ڈاکٹر جسیم الدین
گیسٹ فیکلٹی شعبۂ عربی،دہلی یونیورسٹی،دہلی
عالم عرب میں ہندوستانی نامور علما کی علمی میراث کے سفیر مولانا رحمت اللہ ندوی نوجوان نسل کے لیے آئیڈیل اور لائق تقلید ہیں، بہت معمولی عرصہ میں آپ نے غیر معمولی شہرت حاصل کی ہے، علم وتحقیق کے میدان میں آپ نے نمایاں مقام حاصل کرکے معاصرین کے درمیان جو امتیازی شناخت بنائی ہے،اس میں جہاں آپ کی شبانہ روز کی سعی پیہم اور جہد مسلسل کو دخل ہے، وہیں آپ کی شخصیت سازی میں آپ کے مشفق اساتذۂ کرام کی مثالی تربیت اور آپ کے چچا محترم مولانا محمد قاسم صاحب مظفر پوری سینئر قاضی امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ بہار کی غیر معمولی توجہات اور دعائے نیم شبی کار فرما رہی ہے۔ مولانا محمد قاسم صاحب دامت برکاتہم نے نہ صرف آپ کی علمی رہنمائی کی،بلکہ آپ کی شخصیت کو بنانے سنوارے میں بھی غیر معمولی دلچسپی لی،آج مولانا رحمت اللہ ندوی جو کچھ بھی ہیں، اس میں مولانا قاسم صاحب مظفر پوری کا اہم کردارہے۔
اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ مولانا رحمت اللہ ندوی خود علم وتحقیق کے شناور ہیں، کتب بینی ان کی غذا،تصنیف وتالیف ان کا مشغلہ اورعلمی اشتغال و انہماک روز وشب کا معمول ہے۔عربی زبان کی گہرائی وگیرائی اور اس کی نزاکتوں سے واقف ہیں۔عربی زبان کی مکمل آگہی اور اس میں دسترس ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو اردو زبان وادب سے فطری وابستگی بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے مایہ ناز ونابغہ روزگار علما کی اردو تصانیف کو عربی کا جامہ پہنارہے ہیں، آپ اپنے اس منفرد وممتاز علم وتحقیق کی بدولت جہاں ہندوستانی علما کے محبوب نظر ہیں، وہیں اپنے فضل وکمال کی بدولت عرب علما کے بھی منظور نظربن چکے ہیں۔
راقم الحروف نے دو سال قبل دہلی یونیورسٹی نارتھ کیمپس کی سینٹرل لائبریری میں کئی کتابوں کے مصنف محترم مولانا ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی سینئر سب اڈیٹر روزنامہ راشٹریہ سہارا کے ساتھ مولانا رحمت اللہ ندوی صاحب کو دیکھا کہ ان کے دونوں ہاتھ گرد آلود ہیں اور وہ مطلوبہ کتابوں کی جستجو میں سرگرداں تھے، یقین جانیے مجھے آپ کو اس حال میں دیکھ کر بالکل حیرت نہیں ہوئی، چوں کہ چند سال قبل غالباً 2007-08 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں آپ کی کسی تصنیف کی رسم رونمائی کی تقریب تھی، یہاں مجھے آپ کی شخصیت سے مکمل طور پر آشنائی ہوچکی تھی کہ آپ علم وتحقیق کے کس مقام پر فائز ہیں، اس تقریب کی نظامت ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی صاحب نے کی تھی، اور مہمان خصوصی آپ کے چچا محترم مولانا محمد قاسم مظفرپوری، اورمشہور ونامور اسلامی اسکالر پرفیسر اختر الواسع صدر مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور، پروفیسر ایمریطس شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی تھے۔ یہاں موجود اصحابِ علم وفضل، اساطین قرطاس وقلم کی زبانی آپ کی شخصیت اور کارنامے پر مفصل روشنی ڈالی جاچکی تھی، اس لیے آپ کی علم دوستی اور تحقیق میں جانفشانی پر یہاں محوحیرت نہیں ہونا پڑا۔ ہر چندکہ یہاں (دہلی یونیورسٹی کی سینٹرل لائبریری)پر بھی آپ کا یہ عمل آپ کے ذوق تحقیق اور علم وادب کی شناوری پر شاہد عدل ہے۔ آپ فی الحال قطر کی وزارت اوقاف سے وابستہ ہیں، ہندوستان چند دنوں کے لیے آتے ہیں، لیکن یہاں آکر بھی آپ کتابوں کے درمیان ہی بیشتر اوقات گزارتے ہیں بطور خاص کتب خانوں میں۔