(پہلی قسط)
جامع و مرتب:سجاد حسن خان
پی ایچ ڈی کینڈیڈیٹ، شعبۂ تاریخ، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی
مضمون نگار کا تعارف
ڈاکٹرکنور ؔ محمداشرف(۹۶۲ا- ۱۹۰۳ ء)کا شمارہندوستان کی تحریک آزادی کے نامورقائدین میں ہوتا ہے۔ اُن کا جنم ۱۹۰۳ ء میں اترپردیش کے ضلع علی گڑھ کے دریا پور کے ایک ملکانا راجپوت گھرانے میں ہوا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد علی گڑھ مُسلم یونیورسٹی اورپھر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹیڈیز، لندن سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔اپنی کتاب’’لائف اینڈکنڈیشنز آف دی پیوپل آف ہندوستان(۱۵۵۰ -۱۲۰۰ء) ‘‘ انہوں نے اپنی پی۔ایچ۔ڈی کے مقالہ کے طور پر لکھی تھی ۔
انہوں نے ہندوستان کی جدو جہد ِ آزادی میں اُس وقت قدم رکھا جب پورا ملک تحریک ِخلافت اورعدم تعاون کی جانب گامزن تھا ۔ سول نافرمانی کی تحریک(۱۹۳۲ تا ۱۹۳۰) کے دوران سیاست میں سرگرم عمل ہوتے ہوے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا یونین کے اعزازی سکریٹری منتخب ہوے۔ مُحمد اشرف نے ایک مارکسسٹ مُسلم کی حیثیت سے اپنی سیاسی زندگی میں ہمیشہ وطن کی آزادی ، ہندو مُسلم اتحاد اور سیاست کے مذہب سے الگ رہنے کے نظریہ کو ہی اوّلیت دی۔ اِس وجہ سے انہوں نے مُسلم لیگ کے نظریہ پاکستان کی پر زور مخالفت کی ۔
یونیورسٹی آف لندن(۱۹۳۲۔۱۹۲۷ء) میں قیام کے دوران اُن کا تعلق بین الاقوامی مارکسسٹ تنظیموں کے ساتھ بھی رہا اور انہوں نے ہندوستان میں بھی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ وابستگی رکھی ۔(۱۹۴۷- -۱۹۳۹ء) تک کانگریس کے مُسلم رابطہ مہم کی نمائندگی کا فریضہ بھی انجام دیا ۔
محمد اشرف۱۹۴۸ء تا ۱۹۵۴لندن میںجلاوطنی میںرہے۔اس کے بعد (۱۹۶۰- ۱۹۵۴ء)یونیورسٹی آف کشمیر،سرینگر، اورکروڑی مل کالج،دہلی یونیورسٹی میںتاریخ کے استاد رہے۔وہ ۱۹۶۰ء میں بطور مہمان پروفیسر، برلن چلے گئے،پھر ۱۹۶۲ء میںاپنی وفات تک وہیں مقیم رہے۔ان کی تحریریں اور مقالات نہرو میموریل میوزیم اینڈلائبریری، تین مورتی ہاؤس، نیو دہلی میں موجود ہیں۔
اِن کی چند مشہوراور انتہائی اہم تصانیف حسب ذیل ہیں :
1. "An Overview of Indian Muslim Politics (1920-1947)”, originally published in Urdu in 1963.
2. "Indian Historiography and Other Related Papers” (A series of lectures delivered in 1950s and 1960s)
3. "Hindu-Muslim Question and our Freedom Struggle”. It was also published in Urdu in 1946.
4. "Historical Background to Muslim Question in India”. (1725-1943).
