اس میں کوئی شک نہیں کہ خالق عالم جل جلالہ وعم نوالہ نے محسن انسانیت ، رحمت عالم ، شاہکار قدرت حضور سرور کونین ﷺ کو وہ بلند وبرتر ، عالی و شامخ ،عظیم و رفیع مقام عطا فرمایا ہے جس کا عقل نہ تو ادراک کر سکتی ہے اور نہ ہی زبان اسے بیان کر سکتی ہے ۔
آپ ﷺ کی عظمت ورفعت کے آفتاب و ماہتاب توریت ، زبور، انجیل ، قرآن کریم اور ان کے علاوہ تمام صحف سماویہ وکتب الٰہیہ میں چمکتے دمکتے نظر آ رہے ہیں۔
وہ تمام کمالات جو تمام انبیائے کرام و رسل عظام علیہم الصلوٰۃو السلام میں الگ الگ تھے اﷲ تعالی نے ان سب کو رسول اﷲ ﷺ میں جمع فرما دیا اور اس کے علاوہ ان کمالات اور خوبیوں سے نوازا جس میں کوئی آپ کا شریک و سہیم نہیں۔
ان تمام کمالات و خصائص میں سے ایک خصوصیت و کمال آپ کا رحمۃ للعالمین ہونا بھی ہے ، یوں تو رحمۃ للعالمین کا لفظ بہت مختصر ہے مگر اپنے دامن میں پوری کائنات لیے ہوے ہے، اس وصف میں آپ صلی اﷲعلیہ و سلم کی عظمتوں اور رفعتوں کا جو اظہار ہے وہ پوشیدہ نہیں ، اس میں نہ زمان کی قید نہ مکان کی نہ ہی یہ کسی وصف سے مقید ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوقات ہر زمان و ہرمکان میں ہر طرح سے آپ کے رحمت کی محتاج ہیں اور کوئی بھی آپ کی رحمت سے مستغنی نہیں ہو سکتا اور یہ حقیقت ہے کہ پوری کائنات آپ کی رحمت کے گھنے سائے میں بڑے اطمینان و سکون کے ساتھ اپنی زندگی کے ایام گزار رہی ہے۔
آپ کے رحم وکرم ،فضل و احسان کی بارش سب پر ہوئی ،خوب ہوئی اور ہو رہی ہے ، کوئی بھی اس سے محروم نہیں ، بنی نوع انسانی بھی اس سے محروم نہیں بلکہ اس پر تو رسول اﷲ ﷺ کے اتنے کثیر احسانات ہیں جن کو ہم شمار نہیں کر سکتے ۔
ذیل میں آپ ﷺ کے کچھ احسانات مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر ملاحظہ کریں ۔
رسول اﷲ ﷺ کی بعثت سے پہلے انسانیت بالکل ذلیل تھی ،حقیر تھی ، رذیل تھی ، خود انسان کی نظر میں انسانیت کی کوئی قدر و منزلت نہ تھی اسکی پستی و خواری کا یہ حال تھا کہ بہت سے حقیر و ذلیل حیوان اس مقابلے میں عزیز و محترم تھے ان کی حفاظت اور نگہ داشت کا اہتمام تو تھا مگر اس کا نہیں ۔
اسکا خون تو ہر شئی سے ارزاں تھا ، معمولی باتوں پر ہزاروں ہزا رکا خون بہ جانا کوئی معنٰی نہیں رکھتا تھا ، کبھی تو اسے کسی جمادیا حیوان کی بھینٹ چڑھادیا جاتا تو کبھی رقص و سرور کی محفل میں اس کا خون بہا دیا جاتا ، جبکہ کبھی کسی ظالم و جابر کے نظام ظلم واستبداد قائم کرنے کے لئے اسے زینہ بنادیا جاتا۔
بہر حال انسانیت ذلت و مسکنت ، پستی و خواری کی اس انتہا پر تھی کہ یکایک رسول اﷲ ﷺ کی بعثت ہو جاتی ہے اور انسانیت آپ ﷺ کے طفیل پستی و خواری کے اس قعر سے نکل کر عزت و عظمت ، شرافت و کرامت کے اوج پر پہونچ جاتی ہے بلفظ دیگر ثریٰ سے ثریا پر پہونچ جاتی ہے ۔
کل تک انسانیت ذلیل تھی ، حقیر تھی اور آج رسول اﷲ ﷺ کے طفیل اشرف المخلوقات کا خطاب پاتی ہے
