حبیب اللہ ہاشمی
قاضی بہیرہ،دربھنگہ
ذہن میں علم و فکر کے چراغ روشن ہوں اور دماغ تخلیق و وتحقیق کے نئے آفاق کی تلاش میں سرگرداں ہو،توپھر ایک قلم کار کے قلم سے دلکش،مفیدِ خاص وعام اور علم ریز و عطر بیز تحریریں عالمِ وجود میں آتی ہیں، بسااوقات ایک تخلیق کار عمر کی ایک طویل مسافت طے کرنے کے بعد اس کمال تک پہنچ پاتا ہے،جبکہ کبھی کبھی بعض لوگ نوعمری میں ہی اپنے مطالعہ و مشاہدہ کی قوت کی بہ دولت اس فضل و مرتبہ کو حاصل کرلیتے یا اس راہ پر چل نکلتے ہیں۔نئی جنریشن میں نایاب حسن کو میں اسی دوسری صف میں دیکھتا ہوں،اللہ نے اس کے قلم میں حسنِ نگارش کے ساتھ ذہن و فکر میں علم وفکر کی روشنی اور خیال کی تابندگی بھی رکھی ہے،اس کے ساتھ ساتھ اس کے یہاں موضوعات کا تنوع بھی ہے،چنانچہ نہ صرف مذہبی اشخاص و افکار اس کے مطالعے کا حصہ ہیں،بلکہ جدید وقدیم ادب کے اعیان واساطین بھی اس کے مطالعہ وتنقید کا جزوِلاینفک ہیں۔ نایاب کی اس سے پہلے دوکتابیں منظر عام پر آکر قبولِ عام حاصل کرچکی ہیں اور دونوں اپنے اپنے موضوع پر غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں،ایک برصغیر کے معروف ومشہور اردوادیب،خطیب،شاعر اور صحافی آغاشورش کاشمیری کے منتخب مضامین کا مجموعہ”ورق ورق درخشاں“ہے اور دوسری ”دارالعلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ“جس میں نایاب نے دیوبند کے فضلا ووابستگان کی صحافتی خدمات کا مبسوط و مفصل جائزہ پیش کیاہے،اب اس کی یہ تیسری کتاب”عکس و نقش“کے نام سے منظر عام پر آئی ہے،جو بنیادی طورپرمختلف علمی،فکری،ادبی شخصیات کی حیات و خدمات کے مختلف پہلووں کے جائزے پر مشتمل ہے۔اس کتاب میں نایاب حسن نے جن شخصیتوں کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے بیشتر ایسی ہیں جن پر ماضی میں کچھ نہ کچھ لکھا جا چکا ہے اور بعض شخصیتیں تو ایسی بھی ہیں، جو ریسرچ اسکالرس کے تحقیق کا موضوع رہی ہیں اور ان پر ایک سے زائد تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں، اس کے باوجود نایاب کی تحریریں اپنے دامن میں معلومات کا خزانہ لیے ہوئے ہیں اور انفرادیت ان کا بنیادی وصف ہے۔ نایاب کی تحریروں کی خصوصیت یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں، تحقیق کے نئے دریچے کھول دیتے ہیں،ان کی تحریروں میں ان شخصیتوں کا عکس جا بجا دکھتا ہے، جس کی وجہ سے قاری کے دل پر خوشگوارنقش قائم ہوجاتا ہے، الفاظ کو برتنے کاسلیقہ اور خوب صورت تعبیرات کے استعمال میں نایاب اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہیں، ادب کے علاوہ عصرِ حاضر کے مسائل پر بھی خوب لکھتے ہیں اور نہ صرف لکھتے ہیں،بلکہ تحقیق کا حق ادا کر دیتے ہیں، ان کے مضامین پڑھنے کے بعد قاری کے دل میں ایک کسک رہ جاتی ہے کہ ”کاش کچھ اور لکھا ہوتا!“ان کی تحریروں میں بلا کی مقناطیسیت ہے،جو قاری کو اپنی جانب کھینچتی ہے، اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جن کی تحریریں ادبی چاشنی سے لبریزہوتی ہیں، ان کے یہاں علم وتحقیق کا فقدان ہوتاہے، مگر نایاب کی تحریروں میں جہاں ادب کی چاشنی ہوتی ہے، وہیں تحقیق کے نوبہ نو موتی بھی بکھرے ہوتے ہیں۔
ذیل کی چند سطور میں ”عکس ونقش“کے چندمضامین کے اقتباسات سے نایاب حسن کی تحریرکی خوبیوں اور فکر و نظر کے اعتدال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
”شبلی کی خصوصیت یہ ہے کہ سادہ واقعہ نگاری میں میں بھی پرکاری اور بیان و اسلوب کے حسن کو مکمل طورپرملحوظ رکھتے ہیں‘‘۔(ص:44)