اکیسویں صدی کی نوجوان نسلوں میں اردو زبان سیکھنے اور پڑھنے کی روایت میں زبردست کمی آئی ہے ۔چنانچہ اِس روایت کو بحال کرنے کیلئے میں نے کنورؔ محمداشرف کے ۲ کم معروف مضامین کو جمع کیا ہے ۔اِن مضامین کی تفصیل یہ ہے :
۱۔ ’’علی گڑھ کی سیاسی زندگی‘‘، جو علی گڑھ میگزین(اردو) کے علی گڑھ نمبر ۱۹۵۴-۱۹۵۳ء اور ۱۹۵۵ء-۱۹۵۴ ، صفحات، ۱۷۱ – ۱۵۷ میں شائع ہوا تھا ۔
۲۔ ’’علی گڑھ اور سیاسیات ِہند‘‘، جو علی گڑھ میگزین(اردو) کے علی گڑھ نمبر ۱۹۶۰ء ،صفحات، ۱۹۲ – ۱۷۱، میں شائع ہوا تھا۔یہ مضمون نسیم قریشی کی کتاب ’’علی گڑھ تحریک : آغاز تا امروز‘‘ میں بھی شامل ہے۔
(۱)
علی گڑھ کی سیاسی زندگی کامطالعہ اس اعتبار سے دلچسپ بلکہ سبق آموز ہے کہ پچھلی تین چوتھائی صدی کی تقریباً ہرترقی پسند تحریک کاعلی گڑھ کی زندگی پرگہرااثرپڑاہے بلکہ طلبا اوراساتذہ کی ایک اقلیت نے اپنی بساط بھر ہردورکی سماجی اورسیاسی تحریکوں میں حصہ بھی لیاہے۔ افسوس یہ ہے کہ علی گڑھ میں ہمیں کبھی اپنی سیاسی تاریخ مرتب کرنے کی توفیق نہیں ہوئی اوراب اس موضوع پرلکھنے کے لئے مواد تقریباًنایاب ہے۔
علی گڑھ کی سیاسی زندگی کاسب سے دلفریب دورظاہر ہے کہ بانیٔ علی گڑھ کاعہد ہے مگر اس عہد کے مطالعہ کے لئے جہاں آپ کوکانگریس اورسرسید ؔ کے باہمی اختلافات پرہرقسم کے شواہد ملیں گے اس کااندازہ کرنامشکل ہوگاکہ طلبہ اوراساتذہ نے اس دور کی سیاسی نزاعوں کوکس نگاہ سے دیکھایاوطن کی عام سیاسی فضاکاعلی گڑھ کے ماحول پرکیاردعمل ہوا؟ یہ صحیح ہے کہ گر یہمؔ کے سوانح سرسید اورحالی کی حیات جاوید میں کہیں کہیں طلباء کاذکر بھی آجاتاہے اوربلنٹؔ نے بھی اپنے سفرنامہ میں مسلمانوںکے سیاسی رجحانات پرتبصرہ کیاہے جس میں ان کی علی گڑھ آمداورسرسید کی ملاقات شامل ہے۔ مگر اس سے مسلمانوں کی نوجوان نسل کے مطمح نگاہ کاقطعاًکوئی اندازہ نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس لے دے کر میرولایت حسین ؔ کے بعض مضامین اورمولاناطفیل ؔ احمدکے تاثرات ہیں مگر یہ سب کانگریس مسلم لیگ نزاع کے دورمیں اورایک مخصوص زاویۂ نگاہ سے لکھے گئے ہیں اوران کے پڑھنے سے علی گڑھ کی سیاسی زندگی کی کوئی خاطرخواہ تصویر ذہن میں نہیں بنتی۔ اسی طرح شبلیؔ کے سوانح نگاروں نے سرسید اورشبلی کے باہمی سیاسی اختلافات پرزوردیاہے بلکہ مولانامحمد علی کے خود نوشت سوانح سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ شبلی کااثر برابر طلبا کے حلقوں میں بڑھ رہاتھالیکن یہ سب کچھ بس اِدھراُدھرکے اشارے ہیں اوراس قسم کی تحریروںسے کوئی تشفی نہیں ہوتی۔ میراخیال ہے کہ اگر کہیں سے سڈنس یونین کلب کی ابتدائی روئداد مل جا ئے توعلی گڑھ کی سیاسی زندگی کے مطالعہ میں بڑی مددملے مگراس کاامکان بہت کم ہے ۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ راجہ مہندرپرتاپ کواپنی طالب علمی کے حالات لکھنے پرآمادہ کیاجائے ۔ بہرنوع اس وقت علی گڑھ کے ابتدائی دور پرتبصرہ کرنے کے لئے ہمارے سامنے کوئی وقیع مواد موجود نہیں ہے۔