آج مجھے ”خطبات مدراس” سید القلم سید سلیمان ندوی صاحب کی سیرت پر کی گئی تقریروں کا مجموعہ کا عربی ترجمہ ”الرسالۃ المحمدیۃ” کا ٹائٹل پیج القلم للبحث والترجمہ واٹس ایپ گروپ پر دیکھ کر بے پناہ خوشی ہوئی کہ آپ دیار عرب میں ہندوستانی علماء کی علمی میراث کو کس شان سے منظر عام پر لارہے ہیں، آپ ٹیم ورک کو بھی تن تنہا مسلسل انجام دے رہے ہیں اور آپ کی اکثر عربی میں ترجمہ شدہ کتابیں دمشق کے دارالقلم سے شائع ہورہی ہیں۔آپ کی تصانیف میں المنثورات فی عیون المسائل المھمات (المعروفۃ بفتاویٰ الامام النووی،معدّل الصلاۃ، وجوب الطمأنینۃ والاعتدال فی أرکان الصلاۃ (تحقیق وایڈیٹنگ)،سیرۃ أم المؤمنین السیدۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا،أشرف علی التھانوی حکیم الامۃ وشیخ المشائخ العصر فی الہند،مستدلات الحنفیۃ من الأحادیث النبویۃ (تخریج وتحقیق) أدلۃ الحنفیۃ من الأحادیث النبویۃ علی المسائل الفقہیۃ (مجلد ثانی وثالث) شامل ہیں۔علاوہ ازیں رسائل فی الدعوۃ إلی الإسلام شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کے تین رسائل(1) فضائل دعوت إلی اللہ(2) فضائل قرآن (3) فضائل نماز کے عربی ترجمہ کی تحقیق وایڈیٹنگ کاکام انجام دیاہے۔علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے تین مشہور رسائل (1)فصل الخطاب فی مسألۃ أم الکتاب (2)کشف الستر فی صلاۃ الوتر (3)إکفار الملحدین فی ضروریات الدینکی تحقیق وایڈیٹنگ احادیث کی تخریج کے ساتھ۔ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ (سابق وزیر اوقاف پاکستان، وسابق وائس چانسلر اسلام آباد یونیورسٹی) کے مقدمہ کے ساتھ۔ 756 صفحات پر مشتمل یہ کتاب دارالبشائرالإسلامیہ بیروت لبنان سے سنہ 2010ء میں طبع ہوئی۔ الطریقۃ المحمدیۃ والسیرۃ الاحمدیۃ(تحقیق وتدوین)،المدخل الوجیز إلی دراسۃ الاعجاز فی الکتاب العزیز(تحقیق وتدوین) مبادئ فقہ القانون الدولی الإنسانی فی الشریعۃ الإسلامیۃ،(تحقیق وتدوین)،الابواب والتراجم لصحیح البخاری(تحقیق وتدوین) کے علاوہ اردو تصانیف کی بھی فہرست طویل ہے۔جن میں،وصیت اور اسکی شرعی حیثیت ،ہدیہ اور رشوت قابل ذکر ہیں۔علاوہ ازیں حال ہی میں جزء حجۃ الوداع وعمرات النبی صلی اللہ علیہ وسلم (تحقیق وتدوین)مختصر الطحاوی (تحقیق وتدوین)مقاصد الشریعۃ والحیاۃ المعاصرۃ (عربی میں ترجمہ)جزء حجۃ الوداع وعمرات النبی صلی اللہ علیہ وسلم (تخریج احادیث) المحدث الکبیر الداعیۃ الجلیل الشیخ محمد زکریا الکاندہلوی، حیاتہ وجہودہ العلمیۃ والتعریف بأہم مؤلفاتہ،الأبواب والتراجم لصحیح البخاری(تحقیق وتدوین) جیسی کتابیں بیروت ودمشق سے شائع ہوچکی ہیں قرآن کریم کتاب ہدایت تصنیف کرکے مفت تقسیم کی گئی۔جو کتابیں زیر تحقیق وتالیف ہیں،ان میں تاریخ الدعوۃ الإسلامیۃ فی الہند للشیخ مسعود عالم الندوی رحمہ اللہ مع نبذۃ عن حیاتہ وأعمالہ ومآثرہ العلمیۃ والدعویۃ،الفوائد البہیۃ فی تراجم الحنفیۃ، النظام التعلیمی والتربوی للمسلمین فی الہند قدیما وحدیثا،مشہورمصنف ومحقق علامہ مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کی 600صفحات پر مشتمل کتاب”ہندوستان میں مسلمانوں کا تعلیمی وتربیتی نظام تعلیم“ کاعربی زبان میں ترجمہ اورتحقیق کاکام زیرتکمیل ہے۔ آپ کا قلم جہاں سیال ہے،وہیں آپ کی فکربالیدہ او رشعور پختہ ہے۔آپ کا فکر وفن آپ کو معاصرین سے ممتاز کرتا ہے، بات چاہے معلومات کی ہو یا اسلوب نگارش کی، ہرمیدان میں آپ کی انفرادیت آپ کی شناخت ہے، آپ کا اسلوب نگارش بھی بڑا البیلا ہے، آپ کی تصانیف کی ہر سطر چاشنی وشیرینیت کے ساتھ معنی خیز تعبیرات سے لبریز ہے۔ اللہ کرے زورقلم اور زیادہ۔