{اور بیشک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور انکو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا} (۱)
کی ندائے ربانی سنتی ہے کہ جس سے خلق کثیر پر ا س کی فضیلت او ربرتری ثابت ہو رہی ہے ۔
کل تک انسانیت کا نہ کوئی مقام تھانہ کوئی حیثیت بلکہ بہت سے حقیر وذلیل جانوروں کے مقابلے میں بھی ذلیل و حقیر تھی مگر آج رسول اﷲ ﷺ کے طفیل یہ اعلان ربانی سنتی ہے
{ وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے }(۲)
پھر تو اسے اس بات کا احساس و ادراک ہو جاتا ہے کہ وہ اﷲ تعالی کی سب سے عزیز ترین مخلوق ہے اور اس کرئہ ارض کی ہر شئی یہ عالم نباتات و جمادات وحیوانات سب کے سب اس کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔
کل تک انسان کا خون ہر شیٔ سے ارزاں تھا اور آج ہر شیٔ سے گراںاور قیمتی ہو گیا یہاں تک کہ ایک شخص کو نا حق اور فساد فی الارض کے بغیر قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے اور ایک انسان کو جلا دینا پوری انسانیت کو جلا دینے کے مترادف ہو گیا ، شریعت مطہرہ کا مطالعہ کریں آپ پر واضح ہو جائیگا کہ خون تو خون شریعت مصطفویہ ـ علی صاحبہا الف الف تحیۃ وتسلیم ـ نے انسان کے ایک ایک عضو کو محترم و مکرم قرار دے دیا ہے، اب اسکے چہرے کا مثلہ بنانا اور اس کی شبیہ بگاڑنا تو بڑی بات ، اس کے چہرے پر مارنا بھی جرم قرار پا گیا ہے اس کے جسم کے کسی حصے کی بیع یا اس سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا حرام کر دیا گیا ،ذرا آپ شریعت کی زبان میں اس کی دلیل تو دیکھیں فقہی کتب میں اس کی دلیل اس انداز میں بیان کی جاتی ہے کہ ( لأن الآدمی مکرم لا مبتذل ) کہ انسان محترم ہے کمتر و ذلیل نہیں (۳)
یہ تکریم انسانیت اور احترام آدمیت کا کتنا عظیم تصور ہے جو شریعت مصطفویہ علی صاحبہا الف الف تحیۃ وتسلیم کے سوا کہیں نظر نہیں آتا ۔
آپ ذرا اس حدیث شریف کو پڑھیں جس کا مضمون ہے کہ:
[ اﷲ تعالی قیامت کے دن فرمائے گا کہ اے ابن آدم میں بیمار ہوا تو تو نے میری عیادت نہیںکی ابن آدم کہے گا کہ اے میرے رب! میں تیری عیادت کیسے کرتا جب کہ تو رب العالمین ہے فرمائے گا کیا تجھے نہیں معلوم کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو تونے اس کی عیادت نہیں کی کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اسکی عیادت کر تا تو مجھے اس کے پاس ضرور پاتا اے ابن آدم !میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو تو نے مجھے کھانا نہیں دیا ابن آدم کہے گا، کہ اے میرے رب !میں تجھے کھانا کیسے دیتا جبکہ تو رب العالمین ہے ،فر مائے گا کیا تجھے نہیں معلو م کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو تونے اسے کھانا نہیں دیا کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اسے تو میرے پاس ضرور پاتا ، اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی طلب کیا تو تونے مجھے پانی نہیں دیا ابن آدم کہے گا اے میرے رب! میں تجھے پانی کیسے دیتا جبکہ تو رب العالمین ہے ، فرمائے گا کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تو تونے اسے پانی نہیں دیا کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسکو پانی دیتا تو اسے میرے پاس ضرور پاتا ](۴)