۱۹۰۵ کے بعد مسلمانوں کی ترقی پرورسیاست کے نقوش کسی قدر ابھرآتے ہیں بلکہ اس کی رہنمائی کاسہرا علی گڑھ کے بعض مشہور ’’کھلنڈروں ‘‘ کے سر ہے لیکن اس کامرکز ابتدامیں کلکتہ اورپھردہلی تھا۔کامریڈ کے مطالعہ سے آپ کو بہ آسانی ان سب نفسیاتی منزلوں کااندازہ ہوجائیگا جن سے گزرکرمسلمانان ہند بالآخر ۱۹۱۶ کے معاہدۂ لکھنؤ تک پہنچے جس نے بعد میں آنے والی جنگِ آزادی کے لئے میدان ہموار کردیا۔ اسی طرح کامریڈکے صفحات میں آپ کوبمبوق کے وہ سب مضامین ملیں گے جن میں وہ مسلمان ’’ جی حضوریوں ‘‘ اورعلی گڑھ کالج کے ٹرسٹیوں کادل کھول کرمذاق اڑاتاہے مگرخود کالج کی سیاسی سرگرمیوں کاذکر اس گرانقدر رسالہ میں آپ کوشاید ہی کہیں نظرآئے ۔ یہی حال دوسرے اخبار اور رسالوں کاہے جن کے مدیر خود علی گڑھ کے اولڈبوائز تھے۔ اس زمانہ میں علی گڑھ کے بعض نامورانگریز اساتذہ انگلستان میں موجود تھے بلکہ ۱۹۰۹کی اصلاحات کے سلسلے میں انھوں نے خاصی سرگرمی دکھائی اورسرتھیوڈور ماریسن نے ہندوسانی مسلم سیاست پرایک پُرمغز مقالہ بھی شائع کیامگر آپ کوتعجب ہوگاکہ کسی نے کبھی طالب علموں یاعلی گڑھ کے سیاسی ماحول کابھول کربھی ذکر نہیں کیا۔ غرض کہ ماخذکے اعتبار سے علی گڑھ کایہ دوربھی تشنہ ہے۔
۲۰ء اورتحریک ِترکِ موالات کے بعد مطلع صاف ہے اورعلی گڑھ کی سیاسی زندگی کاہرواقعہ بہ آسانی قلمبند کیاجاسکتاہے مگر تقسیم ہند اورپاکستان بننے کے بعد مسلمانان ہند کے ساتھ ساتھ علی گڑھ جن نفسیاتی منزلوں سے گزررہاہے اس میں یہ توقع کم ہے کہ کسی کواس موضوع پرمواد جمع کرنے کے لئے فرصت اورسہولت ملے گی گوتاریخی اعتبار سے علی گڑھ کی زندگی کایہ باب بھی کافی دلچسپ ہے اوراس قسم کے مطالعہ سے بعض ان تحریروں اورتصنیفوں کی اصلاح ہوجائے گی جوپچھلے بیس برس میں ہندوستان کی اسلامی سیاست کے بارے میں لکھی گئی ہیں اورجن کی وجہ سے مسلم سیاست اورعلی گڑھی ذہن تمام تر فرقہ پرستی اوررجعت پسندی سے عبارت ہوگیاہے۔
اس مختصرسی تمہید سے آپ کواندازہ ہوگیاہوگاکہ سطورِ ذیل میں جوکچھ علی گڑھ کی سیاسی زندگی کے بارے میں لکھاجارہاہے ہرلحاظ سے نامکمل اورناقص۔میں نے دراصل اپنے حافظہ سے کام لے کر کچھ ادھر ادھر کے واقعات جمع کر دیے ہیں اور اُن میں ربط پیدا کرنے کیلئے اپنے نقطہ ٔ نظر سے ایک پس منظر سا دے دیا ہے۔ میرا منشا محض اس قدر ہے کہ شاید اس مضمون سے کسی صاحب ِنظر کوایک مرتب مقالہ لکھنے کاحوصلہ پیداہویاایڈیٹر علی گڑھ میگزین ڈاکٹر کچلو،ڈاکٹر سید محمود اورقاضی عبدالغفّار جیسے بزرگوں کوہندوستان میںاور شعیب قریشی، خلیق الزّماں اور فضل الحق وغیرہ جیسے ممتاز اولڈ بوائز کو پاکستان میں اپنے اپنے زمانے کے سیاسی واردات لکھنے پر آمادہ کریں ۔ اس قسم کی کوشش بہرنوع ایک وقیع علمی اورتاریخی خدمت ہوگی اورآئندہ علی گڑھ کی سیاسی تاریخ مرتب کرنے میں اس مواد سے مدد ملے گی ۔
