سے ناراض بھی ہوئے ، کچھ وقتی دوست بنے اور ایک دو سچے پکے دوستوں نے ان کے رویے میں عارضی تبدیلی محسوس کرنے کے باوجود اس رشتے کے آبگینے کو محفوظ رکھا۔ بعد میں علی جاوید بھائی نے ان تمام باتوں کو محسوس بھی کیااوراعتراف بھی۔یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ خدا نے انھیں جو نعمتیں عطاکی تھیں ان نعمتوں میں سے ایک نعمت اُن کے چند بے حد مخلص دوست بھی ہیں ، جن میں شاہد پرویز بھائی اور فرحت رضوی سر فہرست ہیں۔
علی جاوید بھائی جتنے جری، بیباک اور خود دار تھے اتنے ہی باہمت اور حوصلہ مند بھی۔ایک سہ پہر ان کا فون آیا ’’کہاں ہیں؟‘‘ جواب دیا ’’گھر پہ ‘‘ ساتھ ہی یہ بھی پوچھ لیا آپ کہاں ہیں؟انھوں نے کہا سینٹ اسٹیفن ہاسپیٹل کے ایمنرجنسی وارڈ میں، فوراً آجائیے۔اپنے ایک کولیگ کے ساتھ پہنچا تودیکھا اُن کی حالت اچھی نہ تھی۔ڈاکٹر نے کہا فوراً اِن کا ایم۔آر۔آئی ہوگا۔ معلوم ہوا غالب انسٹی ٹیوٹ میں کسی پروگرام میں تھے ، تقریر کے دوران ہی احساس ہوا کہ زبان لڑکھڑا رہی ہے۔ اہل جلسہ سے معذرت کی اور خود سے کار ڈرائیو کرتے ہوئے ایمرجینسی وارڈ آگئے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ ان پر فالج کا اٹیک ہوا ہے ۔ چہرے پہ تھوڑا سا ٹیڑھا پن آگیا تھااورالفاظ کی ادائیگی میں ذرا مشکل ہورہی تھی۔ہاسپیٹل کے تمام کام کروانے کے بعد ان کی اہلیہ پروین بھابی کو فون کرکے صورت حال بتائی گئی تو وہ بے حد گھبرائی ہوئی بچوں کے ساتھ ہاسپیٹل آئیں،وہ اور بچے ہراساں اور پریشان اور علی جاوید بھائی ہیں کہ مسکراتے ہوئے انھیں تسلی دے رہے ہیں،’سب ٹھیک ہے‘۔اور بفضل خدا وہ جلد ہی صحت یاب بھی ہوگئے۔
شعبے میں وہ تنہا استاذ تھے جنھوں نے جیسے طالب علموں کی تربیت کی ذمہ داری بھی اپنے سر لے رکھی تھی ۔وہ طلبہ کو غلط محاورے ، غلط تلفظ، ناشائستہ الفاظ کے استعمال اورکسی بھی نوع کی شدت پسندی پر ٹوکتے اور ان کی اصلاح کرتے تھے۔ اسی طرح وضع قطع کی درستگی پر انھیں توجہ دلاتے ، زبان و تہذیب کے تعلق سے بعض رائج اصطلاحوں مثلاً’ـخدا حافظ‘ کو ’اللہ حافظ‘ اور’ ماہ رمضان ‘ کو’ ماہ رمدان‘ کے نئے چولے پہنانے والوں کو سختی سے روکتے تھے۔کوئی طالب علم مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتا تو کہتے ’ سلام ضرور کیجیے لیکن جب تک کوئی بڑا آپ کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے ،آپ خود سے ایسا نہ کیجیے، یہ تہذیب کے خلاف ہے۔اسٹاف روم میں اساتذہ کے درمیان کوئی طالب علم بیٹھا رہ جاتا،یاآکر بیٹھ جاتا تو اسے جانے کے لیے کہتے ، بتاتے کہ جب اساتذہ آجائیں تو آپ ہی اٹھ کر چلے جایا کیجیے ، اور جب بھی آئیے تو اجازت لے کر آئیے ۔ اسی طرح اساتذہ کی گفتگو کے بیچ کوئی طالب علم بول پڑتا تواسے منع کرتے ، بیٹھنے اور گفتگو کے آداب بتاتے ۔ کسی کی ڈاڑھی بے ترتیب ہوتی تو اس سے کہتے اسے سلیقے سے ترشوا لو،تمھارے چہرے پر اوردیکھنے والوں کو اچھی لگے گی۔ہمارے ایک رفیقِ شعبہ کے دروازے پر ستلی سے بندھا ہوا پردہ لٹکا رہتا تھاجسے عمر طبعی کو پہنچنے کے باوجود صابن پانی دیکھنا نصیب نہ ہوا تھا۔ ایک دن علی جاوید بھائی نے ستلی سمیت پردے کو نوچ کر ان کی میز پر ڈالا تو وہ حیرانی سے کھڑے ہوکرقدرے افسردگی سے بولے ’ارے ڈاکٹر صاحب آپ نے یہ کیا کیا؟‘ علی جاوید بھائی نے ان کے ’یہ کیا کیا؟‘ کا جواب دینے کے بجائے کہا: پردہ لگانے کا شوق یا ضرورت ہے تو صاف ستھرا پردہ سلیقے سے لگواؤ،اس پردے کے ٹنگے رہنے سے تمھارا کمرہ قصائی کی دوکان لگتا تھا۔‘
