مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا تھا : ’’ اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دبائو سے آزاد ہونا چاہیے اور چاندی سونے کا سایہ بھی اس کے لیے سم قاتل ہے۔جو اخبار نویس رئیسوں کی فیاضیوں اورامیروں کے عطیوں کوقومی عطیہ اور اسی طرح کے فرضی ناموں سے قبول کرلیتے ہیں وہ بہ نسبت اس کے کہ اپنے ضمیر اورنورایمان کو بیچیں،بہتر ہے کہ دریوزہ گری کی جھولی گلے میں ڈال کر اور قلندروں کی کشتی کی جگہ قلم دان لے کر رئیسوں کی دیوڑھیوں پر گشت لگائیں اور ہر گلی کوچہ میں ’’کام ایڈیٹر کا‘‘کی صدا لگاکر خود کو اپنے تئیں فروخت کرتے رہیں۔‘‘
اس اقتباس کا تعلق اخترکاظمی کی صحافتی زندگی سے بھی ہے کہ انھوں نے اپنے صحافتی سفر میں اس کو حرزجاں بنائے رکھا اسی لیے ان کی صحافتی امیج ان لوگوں سے مختلف ہے جو صحافتی اقدار اور اخلاقیات کا قطعی پاس نہیں رکھتے اور اقتداری مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اختر کاظمی نے صحافت کے مقصود اصلی اور غایت اولیٰ کوہمیشہ مد نظر رکھا ہے،انھوں نے صحافت کو مشن سمجھا، مادیت کی مشین نہیں۔ ان کا طور ہمیشہ علامہ اقبال کے اس شعر کی مانند رہا:
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی ازل سے رہا ہے قلندروں کا طریق
اخترکاظمی بھی میدان صحافت کے قلندر ہیں اورقلندرانہ شان، جذبہ جنون اور بے نیازی کے ساتھ صحافتی زندگی گزاری اور مزاحمتی صحافت سے اپنا رشتہ قائم رکھاکہ دراصل حقیقی صحافت مزاحمت سے ہی عبارت ہے جب تک جبرواستحصال کی قوتوں کے خلاف مزاحمت نہ ہو تو وہ صحافت اعتبار اور استناد کا درجہ حاصل نہیں کرسکتی۔ان کی صحافت میں مزاحمتی اور مقاومتی رد عمل موجود ہے اسی لیے سودوزیاں سے بے نیاز ہوکر صحافت کرتے رہے اور عوامی مسائل و موضوعات کو بے خطر ہوکر اٹھاتے رہے،انھوں نے قلم کی حرمت کا ہمیشہ پاس رکھا۔ ایک باضمیر مسئول اور ذمہ دار صحافی کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی۔
انھیں صحافت کے اس سفر میں بہت سی صعوبتوں اور اذیتوں سے بھی گزرنا پڑا مگر ان کے پایۂ استقلال میں کوئی لرزش اور لغزش نہیں آئی، نہ حالات سے سمجھوتہ کیا اور نہ اپنا طور وطریق بدلا بلکہ دنیا کو یہ بھی بتایا کہ :
ہمارے خواب ہماری طرح اٹل ہیں جناب
ہم اہل عشق کہاں بستیاں بدلتے ہیں
انھوں نے مولانا آزاد کے اس جملہ کو عملی شکل عطا کی کہ:
’’ہم اس بازار میں سودائے نفع کے لیے نہیں،بلکہ تلاش زیاں و نقصاں میں آئے ہیں،صلہ و تحسین کے نہیں،بلکہ نفرت و دشنام کے طلب گار ہیں۔دنیا کے زروسیم کو قربان کرنے کے لیے نہیں،بلکہ خود اپنے تئیں قربان کرنے آئے ہیں ‘‘۔
اختر کاظمی کے لیے صحافت تجارت نہیں بلکہ عبادت ہے۔ انھوں نے صحافت کو جلب منفعت کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ صارفی کلچر میں مادیت مرکوز صحافت سے اپنے آپ کو دور رکھا اور ہر سطح پر صحافتی اقدار اوراخلاقیات کی پاسداری کی اور وہی لکھا جو ان کی ذات،ذہن اورضمیر کا تقاضا تھا۔صحافت میں مفادات،مراعات اور ترغیبات سے دامن کو بچائے رکھنا بھی ایک کمال ہے اگر اس کمال کا انھوں نے خیال نہ رکھا ہوتاتو ان کی صحافت پر بھی زوال طاری ہو جاتا۔ ان کا صحافتی طورو طرز علامہ جمیل مظہری کے اس شعر کا سا رہا کہ:
نہ سیاہی کے ہیں دشمن،نہ سفیدی کے ہیں دوست