(۲)
علی گڑھ کے ابتدائی دور میں ہمارے نوجوانوں کی سیاسی اورسماجی امنگیں کیاتھیں اس کااندازہ صرف اس حقیقت سے کیاجاسکتاہے کہ علی گڑھ تحریک نے مسدس حالیؔ جیساشاہکار تخلیق کیاجس سے معلوم ہوتاہے کہ ۵۷ء کی ناکامی اورتباہیوں کے باوجود مسلمانوں کے ایک علم دوست گروہ نے امید اورحوصلہ کادامن نہیں چھوڑاتھا اور مایوسی کی عام فضامیں بھی وہ ایک نئی اوربہتر زندگی کی جستجومیں مصروف تھابلکہ اب نئے علوم اورسائنس سے مددلے کر ایک نئی جمہوری دنیاکی تعمیر اوربنی نوع انسان کی خدمت میں شریک ہوناچاہتاتھا۔ دراصل یہ وہ عقائد ہیں جوسرسید سے پہلے بانیانِ دہلی کالج اورراجہ رام موہن رائے کے ہاتھوں ملک کے بعض حلقوں میں رواج پاچکے تھے۔ حالیؔنے انھیں اسلامی جامہ پہنایا بلکہ اسلام کی تاریخ اس رنگ میں رنگ دی ۔ نئے علوم وسائنس کواپنانے کے بعد ظاہر ہے کہ ہندوستانی قومیت کی طرح مسلم قومیت بھی اپنے سیاسی باب کاآغاز صرف اس نکتہ سے کرسکتی تھی کہ برطانیہ چونکہ ایک نئی اوربہتر تہذیب کی علمبردار اورنئے علوم کاسرچشمہ ہے ہمیں دل وجان سے اس کی حمایت کرنی چاہئے ۔ یہ عقیدہ بھی کوئی نیانہ تھا۔راجہ رام موہن رائے اوران کے قوم پرست ہمنواسب برطانیہ کی وفاداری کاگیت گاتے اورگورنرجرنلوںکاکلمہ پڑتے تھے ،چنانچہ برطانوی حکمرانوں کے ایماء پر بالآخر کانگریس کاسنگ بنیاد رکھاگیا۔ ۵۷ءکے تجربوں کے بعد شمالی ہندوستان کے مسلمانوں میں البتہ برطانیہ کی حمایت کاجذبہ پیداکرناذرامشکل تھا۔ گوبرطانوی نظامِ حکومت کی خوبیوں کااعتراف دبی زبان سے ہر جگہ ہونے لگاتھا۔ یوں انگریز دشمنی میں وہابی حلقے پیش پیش تھے مگر عبدالحق مہاجر دہلوی کی مثنوی جہادِؔ ملاکہ، دستانہؔ اوردلمیرؔ کے کلام سے اندازہ ہوتاہے کہ برطانوی نظام ِ حکومت کے نفوذ کا احساس عوام میں بڑھ رہا تھا۔ بالآخر غالبؔنے عریاںطور پر برطانوی حکومت کو مغل بادشاہت کا نعم البدل قرار دیا اورایک بہتر مستقبل کی برملا بشارت دی ۔غالب نے غدر ۵۷ء کی تلخیوں کے باوجود کہا کہ :
مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند
شمع کشتند در خوشید نشانم دادند
اوربرطانیہ کی علم دوستی اوردانش پروری کاخیرمقد م یہ کہہ کرکیاکہ :
گوہر ازتاج گستند وبہ دانش نبستند
ہر چہ بردندبہ پیدابہ نہانم دادند
مسلمانوں میں وہابیوں کے علاوہ جمال الدین افغانی کی انگریز دشمن تعلیمات بھی پھیل رہی تھیں بلکہ کلکتہ اتحاداسلام کی تحریک کامرکز تھامگربنگال کے مسلمانوں کاحاوی رجحان بھی برطانیہ کی دوستی اورنئے علوم کی حمایت پرمبنی تھااوربانیان کلکتہ مسلم انسٹیٹیوٹ ؔ سرسید سے پہلے علی گڑھ کے نئے اصولوں کی اشاعت کرچکے تھے ۔