اس حدیث شریف میں رسول اﷲ ﷺنے واضح فرما دیا کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک انسانیت کا کیا مقام و منزلت ہے ۔
بہر حال رسول اﷲ ﷺ ہی انسانیت کے وہ عظیم محسن ہیں جنھوں نے انسانیت کو ثریٰ سے ثریا پر پہونچایا اور اس کو اس کا حقیقی مقام و منزلت واپس دلایا اس کا خون ہی نہیں بلکہ اس کے ایک ایک عضو کو مکرم و محترم بنا دیا ،احترام انسانیت و تکریم آدمیت کا عظیم تصور دیا اور یہ واضح کر دیا کہ انسان سے بڑھ کر اس کائنات ہست و بود کی کوئی شئی نہیں جو اﷲ کے نزدیک اس سے زیادہ محترم و مکرم ہو ، یہ انسانیت پررسول اﷲ ﷺ کا ایسااحسان عظیم ہے کہ جس کو انسانیت کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔
آج اور آج نہیں ہمیشہ اجتماعی زندگی میں بنی نوع انسانی کے درمیان اختلاف اور ٹکراؤکی صور ت پیش آتی رہتی ہے جو بسا اوقات سنگین صورت اختیار کر لیتی ہے ،رسول اﷲ ﷺنے ا س اہم انسانی مسئلے کو ہر ایک کے حقوق متعین فرما کر حل فرمادیا (اس موضوع پر میرا ایک مقالہ بعنوان ’’الاسلام ہو الطریق الوحید لتحقیق الأمن والسلام فی الأرض ‘‘ ہے جو التربیۃ الاسلامیہ جلد ۳۶ ع ۸ بغداد عراق سے شائع ہو چکا ہے ) اس میں ان حقوق کی تفصیل اور موضوع کے تعلق سے طویل گفتگو ہے ۔
آ پ ﷺ کی بعثت سے پہلے دین و دنیا دو متبائن شئی تھے دونوں کے درمیان سخت ٹکراؤ بڑی کشمکش اور شدید اختلاف تھا دونوں کبھی یکجا نہیں ہو سکتے تھے یہی حال علم اور دین کا تھا جہاں علم وہاں دین کا گذر نہیں اور جہاں دین وہاں علم کا تصور نہیں ، آپ ﷺ ہی نے دین و دنیا کی کشمکش دین و علم کا اختلاف محو فرما دیا اب دین و دنیا کا نہ کوئی ٹکراؤ اور نہ علم و دین میں کوئی تعارض اس چیز نے انسانیت کے سامنے ترقی کے دروازے کھول دییے۔
آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے عورتوں کا کیا حال تھا تاریخ اسلام اور سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے والے سے مخفی نہیں ہے آ پ ﷺ نے عورتوں کو ان کا کھویا ہوا مقام و حیثیت واپس دلایا او ر انھیں ایسا کپڑا پہنایا جو انکے قد سے نہ چھوٹا نہ ہی بڑابالکل ان کے برابر جس سے ان کا حسن اور دوبالا ہو گیا ۔
اور آپ ﷺ نے ہی انسانوں کے درمیان تفریق و تمیز کی ساری دیوار یںمنہدم فرما دیں ، وحدت بنی آدم اورانسانی مساوات کادرس دیااورواضح الفاظ میںارشادفرمایا:
[اے لوگو ! بیشک تمہا را رب ایک ، تمہارا باپ ایک تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے بیشک تم میں اﷲ کے نزدیک عزیز ترین وہ شخص ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو ، کسی عربی کو کسی عجمی پر تقویٰ کے علاوہ کسی اور بناپر کوئی فضیلت نہیں ](۵)