ہم کو آئینہ دکھانا ہے،دکھا دیتے ہیں
انھوں نے روزنامہ انقلاب، اردو ٹائمز ممبئی، ممبئی اردو نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع شدہ اپنی رپورٹوں کے ذریعہ سماج، سیاست اور اقتدار کو آئینہ دکھایا ہے۔ اس کا ثبوت وہ تمام داخلی اورخارجی شواہد ہیں جو عابد عثمان مومن کی مرتب کردہ کتاب ’اختر کاظمی: شخصیت اور صحافت‘ میں موجود ہیں،لیکن پہلے داخلی شواہدکی بات کرلیں کہ کسی کی شخصیت اور کردار کے بارے میں داخلی شواہد زیادہ معتبراور مستند ہوتے ہیں اس لیے اختر کاظمی کی شریک حیات شمع اخترکاظمی کی یہ داخلی شہادت سماعت فرمائیں:
’’ پیشۂ صحافت آسان نہیں،یہ ایک پرخطرراہ ہے۔ہردور کے دجال و فرعون نے سچ لکھنے والوں کی راہیں مسدود کیں اور روشنائی کو سرخی میں بدلنے پر آمادہ رہے۔اختر صاحب کے قلمی سفر کا تذکرہ کیا جائے تو وہ تقریبا چالیس برسوںپر محیط ہے۔اپنی تصنیفی زندگی کا آغاز انھوں نے افسانہ نگاری اور مضمون نویسی سے کیا، مگر سماجی،سیاسی مسائل، عوامی ضروریات اور ظلم و ناانصافی کے خلاف ان کا قلم ہمیشہ رواں اور ذہن بیدار رہا۔ ضرورت مندوں کے جذبے کی نگہبانی اور مسائل کا حل تلاش کرنا ان کے مزاج کا خاصہ ہے۔خبریں لکھتے وقت یہی نکتہ ان کا مرکزی خیال ہوتا ہے۔انھوں نے مظلوموں، مزدوروں اور غریبوں کے تعاون و حمایت کو سرِفہرست رکھا تو وہیں ان بچھڑوں کے کاندھوں پر چڑھ کر اپنی سیاسی دوکان چمکانے والوں کو بھی آئینہ دکھایا …..اپنے اطراف واکناف، معاشرہ اور معاشرت سے اپنے رشتے کو مضبوط رکھا۔ حالات و حوادث اور گردوپیش سے باخبری ان کے پیشے کا ہی نہیں فطرت کا حصہ بھی ہے۔‘‘
یہ اختر کاظمی کی بیگم کے مثبت تاثرات ہیں جبکہ عموما شوہروں کے باب میں بیویوں کا بیانیہ قدرے مخاصمانہ اور معاندانہ ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے شاید یہ خوشگوار تعلقات کا اثر ہے،لوگ کہتے ہیں کہ اگر شوہر اور بیوی کے مابین تعلقات میں تلخیاں Toxic relationship نہ ہوں تو شریک حیات کا فرمایا ہوامستند ہوتا ہے۔ واقعی شمع اختر کاظمی کے ان جملوں کے استناد میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان جملوں کی تائیدوتوثیق مختلف اخبارات میں شائع شدہ اختر کاظمی کہ ان رپورٹس سے بھی ہوتی ہے جن میں انھوں نے نفس ِ واقعہ کی رپورٹنگ نہیں کی ہے بلکہ ذہنوں میں بہت سے سوالات بھی قائم کیے ہیں کہ ایک صحافی کا منصب اقتدار سے سوال پوچھنا اور عوامی مسائل و مشکلات سے ایوان ِ اقتدار کو آگاہ کرنا بھی ہے۔
اختر کاظمی کے صحافتی موضوعات کا کینوس بہت وسیع ہے۔ ان کا ارتکاز ان تمام مسائل اور موضوعات پر رہا ہے جن کا تعلق عوامی بیداری اور فلاح و بہبود سے ہے۔ان کے رپورٹس کے بین السطور میں ایک سماجی ریفارمیشن کا بھی جذبہ موجود ہے۔ انھوں نے صحافت برائے تبدیلی ٔ ذہن کو بھی اپنے مشن کا حصہ بنائے رکھا اس لیے ان کی ہر رپورٹ میں ان کی دردمندی اور بیداری نظر آتی ہے،ان کی صحافت کا مقصدخدمت خلق ہے انھوں نے عوامی جذبات و احساسات کی ترجمانی کے ساتھ عوامی ذوق کی اصلاح اور بیداری کے عمل کو بھی جاری رکھا ہے۔
اختر کاظمی نے ہمیشہValue Basedصحافت کی اور عوام کے جو بنیادی حقیقی مسائل ہیں ان پر توجہ مرکوز کی۔ انھوں نے اخلاقی اساس صحافت کی میکانزم کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ڈیموکریٹک ایتھوس کو بچانے کی بھی کوشش کی ہے اور اپنی صحافت کے انسانی چہرے کو مسخ ہونے سے بچائے رکھا۔