غرضیکہ علی گڑھ تحریک اُس عام سماجی تحریک کا ایک جزوہے جو انیسویں صدی کی ابتدا سے جاری تھی بلکہ سرسید ؔ اور علی گڑھ کے سیاسی اور سماجی مقاصد ذہن نشین کرنے میں ہمیں راجہ رام موہن رائے کی زندگی کے مطالعہ سے بڑی مدد ملے گی ۔
راجہ صاحب کے کردار یاسوانح حیات اور کارناموں کی تفصیلی بحث میرے موضوع سے خارج ہے مگر یہ تسلیم شدہ ہے کہ راجہ صاحب ہماری قومی تحریک کے جنم داتااورہندوستان میں بورژواقومیت کے بانی ہیں ۔ چنانچہ موصوف نے صرف یہی نہیں کہ پہلی بار ہندوستانیوں کو مغربی علوم کی طرف متوجہ کیابلکہ عقل کے معیار پرمذہبی عقائد کوجانچااورغیر فرقہ وارانہ بنیادوں پربرہموسماج کی نئی بنیادقائم کی ۔ سیاست میں راجہ صاحب نے ترجمانِ حکومت اورشہری آزادی کی حمایت کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کی تنظیم کے لئے بنگالی زبان میں پہلااخبار نکالا اورنئے ادب میں سادہ زبان کورواج دیا۔ نئی تعلیم کے سلسلہ میں راجہ صاحب کے ہاتھوں ہندوکالج کلکتہ کی بنیاد پڑی اورموصوف زندگی بھرتعلیم کے دقیانوسی طریقوں اوردرسی نصاب میں مشرقی علوم پرزور دینے کی مخالفت کرتے رہے ۔ افسوس کہ۱۸۳۳ ء میں راجہ صاحب کی اچانک موت نے انہیں اپنے سماجی وسیاسی افکار ونتائج کویکجاکرنے کوموقع نہ دیا اورہم ان کے مرتب فلسفۂ حیات سے محروم ہیں لیکن ان کے سفر انگلستان کے بعض واقعات سے اندازہ ہوتاہے کہ راجہ صاحب انقلابِ فرانس کے عمومی مقاصد کے حامی تھے اورلندن کے قیام کے زمانے میں رابرٹ اوون سے بھی ملے تھے۔ مگراس سے آپ کویہ غلط فہمی نہ ہوکہ راجہ صاحب یاان کے ساتھی آئینی کاروائیوں کے علاوہ کسی انقلابی جدجہد کے روادار یا برطانوی سامراج سے قطع تعلق پرآمادہ ہوسکتے تھے۔ چنانچہ راجہ صاحب کے پیرواورکانگریس کے مشہور رہنما مسٹر سریندر ناتھ بنرجی نے ایک موقعہ پرجب میزینی اوراٹلی کی انقلابی تحریک پرتقریر کی توصاف الفاظ میں کہاکہ ہم میزینی کی طرح ہندوستان کی آزادی اوراتحاد کے قائل ضرور ہیں ۔ مگر میزینی کی تعلیمات سے اس کے انقلابی فلسفہ اورطریق کار کوخارج کردیناچاہتے ہیں۔راجہ رام موہن رائے کے سیاسی متبعین میں راجہ دوارکا ناتھ ٹیگور صفِ اوّل میں نظر آتے ہیں۔ یہ وہ بزرگ ہیں جنھوں نے بنگال میں سب سے پہلے صنعت سازی اوربینکنگ کی طرف قدم بڑھایااورجب انگلستان تشریف لے گئے توشاہی محل میں بازیابی کاشرف نصیب ہوا۔ یوں سمجھئے کی راجہ رام موہن رائے کے نظریوں کی تفسیر ہمیں سریندر ناتھ بنرجی اورراجہ دوارکاناتھ ٹیگور کے منصوبوں میں ملتی ہے ۔ ہندوستانی قومیت یقینی طور پر وطن کوترقی کی راہ پر لے جاناچاہتی تھی مگر برطانیہ کے زیرسایہ اورہندوستانی سرمایہ داری کے بل پر علی گڑھ تحریک اورمسلم قوم پرستی کے بنیادی مقاصد کسی معنی میں ہندوستانی قومی تحریک سے مختلف نہ تھے فرق صرف اِس قدر تھا کہ مسلمان سرمایہ داری کی بنیادیں عام ہندوستانی سرمایہ داری سے بھی زیادہ کمزور تھیں اوراسی نسبت سے مسلم قوم پرستی درجہ بدرجہ برطانوی مفاد کی پابند ہوتی گئی ۔ اس کے بالمقابل ہندوستانی قومیت کی بنیادی رجعت پرستی کے باوجود اس میں ترقی پسند عناصر نسبتًازیادہ ابھرے اورجمہوری جدوجہد کے امکانات زیادہ وسیع ہوتے گئے ۔ بالآخر کمیّت کایہ فرق کیفیت میں بدل گیا۔اوراب دونوں میں بعد المشرقین پیداہوگیاہے۔