کلاسیں وہ عام سینیئر اساتذہ کی طرح ہی لیتے لیکن شعبے میں پابندی سے آتے تھے۔ہم لوگوں کا خالی پیریڈ لا فیکلٹی کی کینٹین میں گزرتا تھاجہاں علی جاوید بھائی،ڈاکٹر ارشاد نیازی، ڈاکٹر متھن کمار،میں،بیشتر پروفیسر اپوروا نند اور کبھی کبھار پروفیسر نجمہ رحمانی ساتھ ہوتیں۔ دوستوں میں سے کوئی نہیں ہوتا تو فوراً فون کرتے ’’ ارے ، کہاں ہیں آپ ؟‘‘ان کے موبائل پہ جو بھی جواب آتا ، ادھر سے یہ کہتے ’’ ہم لوگ کینٹین میں بیٹھے ہوئے ہیں(پھر موجود لوگوں کے نام بتاتے ) آجائیے ، ابھی تو وقت ہے ہم لوگ انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ کینٹین میں چائے اور کافی کے ساتھ شعر و ادب ، ملکی اور عالمی سیاست ، فلم، اسپورٹس ،تاریخ ،اہم واقعات اور حالات حاضرہ پر مذاکرے اور تبصرے ہوتے۔ہم لوگو ں نے یہ اصول بنارکھا تھا کہ وبائی گفتگو یعنی ’غیبت ‘سے حتی الامکان پرہیز کیا جائے،البتہ جائز شکایتوں اور غصے کے اظہار پر کوئی بندش نہ تھی۔ یہ اوقات غالباً ہم تمام لوگوں کے لیے خوش وقتی ، خوش گپی،خوش گواری اور خود فہمی کے اعتبار سے بے حد اہم اور یادگار ہیں۔ عمراور علم و دانش میں بڑے ہونے کے باوجود علی جاوید بھائی میں کسی طرح کا احساس برتری نہ تھا،انانیت اور خود نمائی نہ تھی ۔کینٹین کے علاوہ اس طرح کی بے تکلف محفلیں پریس کلب ،کسی دوست کے گھر، یا دوسرے شہروں کے تفریحی مقامات ، یا کسی سیمنار اور کانفرنس کی جائے انعقاد پر بھی سجتیں، جن میں ہنسی مذاق ، قہقہے ،لطیفے اور جملے بازیوں کی جیسے برسات رہتی ۔ دوسری جگہوں پردوستوں کی فہرست بدلی ہوئی ہوتی جس میں چند اور دوستوں کے علاوہ عام طور سے پروفیسر شاہد پرویز اور ڈاکٹر فرحت رضوی ہوتے ۔ان دونوں جیسے مخلص اور آئینہ دار دوست اب شاذ ہیں۔
علی جاوید بھائی کواپنے چھوٹوں سے بھی کچھ پوچھنے یا جاننے میں کوئی تکلف نہ تھا،جھجک نہ تھی ۔ پابندی سے فون کرتے ،سوالات عام طور سے اس نوعیت کے ہوتے : یہ شعر کس کاہے،فلاں شاعرکے اس شعر کا دوسرا یا پہلا مصرعہ کیا ہے، اس موضوع پر کون کون سے مضامین یا کتابیں دیکھ لینی چاہئیں،فلاں موضوع پر فلاں فلاں کے علاوہ بھی کسی نے کچھ لکھا ہے کیا؟ وغیرہ۔ وہ مقالے لکھنے میں بہت زیادہ محنت نہیں کرتے، مگر تقریر زبردست کرتے تھے ۔ موضوع کوئی بھی ہو، اُس میں وہ انسان دوستی ، ترقی پسندی، احتجاج، بغاوت اور انقلاب کا پہلو ضرور ڈھونڈ نکالتے تھے ۔ ان کے ریٹائرمنٹ سے محض چند روز قبل ڈاکٹر سفینہ اور میں نے ڈاکٹر رضا حیدر کے تعاون سے غالب انسٹی ٹیوٹ میں بڑے پیمانے پر ایک الوداعیہ پروگرام کا انعقاد کیاجس میں تقریباً پچاس سے زیادہ اہم شخصیتوں نے شرکت کی۔ دہلی کی تینوں یونیورسٹیز کے اردو کے اساتذہ شاید تساہل، تغافل یا مجبوری کا شکار ہوگئے تھے ،یا پھرانھوں نے مصلحت کو عزیز از تعلقات جانا تھا ، کہ علی جاوید بھائی کا شمار اسٹبلشمنٹ کی غلط پالیسیوں اور رویوں پرسخت تنقید کرنے والوں تھا ۔ البتہ اے۔ایم ۔یو سے سراج بھائی (پروفیسر سراج الدین صاحب اجملی)نے بطور خاص تشریف لاکر فرض کفایہ ادا کیاتھا۔ اس تقریب میں ان کے گھر کے افراد اور تقریباً سبھی پرانے دوستوں،ساتھیوں اور ہاسٹل فیلو زنے شرکت کی تھی ۔ پورے وقت علی جاوید بھائی اور ان کے چاہنے والوں کے چہرے خوشی سے دمکتے رہے تھے۔