اب رنگ و نسل وغیرہ معیار شرف و کرامت نہیں اور تقویٰ ہی شرافت وکرامت کا واحد معیار ہے۔
آپ ﷺ ہی انسانیت کو تاریکی سے نور کے طرف ،ہر طرح کی بندگی اور غلامی سے خدائے وحدہ لاشریک کی بندگی کے طرف ،تنگ و تاریک قفس سے جس میں انسانیت کا دم گھٹتا تھا کھلی فضا کے طرف اورتمام ادیان و خود ساختہ نظاموں کے جور و ظلم سے عدل اسلام کے طرف لائے آپ ﷺ ہی نے انسانیت سے وہ طوق وسلا سل ہٹائے جسے اس نے اپنے اوپر ڈا ل رکھے تھے، ان پاکیزہ نعمتوں کو اس کے لیے حلال کیا جن سے اس نے خود کو محروم کر رکھا تھا اوراس کے لئے گندی چیزوں کو حرام قرار دیا ، آپ ﷺ ہی نے اس کے ہر پہلو اور ہر گوشے پر مکمل توجہ دی اگر روح انسانی کی تشنگی دور فرمائی تو اس کے جسد کے فطری تقاضوں سے اغماض نہیں فرمایا ۔
آپ ﷺ نے انسان کے مقصد حیات کومعدہ ومادہ سے بہت بلند فرمایا آپ ہی کی تعلیمات کے صدقے اب اسکی تگ و دو ، سعی وکوشش اور جد و جہد ایک معمولی مقصد یعنی کھانا اور پینا جو صرف حیوانی مقصد ہے کے لیے نہیں رہیگی بلکہ ایک اعلی ترین مقصد و غایت کے لیے ہوگی جو کہ رضائے خدا ،و رسول ہے ( جل جلالہ ﷺ )
آپ ﷺنے انسانیت کے سامنے توبہ و انابت الی اﷲکا دروازہ کھولاجس سے انسانیت کو روحانی سکون و اطمینان حاصل ہوا ورنہ تو وہ اس سوچ سے گھٹ گھٹ کر مر جاتی کہ اسکی بخشائش نہیں ۔
آپ ﷺ ہمیشہ انسان کے اس طبقے کا خاص خیا ل فرماتے ہیں جس کا کوئی خیال نہیں کرتا جس کا کوئی غم گسار و غم خوار نہیں ہوتاجس کے حال زار پر کوئی نہیں روتا جس کے غم میں کوئی شریک نہیں ہوتا جس سے کوئی محبت نہیں کرتا جسے کوئی اپنے قریب نہیں کرتا ، میری مراد غریبوں اور غلاموں کا طبقہ ہے غریبو ں اور مفلسوں پر اس طرح نظر کرم فرمائی کہ امیروں کے مال میں سے ان کے لیے حصے مقرر فرما دیے یہ زکوٰۃ ،یہ عشر،یہ فطرہ یہ سب کس کے لیے ہیں ؟ یہ سب رسول اﷲ ﷺ نے انھیں کا خاص خیال فرماتے ہوے امیروں پر لازم فرمائے ہیں اور غلاموں پر تو اس طرح کرم فرماتے ہیں کہ فرماتے ہیں:
[یہ تمھارے لونڈی غلام تمھارے بھائی ہیں جن کو خدا نے تمھارے ماتحت کر دیا ہے تو جس کا بھائی اس کے ما تحت ہو وہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہو اور اسے اسی قسم کا لباس پہنائے جو خود پہنتا ہو،مزید ارشادفرماتے ہیں ان سے کسی ایسے کام کی فرمائش نہ کرو جو ان کی طاقت کے باہر ہو اور اگر تم ایسے مشکل کاموں کی فرمائش کرو تو خود بھی ان کی مدد میں لگ جاؤ اور ان کا ہاتھ بٹاؤ](۶)
اور غلاموں کی آ زادی کا خاص خیال فرمایا کتاب و سنت کا مطالعہ کرنے والوں سے یہ امر پوشیدہ نہیں ۔
آپ ﷺ نے انسانیت کو ایسی تعلیمات سے نوازا جو اسے ترقی و خوشحالی وفلاح و کامرانی ، روحانی سکون و اطمینان اور دارین کی سعادتوں سے بہرہ ور کرتی ہیں ۔ صرف ایک تعلیم پیش ہے رسول اﷲ ﷺ اشاد فرماتے ہیں:
[اﷲ تعالی کی نعمتوں میںغور کرو اور ا س کی ذات میں غور نہ کرو ورنہ تو ہلاک ہوجاؤ گے](۷)