آئیے اب سرسید کے سیاسی اصولوں پر ایک نظرڈالیں ۔ سرسید غالباََ آٹھ یادس برس کے تھے جب انھیں راجہ رام موہن رائے سے ملنے کااتفاق ہوا۔ اس اتفاقی ملاقات کومیں کوئی خاص اہمیت نہیں دیتامگراس میں شبہ نہیں کہ سرسید کی سیاسی تعلیمات اورعلمی سرگرمیاں راجہ صاحب کاچربہ نظرآتی ہیں ۔ سرسید نے ابتدامیں سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی اورآئین اکبری اورتزک جہانگیری کی ترتیب کے علاوہ آثارالصنادید جیسی تحقیقی کتاب لکھی ۔ یہ غالباََ دہلی کالج کے اس ماحول کااثر ہے جس میں مولانانذیر احمدنے کلام پاک کااردو ترجمہ کیاتھااورمولانا ذکاء اللہ پرانی تاریخ نویسی کی روایتوں کے مطابق اپنی تاریخ ہندلکھی تھی ۔ سرسید نے سائنٹفک سوسائٹی کی جانب سے سائنس ،جغرافیہ اوردوسرے علوم کی نئی درسی کتابیں شائع کیں ۔ اس کے تھوڑے دن بعد سرسید نے رائے عامہ کی تنظیم شروع کی اوراسباب بغاوت ۵۷ء پر اپنارسالہ لکھ کر برطانوی حکومت کوتوجہ دلائی کہ ہندوستان کے نظام حکومت میں ہندوستانیوں کی نمائندگی ضروری ہے ۔پھر انسٹیٹیوٹ گزٹ کی اشاعت کے ساتھ ساتھ متعدد محضر لوگوں کے دستخط کراکرحکومت کوبھیجے گئے مسلمانوں کی عام سیاست میں ابھی تک وہابی جہاد کے بے معنی اورناقابل عمل رجحانات پائے جاتے تھے اورجب یہ رجحان کمزورہوئے تواتحاد اسلام کے پردہ میں عثمانی خلافت کی حمایت کاولولہ ابھرناشروع ہوا۔ سرسید کی دوررس اورحقیقت بیں نگاہیں اس قسم کے سیاسی ہنگاموں کی بنیادی گمراہیوں کی تاب نہ لاسکتی تھیں چنانچہ علی گڑھ نے ان تحریکوں کی شدید مخالفت کی اورجہاد کی مخالفت میں خود مولوی چراغ علی نے سرسید کے ایما پرر سالہ لکھا۔مسئلہ جہاد کے علاوہ بھی سرسید نے خطبات احمدیہ لکھ کر بعض مذہبی عقائد کی عقلی تاویل کی جس کی وجہ سے وہابی حلقوں کے علاوہ جمال الدین افغانی نے سرسید کونیچری اگہوری اور خداجانے کیاکیاخطاب دیئے اورمولانامحمدقاسم بانی دارالعلوم دیوبند اورمولاناعزیزالرحمن لدھیانوی نے باضابطہ تکفیر کے فتوے صادرکئے۔بد نصیبی سے یہ وہ زمانہ ہے جب سرسید اورکانگریس کاباہمی اختلاف شروع ہوگیاتھااورسرسید کے بعض مخالف علماء نے محض مذہبی اختلاف کی بنا پر کانگریس کی حمایت کی ۔ علی گڑھ کالج کے مقاصد کے سلسلہ میں یہ واقعہ بھی قابل غورہے کہ سرسید کالج کے فارغ التحصیل نوجوانوں سے ملازمت کے بجائے یہ توقع کرتے تھے کہ یہ لوگ نئی صنعتوں کورواج دینگے اورایک دن آئے گاجب ہمارے تجارتی جہاز بھی ہندوستان کا صنعتی سامان لاد کر قومی جھنڈااڑاتے ہوئے لندن،نیویارک اوردوسری بندرگاہوں میں پہونچیں گے ۔ نوجوانوں کومغربی تمدن سے آشناکرنے کے لئے سرسیدنے تہذیب الاخلاق کے نام سے اپنے مضامین کامجموعہ شائع کیا۔ غرضکہ سرسید نے ہرممکن کوشش اِس امرکی کی کہ علی گڑھ بھی کلکتہ کی طرح دوارکاناتھ ٹیگواور سریندر ناتھ بنرجی جیسے فرزندپیداکرے اوراگرکسی منزل پرسرسید نے مسلمانوں کوکانگریس کی شرکت سے روکایامسلمانوں کے لئے جداگانہ حق ِانتخاب کامطالبہ کیاتواس کی وجہ صرف یہ تھی مسلمان جدید تعلیم کے میدان میں برادران ِوطن سے پیچھے تھے۔ یوں سرسید کانگریس کے تقریباََسب مطالبوں کے حامی اورسریندرناتھ بنرجی کے خصوصیت سے مداح اورقدرداں تھے مگر جب مسلمانوں کے سیاست یاکانگریس میں شریک ہونے کاسوال اٹھتاتوبڑے دکھ کے ساتھ کہاکرتے تھے کہ مسلمانوں میں سریندرناتھ بنرجی جیسے خطیب اورعالم کہاں ہیں جوان کی ترجمانی کا حق حکومت کی کونسلوں میں اداکریں ۔ ظاہر ہے کہ اس دور میں سیاست خطابت سے عبارت تھی اورخطابت کامیدان حکومت کی نامزدکردہ کونسلوں یاچنددولتمند اورباحیثیت ’’ منتخب ‘‘ افراد کی میونسپلٹیوں تک محدود تھا۔ چنانچہ جوں جوں کانگریس نے مسلمانوں کی طرف توجہ کی سرسید کی مخالفت بڑھتی چلی گئی اوربالآخر مسلمانوں کے لئے سیاست کانعم البدل تعلیم قرار پائی اوراسی تقاضے کے مطابق مسلمانوں میں کانگریس کی جگہ آل انڈیامحمڈن ایجوکیشنل کانفرنس نے لے لی ۔
ان حالات میں آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ علی گڑھ کی سیاسی زندگی میں ’’دل دماغ‘‘ میں کس درجہ کشمکش رہتی ہوگی ۔ ایک طرف سرسید کے لبرلزم کایہ عالم تھاکی انھوں نے سریندرناتھ بنرجی کوعلی گڑھ بلاکرداخلہ ٔ آئی ۔ سی ۔ایس کے کانگریسی مطالبہ پر موصوف سے طلباء کے مجمع عام میں تقریر کرائی۔ دوسری طرف( مولاناطفیل احمد کی روایت کے مطابق) طلباء سے یہ کام بھی لیاجاتاتھاکہ وہ مسٹربیک ؔ کی نگرانی میں کانگریس دشمن محضر پر مسلم عوام سے غلط بیانی کرکے دستخط کراتے پھریں ۔ مجھے علم نہیں ہے کہ مولوی برکت اللہ بھوپالی نے مدرستہ العلوم میں تعلیم پائی یانہیں ۔ لیکن راجہ مہندر پرتاپ علی گڑھ کے سب سے پہلے طالبعلموں میں ہیں اوردونوں کویہ امتیاز حاصل ہے کہ ۱۴ء کی عالمگیر جنگ کے زمانہ میں کابل میں آزادہندوستانی حکومت کاسنگ بنیاد ان دونوں کے ہاتھوں سے رکھاگیا۔ سبہاش چندربوس نے انھیں بزرگوں کے تتبع میں گذشتہ جنگ عظیم میں بعض اقدامات کئے تھے ۔
سرسید کے آخری زمانہ میں شبلی کاسیاسی اختلاف شروع ہوااورسرسید کے مقابلہ میں شبلی اس کے بڑی شدت سے حامی تھے کی مسلمانوں کوہندوستان کی جنگ آزادی میں غیرمشروط طورشریک ہوناچاہئے ۔ شبلی کانگریس کے نہیں بلکہ اتحاداسلام کے حامی اورجمال الدین افغانی کے پیروؤںمیں مفتی محمدعبد‘ہ اورعلامہ رشید رضاکے ہمنواتھے ۔ نئی نسل میں شبلی کابراہ راست اثرمولانامحمد علی پرپڑا۔