اقبال کے اس شعر کو بھی اپنی صحافتی زندگی کے وظائف میں شامل رکھا :
کہ ہومرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
اختر کاظمی کا اقداری صحافت پر ایقان ہے اسی لیے ان کی صحافت میں صداقت اور حقیقت کے عناصر ہیں، ان کی صحافت مثبت اور تعمیری ہے انھوں نے دلآزاری، دل شکنی، اشتعال انگیزی اور ذاتیات پر کیچڑ اچھالنے سے ہمیشہ گریز کیا ۔ صحافت میں اس ایماندار آواز کو بچائے رکھا جو اب ختم ہوتی جارہی ہے۔ان کا صحافتی طریق کارفیض احمد فیض اور حبیب جالب جیسے مزاحمتی شاعروں سے ملتا جلتا ہے اسی لیے ان کا صحافتی بیانیہ ان صحافیوں سے الگ ہے جن کے بیانیہ کو دنیا اقتداری بیانیہ سمجھتی ہے۔ان کی صحافت میں ایک کائونٹر نریٹیو بھی ہے کہ وہ ہراس خبر کی تردید کرتے ہیں جس کا رشتہ زرد اور نفرت انگیز صحافت سے ہے۔
آج جبکہ صحافت میں سنسنی خیزی عام ہوگئی ہے،صحافت کی روح مرتی جا رہی ہے ایسے میں اختر کاظمی جیسے صحافیوں کا دم غنیمت ہے کہ تحفظات اور تعصبات سے بلند ہوکر اس صحافتی مشعل کو روشن رکھے ہوئے ہیں جس سے غلیظ صحافت اور کثافت زدہ سیاست کی تاریکیاں دور ہوسکتی ہیں۔
اس مابعد صداقت دنیا(Post Truth World)میں سچائی کو قائم رکھنا مزاحمتی صحافت کا بنیادی وظیفہ ہے اور اس آئیڈیا لوجی کو اپنی صحافت کا حصہ بنانا بھی لازمی ہے جو انسانیت کی بقا اور تحفظ کی ضامن ہے۔آج صحافت میں سچ کا تناسب کم ہوتا جا رہا ہے، جھوٹ کی مقدار بڑھتی جا رہی ہے ایسے میں ہمیں سچے صحافیوںکی قدر کرنی چاہیے۔ایک زمانہ تھا جب اسی صحافت کی سچائی سے سیاست سہمی سہمی رہتی تھی اور ایوان اقتدار بھی لرزہ براندام رہتا تھا،مطلق العنان حکمراں بھی صحافت سے خوف زدہ رہتے تھے نپولین بونا پارٹ جیسے حکمراں نے بھی کہاتھا کہ لاکھوں سنگینوں سے زیادہ میں تین اخبار سے خوف زدہ رہتا ہوں اور شاید میڈیا کی اسی طاقت کو محسوس کرتے ہوئے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
مگر اب تقلیب ماہیت ہو چکی ہے کہ صحافت سیاست سے سہمی سہمی سی رہتی ہے۔ صحافت کا منصب و منہج بھی بہت حد تک بدل چکا ہے۔ ان دنوں جس طرح کی صحافت ہورہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے راحت اندوری نے ایک طنزیہ شعر کہا تھا:
سب کی پگڑی کو ہواؤں میں اچھالا جائے
سوچتا ہوں کوئی اخبار نکالا جائے
ایسی ہی پروپیگنڈائی اور مفاد پرستانہ صحافت کی وجہ سے مزاحمتی آوازیں مرتی جار ہی ہیں، اس لیے ہمیں صحافت کی مزاحمتی آوازوں کا احترام کرنا ہوگا، اختر کاظمی بھی مزاحمتی صحافت کی ایک مضبوط آواز ہیں جن کا طور اور صحافیوں سے الگ ہے کہ وہ جگنو کو مہتاب نہیں بناتے، اور شر کو خیر میں نہیں بدلتے۔ ان کا طور کچھ یوں ہے:
ہر ذرۂ خاکی کو گہر میں نہیں کہتا
تم جو بھی کہو ٹھیک مگر میں نہیں کہتا