اسی ایک تعلیم پر عمل کر کے انسان آج مریخ پر کمندیں ڈال رہا ہے یہ صرف ایک تعلیم کاحال ہے اس سے بقیہ کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
آپ ﷺ نے انسان کو اس شعور کی دولت سے مالا مال فرمایا کہ نفع و نقصان کا حقیقی مالک صرف اﷲ تعالی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ احقاق حق کے معاملے میں بالکل بے باک اور نڈر ہو گیا کہ اب اسے اس معاملے میں کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں رہ گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس تو ہم پرستی کا خاتمہ ہو گیا کہ جو اسکی حیات کو مکدر کیے ہوئے تھی ۔
وہ کون سی نعمت ہے اور وہ کون سی نیکی اور بھلائی ہے جو انسانیت کو رسول اﷲ ﷺ کے در پاک سے نہیں ملی یہ اعلیٰ اخلاقی اقدار ، تواضع و انکساری ، حلم و بردباری ، صدق و صفا ،امانت و قناعت ، صلح و سلامتی ، امن وامان ، خلوص و للّٰہیت ،زہد و تقویٰ ، خدا طلبی کا ذوق ، خدا شناسی و خود شناسی کا جوہر ، عالی ہمتی ، بلند حوصلگی ، ضمیر کی بیداری ، عقل انسانی کی آزادی ، حدود الٰہیہ کا احترام کرتے ہوئے آزادی رائے کا تصور ، عدل وانصاف کی بالا دستی یہ سب کچھ انسانیت کو آ پ ہی کے در پاک سے ملے ہیں ۔
یہ قلم و قرطاس ، یہ علمی جستجو و تحقیقات ، یہ علم و تحقیق کے میدان میں دنیا کی تیز گامی ، یہ اسناد وروایت ، یہ نحو وصرف ومعانی ، یہ بیان و بدیع وعروض و قوافی ، یہ علم لغت و اشتقاق وغیرہ یہ سب تو آپ ہی کی بعثت کی ہی برکتیں ہیں ، عالم انسانیت پر ابر رحمت کے یہ چند قطرات تھے جنھیں آپ نے ملاحظہ کیا ۔
یہاں یہ خیال رہے کہ سرکار بطحا ﷺکے رحمت و کرم کا ابر صرف عالم انسانیت پر ہی نہیں برستاہے بلکہ جس طرح آپ ﷺ سب کے لیے رحمت ہیں اسی طرح آپ کی رحمت بھی سب کے لئے عام و تام ہے اورآپ کا ابر رحمت و کرم سب پر جھوم جھوم کر برستا ہے ۔
ان احادیث کریمہ کو ملاحظہ فرمائیں جس میں رحمت و رافت ، شفقت و محبت ، رفق و لین کے جام چھلکتے ہیں جو کسی طبقے، قبیلے اور ملک کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ان تعلیمات کا ابر کرم سب پر یکساں برستا ہے پوری مخلوق ان سے خوب فیضیاب ہو رہی ہے ۔
سرکار بطحا ﷺ ارشادفرماتے ہیں :
[رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا] (۸)
مزید ارشاد فرماتے ہیں :
[ پوری مخلوق اﷲ کاکنبہ ہے(یعنی اللہ تعالی نے ان کے رزق کو اپنے ذمۂ کرم پر لے لیا ہے ) اﷲ تعالی کو وہی شخص سب سے پیارا ہوگا جواس کے کنبے کے ساتھ بھلائی کرے](۹)
آپ دیکھیں کہ ان تعلیمات میں آپ کا وصف رحمۃ للعالمین کس قدر درخشندہ و تابندہ ہے۔
حواشی:
(۱) سورۃ الاسراء آیت ۷۰ (۲) سورۃ البقرۃ آیت۲۹ (۳) ہدایہ آخرین ص۵۵ (۴) رواہ مسلم (۵) العقد الفرید ج ۲/۱۲۶(۶) رواہ البخاری (۷) الملفوظ ج ۲ / ص ۲۰۸ (۸) رواہ ابوداؤد والترمذی (۹) رواہ البیہقی
(استاذ دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف وسجادہ نشین آستانہ بدر العلماء بڑھیا، ضلع سدھارتھ نگر)