علی گڑھ کے عام طلبہ کے بارے میں البتہ یہ کہنابڑی حد تک صحیح ہوگاکہ یہ سیاست سے بے نیاز ،مغربی تمدن کے دلدادہ گوعقل پرست تھے اورسرکاری ملازمت کی خواہش کے باوجود مسلمانوں کی خدمت کاجذبہ رکھتے تھے ۔ عقل پرستوں کے اس گروہ میں میں ذاتی طور صرف دوبزرگوں سے واقف ہوں اورمسلم قومیت کی تعمیر میں دونوں کامرتبہ بلندہے میری مراد مولاناطفیل احمد اورمولاناعبدالحق (بابائے اردو) سے ہے ۔ بورژوامسلم قوم پرستی کوبقول سرسید ایک دن نئی صنعتیں بنانی تھیں اورنئے تجارتی کاروبار کیلئے سود کے جواز کی ضرورت تھی ۔ یہ وہ فریضہ تھا جومولاناطفیل احمد نے انجام دیااورآج پاکستان میں حبیب بینک اوراصفہانی مولاناطفیل احمد مرحوم کی انتھک کاوشوں کو دعائیں دیتے ہوں گے ۔ مسلم قومیت کی دوسری اہم ضرورت ایک قومی زبان تھی جس کے لئے سرسید نے اردوکوبنایاسنواراتھا۔ بابائے اردومولاناعبدالحق نے ’’ اس قومی زبان ‘‘ کی تعمیر کے سلسلہ میں جو خدمات انجام دی ہیں اس کے لئے پاکستان کے علاوہ ہندوستان کے اردوخواں طبقے بھی ان کے ممنوں ہیں ۔ یہ بھی مسلم قومیت کے موجود ہ خصائص میں شامل ہے کہ اب بابائے اردو اور ان کے حامی بنگالی ، پنجابی ، سندھی یاکسی دوسری پاکستانی نژاد زبان کوقومی زبان کامنصب دینے کے روادرنہیں ہیں ۔
سرسید کے عہد کے ایک اورطالبعلم بھی قابل ذکر ہیں جن کے علم وفضل کے چرچے آج بھی ہیں اورغالباََ برسوں تک رہیں گے ، میری مراد آنجہانی ڈاکٹر بلگرامی سے ہے مجھے ان کی عقل پرستی اورحکیمانہ نظرکے سلسلہ میں صرف ایک قصہ یاد ہے۔ غالباََ ۲ء جب محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کااجلاس رامپور میں منعقد ہوا اورشبلی نے اپنے مخصوص انداز میں شاہان اسلام اوراسلامی روایات کوسراہاتوڈاکٹر بلگرامی سے نہ رہاگیااورانھوں نے برسراجلاس شبلی سے کہاکہ ’’ مولانا ! ان گڑے مردوں کوکیوں اکھیڑتے ہو اس ماضی پرستی سے تومسلمان آگے بڑھنے کے بجائے اوربھی پستی میں جاگریں گے‘‘ ۔ بلگرامی پہلوبہ پہلوآپ سید محمود کوبٹھا سکتے ہیں ۔
سرسید کے متعلق یہ عام طورپر بیان کیاجاتاہے کہ وہ دینیات کی تعلیم کے یکسرخلاف تھے اورمولوی سمیع اللہ اوردوسرے بزرگوں کے اصرارپر بدرجہ مجبوری اس پر رضامندہوئے کہ معمولی صوم وصلوٰۃ کے مسائل طلبا کوسکھائے جائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ کے ابتدائی دورکے طالب علم بڑی حد تک مذہبی یاکم ازکم کٹرپن سے مبرّااورسائنس اورجدید خیالات سے مانوس نظرآئیں گے ۔ دوسری جانب ان میں سماجی شعور کافقدان بالعموم ملے گااوران کی نگاہیں دنیوی کامیابی اورانفرادی ترقی پرہونگی ۔ غالباََانفرادیت کے مظاہرکی یہی وہ صورتیں تھیں جن سے گھبراکراکبرؔنے علی گڑھ کے نوجوانوں کے بارے میں کہاتھاکہ :
کیاکہیں احباب کیاکارِنمایاں کرگئے
بی اے ہوئے، نوکر ہوئے ،پنشن ملی، پھرمرگئے
(جاری)