لوگ کہتے ہیں کہ صحافیوں کی سانسوں پر بھی سینسر شپ عائد ہے ایسے ہمیں ان صحافیوں کی زیادہ قدر کرنی چاہیے جو جو اقتداری احتساب سے بے خوف وخطر ہوکر عوام تک حقائق کی ترسیل کا فریضہ انجام دیتے ہیں، اخترکاظمی ایک صداقت شعار تفتیشی صحافی ہیں جو حقائق کی تلاش و جستجو کے لیے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے۔اختر کاظمی کا صحافتی کلامیہ ہمارے عہد کے صحافیوں کے لیے نشان ِراہ ہے۔ میں نے کبھی اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’خبریں مرجاتی ہیں اور خواب زندہ رہتے ہیں‘‘ اختر کاظمی کی رپورٹس پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ انھوں نے صرف خبریں نہیں لکھیں بلکہ ہماری آنکھوں کو خواب بھی دیے ہیں اور خواب سے جگایا بھی ہے، ان کے اندر بے پناہ جرات،بیباکی اور جنون ہے، وہ صحافتی جنگ میں یقینا کہیں نہ کہیں ضرور ہارے ہوں گے مگر میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان کے جنون کو ہرایا نہیں جاسکتا،اسعد بدایونی کا ایک شعر مجھے یاد آرہا ہے:
میرے چراغ ابھی مرحلوں میں روشن ہیں
میں جنگ ہار گیا ہوں جنوں تو ہارا نہیں
اختر کاظمی کی صحافت کی ایک اور خوبی ان کی خوبصورت،سادہ اور سلیس زبان ہے،انھوں نے صحافت میں ادراکی یعنی Cognitive زبان استعمال کی ہے جس کی وجہ سے ان کی تحریر ابلاغ و ترسیل کے المیہ کا شکار نہیں ہوتی۔ آج صحافتی زبان اعتراضات کی زد میں ہے۔ جو لوگ کبھی زبان کی بہتری کے لیے اخبار پڑھنے کو لازمی گردانتے تھے اب وہی لوگ اسے زبان کے بگڑنے کا ذریعہ مانتے ہیں۔یہاں تک کہ شمس الرحمن فاروقی جیسے نامورنقاد کو اردو اخبارات کی زبان دیکھ کر یہ کہنا پڑا تھا کہ ’’اردو اخبارات کا معیار اتنا ابتر ہوگیا ہے کہ انھیں دیکھ کر متلی آتی ہے، میں نہ خود اردواخبارپڑھتاہوں نہ کسی کو پڑھنے کی رائے دیتا ہوں‘‘ظاہر ہے کہ فاروقی صاحب کا یہ منفی جذباتی رد عمل اردواخبارات کی زبان کو لے کر ہی تھا مگر اختر کاظمی کی صحافتی زبان کو دیکھا جائے تو اس میںمتلی اور قے جیسی کوئی کیفیت نہیں پیدا ہوسکتی، ان کی زبان میںصرفی اور نحوی نقص نہیں ہے اور ان کی لسانی ساخت بھی مضبوط و مستحکم ہے کہ بنیادی طور پر اختر کاظمی ادیب ہیں انھوں نے ایک زمانے میں ادبی مجلہ ’تخلیق نو‘ کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ بھی جاری کیا تھا اور وہ بنیادی طور پر افسانہ نگاراور ادیب ہیںاور ایک علمی وادبی حیدری خانوادے کے چشم وچراغ۔ ان کے بڑے بھائی منظر کاظمی اردو کے ممتازافسانہ نگارہیں جن کا افسانوی مجموعہ لچھمن ریکھا فکشن تنقید کے حوالوں میں شامل ہے اور چھوٹے بھائی افسر کاظمی بھی ادبی حوالہ سے اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔
اختر کاظمی یقینی طور پرایک ایسی شخصیت ہیں جن کی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے مجھے خوشی ہے کہ ان کی حیات میں ہی ان کے صحافتی اعمال نامہ کے حوالہ سے عابد عثمان مومن نے ایک کتاب مرتب کی جس سے ان کی شخصیت اور صحافت کے بہت سے زاویے روشن ہوتے ہیں۔قدرناشناسی کے اس معاشرہ میں قدرشناسی کی یہ کوشش قابل تبریک و تحسین ہے ویسے ہمارے یہاں ناقدری زمانہ کی شکایت غالب اور شاد عظیم آبادی کو بھی رہی ہے اور یہ شکوہ بے جا بھی نہیں ہے کہ ہمارے بہت سارے لعل و گوہر اسی ناقدری کی نذر ہوگئے اور بہت سے نجوم وجواہرہنوز ہماری آنکھوں سے روپوش ہیں۔
(غلام محمد مومن وومینس کالج آڈیٹوریم رئیس ہائی اسکول کیمپس، تھانہ روڈ، بھونڈی میں، 11 مارچ 2023 کو، عابد عثمان مومن کی مرتب کردہ کتاب ” اختر کاظمی: شخصیت اور صحافت ” کی تقریب اجرا اور جلسہ تہنیت میں پڑھی گئی تحریر)