”تصوف کے مختلف مراحل و ادوار پر بحث کا ایک طویل سلسلہ ہے اور اس سلسلے میں مفکرین و اعلامِ اسلام کی فکری کاوشوں پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت تو بہر کیف کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ تصوف کا نہ صرف عملی و معاشرتی اعتبارسے اسلامی تاریخ و تہذیب و معاشرت پر گہرا اثر رہا ہے؛ بلکہ اس کا علمی، معروضی و فلسفیانہ پہلو بھی اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے“۔ (ص:28)
”انتظار حسین کے افسانوں کا امتیاز،جس نے انھیں ایک مخصوص و موقر شناخت دلائی اور جس کی وجہ سے ان کی تحریروں کو پے درپے مقبولیتیں حاصل ہوئیں، اس کا تعلق ان کے اسلوبِ تحریر سے ہے، جو بہت ہی عام فہم، شستہ، شگفتہ اور سہل المنال ہے، لفظوں کے انتخاب سے لے کرجملوں کے دروبست تک میں وہ کمال چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہیں“۔(ص: 197)
اس طرح کے سینکڑوں گہرریزے نایاب کے اس علمی وادبی خزانے میں جمع ملیں گے۔
نایاب حسن نے اس کتاب میں علماومفکرین کے علاوہ امیرخسرو،اقبال،شورش کاشمیری،اقبال سہیل، ابن صفی،جون ایلیا،محسن نقوی،انتظار حسین،ندافاضلی،ڈاکٹر کلیم احمد عاجز،زاہدہ حنا وغیرہ کے فکر و فن کابھی بڑی خوب صورتی سے جائزہ لیاہے۔ایک مضمون اردو کی معروف اور عظیم شاعرہ پروین شاکر پر بھی ہے،نایاب نے اس میں نہ صرف پروین شاکر کی شاعری پر قلم اٹھایا ہے؛ بلکہ ان کی زندگی کے بعض دوسرے پہلوؤں پر بھی مفصل روشنی ڈالی ہے۔ کسی شخصیت کے فنی کمالات کے ساتھ ساتھ اس کی حیات کے دوسرے گوشوں پر روشنی ڈالنے سے نہ صرف قاری کو اس کی زندگی اور فن کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے، بلکہ اس کی دلچسپی اس شخصیت کے تئیں مزید بڑھ جاتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی تخلیق کردہ تعبیرات، تشبیہات اور ادبی خدمات کواچھی طرح سمجھنا آسان ہوجاتا ہے، ایسی بہت سی شخصیتیں ہیں،جن کے فنی کمالات کے شہ پارے تو جگہ جگہ دستیاب ہیں،لیکن ان کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں سے قاری نا آشنا ہے، جس کی وجہ سے ان کی تخلیقات پر تحقیقات کے دروازے بند رہتے ہیں۔نایاب کی تحریروں سے ایسا لگتا ہے کہ اردو ادب کے اکثر گوشے ان کی دسترس میں ہیں،مذکورہ کتاب کا ادبی وعلمی استناد یوں بھی قائم ہوتا ہے کہ اس پر دور حاضر کے عظیم قلم کار،صاحبِ اسلوب ادیب و نقاد حقانی القاسمی نے پیش لفظ لکھا ہے، حقانی صاحب لکھتے ہیں:”نایاب نے اپنے ذہنی نظام کو ایسے موضوعات سے مربوط رکھاہے،جو معاشرتی،تعلیمی اور مذہبی معنویت و افادیت سے متصف ہیں،ایسے موضوعات اور مباحث ان کی تحریر کا حصہ بنے ہیں،جن کی روشنی میں اہلِ دانش و بینش،طلبا اور اساتذہ اپنے ذہنی افق کو وسعت عطا کرسکتے ہیں….نایاب حسن نے ان تمام افکار سے اپنا رشتہ جوڑا ہے،جو آج کے علمی،مذہبی اور ادبی ڈسکورس میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں،معاشرے کی ترجیحات بدل جائیں،صارفی ثقافت کا مکمل تسلط ہو،پھر بھی ان افکار کی معنویت کسی بھی عہد میں مجروح نہیں ہوسکتی،یہ دائمی قدروں کے حامل افکار و نظریات ہیں،جن سے ہر عہد کا رشتہ قائم رہے گا اور وقت کے ساتھ ساتھ ان افکار کی تابندگی اور بڑھتی جائے گی“۔الغرض نایاب حسن کے مضامین کا یہ مجموعہ درِ نایاب سے کم نہیں ہے۔مواد کے ساتھ کتاب کی طباعت و کتابت بھی نہایت دیدہ زیب اور خوش منظر ہے،مرکزی پبلی کیشنز دہلی کے زیر اہتمام اس کی اشاعت عمل میں آئی ہے اور 240صفحات پر مشتمل اس خوب صورت کتاب کی قیمت دوسوروپے نہایت مناسب ہے،حصولِ کتاب کے لیے ان نمبرات9811794821,9560188574یااس ای میل آئی ڈی پر رابطہ کرسکتے ہیں [email protected]۔