یونیورسٹی سے سبکدوشی کے بعد شعبے کی انتظامیہ نے ان کے شایان شان برتاؤ نہیں کیا ، دو دن کے اندر ہی ان کا چیمبر اور الماری خالی کروانے کی خدا جانے کیا مجبوری تھی ،یوں بھی اس قلندر صفت آدمی کو ان چیزوں کی فکر کب تھی۔ چیمبر رہتے ہوئے بھی تو انھوں نے دوستوں کی خاطر اسٹاف روم کو ہی آباد رکھا تھا ۔ سو، پریشانی سے بچنے کے لیے وقتی طور پر ان کی کتابوں کا سارا اثاثہ میرے چیمبرمیں منتقل ہوگیا۔ میں نے اپنے چیمبر کی ایک چابی انھیں دی اور عرض کیا کہ آپ پابندی سے آتے رہیں۔ خوش قسمتی کہ انھوں نے درخواست قبول کی اور ہم لوگوں بالخصوص مجھے ، ڈاکٹر ارشاد نیازی، پروفیسر نجمہ رحمانی، متھن کمار اور شعبے کو کبھی انجانے پن کا احساس نہ ہونے دیا۔
کورونا کے عالمی مرض نے جب لوگوں کو گھروں میں محصور رہنے پر مجبور کردیا توصرف دنیا ہی نہیں بدلی ، لوگوں کے مزاج ، باہمی تعلقات اورنفسیات تک میں تبدیلی واقع ہوگئی ۔ علی جاوید بھائی کی شخصیت بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ ان کی سب سے بڑی الجھن یہ تھی کہ وہ گھر میں قید ہوکر رہ گئے تھے۔ مجلسی آدمی تھے،دوستوں سے ملناملانا ان کے مزاج کا حصہ اور زندگی کا معمول تھا،بحث و مباحثے اور خوش گپیوں کے بغیر ان کا جی گھبراتا تھا۔سو ان حالات میں بھی وہ ملنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ نکالتے ۔سب سے کارگر بہانہ علاج کے نام پر یونیورسٹی ہیلتھ سینٹرآنا تھا۔گھر سے نکل کر فون کرتے ’’ کہاں ہیں؟‘‘ جواب دیتا گھر پہ۔ کہتے’’ ہیلتھ سینٹر آرہا ہوں، آجائیے ، کینٹین میں یا کسی ڈھابے پر بیٹھ کر کافی پئیں گے۔ کبھی کہتے ارشاد اور نجمہ کو بھی فون کردیجیے گپیں لڑائیں گے ۔‘‘ ایک صبح ان کا فون آیا ’’ کہاں ہیں؟‘‘ جواب دیا دربھنگہ۔کہنے لگے ’’ ارے بتایا نہیں، کب چلے گئے ،آئیں گے کب؟‘‘ کہا دوتین دنوں میں آجاؤں گا۔کہنے لگے جلدی آجائیے ،کافی دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی ۔پھردیر تک فون پر باتیں ہوتی رہیں۔ دوسرے دن اطلاع ملی کہ علی جاوید بھائی کا پریس کلب سے گھر جاتے ہوئے برین ہیمرج ہوگیا،جس کا احساس شاید علی جاوید بھائی کو بھی نہ ہوا۔اس لیے آٹو رکشہ والے ہاسپٹل کا پتہ بتانے کے بجائے گھر کا پتہ بتا کر اس میں سوار ہوئے اور جب گھر پہنچے تو وہ کومہ میں جا چکے تھے۔ انیس دنوں تک ڈاکٹروں کی دواؤں اور دوستوں اور چاہنے والوں کی دعاؤں کے باوجود انھوں نے گھر اور جسم میں قید رہنے کی گھٹن کے مقابلے میں ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیاجہاں روشنی، ہواکی فراوانی اور ہر طرح کی آزادی میسر ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ اس بار بھی علی جاوید بھائی نے روشنی ،ہوا کی فراوانی اور ہر طرح کی آزادی والی جگہ جا نے کا فیصلہ جذبات ، احتجاج یا پھرجلد بازی میں ہی کیا ۔ جو کبھی اگلی ملاقات میں انھیں احساس ہوگا کہ چڑیاں کھیت چُگ گئی ہیں ، تو کہیں گے ’’ ہاں ! آپ نے صحیح کہا تھا’’میں نے جذبات میں آکریا شاید جلد بازی میں فیصلہ کر لیاتھا، دنیا میں کچھ اور دن رہتے تو اچھا ہوتا ‘‘۔اور پھر مجھے مطمئن کرنے اور خود کو تسلی دینے کے لیے خود کلامی کے انداز میں کہیں گے :’’لیکن فیصلہ اُ س وقت کے لحاظ سے تو ٹھیک ہی تھا۔‘‘