اس وقت مولانا رحمت اللہ ندوی دیار عرب میں ہندوستانی علماء کے علمی میراث کی ترویج واشاعت کے سفیر ہونے کے ساتھ ہم نسل نو کے لیے آئیڈیل ہیں۔آپ نہایت خاموشی سے بڑے بڑے علمی و تحقیقی مشاریع پر پیہم کام کررہے ہیں، ہرسال قابل ذکر آپ کا علمی کارنامہ منظر عام پر آنے کے بعد شرف قبولیت حاصل کرتا ہے اور علم وادب کے شائقین کے لیے اس طرح گراں قدر سرمایہ آپ فراہم کرتے ہیں۔آپ کا جہد مسلسل اور سعی پیہم آپ کے روشن مستقبل کا غماز ہے، یہ بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں مردہ پرستی کا رواج عام ہے، زندگی میں خواہ آپ علم وفن کے کوہ گراں کو سر کردیں، لیکن اس کی ستائش کرنے والے خال خال ہی ملیں گے اور داعی اجل کو لبیک کہتے ہی متوفیہ کے فکر وفن پر تحقیق اور کارناموں کو گنوانے کے لیے قومی و بین الاقوامی سیمیناروں و کانفرنسوں کا طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ اس ذہن ومزاج اور اس فرسودہ طریقہ کار کو بدلا جائے گا اور جو بھی علمی وتحقیقی کارنامے انجام دینے والی موجودہ شخصیات ہیں، ان کی زندگی میں ہی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جائے، بلکہ نسل نو ان کے طریق کار کو اپنانے کی تلقین بھی کی جائے. میری یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے علمی وتحقیقی سفر کو یونہی جاری رکھے۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے علمی پس منظر سے بھی آگاہ کرایا جائے،تاکہ مولانا رحمت اللہ ندوی کی علمی شخصیت سے مکمل آگہی کے ساتھ، ان کے تعلیمی مراحل ومنازل سے بھی آشنائی ہوجائے۔مولانا رحمت اللہ ندوی نے یکم اکتوبر 1974کو ضلع مظفر پور کے ایک گاؤں مادھوپور میں علمی خانوادے میں آنکھیں کھولیں۔ابتدائی تعلیم اپنے گھرمیں اپنے والدحافظ محمدناظم رحمانی سے حاصل کی، بعدازاں گاؤں کے مدرسے میں مولانامحمداختراورمولاناشمیم احمدجومیرے خالوبھی ہیں،سے تعلیم حاصل کی پھرآپ کے چچا محترممشہورعالم دین حضرت مولانا قاضی محمدقاسم مظفرپوری جو مدرسہ رحمانیہ سپول بہارمیں شیخ الحدیث تھے،کے ساتھ مدرسہ رحمانیہ سپول گئے جہاں ان کی نگرانی میں باضابطہ تعلیمی سفرکاآغاز کیا۔مدرسہ رحمانیہ سپول میں ثانویہ کی تعلیم مکمل کی۔یہاں پر اپنے بڑے ابا کی نگرانی اورخصوصی تربیت میں ثانویہ درجات کی تمام درسی کتابیں پڑھیں۔وہاں فقہ،حدیث،عربی زبان،نحووصرف اورقرآن کریم کے کچھ پاروں کاترجمہ مع تفسیرکی تعلیم ہوئی آپ کے چچا محترم مولانا قاضی محمدقاسم مظفرپوری نے قاضی القضاۃ حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی سے مشورہ کیا اس کے بعد مولانارحمت اللہ ندوی نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے لیے1986 میں رخت سفرباندھا۔ندوۃ العلماء میں کئی برس رہ کر علیادرجات کی تعلیم حاصل کی اورفقہ میں تخصص کیا۔1993ء تک ندوۃ العلما کی علمی وروحانی فضاؤ ں میں تعلیم وتربیت کاموقع ملا۔مختلف علوم وفنون میں یکتائے روزگاراساتذہ کرام سے کسب فیض کاموقع ملتارہا۔جن میں سرفہرست حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی،حضرت مولاناڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی،حضرت مولانا زکریاسنبھلی،حضرت مولانامحمدعارف سنبھلی،مفسرقران مولانابرہان الدین سنبھلی،حضرت مولاناشہباز احمداصلاحی،حضرت مولانانذرالحفیظ ندوی،شیخ الحدیث حضرت مولاناناصر علی ندوی لکھنوی،فقیہ الاسلام مفتی ظہوراحمدندوی،حضرت مولانا نیاز احمدقاسمی ندوی خاص طورپر قابل ذکرہیں۔ ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران مولانارحمت اللہ ندوی کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں حضرت مولاناڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی کی خصوصی توجہ حاصل رہی۔ان کی خصوصی تربیت میں عربی زبان وادب کاذوق پروان چڑھا۔1991ء میں عالمیت اور1993ء میں فضیلت کی ڈگری اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ 1992ء میں انہیں مفکراسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن ندوی اورحضرت مولاناعبداللہ عباس ندوی رحمہااللہ کے ہاتھوں ’مثالی طالب علم‘ کااعزاز حاصل ہوا۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم:
مولانارحمت اللہ ندوی نے ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد1994ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سعودی عربیہ میں بی اے کلیۃ الشرعیہ میں داخلہ لیا۔وہاں ممتاز طالب علم کی حیثیت سے مشہوررہے اوروہاں کے مختلف علمی وثقافتی پروگراموں میں حصہ لیا۔جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ان کے علمی وتحقیقی ذوق کو خوب پرواز ملی۔وہاں انہو ں نے فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن محمدالغنیمان،فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبدالرازق بن عبدالمحسن العباد،فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر محمدمختارالشنقیطی،فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبدالسلام السہیمی،فضیلۃ الشیخ احمدحسن الحارثی،فضیلۃ الاستاذڈاکٹر غازی بن غزای المطیری سے خاص طورپر فیض حاصل کیا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم:
مولانارحمت اللہ ندوی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے عربی ادب میں 2008ء میں ایم اے کیا۔اس کے بعد2012ء میں اسلامک اسٹڈیزسے ایم اے کیا۔عربی اوراسلامک اسٹڈیز میں پرائیویٹ امیدوارکی حیثیت سے امتیازی نمبرکے ساتھ ڈگری حاصل کی۔
امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں بحیثیت باحث:
مولانارحمت اللہ ندوی نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعدفقیہ الاسلام حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی کی دعوت پر امارت شرعیہ پھلواری شریف آئے جہاں مرکز البحث والدراسہ والترجمہ کے باحث کی حیثیت سے اپنی علمی وتحقیقی سرگرمیو ں کاآغاز کیا۔یہاں کئی علمی پروجیکٹ پر کام کیا۔
کویت کے مخطوطات کے ادارہ سے وابستگی:
پٹنہ میں قیام کے دوران کویت میں قائم مخطوطات کے ایک سرکاری ادارہ سے وابستگی ہوئی اورہندوستان میں اس ادارہ کے نمائندہ کے طورپر کام کیا۔
دوحہ،قطر میں ملازمت:
مولانارحمت اللہ ندوی نے 1998ء میں دوحہ قطر کی وزارت داخلہ میں ملازمت اختیارکی۔وہ روزاول سے ہی وزارت کی مفوضہ ذمہ داریو ں کو نہایت ایمانداری اوروفاداری کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ رب ذوالجلال سے یہی دعاہے کہ آپ کے علم وتحقیق کا سفر یونہی جاری رہے،اور آپ کا فیض پوری دنیا میں عام ہوتارہے۔بلاشبہ آپ تصنیف وتالیف کے ذریعے اکابر علما کے علمی میراث کی نشر واشاعت اور ارتقا میں زبردست کردار ادا کررہے ہیں۔
خدا کرے مرحلہ شوق تمام نہ ہو
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)